May 28, 2023

حمدوثناکی تقدیسی معنویت

حمدوثناکی تقدیسی معنویت

’’حمد‘‘کے لغوی معنی تعریف، توصیف،ستائش کرنے اور بزرگی کااقرار کرنے، اپنامالک اورآقا تسلیم کرنے کے ہیں۔ لیکن اصطلاحاً اس لفظ کا استعمال صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کی تعریف وتوصیف کے لئے مخصوص ہے۔ علماء متاخرین کاخیال ہے کہ اپنی زبان وقلم سے ’معبودحقیقی‘ کی تعریف بیان کرنے کو’حمد‘کہاجاتاہے ،خواہ اس کی لازم ومتعدی صفات پر،دل، زبان اورجملہ ارکان سے اس کاشکراداکیاجائے ۔واضح رہے کہ لفظ ’’حمد‘‘، لفظ’ شکر‘ سے زیادہ مشہورو مقبول ہے کیوں کہ ’’حمد‘‘ لازم اورمتعدی دونوں صفات کے لئے استعمال ہوتا ہے جب کہ’ شکر‘کسی نعمت کے حصول یاکسی وصف کے اظہارکی بناپرہوتاہے۔الغرض ’حمد‘کاتمام ترتعلق اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کوحمدکرنے کا حکم بھی دیاہے۔اللہ رب العزت نے فرمایا ہے،’’اے ایمان والوں کثرت سے اللہ کاذکرکرو۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کوحکم دیاہے کہ ’’آپ اللہ کی بندگی اوراس کی حمدوثناکاپیغام بندوں تک پہنچائیں‘‘۔اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ’’انسان کی زندگی کامقصدخداکی عبادت ہے اورخداکی عبادت حمدوثناہے۔‘‘ مقدس کتاب قرآن شریف کی ابتدااوراختتام ’’حمد‘‘سے ہے اورکلمہ طیبہ’’لاالہ الا اللہ‘‘ جس پرایمان لائے بغیرکوئی مومن نہیں ہوسکتا،یہ کلمہ بھی ’حمد‘ہی ہے۔علمائے دین نے ’حمد‘کواسلام کی روح اورعبادت کی روح قراردیاہے اورکہاہے کہ ’حمد‘کے بغیرعبادت مردہ اوربے جان ہے۔ حمدکے بعدجب بندہ اپنے مقصد کی حصولیابی کے لئے دعائیںمانگتاہے تواسے مناجات کہتے ہیں ۔’’مناجات‘‘ ،عربی لفظ ’نجویٰ‘سے ماخوذ ہے جس کے معنی سرگوشی کرنا ہیں۔ اردو لغات کے مطابق مناجات کے معنی ہیں کسی سے اپنا بھید کہنایا پھرطلب نجات کے لیے خداکی بارگاہ میں سرگوشی کرتے ہوئے دعا کرنا، منت اورسماجت کے ساتھ اللہ کے دربارمیں رونا اورگڑگڑانا۔ادبی اصطلاح میں حمدوثناکے بعد عاجزی وانکساری کے ساتھ اللہ سے اپنے مقصد کے لئے جو دعاکی جاتی ہے، اسے مناجات کہاجاتا ہے۔اسی لئے حمدکے ساتھ مناجات کے لفظ کابھی استعمال ہوتاہے یایوں کہاجائے توبیجانہ ہوگاکہ حمدومناجات ایک ہی سکہ کے دورخ ہیں۔ حمدومناجات ،دونوں اللہ رب العزت کو بے حد پسند ہیں۔ اللہ پاک نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ’’مجھ سے دعا مانگاکرو، میں تمہاری دعا قبول کرونگا ۔بے شک جولوگ(از راہِ تکبر) دعانہیں مانگتے ہیں عبادت سے سرتابی کرتے ہیں،وہ ضرور جہنم میں داخل ہوں گے، ذلیل وخوارہوکر‘‘۔ڈاکٹرسیدیحییٰ نشیط نے ،تعریف خداوندی، انسانی بے کسی وعاجزی،نجات طلبی ،حمدیہ استدلال اور دعایہ وغیرہ کومناجات کے اجزائے ترکیبی سے تعبیرکیاہے اور حمد کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھاہے

’’حمدثنائے جمیل ہے‘‘اُس ذاتِ محمود کی جو’خالق سمٰوات والارض‘ ہے،جس کی کارفرمائی کے ہرگوشے میںرحمت وفیضان کاظہوراورحسن کمال کانورہے۔پس اس مبداء فیض کی خوبی وکمال اوراس کی بخشش وفیضان کے اعتراف میں جوبھی تحمیدی وتمجیدی نغمے گائے جائیں گے، ان سب کاشمارحمدمیں ہوگا۔حمددراصل خداکے اوصافِ حمیدہ اوراسمائے حسنیٰ کی تعریف ہے‘‘۔

دراصل موجودات کائنات میں جتنی چیزیں ہیں وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمتیں ہیں۔زمین، آسمان، چاند،سورج، ہوا،چرندے پرندے ،نباتات وحیوانات سب کچھ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے پیداکیے ہیں۔انسان ان نعمتوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی حمدبیان کرے توساری عمرگزر جائے گی اورحمدکاحق ادا نہیں ہو گا۔اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے حمد کی تعلیم وترغیب کے لئے اپنے کلام پاک کو لفظ ’’الحمد‘‘ سے شروع کیاہے۔ ’’الحمد‘‘کی فضیلت کیاہے ،اس کااندازہ اس حدیث سے لگایاجاسکتاہے ’’حضرت انسؒ سے روایت ہے کہ رسول کریم نے فرمایا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کوکوئی نعمت عطاکریں اوربندہ اس نعمت کے حصول پر’’الحمدللہ‘‘کہے تو ایساہوگیاجیسے، جوکچھ اس نے لیا،اس سے افضل چیز دے دی ۔‘‘(بحوالہ قاضی رؤف انجم )، اس طرح کی اور بھی کئی حدیثیں بیان کی گئی ہیں جن سے ’’الحمدللہ‘‘کی اہمیت پرروشنی پڑتی ہے۔مثلاً ایک اور حدیث میں کہاگیا ہے کہ ’’اگرکسی ایک انسان کو ساری دنیاکی نعمتیں مل جائیں اوروہ اس پرصرف ’’الحمداللہ‘‘ کہہ دے تو اس کا یہ کہنا دنیا کی ساری نعمتوں سے افضل ہے‘‘۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک کی ابتدااسی لفظ ’’الحمدللہ‘‘ سے کی ہے۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہنمائی کے لئے کلام پاک کی ابتداء میں ہی سورۂ فاتحہ نازل کی ہے جس کی ابتائی تین آیتیں حمدکی ہیں اورباقی چارآیتیں مناجات کی ہیں، جوہمیں حمدومناجات کا درس دیتی ہیں۔’سورۂ فاتحہ‘ کی پہلی تین آیتیںحمدکی بہترین مثالیں ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کی گئیں ہیں، مثلاً ’’الحمدللہ رب العالمین الرحمٰن الرحیم مالکِ یوم الدین‘‘ یعنی تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں،وہ مہربان اوررحم والا ہے،یوم جزاکامالک ہے‘‘۔اس آیت میں اللہ کے لئے ’’رب العالمین‘‘یعنی ’تمام عالم کا رب‘ کہہ دینے سے واضح ہوجاتا ہے کہ کائنات میں سوائے اللہ کے کوئی بھی شے عبادت اور حمدکے لائق نہیں ہے۔واضح رہے کہ ہرنماز چاہے وہ سنت ہو ،فرض ہو یا نفل ، سب کی شروعات ’ سورۂ فاتحہ‘سے ہی ہوتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ اس میں حمدومناجات کاانتہائی دلکش امتزاج ہے۔یہ بھی خیال رہے کہ ’سورۂ فاتحہ‘ کے بغیرکوئی نمازقبول نہیں ہوسکتی ہے۔حدیث ترمذی کے مطابق محمدﷺ نے فرمایا ’’سورۂ فاتحہ، ام القرآن ہے، اس جیسی افضل کوئی سورہ نہ اس سے پہلے توریت میں نازل ہوئی اور نہ انجیل میں‘‘ ’سورۂ فاتحہ کی فضیلت کا اندازہ اس سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ اﷲتعالیٰ نے فرمایاہے

’’جب کوئی نمازی ’الحمدﷲرب العالمین‘کہتاہے تو اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ میری تعریف کی۔اورجب نمازی ’الرحمٰن الرحیم‘ کہتاہے تو اﷲتعالیٰ فرماتاہے کہ میرے بندے نے میری توصیف کی اورجب نمازی ’مالک یوم الدین‘ کہتا ہے تو اﷲتعالیٰ کہتاہے کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اوراپنے سب کام میرے سپردکردیئے۔نمازی جب ’ایاک نعبد وایاک نستعین ‘پڑھتاہے تواﷲتعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے اور میرے بندے کے آپس کامعاملہ ہے ۔میرابندہ جو سوال کرے گا وہ اس کوملے گا۔پھرجب نمازی کہتاہے ’اھدناالصراط المستقیم صراط الذین أنعمت علیھم غیرالمغضوب علیھم ولاالضالین‘تواﷲتعالیٰ فرماتاہے کہ یہ سب میرے اس بندے کے لئے ہے اوروہ جوکچھ طلب کرے گا وہ اسے دیاجائے گا۔‘‘حدیث قدسی میں ’سورۂ فاتحہ‘کی جوتشریح بیان کی گئی ہے اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ ’سورۂ فاتحہ‘کی آخری چار آیتیں مناجات کی ہیں۔یعنی ’سورۂ فاتحہ‘حمدومناجات کاخوبصورت امتزاج ہے۔

’سورۂ فاتحہ‘کے علاوہ قرآن وحدیث میں واضح طورپرحمدوثنااورمناجات سے متعلق اشارے اورہدایتیں دی گئیں ہیں اور بے شمار مثالیں پیش کی گئی ہیں، جن میں حمدوثنااورمناجات کی تعریف اور وضاحت کی گئی ہے اورساتھ ہی حمدوثنااورمناجات کی اہمیت وافادیت اورفضیلت پربھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔مثلاًقرآن شریف میں واضح طور پر کہہ دیا گیا ہے کہ ’’للہ ملک السمٰوٰت والارض وما فیھن‘‘ (سورۃ المائد،آیت120) یعنی ’’جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ،سب پراللہ کی حکمرانی ہے‘‘۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی کئی آیتوں مثلاً ’سورۃ الا علیٰ‘ آیت نمبر 1میں فرمایا ہے کہ ’’سبح اسم ربک الاعلیٰ‘یعنی ’’پاکی بیان کرو اپنے رب کی جو سب سے بلند ہے‘‘، اسی طرح سورۃ الاعراف، آیت نمبر 180 میں کہا گیا ہے کہ ’’وللہ الاسمآء الحسنیٰ فادعوہ بھا‘‘یعنی ’’اور اللہ کے لئے حسن وخوبی کے نام ہیں ، پس چاہئے کہ انہیں ان صفتوں سے پکارو‘‘۔کچھ ایسی بھی آیتیں ہیں جن میں مسلمانوں کو واضح طورپر حکم دیا گیا ہے کہ وہ بھی اللہ کی حمد بیان کریں۔ مثلاًقرآن شریف کی دو آیتوں سورۃ الحشراورسورۃ الصف کی شروعات’’سبح للہ مافی السمٰوٰت وما فی الأرض‘‘سے اورسورۃ الجمعۃ اورسورۃ التغابن کی شروعات ’’یسبح للہ مافی السمٰوٰت وما فی الارض‘ سے ہوئی جس کے معنی ہیں’’ اللہ کی بیان کرتے ہیں جوکچھ آسمانوں میں ہے اورجوکچھ زمین میں ہے‘‘۔

قرآن شریف میں مزید آیتیں ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے خود’حمد‘کی وضاحت کی ہے۔مثلاً سورۃ الانعامکی ابتدااس آیت کریمہ سے ہوئی ہے جس میں کہا گیاہے کہ ـ’’الحمدللہ الذی خلق السمٰوٰت والارض‘‘(آیت1) یعنی تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے آسمانوں اورزمین کوپیداکیا ‘‘۔اسی طرح سورۃ الحشرمیں اللہ کی صفات اس طرح بیان کی گئیں ہیں، ’’ھواللہ الذی لاالہٰ الاھو، عالم الغیب والشھادۃ ھوالرحمٰن الرحیم‘ (سوۃ الحشر،آیت نمبر22) یعنی وہی ہے اللہ، جس کے سواکوئی معبودنہیں،ہرنہاں و عیاں کاجاننے والاہے،وہی ہے بڑا مہربان اوررحمت والا۔‘‘اس کے آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے ،’’ھواللہ الذی لا الہٰ الاھو،الملک القدوس السلام المؤمن المھیمن العزیزالجبارالمتکبر،سبحٰن اللہ عمایشرکون‘(سوۃ الحشر،آیت نمبر23) یعنی وہی اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔بادشاہ نہایت پاک،سلامتی دینے والا،امن بخشنے والاہے،حفاظت فرمانے والا ہے، عزت والا ہے،عظمت والا ہے ،تکبروالا،اللہ کوپاکی ہے ان کے شرک سے‘‘۔اللہ پاک نے اس کے آگے فرمایاہے ’’ ھواللہ الخالق الباریُٔ المصورلہ الأسماء الحسنیٰ، یسبح لہ مافی السمٰوٰت والارض وھوالعزیزالحکیم‘‘(سوۃ الحشر،آیت نمبر24) یعنی وہی ہے اللہ بنانے والا ،پیداکرنے والا،ہرایک کو صورت دینے والا اسی کے ہیں سب اچھے نام اس کی پاکی بیان کرتے ہیں،جو کچھ آسمانوں اورزمین میں ہے اور وہی عزت والا اورحکمت والاہے۔‘‘

مختلف واقعات کی مناسبت سے بھی قرآنی آیتیں نازل ہوئیں ہیں، جوحمدوثناکی بہترین مثالیں ہیں۔مثلاً غزوہ احزاب یاخندق کے واقعہ کی مناسبت سے جوآیت نازل ہوئی اورجوآل عمران ، 26 اور27 میں درج ہے ،کاترجمہ یہ ہے’’اے اﷲتوہی ملک کا مالک ہے،توجسے چاہے ملک دیتاہے،اورجس سے چاہے ملک چھین لیتاہے،اورجسے چاہے عزت دیتاہے،اورجسے چاہے ذلت دیتاہے،۔تیرے ہی ہاتھوں میں بھلائی ہے۔بے شک توہی ہرچیزپرقادرہے۔تورات کو دن میں بدل دیتاہے اوردن کورات میں۔توزندہ کومردہ سے نکالتاہے اورمردہ سے زندہ کو اور جسے چاہتاہے بے حساب رزق دیتاہے۔‘‘اس طرح کی اوربھی آیتیں قرآن شریف میں موجودہیں،جوہمیں ’حمد‘کرنے اورکہنے کی ترغیب دیتی ہیںاورساتھ قرآن میں موجود’حمد‘کی مختلف مثالوں اس کی اہمیت وافادیت پربھی روشنی پڑتی ہے۔

بعض عالم دین اورصوفیائے کرام کاخیال ہے کہ حمدوثناکے لئے ’’اسم ذات‘‘کا نام ’’اللہ‘‘ کاوردکرناہی کافی ہے۔واضح رہے کہ اسماء الحسنیٰ ، جن کا ذکرقرآن و حدیث میں آیاہے، کی تعداد 99ہے لیکن بعض علماء کا خیال ہے کہ اس کی تعداد 158سے 1000 (ایک ہزار) تک ہے۔علماء کا خیال ہے کہ خالقِ کائنات کاذاتی نام ’’اللہ‘‘ہے۔’’اللہ‘‘کا معنی ہے تمام تراعلیٰ واکمل صفات کامالک۔عالموں کا خیال ہے کہ لفظ ’’اللہ‘‘میں خالقِ کائنات کی اعلیٰ درجہ کی تعریف،حمدوثنااورانتہائی عجزوانکساربھی مضمرہے۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم محمدﷺکواسی لفظ یاکلمے کوپڑھنے کاحکم دیاہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے ’’اللھم مٰلک الملک تؤتی الملک من تشاء‘‘(سورۃ آل عمران،آیت 26)یعنی یہ نام ہے اس مالک کا ئنات کاجوازل سے ہے اورابدتک رہے گا۔خالقِ کائنات کا ذاتی نام ’’اللہ‘‘کے ایک ایک حرف پراگرغورکیاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ ہرحرف ’’اللہ‘‘کی صفت بیان کرتاہے۔مثلاً ’’اللہ‘‘کا الف گرادینے سے ’’ﷲ‘‘رہ جاتاہے اورﷲکا لام گرادینے سے ’’ لَہ‘‘ بن جاتا ہے اورپھر جب ’ لَہ‘ کا’ لام‘ گرادیا جائے توصرف ’’ہ‘‘ رہ جاتا ہے۔یعنی ’’وہ ذات جو غیب الغیب ہے اورجوحرف و معنی اورخیال سے پاک ہے‘‘۔علماکرام کا مانناہے کہ لفظ ’اﷲ‘کی جو خاصیت ہے وہ دنیاکی کسی اورزبان کے لفظ میں نہیں ملتی ہے۔بیشتر عالم دین نے اسی’ ’اسم ذات‘‘ کو اسم اعظم تسلیم کیا ہے اور اسی ’’اسم ذات‘‘ کو حمدوثناکے لائق سمجھا ہے۔ اسی لئے صوفیائے کرام نے ہرسانس میں اسی ’اسم ذات‘ کاوردکرنے کادرس دیاہے۔صوفیائے کرام نے ’اسم ذات‘کاوردکرنے کاجوطریقہ بتایاہے وہ یہ ہے کہ، سانس اندرکی طرف لیتے وقت صرف’اللّ‘کہیں اوروہی سانس باہرکی طرف چھوڑتے وقت ’ہ‘ کہیں ۔’’اسم ذات‘‘ کے یہ دونوں حصے اس طرح دہرائیں کہ پاس بیٹھے ہوئے شخص کوبھی یہ احساس نہ ہوکہ’’اسم ذات‘‘کاوردکیاجارہا ہے۔شیخ سعدیؒ اورحکیم سنائی نے بھی ’’اسم ذات‘‘، ’اللہ‘کو بذاتِ خود بہترین حمدومناجات سے تعبیرکیاہے۔ علامہ اقبال نے بھی اپنی نظم مسجدقرطبہ کے شعر میں کہا ہے

شوق میری لَے میں ہے، شوق میری نَے میں ہے

نغمۂ اللہ ھو میرے رگ و پے میں ہے

حضرت مولانا رومی ؒ نے بھی اپنے ایک شعرمیں کہاہے

خود چہ شیریں ست نام پاک تو

خوشتر از آب حیات ادراک تو

(یعنی تیرا پاک نام خود کتنامیٹھاہے اورتیراادراک آبِ حیات سے بدرجہااچھاہے۔)

مختصریہ کہ اسم ذات کا لفظ’’ اللہ‘‘ کاوردکرنابھی حمدمیں شامل ہے۔لیکن مولاناروم کے شعرکے دوسرے مصرع میں کہاگیاہے کہ تیرایعنی اللہ کاادراک آب حیات سے بدرجہا اچھاہے، جس سے اشارہ ملتاہے کہ ’’اسم ذات‘‘ کی مکمل حمد کے لئے اللہ تعلی کی ذات وصفات کاادراک بھی بہت ضروری ہے۔ واضح رہے قرآن شریف میں’ حمدسے متعلق جن آیتوں کاذکرہوا ہے ان میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی جتنی تعریفیں بیان کی گئیں ہیں، وہ بہت کم اوراشاروں وکنایوں میں بیان کی گئیںہیں۔اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی مکمل تعریف بیان کرنے کے لئے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ذات وصفات سے مراد کیاہے؟ اور ذات وصفات کا ادراک کیسے ممکن ہے۔اللہ تعالیٰ اوراس کی ذات وصفات کے متعلق ابن عربی کاخیال ہے

’’وجودایک یاواحداللہ ہے،ذاتِ حق ہے،حقیقتِ مطلق ہے جو اپنے مختلف ناموں سے معروف ہے۔ہروہ شے جواس کے علاوہ یا اس کے ماسوا ہے، محض اسی وجودِ واحد کا ایک مظہرہے۔اللہ اورماسوا میں باہم کوئی تفریق نہیں ۔گویایہ کائنات، یہ سارے کاسارا عالمِ فطرت، اسی خداکاعین ہے۔کائنات سے اللہ کی عینیت کو ہم اس کی ذات وصفات میں ہی مدرک کرتے ہیں۔یعنی ’جوہر‘کی عینیت کی بنا پر۔گویایہ تمام کائنات اسی وجودِ مطلق کی ’’تجلی‘‘ہے یا پھریوں کہیے کہ یہ تمام عالم ظواہراسی ’’وجودِتامہ‘‘کے صدورکی ایک صورت ہے‘‘۔ (فلسفے کے بنیادی مسائل، از قاضی قیصرالاسلام، پاکستان، ص۔438-439 )

ابن عربی نے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی جوتعریف بیان کی ہے اس کے مطابق تمام کائنات اسی وجودِمطلق کی ’’تجلی‘‘ہے اورکائنات سے اللہ کی عینیت کو ہم اس کی ذات وصفات میں ہی مدرک کرتے ہیں۔یعنی موجوداتِ کائنات کے ذریعہ ہی خداکی ذات وصفات کاادراک کیاجاسکتاہے۔لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ لقمان حکیم(جن کے متعلق کہاجاتاہے کہ جب چلتے تھے توپیڑ پودے ،جڑی بوٹیاں اپنی صفات بیان کرتی تھیں اوران سے کہاکرتی تھیں کہ میں فلاں مرض کی دواہوں۔ ) کے بعد کیادنیامیں ایسابھی کوئی سائنسداں یاماہرِنباتات یاماہرحیوانات پیداہواہے جوموجودات کائنات کی ہرشے کاعلم رکھتاہو؟اس کاجواب ہے ہرگزنہیں۔ایک اندازے کے مطابق خشکی،سمندراورآسمان کی دنیاؤںمیں پائی جانے والی جانداروغیرجانداراشیاء میں کم از کم پچاس فیصداشیاء ایسی ہیں جن کی صورت بھی کسی انسان نے آج تک نہیں دیکھی ہے اور جن کی صورت دیکھ بھی لی ہے تو ان میں سے 90 فیصد اشیاکی صفات جاننے کے لیے تحقیق جاری ہے۔یعنی موجودات کائنات کی بہت کم اشیاء سے انسان ابھی تک واقف ہوپایاہے۔پھربھی انسان چونکہ نائب خداہے اور اللہ تعالیٰ نے انسان کواپنی صورت پرپیداکیاہے یعنی اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے اندراپنی صفات بھی پیداکی ہیں اس لیے اگرانسان عشق رسولﷺاورعشق اللہ اختیارکرے توحضوراکرم ﷺکے وسیلے سے نائبِ خدا کے منصب پرفائز ہوسکتا ہے اوراس کے بعد اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کاادراک کرسکتاہے۔صوفیاء کرام مراقبہ کی تمام منازل طے کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کاادراک کرلیتے ہیں۔ذات وصفات کے ادراک کے بعد خدا کی شان میں حمدوثناکرنا آسان ہوجاتا ہے۔بعض حضرات کاخیال ہے کہ حمدکہنے کے لئے اعلیٰ درجہ کاشاعر ہونا بھی لازمی ہے لیکن میں ایسا نہیں سمجھتا ہوں ۔میرے خیال میں یہ ضروری نہیں کہ خداکی ذات وصفات کی تعریف کرنے کے لئے باکمال شاعرکاہوناضروری ہے کیونکہ جوشخص اللہ کی ذات وصفات کاادراک کرسکتاہے، وہ اپنے اندرموزونیت بھی پیداکرسکتا ہے اور اس کی زبان سے نکلی ہوئی ہربات شاعری میں تبدیل نہ بھی ہوتوبھی اس میں تاثیرپیدا ہوسکتی ہے۔اللہ کاکلام بھی شاعری کے فارم میں نہیں ہونے کے باوجود،اس میںبلاکی نغمگی ہے اوراعلیٰ درجے کی شاعری میں جوتاثیرپائی جاتی ہے اس سے کہیں زیادہ قرآن میں موجودہے۔عشقِ اللہ میںڈوباہوا شخص اگر باکمال شاعرنہ بھی ہوتوبھی وہ صحیح معنوں میں حمدوثناکاحق اداکرسکتاہے۔بعض دفعہ غیرشاعربھی حمدونعت کے شعرکہہ دیتے ہیں۔ خاکسارنے بھی ایک دن غیرارادتاًزندگی کاجوپہلاشعرکہا تھاوہ حمدکاشعرتھا، جسے استادمحترم ڈاکٹرتنویراحمدعلوی نے سننے کے بعدکہاتھا،’’ہائے ہائے…، لڑکے، اتنے کم عمرمیں تم نے یہ کہہ دیا؟ یہ توتصوف کاشعرہے‘‘۔ شعریہ تھا

ذرّہ ذرّہ میں ترا ہی عکس آتا ہے نظر

رفتہ رفتہ یہ جہاں اک آئینہ ہو جائے گا

صوفیائے کرام کاخیال ہے کہ اللہ نے چاہاکہ اس کوپہچاناجائے تواس نے یہ دنیابنائی ۔اسی لئے دنیامیں ایساکوئی ذرّہ نہیں ہے،جس میں اللہ کی کوئی نہ کوئی صفت منعکس نہیں ہوتی ہو،یعنی ہرذرّے میں خداکاعکس موجودہے۔ دنیاکوخلق کرنے کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ ان کی جاہ وجلال کی صفت موجودات کائنات کی کسی شے میں موجود نہیں ہے تواس صفت کومنعکس کرنے کے لئے انسان کوخلق کیااورتمام فرشتوں کوحکم دیا کہ آدم کوسجدہ کرے۔اسی لئے ابن عربی نے کہاہے کہ اللہ انسان کااورانسان اللہ کا آئینہ ہے۔یعنی اللہ جب انسان کودیکھتاہے تواس میں اس کی صفات کاجوہر ’’جاہ وجلال‘‘نظرآتاہے اورانسان جب اللہ کودیکھتاہے تواس میں وہ خود کودیکھتاہے۔ابن عربی سے جب پوچھاگیاتھاکہ اگر اللہ انسان کاآئینہ ہے توپھراللہ نظرکیوں نہیں آتا؟اس سوال کے جواب میں ابن عربی نے فرمایاکہ وہ آئینہ، آئینہ کہلانے کامستحق نہیں ہوسکتا، جس میں دیکھاجائے تواپنی پرچھائیں کے بجائے آئینہ کی قلعی نظرآئے۔مختصریہ کہ جوش جنوں میں ذرّہ، ذرّہ نہیں بلکہ آئینہ نظرآئے گااورآئینہ میں اللہ کی کسی نہ کسی صفت کاعکس نظرآئے گا اور جب جوش جنوں میں بندہ رفتہ رفتہ عشق اللہ میں پوری طرح غرق ہوجائے گاتب کائنات ایک آئینہ خانے میں تبدیل ہوجائے گی اورہرطرف صرف اللہ ہی اللہ نظرآئے گایا اس کی تمام صفات نظرآئیں گی۔اس نظریہ کومدنظررکھتے ہوئے خودغورکیجئے کہ حمدکے اس شعر میں خداکی تمام صفات کی طرف اشارہ کردیا گیاہے یا نہیں؟

حمدونعت کے متعلق بعض ماہرین کایہ خیال درست ہے کہ جوشخص اللہ کی ذات وصفات کے ادراک سے محروم ہے وہ اعلیٰ درجے کی نعت توکہہ سکتاہے لیکن صحیح معنوں میں حمد کاحق ادانہیں کرسکتا ہے،چاہے وہ عظیم شاعرہی کیوں نہ ہو ۔عربی، فارسی اوراردوزبانوں کے حمدیہ اور نعتیہ اشعارکااگربغورمطالعہ کیاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ حمدیہ اشعارکے مقابلے میں نعتیہ اشعارہرلحاظ سے اعلیٰ درجے کے ہیں اوربیشترشعرانے اللہ کے محبوب پیغمبراسلام محمدﷺکی ذات وصفات کے بیان اورآپ ﷺکے تئیں محبت وعقیدت کے اظہارمیں نعت گوئی کاحق اداکردیاہے لیکن خالقِ کائنات کی ذات وصفات بیان کرنے میں تمام تر شاعرانہ کمال کے باوجود،وہ بات پیدانہیں ہوئی ہے جونعتیہ اشعارکاطرّۂ امتیازہے۔جبکہ علما نے یہ ہدایت دی ہے کہ نعت کہتے وقت اس بات خیال رکھناچاہئے کہ حضورﷺکی ذات و صفات کی تعریف میں ایسی بات نہ کہہ دے جس سے محمدﷺکی ذات وصفات ، اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے افضل معلوم ہوں۔اس ہدایت کے باجود بیشتر نعتیں ایسی کہی گئیں ہیں جوحمدکے اشعار کے مقابلے میں اعلیٰ درجے کی ہیں۔مثلاً شیخ سعدی ؒ کی مشہورنعت

بلغ العلٰی بکمالہ

کشف الدجٰی بجمالہ

حسنت جمیع خصالہ

صلوا علیہ وآلہ

کے مقابلے کی ایک بھی حمدمیری نظرسے اب تک نہیں گزری ہے۔جبکہ بے شمارفارسی اوراردوکے شعرائے کرام نے ایک سے بڑھ کر ایک نعتیں لکھیں ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ نعت کے اشعارکے عالم دین نے یہ ہدایت دی ہے کہ نبی کریم محمدﷺکی تعریف میں مبالغہ آرائی سے کام اسی حدتک لیناجائز ہے جس حدتک اللہ کا مرتبہ مجروح نہ ہولیکن ’حمد‘کے شعرکے لئے مبالغہ آرائی یاغلووغیرہ کی کوئی قید نہیں ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات کی کوئی حد نہیں ہے۔اس لئے حمدمیں شاعرکی بلند پروازی کو مکمل آزادی حاصل ہے ۔پھربھی’حمد‘کہتے وقت شاعر کے تخیل کی بلندپروازی ، اس اونچائی تک نہیں پہنچ پاتی ہے جس اونچائی تک نعت کہتے وقت اس کی تخیل کی بلندپروازی پہنچ جاتی ہے۔بعض علماء کا خیال ہے کہ عشق اللہ کی معراج تک پہنچنے کے لئے عشق ِمحمدﷺ ضروری ہے۔ممکن ہے شاعرعشق محمدﷺمیں ایسے غرق ہوجاتے ہوں گے کہ اس مقام سے نکل کرعشق اللہ تک پہنچ نہ پاتے ہوں۔بھلے ہی علامہ اقبال کی ’’نوائے شوق‘‘ حریم ذات میں پہنچ چکی ہولیکن اس کاثبوت انہوں نے حمدیہ اشعارمیں نہیں پیش کیاہے۔علامہ اقبال نے نعت کے مقابلے میں حمداس اعلی درجے کا نہیں لکھا جس اعلی درجے کے اشعارکی توقع تھی توپھراردوکے دوسرے شعراسے کیاامیدکی جاسکتی ہے؟

حمدوثنا اورمناجات صرف اسلام مذہب میںہی نہیںبلکہ تمام مذاہب میں کئے جاتے ہیں کیونکہ اللہ ایک ہی ہے لیکن اس کومختلف زبانوں میں ہزاروں نام سے پکاراجاتاہے۔مثلاً انگریزی میں God اورسنسکرت میں اسے نارائن کہتے ہیں۔انگریزی لفظ God میں تین حروف ہیں جن کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے،G سے Generator ، O سے Operator اور D سے Destructor یعنی اللہ تعالیٰ خالق ہے،ناظم وحاکم (چلانے والا) اورقہاری ، قہرڈھانے والا یعنی قیامت برپاکرنے والا ہے۔اسی طرح سنسکرت لفظ نارائن میں نارکے معنی آگ اورآئن کے معنی ہالہ کے ہیں یعنی نورکا ہالہ۔ قرآن شریف میں اللہ کے لئے کہاگیاہے کہ ’’اللہ نورالسمٰوات والارض‘‘۔سناتن دھرم کے مشہورومعروف عالم منُی پاتنجلی کے مطابق چاروں ویدوں ،رِگ وید، یجُروید،سام ویداوراَتھرویدمیں حمدوثناکے شلوک بے شمارہیں۔مرزامظہرجانِ جاناںشہید نے بھی فرمایاہے کہ رِگ وید(صحیفۂ حمدِباری)کلام منظوم ہے جواکثرحمدباری پرمشتمل ہے۔رِگ ویدمیں توحیدی بھجن (نغمات )بھی ہیں۔ ڈاکٹر سید محمود کابھی خیال ہے کہ مقدس کتاب رِگ وید کابڑاحصہ عبادات اور خداکی تعریف سے بھراہواہے۔ (ویدک دھرم اور اسلام، ص۔15 )، واضح رہے کہ رِگ وید کے متعلق محققین کے مطابق تدوینی اعتبارسے یہ انسانی دنیاکاسب سے پہلا علمی شاہکارہے،جس کی نغمہ سرائی سے روح میں بالیدگی اوراہتزاز پیداہوتاہے اورایمان و ایقان کوتقویت نصیب ہوتی ہے۔تینوں ویدوں میں سے ایک ایک شلوک کاترجمہ مثال کے طورپرپیش ِخدمت ہے

’’آسمان وزمین سربفلک پہاڑ سب ہی اس کے آگے سربخم ہیں‘‘(رِگ وید)

’’اے پرماتماتجھ جیسا نہ تودیولوک (عالمِ بالا) میں کوئی ہے اورنہ زمین ہی پرکوئی ہے۔تجھ جیسا نہ ہوا ہے نہ ہوگا۔توہی سب سے اعلیٰ افضل اورارفع ہے‘‘۔(یجُروید)

’’ایک ہی ذات ہے جو پوجا اورنمسکارکے لائق ہے‘‘۔(یتھرووید)

الغرض دنیاکی تمام زبانوں میں اللہ کاجوبھی نام ہو،وہی خالقِ کائنات ہے ، وہی کائنات کا حاکم ہے اور کائنات کا خاتم بھی۔

الغرض حمدکہنے کاسلسلہ روزاول سے شروع ہے اورتاقیامت باقی رہے گا۔ حمدیہ اشعارکے ابتدائی نقوش اوراہمیت پرروشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹریحیٰ نشیط نے لکھاہے

’’عہدقبل تاریخ کے کلدانیوں اورحتیوں نے مٹی کی پکی اینٹوں پرکندہ کئے ہوئے حمدیہ ترانوں کے نقوش سے لے کرآج تک کمپیوٹرائزکتابوں کے دورتک حمدیہ ترانے برابرلکھے اورالاپے جارہے ہیں۔ان کی گنگناہٹ سے جہاں فضائے آسمانی معمورہے وہاں قلوب انسانی میں بھی ہلچل پیداکرنے کا سبب بنی ہوئی ہے، اورکچھ بعید نہیں کہ ثنائے رب کریم کا یہ سلسلہ تاقیامت چلتارہے۔‘‘

’حمد‘کی مثالیں عربی شاعری میں دورِجہالت کے شعرازین بن عمروبن نفیل اورحضرت حسان بن ثابتؒ کی شاعری میں موجودہیں۔فارسی کے قدیم شعرافضل اللہ،ابوسعیدابوالخیرعراقی سعدی،رومی اورجامی وغیرہ کی شاعری میں بھی حمدکی عمدہ مثالیں ملتی ہیں ۔رومی کے یہ حمدیہ ا شعارضرب المثل بن گئے ہیں

خود ثنا گفتن زمن ترک ثنا ست

کیں دلیل ہستی و ہستی خطا ست

اے خدا از فضل تو حاجت روا

با تو یاد ہیچ کس نبود روا

رومی نے اپنے پہلے شعرمیں کہاکہ خداکی ہستی کے سامنے ہماری ہستی کیا ہے۔اے خدا اگرمیں تیری تعریف کرتاہوں تواس کامطلب ہے کہ میرابھی وجودہے۔لیکن تیری ہستی کے سامنے میری ہستی کا تصورہی غلط ہے۔چنانچہ میں اگرتیری تعریف کرنے لگوں تویہ بات بالکل ضد ہوجائے گی۔اس لئے دوسرے شعرمیں کہتے ہیں کہ اے خدا تیری یاد کے ساتھ کسی کی یاد کرناجائزومناسب نہیں۔تیرے ہی فضل سے حاجت روائی ہوتی ہے۔(بحوالہ ’’الّاھُو‘‘ ص۔45-46 مرتب ابرارکرت پوری)

اردوشاعری کی ابتدادکن سے ہوئی ہے۔دکنی شعراکے دواوین کااگرمطالعہ کیاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ دکن کے تما م شعرانے اپنے اپنے دیوان میں حمدبطورخاص اللہ تعالیٰ کی محبت وعقیدت میں شامل کی ہیں۔دکنی شعراکا شایدہی کوئی دیوان ایساہوجس کے شروع میں کم ازکم ایک شعرحمدکانہ ہو۔دکنی مثنویوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ حمدومناجات مثنوی کے اہم اجزائے ترکیبی میں شامل تھیں۔ہر مثنوی کے ابتدائی اشعارحمدومناجات کی اعلی درجے کی مثالیں ہیں۔ دکنی شعرامثلاًفخرالدین نظامی بیدری کی مثنوی ’’کدم راوپدم راو‘‘، عبدل کی تصنیف ’’ابراہیم نامہ‘‘،گجرات کے صوفی شاعرخوب محمدچشتی کی تصنیف ’’خوب ترنگ‘‘، شاہ برہان الدین جانم کی شعری تخلیقات، ملّا وجہی کے حمدیہ اشعار،ابن نشاطی کی مثنوی ’’پھول بن‘‘، نصرتی کی تصنیفات ،’گلشن عشق‘اور’علی نامہ‘،قلی قطب شاہ کے حمدیہ اشعار، عبد اللہ قلی قطب شاہ کے حمدیہ اشعارکا اگربغورجائزہ لیاجائے تومعلوم ہوگا کہ ان شعرانے اپنے حمدیہ اشعارمیں حمدکاحق اداکردیاہے۔ان شعراکے حمدیہ اشعار قرآن شریف کی ان آیتوں کوجن میں اللہ کی ذات وصفات کا بیان کیا گیاہے اپنی شاعری میں ایسے ڈھال دیاہے جیسے کہ ان شعرانے اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کاخودادراک کرلیاہے اورمناظرفطرت میں اللہ کے نوروظہورکانظارہ اپنی آنکھوں سے کرلیاہے۔مثلاًفخرالدین نظامی بیدری نے اپنی مشہورمثنوی ’’کدم راوپدم راو‘‘میںسورۃ لقمان کی آیت ’’الوان مافی الارض من شجرۃاقلام والبحریمدہ من بعدہ سبعتہ ابحرمانفدت کلمت اللہ‘‘یعنی ساتوں سمندر کی سیاہی اورسارے نباتات کے قلم بنالئے جائیں اورتمام فرشتے تیری قدرتِ کاملہ کوتحریرمیں لاناچاہیں تو بھی وہ ایسا نہیں کرسکتے، (آیت- 27 ) کو ان دواشعارمیں ڈھال دیاہے،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نظامی بیدری کوکس قدرقرآن پرعبورحاصل تھا اورقرآن کی آیتوں کوشعرکے سانچے میں ڈھال دینے کے ہنرسے واقف تھا۔شعرملاحظہ کیجئے

سپت سمندر پانی جو مس کر بھریں

قلم رک رک پان پتر کریں

جمارے لکھیں سب فرشتے کہ جے

نہ پورن لکھن تد توحید تے

اسی طرح ’’ابراہیم نامہ‘‘ کامصنف عبدل، نے بھی حمدکے اپنے چند اشعارمیں سورۃ لقمان کی آیت ’’الم تران اللہ یولج الیل فی النھارویولج النھارفی الیل وسخرالشمس والقمرکل یجری الیٰ اجل مسمی‘‘کا منظوم ترجمہ کیا ہے جن کے مفہوم کچھ اس طرح ہیں۔’’ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کامل سے رات کے پردے سے دن نکالتاہے۔چاندکے پیالے سے رات کازہرجھلتاہے،اسے پی کرتمام عالم مرجاتا ہے یعنی نیندکے آغوش میں چلاجاتاہے اورسورج کے پیالے سے چھلکاہواامرت پی کروہ پھرجی اٹھتاہے‘‘۔ عبدل کے علاوہ کم وبیش تمام دکنی شعرانے حمدومناجات کے بہت ہی عمدہ اشعارکہے ہیں جن میں بلاکی نغمگی پائی جاتی ہے اورتشبیہات واستعارات اوردیگرصنائع وبدائع سے بھی آراستہ ہیں۔

دکنی شعرامیںملّااسداللہ وجہی کے کلام میں حمدیہ اشعارکے عمدہ مثالیں موجودہیں جن میں اللہ کی عظمت اورذات وصفات پرروشنی پڑتی ہے

توںاول توں آخر قادرا ہے

توں مالک توں باطن تو ظاہرا ہے

توں محصی توں مہدی توں واحد سچا

توں تواب توں رب تو ماجد سچا

شمالی ہند میںاردوشاعری کے میرکارواں کہے جانے والے شاعرولی دکنی، جن کے زیراثرحاتم،فائز،اورآبرووغیرہ نے دہلی میں اردوشاعری کی شروعات کی۔ولی دکنی کا تعلق صوفیا کرام سے تھا اور وہ خود بھی ایک صوفی منش شاعرتھے،کے کلام میں بے شمار اعلیٰ درجے کے حمدیہ اشعارموجود ہیں جن میں وہی سرشاری و بے خودی اورعقیدت موجودہے جوان کی غزلوں کاطرامتیازہے۔چندحمدیہ اشعارملاحظہ کیجئے

ہے زباں پر تو اول و اول

نام پاک خدائے عز و جل

لائق حمد نٔیں اس بن اور

اس اُپر متفق ہیں اہل ملل

شکر اس کا محیط اعظم ہے

وہ ہے سلطان بارگاہ ازل

ولی دکنی کے ہم عصرشعراء میں سراج اورنگ آبادی کے کلام میں بھی حمدیہ اشعارکی کمی نہیں ہے۔انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عظمت اوران کی ذات وصفات کی تعریف انتہائی عقیدت و محبت کے ساتھ کی ہے اورحمدوثناکا حق اداکردیاہے

عجب قادر پاک کی ذات ہے

کہ سب ہے نفی اور وہ اثبات ہے

اپس کی صفت آپ دو بے نظیر

کیا ہے علیٰ کلِّ شیِِٔ قدیر

دیا چاند سورج کوں نور و ضیا

فلک پر ستارے کیا خوشنما

سراج اورنگ آبادی کے بعد(جنہیں اردوشاعری کا پہلادورکہاجاتاہے )کے شعرانے بھی حمدیہ اشعارکہنے کی روایت کوجاری رکھااوراس دورکے شعرامیں آبرو، فائز،یک رنگ،انعام اللہ خان یقین،مرزامظہرجان جاناں وغیرہ نے بھی حمدیہ اشعارکہے۔مرزامظہرجانِ جاناں کے چند حمدیہ اشعارملاحظہ کیجئے

کیا کہے قاصر زباں توحیدو حمد کبریا

جن نے کن کہنے میں سب ارض و سما پیدا کیا

جدا نٔیں سب ستی تحقیق کر دیکھ

ملا ہے سب سے اور سب سے نیارا

شمالی ہند میںاردوشاعری کے دوسرے دوریعنی عہدمیرومرزامیں بھی حمدیہ اشعارکہے گئے ہیں۔اس دورکے مشہورومعروف شعرامیں مرزامحمدرفیع سودا،میرتقی میراورخواجہ میردردکے کلام میں حمدیہ اشعارکی عمدہ مثالیں ملتی ہیں جن میں اللہ پاک کی عظمت اورذات وصفات کاذکرانتہائی عقیدت ومحبت کے ساتھ کی گئی ہے۔

سوداکے کلام سے چندحمدیہ اشعارملاحظہ کیجئے

ہے خدا کا یہ ایک شمّۂ نور

جس سے روشن ہے آسماں کا تنور

کرتے اس کو لگے نہ ذرہ دیر

مہر و مہ کو بہ شکل نان و نپیر

میرتقی میر کی غزلوں میں بھی بے شمارحمدیہ اشعارملتے ہیں جن میں قرآن کی بعض آیتوں کی تشریح وتعبیرکی گئی ہے۔چنداشعارملاحظہ کیجئے

تھا مستعار حسن سے اس کا جو نور تھا

خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا

اشجار ہو ویں خامہ و آب سیہ بخار

لکھنا نہ تو بھی ہو سکے اس کی صفات کا

میرحسن کے بعدکے شعرامیں مشہورمثنوی نگارمیرحسن کی مثنیوں میں بھی حمدیہ اشعارموجودہیں۔دکنی مثنویوں کی روایت کوآگے بڑھاتے ہوئے میرحسن نے اپنی مثنویوں کی ابتداحمدومناجات کے اشعارسے کی ہے ۔میرحسن کے حمدیہ اشعار،اللہ تعالیٰ کی عظمت ،محبت وعقیدت سے سرشارہیں۔چنداشعارملاحظہ ہوں۔

سر لوح پر رکھ بیاض جبین

کہا دوسرا تجھ سا کوئی نہیں

قلم پھر شہادت کی انگلی اٹھا

ہوا حرف زن یوں کہ اب العلی

نہیں تیرا کوئی نہ ہوگا شریک

تری ذات ہے وحدہ لا شریک

نظیراکبر آبادی نے بھی اپنی نظموں میں اللہ تعالی کی عظمت کوبیان کیاہے ۔ان کی نظموں میں اعلی درجے کے حمدیہ اشعارکی کمی نہیں ہے۔چند اشعاردیکھئے۔

خدا کی ذات ہے وہ ذو الجلال والا کرام

کہ جس سے ہوتے ہیں پروردہ سب خواص وعام

اوسی نے ارض و سماوات کو دیا ہے نظام

اسی کی ذات کو ہے دائماً ثبات و قیام

قدیر وحی و کریم و مہیمن و منعام

عہدمیرومرزاکے شعرامیں مومن خان مومن ایک سچے مومن تھے جن کی مثنویوں اورغزلوں میں بے شمارجوش عقیدت سے معمورحمدیہ اشعارموجودہیں۔ ان کی ایک مثنوی کے چنداشعارملاحظہ کیجئے جن میں اللہ رب العزت کے تئیں ان کی عقیدت ومحبت قابلِ تعریف ہے۔

الحمدالواھب العطایا

اس شور نے کیا مزہ چکھایا

والشکر الصانع البرایا

جس نے ہمیں آدمی بنایا

احسان ہیں اس کے کیا گراں بار

سرسبع شداد کا جھکایا

نہ پوچھ گرمیٔ شوق ثنا کی آتش افروزی

بنایا ماہ دست عجز شعلہ شمع فطرت کا

مرزااسداللہ خاں غالب عہد میرومرزاکے صفِ اول کے شاعرہیں جن کے کلام میں صوفیانہ اشعارکثرت سے پائے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بعض ماہرین غالب نے غالب کوصوفی شاعرقراردیاہے لیکن بعض ناقدین کاخیال ہے کہ غالب صوفی نہیں تھے لیکن ان کا کلام صوفیانہ ہے۔دراصل غالب نے اپنے مخصوس اندازبیان میں بے شمارحمدیہ اشعارکہے ہیں جن میں اللہ پاک کی ذات وصفات اورعظمت کا بیان ہے۔غالب کے دیوان کا پہلا شعر’’نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا‘‘بھی حمدکاہے جس میں انہوں نے جدت پیدا کی ہے ۔ان کی غزلوں کے چنداشعارملاحظہ کیجئے جن میں معرفت کی بات کی گئی ہے۔

اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا

جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا

ہے پرے سرحد ادراک سے اپنا مسجود

قبلے کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں

مرثیہ نگاروں میں میرانیس اورمرزادبیرکی مرثیوں میں جو فصاحت اوربلاغت ہے وہی فصاحت وبلاغت ان شعراکے حمدیہ اشعارمیں موجودہے۔اللہ تعالیٰ کی محبت وعقیدت میں سرشارمیرانیس کے یہ اشعاردیکھئے

گلشن میں پھروں کہ سیر صحرا دیکھوں

یا معدن و کوہ و دشت و دریا دیکھوں

ہر جا تری قدرت کے ہیں لاکھوں جلوے

حیراں ہوں کہ ان آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں

اب مرزا سلامت علی دبیرکے یہ حمدیہ اشعارملاحظہ کیجئے جن میں بلا کی عقیدت ومحبت اورسرشاری ہے۔

چاہے وہ جس گدا کو سلیماں کی جاہ دے

ذرے کو آفتاب کے سر کی کلاہ دے

یارب خلاق ماہ و ماہی تو ہے

بخشذہ تاج و تخت شاہی تو ہے

بیسویں صدی کے عظیم شاعر علامہ اقبال کے پہلے مجموعۂ کلام ’بانگِ درا‘میں حمداور نعت کے اشعارموجودہیں لیکن علامہ اقبال نے اس مجموعے میں حمدکاایک شعربھی ایسا نہیں لکھاہے جو نعت کے شعرسے اعلیٰ درجے کاہو۔مثلاًاقبال کی نظم میںنعت کایہ شعرملاحظہ کیجئے 

کی محمدﷺسے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیزہے ہے لوح وقلم تیرے ہیں

اقبال کی مشہورغزل کا مطلع،جو حمدکاشعربھی ہے اسے دیکھئے

کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں

کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں

یہ دونوںا شعار،شاعرانہ اعتبارسے اعلیٰ درجے کے ہیں لیکن مفہوم کے اعتبارسے نعتیہ شعرکے مقابلہ حمدکایہ شعرکم تردرجے کاہے۔میں حیران ہوں کہ اقبال جیسے عظیم اورعشق اللہ اوراللہ کے رسولﷺ میں ڈوبے ہوئے شاعرنے یہ کیسے کہہ دیاکہ اللہ اگراس کے سامنے مجازکی صورت میں آجائے تووہ ہزاروں سجدے کرے گا۔اللہ کے سامنے اگرکسی بندے کوسجدہ کرنے کاہوش باقی رہے تو اللہ کے تئیں اس کی محبت سچی نہیں ہوسکتی ہے بلکہ رسمی ہوگی۔اللہ کے تئیں اگربندے کی محبت سچی ہوگی توہزاروں کیاایک سجدہ بھی نہیں کرپائے گا بلکہ اللہ کوصرف دیکھتارہے گا اوردیکھتے دیکھتے اپنے وجودکواللہ کے وجودمیں ضم کرلے گا۔محبت کی انتہااگریہ ہوتی توکہاجاتاکہ اقبال نے حمدکاحق اداکردیا۔ایسی بے شمارمثالیں پیش کی جا سکتی ہیں اور نعتیہ وحمدیہ اشعار کے تقابلی مطالعہ سے یہ ثابت کیاجاسکتاہے کہ حمدکاحق اداکرناانسانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات انسانی مطالعات ومشاہدات سے بالاترہیں۔انسانی قوتِ متخیلہ میں اتنی وسعت نہیں ہے جواللہ کی ذات و صفات کو اپنے حصار میں لے سکے۔

واضح رہے کہ علامہ اقبال نے بطورخاص اپنے کسی بھی مجموعۂ کلام میں حمدونعت اورمنقبت کے اشعارکلاسیکی شعراکے روایتی اندازمیں نہیں لکھے ہیں لیکن ’’بانگِ درا‘‘کی اشاعت کے بعدمعلوم ہوتاہے کہ علامہ اقبال اللہ اوراللہ کے رسول ﷺ کی محبت میں پوری طرح غرق ہوچکے تھے اوران کا یہ کہناغلط نہیں تھا کہ’’نغمۂ اللہ ھو میرے رگ وپے میں ہے‘‘، اس حالت میں پہنچ جانے کے بعد اللہ کی ذات وصفات کا ادراک کرلینا آسان ہے اوریقیناً علامہ اقبال نے نائب خداکے منصب پرفائز ہوکراللہ کی ذات وصفات کا ادراک کرلیاتھاتبھی تو ان کی شاعری کو قرآن وحدیث کی تفسیرقراردیاجاتاہے۔اس کے ثبوت میں بالِ جبریل کی ابتدائی سولہ غزلیں پیش کی جاسکتی ہیں۔’بالِ جبریل‘کی پہلی غزل کا پہلاشعر

میری نوائے شوق سے شورحریمِ ذات میں

غلغلہ ہائے الاماں بتکدۂ صفات میں

کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ ان کی نوائے شوق ، حریم ذات تک پہنچ چکی جہاں کسی کی بھی رسائی ممکن نہیں ، لیکن اب شوق،حریمِ ذات میں پہنچ ہی چکی ہے تب اللہ کی ذات وصفات ، آشکارہوجائے گی اوریہ کائنات جوتجلی ٔ صفات سے پیداہوئی ہے ، فناہوجائے گی اورجب کائنات فناہوجائے گی توپھر اللہ اپناجلوہ کسے دکھائے گا؟اسی لئے علامہ اقبال نے دوسرے شعرمیں کہا

تونے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کردیا

میں ہی تو اک راز تھاسینۂِ کائنات میں

علامہ اقبال نے اس شعرمیں ابن عربی کے اس خیال کونظم کیاہے ،جس میں کہاگیاہے کہ ’’کائنات میںاللہ تعالیٰ کے جلال وجمال کااصل جوہر انسان ہی ہے،گویاانسان کوپہچاننااللہ کوپہچاننے کے برابرہے۔اسی لئے حضرت علی ؓنے فرمایاہے کہ ’’من عرف نفسَہُ فقد عرف ربہُ ‘‘ یعنی خودشناسی ،خداشناسی ہے۔علامہ اقبال نے حضرت علیؓ کے قول پرعمل کرتے ہوئے اپنے من میں ڈوب کرسراغِ زندگی پالیاتھا۔جس کا انعکاس بالِ جبریل کی ابتدائی سولہ غزلوں میں موجود ہے۔بالِ جبریل کی غزل کے اشعارسے یہ واضح ضرورہوجاتاہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عشقِ اللہ اورعشقِ محمدﷺ میںعلامہ پوری طرح ڈوب چکے تھے اورحمدکے اشعارکامعیاربہت بلندہوچکاتھاپھربھی اقبال کے حمدیہ اشعار، ان کے نعتیہ اشعار کے مقابلے میں کم تردرجے کے ہیں۔ علامہ اقبال کے کلام سے چندحمدیہ اشعاراورملاحظہ ہوں جن میں علامہ نے حمدکاحق اداکردیاہے۔

لوح بھی تو قلم بھی تو تیراوجود الکتاب

گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ

ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب

سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے

حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آزری

علامہ اقبال کے بعد جگرمرادآبادی کے کلام سے دوحمدیہ اشعارملاحظہ ہوں جن میں جگرنے وحدت الوجودکے اس نظریے کوپیش کیاہے کہ ذرہ ذرہ میں خداکاجلوہ موجودہے، پھر بھی اللہ تعالیٰ یکتا ویگانہ ہے ۔یہاں تک کہ اللہ کے بغیرزماں ومکاںکابھی کوئی تصورممکن نہیں ہے۔

کثرت میں بھی وحدت کا تماشہ نظرآیا

جس رنگ میں دیکھا تجھے یکتا نظر آیا

میرے سوا زماں و مکاں ہوں اگر تو ہوں

تیرے سوا زماں و مکاں بھی کہیں نہیں

آخرمیں جوش ملیح آبادی کی نظم کے چندمصرعے پیش کیاجاتے ہیں جن میں انہوں نے بے حد خوبصورتی سے سورۂ رحمٰن کامنظوم ترجمہ کیاہے۔

یہ سحر کا حسن یہ سیارگاں اور یہ فضا

یہ معطر باغ، یہ سبزہ، یہ کلیاں دلریا

یہ بیاباں، یہ کھلے میدان یہ ٹھنڈی ہوا

سوچ تو کیاکیا، کیا ہے تجھ کو قدرت نے عطا

کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا

دکنی شعراسے لے کرموجودہ دورتک کے شعراکے کلام میں حمدیہ اشعارموجودہیں لیکن کسی شاعرکے کلام میں حمدیہ اشعارکی تعدادزیادہ ہے تو کسی کے یہاں کم ۔یہاں تمام شاعروں کے کلام سے حمدیہ اشعارکے نمونے پیش کرنااور سب کاجائزہ لینا ممکن نہیں ہے ۔خاص خاص شعراکے حمدیہ اشعارمثال کے طورپرپیش کردیئے گئے ہیں۔

المختصر حمدوثنااورمناجات کی بے شمار مثالیں عربی،فارسی اوراردوزبان میں موجودہیں لیکن ان زبانوں کے علاوہ کسی بھی زبان میں حمدوثنااورمناجات کہی جاسکتی ہیں۔لیکن اس بات کاخیال رکھاجاناچاہئے کہ لب ولہجہ میں عاجزی وانکساری اوراطاعت بدرجۂ اتم موجودہو، اور کسی بھی حال میں اشعارمیں مصنوعی پن اوربے دلی کا شائبہ بھی نہیں ہونا چاہئے۔کیوں کہ حمدوثنااورمناجات کا تعلق دعاسے ہے اوردعامیں خشوع وخضوع کے ساتھ انکساری بھی ضروری ہے۔آخرمیں یہ کہناغلط نہیں ہوگا کہ حمدومناجات کی صنفی حیثیت ہے لیکن اس صنف پرتوجہہ نہیں دی گئی کیوں کہ بیسویں صدی میں ادبی منظرناموں پرمختلف نظریات حاوی رہیں جن میں مارکسزم اورترقی پسندنظریہ ادب پرسب سے زیادہ حاوی رہا ان کمیونسٹ اورترقی پسندادیبوں نے اخلاقیات اوراسلامیات کوادب سے خارج کردیااورکہا کہ اخلاقیات، اسلامیات اورتصوف وغیرہ کے مسائل کا تعلق ادب سے نہیں بلکہ فلسفہ سے ہے۔ترقی پسند ادیبوں اورکمیونسٹوں نے ایسا اس لئے کیاکہ ہندوستان ہی نہیں بلکہ تمام مشرقی ممالک کی تہذیب ومعاشرت کی سرشت میں مذہبی عناصرموجودہیں اوریہاں کے افراد پیدائشی طورپرمذہبی خیالات کے ہیں ۔اس لئے ترقی پسندوں اوربائیں بازوکے مصنّفین نے سوچا کہ اسلامیات، اخلاقیات اورتصوف وغیرہ کو ادب سے خارج نہیں کیاگیا توکمیونسٹ نظریات کوسماج پرمسلط کرنامشکل ہوجائے گا۔کمیونسٹوں اورترقی پسند مصنفین نے اپنے نظریے کی اس قدرتشہیروتبلیغ شروع کردی کہ ہرشاعروادیب اپنے آپ کوترقی پسند کہلوانا باعث فخرسمجھنے لگااورشاعروادیب دین سے بیگانہ ہونے لگے اورخداکے وجودکوجھٹلانے لگے اورمادہ پرستی کواختیارکرنے لگے ۔ اسی لئے بیسویں صدی میں بہت کم حمداورنعت گومشہور ہوئے۔

چند حمدگواورنعت گو شعرانے حمدونعت کے مجموعے شائع بھی کئے تو ناقدوں نے ان مجموعوں پربہت کم توجہہ دی ۔یہی وجہ ہے کہ حمدونعت سے متعلق بہت کم تحقیقی وتنقیدی کتابیں اورمضامین دستیاب ہیں۔البتہ پاکستان میں سولہ جلدوں پرمشتمل نقوش کارسولﷺ نمبردستیاب ہے۔اتنی جلدوں پرمشتمل حمدنمبربھی شائع ہوچکے ہیں جن میں تنقیدی مضامین کم ہیں لیکن حمدیہ شاعری کا خزانہ ہے۔اس کے علاوہ حمدونعت پرایک یا دو تحقیقی مقالے بھی شائع ہوئے ہیں جن کی اہمیت ریگستان میں ’اینڈی‘کے پیڑکے مترادف ہے۔حمدونعت کے تئیں جوبے توجہی برتی گئی، اسی لئے حمدونعت کی تخلیق کے لئے اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے جتنی عقیدت و محبت ،والہانہ پن اور وابستگی ہونی چاہئے اتنی عقیدت و محبت اوروالہانہ پن بیسویں صدی کے بیشترشعرامیں نہیں پائی جاتی ہے۔دوسری بات یہ کہ موجودہ دورکے بیشتر شعراکرام دنیاداری میں اس قدر مصروف ہیں ،کہ اس ’سراب رنگ وبوکوگلستاں سمجھ رکھاہے اورخرافات کی شاعری میں پھنس کررہ گئے ہیں اوراپنااعتبارکھوچکے ہیں۔شاید انہیں شعراکے لئے اللہ تعالی نے سورۃ الشعراء میں فرمایا ہے کہ’’اورشاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کیاکرتے ہیں۔کیاتم نے نہیں دیکھاکہ وہ(شاعر)ہروادی میں سرمارتے ہیں۔اورکہتے وہ ہیں جوکرتے نہیں‘‘۔اس لئے بیشترشعراحمدومناجات اورنعت کے اشعاراللہ تعالیٰ کی عقیدت و محبت میں نہیں کہتے ہیں بلکہ کلاسیکی شعراکی نقل میں رسمی طورپرکہتے ہیں۔چندہی اردوکے ایسے شعرا اس دور میںہیںجو صرف حمدونعت کے شاعرکی حیثیت سے مشہورومعروف ہوئے ہوں گے اور جنہوں نے نظموںاورغزلوں کے مجموعوں کی طرح حمدونعت کے مجموعے بھی شائع کئے ہوں گے۔حمدوثنااورمناجات یک موضوعی صنف ہونے کی وجہ سے غزل،قصیدہ،مثنوی،قطعہ،رباعی،نظم آزاد،مخمس،مسدس،مثلث،مربع،ثلاثی،دوہے،سانٹ،ترائیلے اورہائکوجیسے اصناف میں لکھے جاتے ہیں لیکن صنف غزل میں یہ زیادہ مقبول ہے۔غزل کے حوالے سے مثالیں پیش کرنافی الوقت ممکن نہیں ہے لیکن غزلیہ شاعری میں حمدکی روایت ومعنویت پربعدمیں ایک مضمون قلمبند کیاجاسکتاہے۔

Prof. Shaikh Aquil Ahmad

author_name

author_bio

I am a heading

If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.

  • This is a list item.
  • This is a list item.
  • This is a list item.

No spam, ever.