یہ دور قحط الرجال کا ہے۔ ادب اور معاشرے کو روشنی عطا کرنے والی شخصیتیں معدوم ہوتی جارہی ہیں۔ تیرگی کا احساس ذہنوں پر حاوی ہوتا جارہا ہے کیونکہ علم و فضل کے جوآفتاب و ماہتاب تھے ان کی روشنی سے ہمارا معاشرہ محروم ہوتا جارہا ہے اور ہمارے یہاں اب ایسی شخصیتیں خال خال ہی ہیں جو ادب اور معاشرے کی مکمل طور پر رہنمائی کرسکیں، نیا اندازِ فکر اور طرزِ احساس دے سکیں او راس جمود و اضمحلال کو دور کرسکیں جو اس وقت ادبی معاشرے پر طاری ہے۔ اس لیے یہ سوال پیدا ہونا فطری ہے کہ آخر تاریکی کے احساس کو کیسے کم کیا جائے اور کیسے اس خلا کو پورا کیا جائے جو بڑی شخصیتوں کے نہ ہونے سے ہمارے معاشرے میں پیدا ہوگیا ہے اور یہ بھی سوال اہم ہے کہ ہمارے اکابر اور اسلاف کی وراثت کا تحفظ کیسے کیا جائے؟ ایسے میں ہماری نگاہیں نئی نسل پر آکر ٹھہر جاتی ہیں۔ وہ نئی نسل جسے ہمارے بعض بزرگ برخود غلط اور ناکارہ سمجھتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نئی نسل میں بھی بڑی ذہانتیں اور صلاحیتیں ہیں، ان کے اندر بے پناہ خوبیاں بھی ہیں۔ بس ہمیں ذہانتوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ منظرنامہ بھی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ اگر صحیح طور پر نئی نسل کی ذہنی اور تحریری تربیت کی جائے تو معاشرے اور ادب کو جمود سے نکالا جاسکتا ہے اور تحرک و طغیانی کی فضا ہر سطح پر قائم کی جاسکتی ہے۔
اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ایسے بے شمار نوجوان نظر آتے ہیں جو توانائی سے بھر پور ہیں اورجن کے اندر بے پناہ تخلیقی صلاحیتیں اور فکر و نظر کی خوبیاں پائی جاتی ہیں،مگر انھیں بروقت کوئی رہنمائی نہیں ملتی، آس پاس حوصلہ افزاماحول نہیں ملتا،کسی طرف سے تحسین و تشجیع کے کلمات سننے کو نہیں ملتے،جس کے نتیجے میں ایسی بہت سی اچھی صلاحیتیں اکثر و بیشتر یا تو ضائع ہوجاتی ہیںیا ان راہوں پر چل پڑتی ہیں جن سے ادب و دانش کا کوئی بھلا نہیں ہوتا،کچھ ہی ایسے افراد ہوتے ہیں جو ذاتی جدوجہد اور زندگی کے تجربات اور آزمائشوں سے گزرکر خود بھی کامرانیوں سے ہم کنار ہوتے ہیں اور ان کے ذریعے ادب و تخلیق کو بھی آبرو مندی نصیب ہوتی ہے۔یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ اتنی بڑی ادبی دنیا میں ایسے مخلص لوگوں کا قحط ہے جو ہنر مند اور ذی استعداد چھوٹے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوں، انھیں تراشنے اور جوہر قابل بنانے کا جذبہ و عزم رکھتے ہوں اور اس پر عمل بھی کرتے ہوں۔کسی بھی شعبے میں انسان خود بخود بڑا نہیں بن جاتا، اسے جہاں اس شعبے کی تعلیم حاصل کرنی ہوتی ہے، وہیں اس شعبے کے بڑے لوگوں کی رہنمائی بھی درکار ہوتی ہے اور جو بڑے اپنے چھوٹوں کے سر پر دستِ شفقت رکھتے ہیں،ان کی استعداد سازی پر توجہ دیتے ہیں اور اپنائیت و محبت کے ساتھ ان کی قوتِ فکر و عمل کو مہمیز کرتے ہیں،وہ حقیقی معنوں میں بڑے ہوتے ہیں اور ایسے ہی لوگ علم و فکر اور ادب و فن کے سچے خدمت گزار ہوتے ہیں۔انھیں ان کی زندگی میں بھی وقار و اعتبار کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور بعد ازمرگ بھی ان کے تئیں کلمۂ خیر ہی سننے کو ملتا ہے۔
آج کے قحط الرجال کے دور میں بڑے فنکاروں،ادیبوں اور اصحابِ فکر و دانش کا فرض ہے کہ اپنے شاگردوں اور علم و ادب کے شائقین کی تربیت اور ان کی صلاحیتوں کو نکھاریں اور یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی غلطیوں پر جہاں انھیں متنبہ کیا جائے وہیں ان کی خوبیوں کی تحسین بھی کی جائے۔انھیں سوچنے کا سلیقہ اور لکھنے و بولنے کا صحیح طریقہ سکھایا جائے۔ اس پر انفرادی طورپر بھی توجہ دی جائے اور حسبِ امکان ادارہ جاتی کوششیں بھی کی جائیں۔یہ کام ہمیں پوری سنجیدگی سے کر نا ہوگا تبھی ہمارے معاشرے میں بہترین اور معیاری ادب کی تخلیق کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے اور اس طرح ہم اپنے عظیم اسلاف کے سچے جانشین پیدا کرسکتے ہیں۔ ہم اگراپنے چھوٹوں کو جھڑکنے ، اپنے سے دور کرنے اور ان کی تحقیر و تضحیک کے بجائے انھیں خود سے مانوس کریں ، ان کی حوصلہ افزائی کریں اور تخلیقی سفر کی ابتدا میں انھیں قوت و ہمت بخشیں،تو نئی نسل کے تئیں ہماری شکایتیں ضرور دور ہو جائیں گی ۔اسی طرح چراغ سے چراغ جلتا رہے گا اور ہمارا مستقبل حال سے بھی زیادہ روشن اورتابناک ہوگا۔
I am a heading
If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.
- This is a list item.
- This is a list item.
- This is a list item.
No spam, ever.