یہ سچ ہے کہ نامساعد حالات کے باوجود اردو زبان و ادب کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہورہا ہے۔ بہت سے اجنبی علاقے اردو کے لیے مانوس ہوتے جارہے ہیں۔ نئی بستیاں بھی آباد ہورہی ہیں، دوسری زبانوں سے وابستہ افراد بھی اردو زبان و ادب کے تعلق سے گرم جوشی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ انھیں یہ زبان بہت پیاری اور شیریں لگتی ہے اس لیے وہ نہ صرف اس زبان کی لفظیات بلکہ تراکیب سے بھی خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں۔ روزمرہ کے استعمال میں بھی اردو الفاظ کی کثرت ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی اردو الفاظ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اردو کے لیے یہ نیک فال ہے مگر جب ہم زبان کی زمینی صورت حال پر غور کرتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ بہت سی سطحوں پر ہمارے یہاں سردمہری ہے۔ ہم زبان کے بنیادی مسائل و متعلقات پر گفتگو کرنے کے بجائے غیرضروری اور فروعی مسائل میں الجھ کر رہ جاتے ہیں، خاص طور پر نظریات، تحریکات میں ہی توانائی صرف ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے زبان کی ترقی کے مسائل پر ہم سنجیدگی سے غور نہیں کرپاتے۔ اگر ہم صحیح طور پر محاسبہ کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ اس زبان میں فروغ اور ترقی کے سارے امکانات موجود ہیں، پھر بھی ہم ان امکانات کی تلاش کے بجائے اپنا وقت اور سرمایہ ان پروگراموں میں صرف کرتے ہیں جن سے اردو زبان کو زیادہ فائدے کی امید نہیں ہوتی۔
اس وقت اردو زبان کی زمین کو زیادہ سے زیادہ مضبوط اور مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ہمیں ایک مربوط لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا اور اس پر مکمل طور پر عمل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ ہمیں اردو زبان کے تعلق سے ایک بیداری مہم کا آغاز کرنا پڑے گا اور اس کے لیے پہلا پڑاؤ وہ علاقے ہیں جہاں اردو تعلیم کا ذرا بھی بندوبست نہیں ہے،خاص طور پر ان بچوں کو اس بیداری مہم کا محور و مرکز بنانا پڑے گا جو جھگی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں مگر ان کے لیے ذرائع اور وسائل میسر نہیں ہیں۔ ہمارے لیے ایک اچھی صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان بستیوں میں رہنے والی ایک بڑی آبادی کو اس کی طرف متوجہ کریں جن کی تعلیم و تربیت کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ اگر ہم ان بچوں کی تعلیم پر توجہ دیں، انھیں ہر طرح کی سہولیات بہم پہنچائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اردو زبان و تعلیم سے اپنا تعلق نہ جوڑیں۔ ان کے درمیان اردو تعلیم کو رائج کرنے کی مضبوط اور منظم طریقے سے کوشش کی گئی تو مستقبل میں یہی اردو کے محافظ بن کر سامنے آئیں گے اور انہی کے ہاتھوں میں اردو زبان و ادب کا ورثہ محفوظ رہے گا کیونکہ ہمارے یہاں کا اشرافیہ طبقہ اب شاید اردو زبان سے اتنی دلچسپی نہیں لے رہا ہے کہ انھیں اپنے بچوں کا مستقبل پیشہ ورانہ کورسز یا دوسری زبانوں میں نظر آتا ہے۔وہ اپنا اسٹیٹس قائم رکھنے کے لیے بھی اس زبان سے دوری بنائے ہوئے ہیں۔ اس لیے موجودہ وقت میں ضرورت ہے کہ ہم اپنا رخ تبدیل کریں اور ان علاقوں کی طرف جائیں جہاں اس زبان کے تعلق سے کسی طرح کا تحفظ اور تعصب نہیں ہے بلکہ انھیں ایک ایسی زبان کی ضرورت بھی ہے جس کے ذریعے وہ اپنے مافی الضمیر کا اچھی طرح اظہار کرسکیں اور اس زبان میں تعلیم حاصل کرکے اپنے مستقبل کو روشن کرسکیں۔
ہمارے یہاں اردو کی بہت سی تنظیمیں، ادارے ہیں جو اردو کے فروغ کے لیے کوشاں بھی ہیں اور ان کے اندر جذبہ بھی ہے، جنون بھی ہے۔ اگر ایسے ادارے ترجیحی طور پر جھگی جھونپڑیوں اور پسماندہ بستیوں میں اردو زبان کی تعلیم کا نظم کریں تو یہ اردو کی ایک بڑی خدمت ہوگی اور یہ وسائل و ذرائع کا بہترین مصرف بھی ہوگا۔ ہندوستان میں غربت کی شرح زیادہ ہے اور غریب طبقات تعلیم سے محروم ہیں، انھیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا اور زندگی کے آداب سکھانا ہماری ذمے داری ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ اپنی ذمے داریوں کو محسوس کرتے ہوئے ان طبقات کی طرف رجوع کریں اور ان کی زندگی کے معیار کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں او راس کے لیے ایک ذریعہ زبان بھی ہے۔ انھیں اردو کے ساتھ دوسری زبانیں بھی سکھائی جائیں تاکہ وہ ہمارے ملک کی تہذیبی، ثقافتی وراثت کی قدر و قیمت کو محسوس کرکے اس کا تحفظ بھی کرسکیں۔
I am a heading
If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.
- This is a list item.
- This is a list item.
- This is a list item.
No spam, ever.