July 14, 2023

دسمبر 2020

اردو زبان کا دائرہ بہت کشادہ ہے مگر اس کی موضوعاتی زمین تنگ ہوتی جارہی ہے جب کہ یہ وہ زبان ہے جس میں سائنسی، سماجی، معاشی اور دیگر علوم کا بیش بہا ذخیرہ ہے۔ بہت سے علوم و فنون کا دوسری زبانوں سے اردو میں ترجمہ بھی کیا گیا اور اس طرح اردو زبان کا کینوس علمی اور ادبی اعتبار سے وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ دنیا کے بیشتر موضوعات کا احاطہ اردو کے شعری اور نثری ادب میں کیا گیا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا زاویہ ہو جسے اردو زبان میں تشنہ چھوڑا گیا ہو۔ اردو زبان کی اسی وسعت اور ہمہ گیری کی وجہ سے اسے قبولیت کی سند بھی ملی ہے اور مقبولیت کی معراج بھی نصیب ہوئی ہے۔
اردو میں جتنی بھی اصناف ہیں چاہے شاعری کی ہو ںیا نثرکی سب میں مہتم بالشان کتابیں موجود ہیں اور ان کتابو ںکی وجہ سے بہت سے نئے علمی زاویوں سے شناسائی کی صورت بھی نکلی ہے۔ ماضی میں ہمارے اکابر اور اسلاف نے اتنی عمدہ کتابیں تصنیف اور تالیف کی ہیں کہ حیر ت ہوتی ہے کہ وسائل اور ذرائع کی کمی کے باوجود انھوں نے کیسے کیسے علمی اور ادبی ذخائر اردو کو عطا کیے اور کیسے کیسے بیش بہا شاہکار اردو زبان کو میسر آئے۔ یہ ان لوگوں کی محنت، لگن اور جدوجہد کا ہی ثمرہ تھا کہ آج اردو زبان کے پاس نہایت ہی وقیع اور بیش بہا ذخیرہ ہے اور اسے کسی بھی اعتبار سے دوسری زبانوں سے کمتر نہیں کہا جاسکتا۔ مگر المیہ یہ ہے کہ آج کے عہد میں جب کہ ہمیں ٹیکنالوجی کی سہولیات میسر ہیں اور ہمارے پاس علمی اور ادبی مواد تک رسائی کے بہتر ذرائع اور وسائل موجود ہیں، پھر بھی ہمارا علمی اور ادبی سرمایہ سکڑتا اور سمٹتا جارہا ہے۔ موضوعات کی سطح پر بھی تنگ دامنی کا احساس دامن گیر ہے کیونکہ اب جامعات میں انہی موضوعات پر تحقیقی و تنقیدی مقالے لکھے جاتے ہیں جن پر پیشتر کام ہوچکا ہوتا ہے اور یہاں بھی صورتِ حال یہ ہے کہ بات ’حیات او رکارنامے‘ سے آگے نہیں بڑھتی۔ نئے اکتشافات یا نئے زاویوں کی جستجو کی کوئی صورت بھی نظر نہیں آتی اور اس کے ساتھ ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہماری تنقید اور تحقیق کی سوئی صرف چند نامو ںپر اٹک کر رہ گئی ہے۔ وہی چند ادبی شخصیتیں ہیں جن پر تنقیدی مضامین لکھے جاتے ہیں یا تحقیق ہوتی ہے۔ جب کہ ان معروف شخصیات کے علاوہ بھی اردو میں بہت سے ایسے افراد ہیں جن کی خدمات بہت وقیع ہیں مگر وہ تحقیق و تنقید کے دائرے سے ابھی تک باہر ہیں۔ ان کے حوالے سے کوئی بھی کتاب یا کوئی بھی مقالہ وجود میں نہیں آتا۔ خاص طور پر قصبات اور قریات میں بہت سی مقتدر ادبی ہستیاں ہیں جن پر ہماری نگاہ نہیں جاتی، ماضی میں اردو شاعروں کے جو تذکرے مرتب کیے گئے ہیں۔ خاص طور پر مولوی عبدالحق نے جن تذکروں کو اپنے بیش قیمت مقدمات کے ساتھ شائع کیا ہے ان میں شعرا کی ایک بڑی تعداد ہے جن کے حوالے سے کوئی تحقیقی اور تنقیدی کام نہیںہوتا۔ جب کہ ہونا یہ چاہیے کہ ایسے شعرا کی ایک فہرست مرتب کی جائے اور ان کے ادبی آثار سے قارئین کو متعارف کرایا جائے کیونکہ اب تذکروں سے بھی اردو داں طبقے کو زیادہ نسبت نہیں رہی ہے اور یہ سارے شعرا تذکروں کے صفحات میں ہی قید ہوکر رہ گئے ہیں۔ اس کے علاوہ جدید دور نے بہت سے اہم موضوعات دیے ہیں جن پر تحقیق و تنقید کی ضرورت ہے۔ مگر ہمارے یہاں بین علومی اور بین لسانی موضوعات پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے عصرحاضر کے بہت سے مسائل و موضوعات سے ہم محروم رہ جاتے ہیں۔ سائنس اور دیگر سماجی، اقتصادی علوم میں جس طرح کے نئے زاویے تلاش کیے جارہے ہیں اردو ادب میں بھی اس طرح کی جہات کی جستجو بہت ضروری ہے تاکہ ہم عصرحاضر کے چیلنجز کا سامنا کرسکیں اور دنیا کو یہ باور کراسکیں کہ اردو زبان موضوعات کے اعتبار سے بھی کسی زبان سے کم تر نہیں ہے اور یہ تبھی ممکن ہوگا کہ جب ہم دوسری زبانوں کے مسائل اور موضوعات پر بھی نگاہ رکھیں گے اور وقت کے تقاضے کے مطابق اپنی تحقیق اور تحریر کو وسعت دیں گے۔

Prof. Shaikh Aquil Ahmad

author_name

author_bio

I am a heading

If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.

  • This is a list item.
  • This is a list item.
  • This is a list item.

No spam, ever.