تحقیق ایک ریاضت طلب عمل ہے، اس کے لیے ذوق اور جستجو کے ساتھ قوتِ ممیزہ کی ضرورت پڑتی ہے مگر عافیت پسندی نے تحقیق کی راہ دشوار کردی ہے، اس لیے اردو تحقیق کے موضوعات محدود سے محدود تر ہوتے جارہے ہیں۔ تجسس و تفحص کے فقدان اور موضوعاتی بحران نے اردو تحقیق کے لیے عجیب سی صورت حال پیدا کردی ہے جس کی وجہ سے معاصر اردو تحقیق باستثناء چند اپنا اعتبار اور وقار کھوتی جارہی ہے اور تحقیق سے جڑی ہوئی اہم شخصیات کو یہ شکایت ہے کہ موضوعات میں عمومیت کی وجہ سے تحقیق میں نئے امکانات کی راہیں معدوم ہوتی جارہی ہیں اور تکرارو اعادے کی وہی کیفیت ہے جو عام مضامین میں پائی جاتی ہے۔ اس عمومی صورت حال سے نکلنے کی کئی صورتیں ہیں جن پر غور و فکر ضروری ہے۔ موضوعات کی سطح پر بھی بہت کچھ تبدیلیوں کی ضرورت ہے کیونکہ عام طور پر ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جاتا ہے جن کی معاشرتی یا ثقافتی افادیت بہت کم ہوتی ہے، خاص طو رپر شخصیات پر مرکوز تحقیقات کی وجہ سے صورت حال زیادہ بدتر ہوگئی ہے کیونکہ جن شخصیات پر تحقیقی کام ہورہا ہے ان میں سے بیشتر پہلے ہی تحقیق کا موضوع بنائے جاچکے ہوتے ہیں۔ ان کے فکر و فن کے حوالے سے نئے زاویے بھی تلاش نہیں کیے جاتے جس کی وجہ سے اس تحقیق کی اہمیت بہت کم ہوجاتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ماضی کی جو معتبراور موقر شخصیات ہیں اور جنھوں نے علوم و فنون کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں اور ان پر کسی بھی یونیورسٹی میں تحقیقی مقالہ نہیں لکھا گیا ہے انھیں تحقیق کا موضوع بنایا جائے یا قدیم تذکروں میں جن شخصیات کا اجمالی ذکر ہے ان کے بارے میں مزیدتحقیق کی جائے تاکہ ان کے مکمل احوال و کوائف کے ساتھ ان کے تخلیقی اور علمی آثار سے قارئین روشناس ہوسکیں۔ اس کے علاوہ ادبی اصناف پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ شخصیات کی وجہ سے اصناف کے حوالے سے تحقیقی مقالے کم لکھے جارہے ہیں۔ اگر اصناف کو تحقیق کا موضوع بنایا جائے تو بہت سے نئے زاویے سامنے آسکتے ہیں۔ ماضی میں ہمارے یہاں کچھ محققین نے اصناف کے حوالے سے اہم تحقیقی کام کیے ہیں، ان سے روشنی اور رہنمائی حاصل کرکے اس سلسلے کو اور آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔
عصری جامعات کے تحقیقی مقالات کی فہرست سے اندازہ ہوتاہے کہ ایک ہی موضوع پر کئی جامعات میں ریسرچ اسکالر تحقیقی مقالے لکھ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں یکسانیت اور اعادے سے بچنا مشکل ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جن موضوعات پر ماضی میں تحقیقی مقالے لکھے جاچکے ہیں ان پر تحقیق کی اجازت نہ دی جائے تاکہ اردو تحقیق کو نئے موضوعات ملیں اور نئے مسائل بھی، تبھی تحقیق کی افادیت سامنے آئے گی اور اس کی اہمیت و معنویت کا احساس ہوگا۔ یوں بھی آج کے زمانے میں وسائل کی اتنی فراوانی ہے کہ تحقیق کے لیے بہت سی آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں، اگر ان وسائل کا صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو تحقیق کو ایک نئی راہ اور ایک نئی منزل مل سکتی ہے۔
برصغیر ہند و پاک میں جو تحقیقی مجلات شائع ہوتے ہیں ان کے مدیران کو بھی تحقیقی مضامین کے حصول میں بڑی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے کہ فرسودہ موضوعات پر تحقیقی مقالے لکھے جاتے ہیں اور تحقیق کے جو اصول و ضوابط ہیں ان کی بھی پابندی نہیں کی جاتی اور نہ ہی محنت و ریاضت سے کام لیا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں تحقیق کے تقاضے بھی تبدیل ہوچکے ہیں، سماجیاتی اور سائنسی تحقیق نے نئے ضابطے اور اصول تلاش کیے ہیں جن کی وجہ سے ان کی تحقیق اعتبار کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ اردو زبان و ادب میں بھی وہی طریقہ کار اختیار کیا جائے تو یقینی طور پر اس سے تحقیق کا معیار بلند ہوگا اور اس کی افادیت بھی سامنے آئے گی۔ ضرورت ہے کہ عصری تناظر میں محققین اور ماہرین تحقیق رہنما اصول تیار کریں جن کی روشنی میں تحقیق کرنے والے طلبا تحقیقی مقالے لکھ سکیں اور اس سلسلے میں طلبا کو کسی طرح کی رعایت نہیں دی جانی چاہیے۔ واقعی اگر تحقیقی مقالہ تحقیق کے اصولوں پر پورا اترتا ہے تو اسے منظورکیا جائے اور اگر مقالہ نقائص کا مجموعہ ہے تو اسے مسترد کردیا جائے یا دوبارہ لکھنے کے لیے کہا جائے۔ ایسی صورت میں اردو تحقیق میں جو کارنامے سامنے آئیں گے وہ یقینا مثالی بنیں گے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ریاضت اور محنت کرنے والے طلبا کی کمی ہو۔ آج بھی ایسے اسکالر ہیں جو موضوعات کے انتخاب سے لے کر مواد کے حصول تک میں بڑی محنت اور مشقت سے کام لیتے ہیں اور نئے زاویے تلاش کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
سہ ماہی ’فکر و تحقیق‘ میں ہمیشہ یہ کوشش کی جاتی ہے کہ اہم موضوعات پر مقالے شامل اشاعت کیے جائیں اور یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ بہت حد تک یہ رسالہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہے کہ اس میں بعض ایسے موضوعات ہوتے ہیں جن پر تحقیقی اور تنقیدی کام کم ہوئے ہیں یا ان میں کوئی نیا انکشاف ہوتا ہے۔ اس شمارے میں شامل اشاعت کچھ مقالوں کو بھی اس زاویے سے دیکھا اور پرکھاجاسکتا ہے۔ ہماری کوشش یہی رہتی ہے کہ ہر سطح اور ہر ذہن کے قلمکاروں کو ’فکر و تحقیق‘ میں شائع ہونے کا موقع دیا جائے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اس شمارے میں کچھ نئے اسکالرز کی تحریریں بھی شامل ہیں۔
I am a heading
If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.
- This is a list item.
- This is a list item.
- This is a list item.
No spam, ever.