راستے الگ هو سكتے هیں مگر منزل ایك ہے۔كائنات و فطرت كے نظام سے یهی اشاره ملتا ہے۔نظامِ كائنات كا انحصار ہم آہنگی پر ہے اور اس كی بقا كا دارومدار بھی وحدت پر ہے۔جس دن ہم آہنگی كا خاتمه هو گا قیامت آجائے گی۔ قیامت اسی ہم آہنگی كے خاتمے كا نام ہے۔دیكھا جائے تو كائنات رفته رفته قیامت كی طرف بڑھ رهی ہے۔گلوبل وارمنگ كا خطره اور ماحولیاتی توازن كا بگڑجا نا اس بات كا ثبوت ہے كه كائنات كی ہم آہنگی متاثر هو رهی ہے۔اسی لئے گلوبل وارمنگ كو كائنات كی بقا كے لئے خطره تصور كیا جا رها ہے اور ایسے منصوبے تیار كئے جا رهے هیں كه كائنات كے تحفظ كو یقینی بنایا جا سكے اور كائناتی توازن برقرار رهے۔اربابِ تصوف كائناتِ فطرت كے رموز و اسرار سے آشنا تھے اسی لئے وه بھی اسی نهج پر سوچتے تھے۔انهوں نے فطری توازن كی قندیلیں روشن كیں اور كائنات كی هر شے میں اسی وحدت كا جلوه دیكھا۔انهیں فطرت كے هر ذرّے میں خدا كا نور نظر آتا ہے۔فطرت كو دیكھنے سے اندازه هوتا ہے كه قدرت نے اس میں كس قدر توازن ركھا ہے۔سوره رحمٰن میں اسی طرح كے اشارات ملتے هیں جو كائناتی ہم آہنگی كی طرف انسانوں كی توجه مبذول كراتے هیں۔ اربابِ تصوف نے كائناتی مظاهر كا گهرا مطالعه كیا ہے اسی لئے ان كے ذهن میں فطری ہم آہنگی روشن ہے۔ خدا تعالیٰ نے موجوداتِ كائنات كے درمیان جو ہم آہنگی پیدا كی ہے اس كی فلسفیانه وضاحت مشهور فلسفی لائبنیز نے اس وقت كی جب اس نے ذهن و جسم كے درمیان پائی جانے والی ہم آہنگی كو ثابت كرنے كے لئے”Pre-Established harmony” كے نظریے كو پیش كیا۔اس نے اپنے فلسفے كی بنیاد جوهر كے تصور پر ركھی۔ڈیكارڈ اور اسپنوزا كی طرح اس كا بھی خیال تھا كه جوهر مطلقاً آزاد اور خود مُكتفی هوتا ہے۔لیكن لائبنیز كا یه بھی ماننا تھا كه جوهروں كی ایك لا متناهی تعداد ہے جنهیں اس نے ٫٫موناد٬٬ كا نام دیا تھا۔موناد دراصل ایك قسم كے مراكز قوت هیں اور توانائی ان میں سے ہمه وقت پھوٹتی رهتی ہے۔اس كے مطابق موناد، روحیتی اكائیاں هیں اور هر موناد ایك دوسرے سے مطلق آزاد هوتا ہے اور ان میں ایك بھی موناد ایسا نهیں پایا جاتا جو كسی دوسرے موناد سے مماثل هو۔ اس نے یه بھی كها كه هر موناد بے روزن هوتا ہے اس لئے ان میں سے كوئی شے نه اندر آسكتی ہے اور نه باهر جا سكتی ہے۔ یه موناد ایك دوسرے پر عمل یا تعامل كی قوت سے بھی عاری هوتے هیں۔هر موناد اپنی ذات میں ایك ایسی خوردبینی كائنات سموئے هوتا ہے جو ساری كائنات كو اپنے خاص زاویه نگاه سے منعكس كرتی ہے۔مونادوں كے درمیان ایك خاص نظام پایا جاتاهے۔اس نظام كے مطا بق ادنیٰ ترین موناد یں ٫٫بے شعور موناد٬٬ كهلاتے هیں جو مادی دنیا كے ترجمان هوتے هیں۔ان مونادوں كے اُوپر كے درجے میں ٫٫ذی شعور موناد٬٬ هوتے هیں جو نامیاتی دنیا كی نمائندگی كرتے هیں۔اس سے اُوپر كے درجے میں٫٫ خود آگاه موناد٬٬ هوتے هیں جو ذی عقل موجودات كے نمائندے هیںاور سب سے اوپر خدا ہے، مونادوں كا موناد ہے یعنی مونادِ اعلیٰ۔مونادوں كے سلسلے میں لائبنیز نے جو جانكاری دی اس پر اعتراض كرتے هوئے یه سوال اٹھایا گیا كه اگر مونادبے روزن اور مطلقاً آزاد اور خودمُكتفی اكائیاں هیں تو نفسی موناد اور جسمی موناد میں كیسے رشته قائم كیا جا سكتا ہے۔لائبنیز نے اس مسئلے كا حل “Pre-Established harmony” كے نظریے سے نكالااور كها كه مونادِ اعلٰی یعنی خدا تعالیٰ نے ابتدائے آفرینش میں هی ذهن و جسم كے درمیان ایك ہم آهنگ مطابقت پیدا كردی تھی۔لائبنیز كهتا ہے كه جس طرح كوئی خیال سوچنے والے كے ذهن سے ابھرتا ہے اسی طرح خدا كے حكم سے هر موناد عالم ِظهور میں آیا۔خدا نے ان مونادوں كو اس طرح خلق كیا ہے كه ان میں سے كسی میںبھی اگر كوئی تغیر هوتاهے تو دوسرے موناد میں بھی اسی كی مطابقت سے لازمی طور پر تغیر پیدا هوجاتاهے۔یعنی خدا تعالیٰ نے تمام مونادوں كو اس طرح ترتیب دیا ہے كه یه ایك دوسرے سے ہم آهنگ هوتے هوئے عمل كرتے هیں اور عمل كے نتیجے میں هونے والے تغیرات ایك دوسرے سے پوری طرح موافقت ركھتے هیں۔ هیگل، بریڈلے، بوزانكے، رائیس،كروچے اور جنٹائل وغیره فلسفیوں نے كائنات كے بارے میں بنیادی طور پر اس بات پر متفق تھے كه مبدائِ كائنات روح و عقل ہے اور اس بات پر بھی متفق تھے كه تمام كائنات میں ایك عضویاتی وحدت﴿Organic Unity﴾ موجود ہے اور اس وحدت میں پوری مقصدیت اور مفهوم ہے۔كائنات كے صدرالصدورمیںاورقلب انسانی میںایك طرح كا ٫٫آهنگ فی البطن٬٬﴿Self Harmony﴾هے۔مادیت كی اس تنظیم كے پس پشت ایك روحیتی ترتیب، ایك آهنگ و توازن پایا جاتا ہے۔ فطرت میں جو ہم آہنگی پائی جاتی ہے، اس كی وضاحت علامه اقبال نے اپنے ایك شعر میں اس طرح كی ہے۔ فطرت كا سرود ازلی اس كے شب و روز آهنگ میں یكتا صفتِ سوره رحمٰن دنیا كے تمام مقدس یا آسمانی كتابوں میں بھی اس بات كی وضاحت كی گئی ہے كه خدا تعالیٰ نے ایك خاص نظام كے تحت اس كائنات كی تخلیق كی اور تخلیق كرده موجودات میں ہم آہنگی پیدا كی ۔مثلاًچاند، سورج اور زمین اپنے اپنے مدار میں ایك دوسرے كی گردش ایك نظام كے تحت كرتے هیں جس كی وجه سے صبح هوتی ہے،دن هوتا ہے ،شام هوتی ہے پھر رات هوتی ہے اور یوںهی وقت گزرتا رهتا ہے یعنی ان تینوںسیاروں میں بھی ہم آہنگی پائی جاتی ہے اوران میں هونے والے تغیرات كے اثرات بلاواسطه یا با لواسطه طور پر بے شمار چیزوںپر پڑتے هیں مثلاًان تمام سیاروں میں هونے والے تغیرات اور جائے مقام﴿Location﴾ كے اثرات انسانی زندگی پر بھی پڑتے هیں اس سے معلوم هوتا ہے كه ستاروں كی چال اوران كے جائے مقام﴿Location﴾ میں بھی ہم آہنگی هوتی ہے۔ان سیاروں كی گردش سے اوقات میں تبدیلی آتی ہے اور تبدیلی اوقات سے موسم بدلتے هیں اور پھر موسموں كی تبدیلی سے پھل،پھول اور غلّوں كے بے شمار اقسام كی پیداوار هوتی ہے۔الغرض آسمان،زمین اور سمندر میں پائی جانے والی ایسی كوئی چیز نهیں ہے جن كا رشته دوسری چیزوں سے نه هواور ان میں هونے والے تغیرات كے اثرات ایك دوسرے پر نه پڑتے هوں اور ان تمام چیزوں میں ہم آہنگی نه پائی جاتی هو ۔لهٰذا كائنات میں ایسی كوئی چیز نهیں ہے جس سے انسانی رشتے قائم نه هو سكیں۔ ہمارا ملك هندوستان كائناتی وحدت و ہم آہنگی كی عظیم ترین مثال اور مظهر ہے۔ یهاں كی سر زمین میں ہم آہنگی كی سب سے حسین تعبیریں نظر آتی هیں۔ بدھ، جین اور بے شمار صوفی سنت پیدا هوئے جنهوں نے خدا كی ذات ،خدا كے پیغامات اور اس كائنات كی حقیقت كی وضاحت اور تشهیر اپنے اپنے عقیدے كے مطابق كی لیكن ان سب كا مقصداور منزل ایك هی رهاهے ۔انهیں صوفیوں، سنتوں،رشیوں اور منیوں كے پیغامات كا اثر تھا كه هندوستان كو گلستاں اور هندوستانیوں كو كبھی مختلف رنگوں كے پھولوں سے تو كبھی بلبلوں سے تعبیر كیا گیا كیوں كه بلبلوں كی طرح تمام هندوستانی بھی محبت كے هی ترانے گاتے تھے۔ هندوستان كی صدیوں پرانی تهذیب، مذهبی روادری ، آپسی محبت اورقومی اتحادهمارے ملك كی بهت بڑی خوبی اور سب سے بڑی طاقت بھی تھی جس كی وجه سے بعض دوسرے ممالك خوف زده تھے۔یهی وجه ہے كه لارڈ میكالے نے فروری 1835 ئ میںبرطانوی پارلیامنٹ میں كها تھا: ٫٫میں نے پورے هندوستان كے دورے میں نه تو كوئی فقیر دیكھا اور نه چور۔اس ملك میں اخلاقی قدروں اور لوگوں كی صلاحیتوں كی ایسی دولت پائی جاتی ہے جس كو ختم كركے اور اس كے روحانی ورثه كو تهس نهس كركے هی ہم اس پر پورا قبضه جما سكتے هیں۔اس لئے میری تجویز ہے كه اس كے پرانے طریقه تعلیم اورتمدن كو بالكل بدل دیا جائے تاكه هندوستانی هر غیر ملكی اور انگریزی چیز كو اپنی چیزوں سے اچھا سمجھنے لگیں۔ اسی صورت میں وه خود اعتمادی اور اپنے كلچر سے محروم هوكر هر طرح سے ہمارے تابع اور محكوم بن سكتے هیں۔٬٬ ﴿ ڈی .سی . منجوداس ،آئی. ایف. ایس، Social Harmony and Economic Devlopment، (48-49-P اسی لئے علامه اقبال نے كها تھا : كچھ بات ہے كه هستی مٹتی نهیں ہماری صدیوں رها ہے دشمن دورِزماں ہمارا سماجی ہم آہنگی اورمذهبی رواداری هندوستان میں ہمیشه رهی ہے اور ہم یهاں كے مختلف النوع كلچر اور تهذیبی ورثه پر فخر محسوس كرتے رهے هیںلیكن آج پورے ملك میں پھیلی هوئی فرقه ورانه كشیدگی، مذهبی كٹرپن، علیحدگی پسندی، علاقایت اورلسانی تعصب نے ملك كی سا لمیت اور یكجهتی كو خطرے میں ڈال دیا ہے۔مذهب كی آڑ میں چند سیاسی گرگوں نے اپنے ذاتی مفاد كے لئے تخریبی طاقتوں كے ساتھ مل كر ملك میں انتشار اور بدامنی پیدا كردی ہے۔آزادی كے بعد كی سماجی صورتِ حال كا اگر جائزه لیا جائے تو معلوم هوگا كه مذهبی اور فرقه ورانه كشیدگی حد سے زیاده بڑھ گئی ہے۔بھاگل پور كے دنگوں كے بعد 1990 میں ممبئی كے فسادات اور پھر 2002 میں دل دهلا دینے والے گجرات كے فسادات نے سماج میں نفرت اور عدم رواداری پھیلا دی ہے۔هماری آزادی اور جمهوریت كو خطره لاحق هو گیا ہے ۔ ہماری گنگا جمنی تهذیب مٹ رهی ہے۔ایسے حادثات اور صورت حال سے یهاں كے معاشی حالات پر بھی منفی اثرات مرتب هورهے هیں۔ان حالات میں هندوستان كو محفوظ ركھنے كے لئے سماجی ہم آہنگی اور قومی یكجهتی كو پھر سے بحال كرنا هوگا۔مشتركه تهذیب وتمدن، مذهبی رواداری اور روحانی قدروں كو پھر سے قائم كرنا هوگا۔ كیا یه حقیقت نهیں كه ہمارے ملك میں دنیا كے عظیم مذاهب كے ماننے والے، بے شمار زبانوں كے بولنے والے اور مختلف تهذهب اوررسم ورواج كے ماننے والے جغرافیائی اور لسانی اختلافات كے باوجود سیكڑوں سالوں سے مل جل كر رهتے آرهے تھے اور یه ضرف اس لئے كه انهیں مذهبی اور صوفیانه تعلیمات سے واقفیت تھی اور ہمارے ملك كے دانشوروں اور مفكروں نے ہمیشه مل جل كر رهنے كا درس دیاهے۔مثلاً سوامی وویكا نند نے ایك جگه لكھا ہے: ٫٫اگر تم اپنے بھائی كی جو خدا كی قدرت كا مظهر ہے، عزت نهیں كرو گے تو بھلا تم خدا كی عبادت كیسے كر پاو گے جو مادی اعتبار سے یكتا اور هر جلوه سے بے نیاز ہے۔٬٬ دراصل هندوستان شروع سے صوفیوں،سنتوں، رشیوں اورمنیوں كا گهواره رها ہے جن كی تعلیمات اور پیغامات نے ہمیں انسان دوستی اور محبت كا درس دیا ہے ۔یهاں انبیا اور مذهبی صحیفے بھی بھیجے گئے جن كے تقابلی مطالعے سے معلوم هوتا كه ہے دنیا میں ایك مذهب ہے،ایك هی خدا ہے جس نے اس كائنات كو خلق كیا اور ہم سب اسی كی مخلوق هیں۔هندوستان كے دو عظیم مذاهب ، اسلام اورویدك دھرم كا اگر بغور مطالعه كیا جائے اور دونوں مذاهب كی كتابوں ،قرآن شریف اور وید مقدس كا تقابلی مطالعه كیا جائے تو معلوم هوگا كه دونوں مذاهب كے درمیان كافی مماثلت ہے اور كم و بیش دونوں مقدس كتابوں میں ایك هی طرح كی باتیں بتائی گئی هیں ۔مثلاً سوره النسائ ،پاره چھ، میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے كه پیغمبرِ اسلام حضرت محمد سے پهلے بھی بهت سے رسول كھلی كھلی نشانیاں، صحیفے اور روشنی بخشنے والی كتابوں كے ساتھ بھیجے گئے هیں۔ویدوں میں بھی كها گیا ہے كه جب جب دھرم كا ناش هوگا تب تب ہم ﴿یعنی خدا ﴾انسانوں كے روپ میں اس دھرتی پر آئیں گے۔قرآن میں آگے كها گیا ہے كه وه رسول بھی﴿وحی سے مشرف هیں﴾جن كا ذكر آپ سے كیا ہے اور وه رسول بھی﴿وحی سے مشرف هیں﴾ جن كا ذكر آپ سے نهیں كیا ہے۔ان دونوں ارشادات كی روشنی میں متعدد صوفیوں ، عالموںاورمسلم دانشوروں نے وید كو سماوی كتاب اور برهما،جن پر وید نازل هوئی ہے،كو نبی مانا ہے ۔اس سلسلے میں حضرت مرزا مظهر جانِ جانا ں شهید جو اپنے زمانے كے جید عالم دین، صوفی اور درویش تھے، نے لكھا ہے: ٫٫اهلِ هند كی قدیم كتابوں سے جو كچھ معلوم هوتا ہے وه یه ہے كه بنی نوعِ انسان كی پیدائش كی ابتدا میں ان كی دنیاوی زندگی كی سدھار كے لئے اور حیات بعدالممات كی درستی كے لئے اﷲ پاك نے اپنی مهربانی سے وید نامی كتاب برهما فرشتے كی وساطت سے نازل فرمائی جو ایجادِ عالم سے متعلق كاركن ہے۔اس كے چار دفتر هیں جو احكامِ امرونهی اور اخبارِ ماضی و مستقبل هیں۔٬٬ ﴿بحواله علامه اخلاق دهلوی، ویدك دھرم اور اسلام، ص- 9,19 ﴾ ویدوں كے مسلم عالموں كے مطابق چاروں ویدوں میںپهلا رِگ وید ہے جس میں زیاده تر شلوك حمدِ باری پر مشتمل ہے۔اس میں دوزخ كے عذاب، جنت كی نعمتوں ، توحید اور آخرت كے تصور كا ایسا هی ذكر كیا گیا ہے جیسا كه قرآن شریف میں موجود ہے۔رِگ وید میں پیغمبرِ اسلام حضور سے متعلق پیشن گوئیاں بھی هیں۔اس میں مصر،شام ، بابِل اور فلسطین كے محاربات كا كهیں كهیں ذكر بھی ہے۔طوفانِ نوح اورآتشِ نمرود كا بھی ذكر ہے۔دوسرا یَجُر وید ہے جس كا آخری حصه علمِ الٰهیات پر مبنی ہے۔تیسرا سام وید ہے ۔اس میں بھی حضور سے متعلق پیشن گوئیاں موجود هیں۔چوتھا اَتھَر وید ہے جسے علمِ الٰهی بھی كهتے هیں اس میں توحید اور صفات الٰهی كا بھی ذكر ہے اور تصور آخرت كا بھی ذكر ہے۔اس میں بھی حضور سے متعلق پیشن گوئیاںهیں۔قابلِ غور بات یه كه ان ویدوں كو ایڈٹ كرنے والے شخص منی بیاس دیو جی نے مبشراتِ نبی آخرالزماں كے متعلق ان ویدوں میں جو كچھ لكھا ہے اس كا خلاصه اپنی ایك كتاب ٫٫مسمٰی راه سنگ رام پوتھی میں﴿چھٹی كانڈ، بارهویں اسكڈ﴾ میں قلم بند كیا ہے جس كا ترجمه تلسی داس جی نے پوربی بھاشا میں كیا ہے۔اس كا اردو ترجمه پیش كیا جاتا ہے۔ ٫٫یهاں میں كوئی بات ركھوں گا نهیں﴿چھپاو ں گا نهیں﴾جو وید پران میں لكھا ہے وهی سچ سچ كهوں گا۔دس هزار برس تك مرتبه رسالت كی تكمیل هو جائے گی۔بعد میں یه مرتبه كوئی نهیں پائے گا۔عرب دیش میں ایك ستاره جگمگائے گا۔وه سرزمین بھی اچھی شان كی هوگی۔اَن هونی باتیں ﴿معجزات﴾ اس سے ظاهر هوں گی۔وه اﷲكا دوست اور سخی داتا كهلائے گا۔سمت بكرما كے سمّتوں كے مطابق ﴿ساتویں صدی میں هوگا﴾۔نهایت اندھیری رات میں چار سورجوں كے مثل چمكے گا۔٬٬ ﴿بحواله علامه اخلاق دهلوی، ویدك دھرم اور اسلام، ص- 20 ﴾ ویدوں میں موجود وه تمام باتیں جو قرآن سے ملتی هیں اور اس كے علاوه حضور سے متعلق جو پیشن گوئیاں كی گئی هیں اس سے معلوم هوتا ہے كه وید بھی قرآن شریف كی طرح آسمانی كتاب ہے ۔ حضرت مولانا فضلِ رحمان گنج مرآدابادی نے قرآن كا پوربی بھاشا میں ترجمه كیا ہے اس كے علاوه كئی دوسرے هندو عالموں نے قرآن كا هندی میں ترجمه كیا ہے جسے پڑھ كر وید كے شلوك كا گمان هوتا ہے اسی طرح ویدوں كے شلوكوں كا عربی اور اردو میں ترجمه كیا گیا ہے جو قرآنی آیتوں كی مانند معلوم هوتا ہے۔اسی لئے حضرت مرزا مظهر جانِ جاں نے فرمایا ہے كه ویدك دھرم با ضابطه دین رها ہے جو منسوخ هو گیا ہے۔اسی طرح حضرت امیر خسرو نے ویدك دھرم كا گهرا مطالعه كیا تھا اور سابق مذاهب سے اس كا موازنه كركے ان پر ویدك دھرم كو ترجیح دی تھی ۔ایك شعر میں انهوں فرمایا ہے: نیست هندو ارچه دین دار چو ما هست او لیكن بے قرار چو ما یعنی هندو اگر چه ہمارے جیسے دین دار تو نهیں هیں مگر بهت سی باتوں میںهم اور وه ایك هی هیں۔ انهوں نے ویدك دھرم كی اهمیت كو ظاهر كرنے كے لئے اپنی مثنوی ٫٫نه سپهر٬٬ پندره شعر بطور موازنه شامل كئے هیں جو بصیرت افروز هیں۔مفسرِ قرآن حضرت قاضی ثنائ اﷲ پانی پتی نے بھی آیتِ مباركه كی تفسیر میں لكھا ہے كه٫٫اهلِ هند كے اصولِ دین اكثر تو قرآن وسنّت كے مطابق هیں اور جهاں اختلاف ہے وه شیطان كی كارستانی كا نتیجه ہے۔٬٬مشهور مورخ اور عالمِ دین سید صباح الدین عبدالرحمٰن اور ڈاكٹر سید محمود كے مطابق حضرت محمد نے فرمایا ہے كه مجھے هندوستان كی طرف سے ربّانی خوشبو آتی ہے اور حضرت علی نے فرما كه یه سب سے پاكیزه اور خوشبو دار مقام ہے۔كیوں كه یهاں حضرت آدم اترے اور یهاں كے درختوں میں جنّت كی خوشبو كا اثر ہے۔ان حضرات كا خیال ہے كه ربّانی خوشبو اور جنّت كی خوشبو كے معنی یه هیں كه یهاں كوئی كتاب ضرور اتری ہے۔علامه اقبال نے بھی كها ہے كه: ہے اگر قومیتِ اسلام پابندِ مقام هند هی بنیاد ہے اس كی نه فارس ہے نه شام وحدت كی لے سنی تھی دنیا نے جس مكاں سے میرِ عرب كو آئی ٹھنڈی هوا جهاں سے میرا وطن وهی ہے، میرا وطن وهی ہے علامه اقبال نے بھی هندو صوفیوں ، رشیوں اور منیوں كی كتابیں جو سنسكرت زبان میںهیں پڑھی تھی ۔انهوں نے ویدوں كا بھی مطالعه كیا تھا جس سے انهوں نے ویدك دھرم ، رام چندر جی اور كرشن بھگوان جیسی شخصیتوں كی عظمت كو تسلیم كیا ہے اور ویدوں كے كئی شلوكوں كا ترجمه بھی نظم كی صورت میں كیا ہے۔سری رام چند كو خراجِ عقیدت پیش كرنے كے لئے ان پر ایك نظم لكھی ہے جس كا عنوان ٫٫رام٬٬ ہے۔انهوں نے رِگ وید كی ایك مشهور منتر ٫٫گایتری منتر ﴿یعنی نغمه وحدت﴾ ٬٬ كا منظوم ترجمه ٫٫آفتاب٬٬ كے عنوان سے بھی كیا ہے۔اس سے متعلق انهوں نے شذره بھی لكھا تھا جو ٫بانگِ درا٬ كے خاص نسخوں میں موجود ہے۔اس میں انهوں كها كه سنسكرت كے لفظ سوترتكا ہم معنٰی اور جامع لفظ اردو زبان میں نه ملنے كی مجبوری سے لفظ ٫٫آفتاب٬٬ كو سوتر كا مترادف قرار دیا ہے۔مراد اس سے آفتاب ما فوق المحسوسات ہے یعنی ذاتِ پاك وحده لاشرریك ہے۔جسے قرآن كریم میں٫٫ اﷲنُو رُالسمٰواتِ وَالاَرض٬٬سے تعبیر كیا ہے۔ابن عربی نے بھی فرما یا كه اﷲ ایك نور ہے جس سے تمام چیزیں نظر آتی هیں۔علامه اقبال كی مشهور تخلیق بالِ جبریل٬٬ كی ابتدا میں بھرتری هری جو ایك صوفی شاعر اور ویدوں كے ماهر تھے، كے خیال كو اس شعر میں باندھا ہے لیكن شعر پر بھرتری هری كا هی نام درج كیا ہے : پھول كی پتی سے كٹ سكتا ہے هیرے كا جگر مردِ ناداں پر كلام كلام نرم نازك بے اثر اقبال نے ویدانتی فلسفه كا تذكره كرتے هوئے دیباچه اسرارِ خودی میں لكھا ہے كه: ٫٫بنی انسان كی ذهنی تاریخ میں سری كرشن كا نام ہمیشه ادب واحترام سے لیا جائے گا كه اسی عظیم الشان انسان نے ایك نهایت دلفریب پیرائے میںاپنے ملك و قوم كی فلسفیانه روایات كی تنقید كی اور اس حقیقت كو آشكار كیا كه ترك عمل سے مراد ترك كلّی نهیں ہے كیوں كه عمل اقتضائے فطرت ہے اور اسی سے زندگی كا استحكام ہے بلكه ترك عمل سے مراد یه ہے كه عمل اس كے نتائج سے متعلق دل بستگی نه هو۔٬٬ ﴿بحواله میكش اكبرآبادی، نقدِ اقبال،ص- 96﴾ عهدِ وسطیٰ میں مختلف مذاهب كے درمیا ن ہم آ هنگی اور رواداری پائی جاتی تھی۔اس زمانے میں متعدد صوفی شاعر، سنت جن میں نانك، كبیر ، خسرو،تكا رام وغیره خاص تھے۔ان تمام لوگوں نے محبت اور یگانگت كا درس دیا۔خاص طور پر پر سنت كبیر نے ذات پات، رنگ اور مذهب كی بنا پر فرق كرنے كے خلاف آواز بلند كی۔انهوں نے ملّاو ںاور پنڈتوں كو اپنے طنز كا نشانه بنایا۔ایك دوهے میں انهوں نے كها ہے كه پنڈت كهے موهے رام پیارا تُرك كهے رحیمٰنا دونوں لڑلڑ مر گئے موا پر رام كو كوئی نه جانا اس عهد كے ایك اور مشهور صوفی سنت گرونانك نے ایك ایسے مذهب كی بنیاد ڈالی جس میں دونوں مذاهب هندو اور اسلام كی خوبیوں كو شامل كیا۔انهوں نے ملك كے كونے كونے میں گھوم كر صوفیوںاور رِشیوں ، منیوں سے ملاقات كی اور ان سب كی تعلیمات اور كلام كو جمع كیا اور انهیں سِكھ مذهب كی كتاب٫٫آدی گرنتھ٬٬كی زینت بنائی۔بابافرید شكرگنج كی تعلیمات آج بھی آدی گرنتھ میںكوٹیشن كے طور شامل هیں۔اس دور كے تمام صوفیوں نے مذهبی رواداری، امن اور باهمی میل جول كی تبلیغ كی ۔هندو ں كو ان كی مذهبی كتابوں اور مسلمانوں كو اسلامی تعلیمات كی روشنی میں راه ِراست پر چلنے كا درس دیا۔فرقه ورانه منافرت كی جگه اعلیٰ اخلاقی قدروں كی تعلیم دی اور یه كها كه خدا كا جلوه ذرّے ذرّے میں موجود ہے۔خواجه معین الدین چشتی ، خواجه نظام الدین اولیا اور بابا فرید شكر گنج جیسے صوفیا ئے كرام نے هندوستان كی شاندار تهذهب میں صوفی مسلك پھیلایا جس سے مذهبی رواداری اور سماجی ہم آہنگی قائم هوئی۔حضرت امیر خسرو نے ہماری مشتركه تهذهب میں صوفیانه افكار كو پھیلانے كے ساتھ ساتھ اردو اور هندی زبانوں كے فروغ كے لئے اهم كردار ادا كیا۔انهوں نے اپنی شاعری كو بیك وقت فارسی، اردو اور هندی كے الفاظ سے آراسته كیا۔انهوں نے طبله كے علاوه موسیقی كے كئی راگ ایجاد كئے۔قوالی كو بھی رواج دیا اسی لئے هندو اور مسلم دونوں ان سے محبت اور عقیدت ركھتے هیں۔اس لئے كها جاتا ہے كه وه هندوستان كی مشتركه تهذیب كی بهترین مثال هیں۔ان صوفیوں كے علاوه رامانوج،شنكرآچاریه، تیاگ راج اور رامانند جیسے شاعروں اور سنتوں كی خدمات كو بھی فراموش نهیں كیا جاسكتا۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے بھی مذهبی رواداری، قومی اتحاد ، آپسی میل محبت كا درس دیا ہے۔انهوں نے ٫٫ اتحاد ِ زندگی ٬٬﴿Oneness﴾كے تصور كو اپنی تخلیق اور فكر كا بنیاد بنا یاكیوں كه انهوں نے ہمیشه یه محسوس كیا ہے كه انسان اور فطرتNature) ( كے درمیان ایك قریبی رشته ہے۔ اس كا اظهار انهوں نے اپنی ایك نظم میں بھی كیا ہے: My heart is full, full of joy, no one is out side,all are within my heart. ایك دوسری نظم میں وه كهتے هیں: Come brothers, come, plunge into this stream of life,to be carried away with the world current in company with the sun, moon and stars. دراصل ان كی نظموں سے ظاهرهوتا ہے كه وه نه صرف انسان اور كائناتِ فطرت كے گهرے اتحاد كو شدت سے محسوس كرتے تھے بلكه انسان اور خالق كائنات كے درمیان بھی گهرے اتحاد كو محسوس كرتے تھے۔٫٫ اتحاد زندگی٬٬ كے تصور سے شاعر كا یه اعتقاد اُبھرتا ہے كه تمام زندگی ایك ہے كیوں كه خدا بھی ایك ہے ۔كبیر كی تعلیمات اوران كے فلسفے كا اثر بھی ان كی شاعری پڑا تھا جس كی وجه سے انهوں اسلام اور هندو مذهب میںدر آئے سخت رویّے كی مخالفت كی ۔ ٫٫بال سنگیت٬٬ ﴿Baul songs﴾ میں پائی جانے والی سادگی، فكر میں گهرائی اوردرد سے بھری آوازنے بھی سماجی منافرت ختم كرنے میں اهم رول نبھایا تھا۔بال سنگیت دراصل بنگال كے گاو ں گاو ں میں گھوم گھوم كر گائے جانے والی وه علاقائی سنگیت ہے جو انسانی ہمدردی اور آپسی محبت كا درس دیتا ہے۔اس سنگیت سے جو پیغام ملتا ہے اس كے مطابق خدا انسان كے دل میں رهتا ہے اس لیے انسانوں سے نفرت كرنے كی كوئی وجه نهیں ہے بلكه سچ تو یه ہے كه انسان هی وه اصل خدا ہے جو محبت اور خدمت كیے جانے كے لائق ہے۔ یهاں كے تمام مفكروں ، صوفیوںاورسنتوں كے نظریات یا افكاركو عوام تك پهچانے میں شاعروں نے بھی اهم كردار نبھا یا ہے۔ دراصل شاعری وه ذریعه اظهار ہے كه كوئی بھی فلسفه یا صوفیانه فكر شاعر كے دل سے نكل كر قاری اور سامع كے دل تك پهنچتا ہے۔صوفیوں كے افكار كی تشریح وتعبیر جن عظیم شخصیتوں نے كی ہے ان میںشیخ محی الدین ابن عربی خاص اهمیت كے حامل هیں ۔ انسان اور كائنات كے درمیان جو رشته ہے اس كی وضاحت كرتے هوئے انهوں نے كها ہے كه كائنات عین واحد ہے اور اس عینیت كا اثبات وه یا تو كائنات كے وجو د كے انكار سے كرتے هیں یا پھر خدا ئے واحد كے اقرار سے كرتے هیں۔كائنات كے وجود كی نفی سے اپنے خیالات كا اظهار كرتے هوئے انهوں نے پهلے یه كها كه ٫٫كائنا ت جیسی كه وه ہے اسے غیر حقیقی اور واهمه هی كها جا سكتا ہے۔آگے انهوں نے یه كها كه وجود اگر ہے تو صرف خد ا كا ہے۔انهوں نے مزید كها كه كائنات اور اس كی كثرت اگر موجود ہے تو وه اسی خدا كی پرچھائیں ہے۔كائنات كے وجود كی نفی كرتے هوئے ان كا قول ہے كه: ٫٫الاعیان ماشمت رائحته من الوجود٬٬﴿یعنی اعیان ثابته نے وجود خارجی كی بوتك نهیں سونگھی۔﴾ ابن عربی كے انهیں خیالات سے اتفاق كرتے هوئے غالب نے بھی كائنات كو واهمه قرار دیا ہے۔اس سلسلے میں ان كے اشعار ملاحظه كیجئے۔ بازیچه اطفال ہے دنیا مرے آگے هوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے غالب نے اس دنیا كوبازیچه اطفال قرار دے كر صوفیوں كے اس نظریے كی حمایت كی ہے جس میں كها جاتا ہے كه دنیا كی حقیقت فریبِ نظر كے سوا كچھ بھی نهیں ہے۔غالب نے اسی خیال كی مزید وضاحت كرتے هوئے مندرجه ذیل اشعار میں كها ہے : هستی كے مت فریب میں آجائیو اسد عالم تمام حلقه دامِ خیال ہے هاں كھائیو مت فریبِ هستی هر چند كهیں كه ہے نهیں ہے یعنی تمام دنیا وهم و خیال كے جال كا ایك حلقه ہے اس لیے هستی كو هستی نهیں بلكه نیستی سمجھنا چاهئے اور هستی كے فریب میں نهیں آناچاهئے كیوں كه هستی كے فریب میں پھنس كر انسان جلوه حقیقت سے محروم هوجاتاهے۔اسی نظریے كی تائید كرتے هوئے فانی نے بھی یه كها ہے كه لوگ سمجھتے هیںكه عالمِ شهود مرتبه غیب كی تجلی كا نام ہے مگر یه صرف آنكھوں كا دھوكا ہے۔فانی كاشعر یه ہے۔ جلوه غیب شهود ہے پھر بھی غیب كے جلوے غیب میں هیں نظاره نظر میں شامل ہے نظاره میں شامل كوئی نهیں تجلیات وهم هیں مشاهداتِ آب گِل كرشمه حیات ہے خیال وه بھی خراب كا فانی نے مزید كها ہے كه هستی تو صرف ایك ہے یعنی حقیقی هستی۔باطل هستی كهنا غلط بیانی سے زیاده كچھ نهیں ہے : هستی هی نهیں جو باطل هوپھر فرق مجازوحقیقت كیا یه عرض حقیقت ہے وه حقیقت هستی باطل كوئی نهیں۔ اك حق كے سوا كوئی هستی هی نه تھی یارب یوں میرے سرآنكھوں پر تمیز حق و باطل صوفی اپنی هستی كی نفی كرنا عین تصوف سمجھتے هیں یه ذرا فرسوده خیال لگتا ہے لیكن اصغر نے اس كو كس خوبی سے ادا كیاهے: اصغر حریمِ عشق میں هستی هی حرم ہے ركھنا كبھی نه پاو ں یهاں سر لئے هوئے صبا اكبر آبادی بھی غالب كی طرح صوفیوں كے اس نظریے سے اتفاق كرتے هوئے كهتے هیں: كب تك نجات پائیں گے وهم و یقیں سے ہم اُلجھے هوئے هیں آج بھی دنیا و دیں سے ہم كچھ بھی نهیں جهان میں جب نیند اچٹ گئی سچ پوچھئے تو آنكھ كا سرمایه خواب ہے بجا كه مجھ كو ہے انكار اپنے هونے سے اِس ایك جھوٹ میں گُم هیں صداقتیں كیا كیا انهیں خیالات كا اظهار كرتے هوئے غالب نے پھر كها ہے : جز نام نهیں صورتِ عالم مجھے منظور جز وهم نهیں هستی اشیا مرے آگے ہے غیبِ غیب جس كو سمجھتے هیں ہم شهود هیں خواب میں هنوز جو جاگے هیں خواب میں اس شعر میں شاعر نے كها ہے كه انسان جسے شهود یعنی حق سمجھتا ہے وه دراصل غیب الغیب ہے ۔بالكل اسی طرح سے جیسے انسان خواب میں اپنے آپ كو بیدار سمجھتا ہے اور اپنے تما م هركات و سكنات كو حقیقت سمجھتا ہے لیكن حقیقت میں وه خوابِ غفلت میں هوتا ہے ۔در اصل د ورانِ سلوك صوفیوں كو موجوداتِ عالم میںجب حق هی حق نظر آئے تو اس مقام كو شهود اور غیبِ غیب كو مرتبه احدیت اور ذات خاص كهتے هیں۔واضح رهے كه مرتبه احدیت و ذاتِ خاص انسانی عقل و ادراك سے بالكل الگ ہے۔ تھك تھك كے هر مقام پر دوچار ره گئے تیرا پته نه پائیں تو ناچار كیا كریں اسی خیا ل كا اظهار فانی نے اس طرح كیا ہے۔فانی كا یه شعر لطافت اور ندرت كے اعتبار سے قابلِ تحسین ہے۔ مجھے بلا كے یهاں آپ چھپ گیا كوئی وه میهماں هوں جسے میزباں نهیں ملتا دراصل خدا غیب الغیب ہے اس كا پته كهیں نهیں ملتا۔ اسی لیے مقاماتِ سلوك و معرفت كی جستجو میں ہمیشه كوشاں رهنے كے باوجود سالك كی رسائی منزلِ مقصود تك نهیں هو پاتی اور دورانِ سلوك مختلف مقامات میں پھنس كر ره جاتے هیں ۔غالب كا شعر ہے: تیرے هی جلوه كا ہے یه دھوكا كه آج تك بے اختیار دوڑے ہے گُل در قفائے گل صحن ِ چمن میں پھول یكے بعد دیگرے ہمه وقت بے اختیار كھلتے جا رهے هیں كه كهیں تو خدا كا جلوه دیكھ سكیں لیكن خداابتدائے آفرینش سے آج تك دھوكے میں هی جلوه گر هوا ہے۔اسی لیے غالب نے ایك دوسرے شعر میں كها ہے كه: كهه سكے كون كه یه جلوه گری كس كی ہے پرده چھوڑا ہے وه، اس نے كه اُٹھائے نه بنے یعنی خدا نے عالمِ امكاں پر رنگا رنگی اور كثرت كے ایسے پردے ڈال دیئے هیں كه اسے اٹھا كر حقیقت دریافت نهیں كیا جا سكتا ہے۔ایك دوسرے شعر میں غالب نے كها ہے كه اس كائنات میں هزاروں ایسی چیزیں هیں جو یه اشاره كرتی هیں كه وه سب خالقِ هستی هیں لیكن یه اشاره محض گمراه كن ہے۔مثال كے طور پر یه شعر ملاحضه كیجئے۔ هیں كواكب كچھ، نظر آتے هیں كچھ دیتے هیں دھوكا یه بازیگر كھلا آسمان میں بكھرے هوئے بے شمار ستاروں كی روشنی اور جھلملاهٹ كو دیكھ كر معلوم هوتا ہے كه یه سب خالقِ هستی كی طرف اشاره كرتے هیں لیكن سائنس كے مطابق ان كی حقیقت كچھ اور ہے۔اسی لیے غالب نے انهیں بازیگر قرار دیا ہے جو اهلِ دنیا كو دھو كا دیتے رهتے هیںكیوں كه یه اپنی ذات و صفات كے اعتبار سے خالقِ هستی كا مكمل آئینه نهیں هیں۔ كثرت آرائی وحدت ہے پرستاریِ وهم كر دیا كافر ان اصنامِ خیالی نے مجھے صبا اكبر آبادی نے اس شعر میں تصوف كے اسی نقطے كی طرف اشاره كیا ہے۔ ٰٓٓماسوا ڈھونڈ كے آئے تری دنیا والے تیری دنیا كو كوئی تیرے سوا بھی نه ملا یعنی وجود ایك ہے اور كائنات كی هر وه شے جو اس كے ماسوا ہے دراصل اسی ٫٫وجودِ واحد٬٬ كا ایك مظهر ہے۔لیكن عینیت كا یه باطنی مشاهده كوئی مستقل تجربه نهیں ہے اس لئے ابن عربی نے ایك نئے تجربے ٫٫فرق بعدالجمع٬٬ كی طرف اشاره كرتے هوئے كها ہے كه ٫٫اگر كوئی چاهے تو یه كهه سكتا ہے كه جو كچھ حقیقی طور پر موجود ہے وهی خدا ہے اور اگر كوئی چاهے تو اسی كو كائنات بھی كهه سكتا ہے۔لهٰذا شیخ اكبر كے نئے تجربے ٫٫فرق بعدالجمع٬٬ كے پهلے حصے كے مطابق ماسوا ڈھونڈنے والوں كو خدا كے علاوه كچھ نهیں مل سكتا ہے ۔ صوفیوں كی ایك جماعت كا خیال ہے كه خدا ایك ہے لیكن اس كا جلوه دنیا كے هر زرّے میں موجود ہے یعنی وحدت،كثرت میں جلوه گر ہے ۔ غالب اس نظریے كو ذهن میں ركھتے هوئے یه كهنا چاهتے هیں كه وحدت كی حقیقت كو سمجھے بغیركثرت كو یقینی سمجھنا وهم ہے اس لیے كها كه كثرتِ اصنامِ خیالی نے مجھے كافر بنا دیا۔غالب كا خیال ہے كه خدا كی ذات ٫٫با ہمه اور بے ہمه كے مصداق ہے٬٬۔اس لیے ایك دوسرے شعر میں كهتے هیں كه: هر چند هر ایك شے میں تُو ہے پر تجھ سی كوئی شے نهیں ہے یعنی خدا كا جلوه هرشے میںموجودهونے كے باوجود بھی خدا جیسی كوئی چیز عالمِ جسمانی میں نهیں ہے۔ جز نام نهیں صورتِ عالم مجھے منظور جز وهم نهیں هستی اشیا مرے آگے اس شعر میں غالب نے وحدت الوجود كے اس نظریے كو پیش كیا ہے جس كے مطابق اس كائنات میںجو هنگامه نظر آتا ہے وه اس بات كی طرف اشاره كرتا ہے كه مختلف چیزوں كے وجود كو تسلیم كر لیا جائے حالانكه صوفیوں كا خیال یه ہے كه عالم او راشیائ عالم واشخاص موجود نهیں هیں بلكه اعیان ثابته هیں اور یه ازل سے هی علم الٰهی میں ہے اور ہمیشه رهے گا كیوں كه ٫٫ اعیان نے وجود كی بو بھی نهیں سونگھی ہے٬٬۔كائنات اورخدا كے كے درمیان جو رشته ہے اس سلسلے میں شیخ اكبر كهتے هیں كه یه كائنات بھی عین واحد ہے۔اس لیے اس عینیت كا اثبات یا تووه ٫٫ كائنات كے وجود٬٬ كی نفی یعنی انكار سے كرتے هیں یا خدا كے اثبات سے۔ كائنات كی وجودسے انكار كرتے هوئے وه كهتے هیں كه: ٫٫ كائنات٫٫جیسی كه وه ہے٬٬ اسے محض نام نهاد، غیرحقیقی اور واهمه هی كها جاسكتاهے۔ جو معروضی طورپر غیرموجودهے۔ وجودصرف خدا هی كاهے۔ یه كائنات اوراس كی كثرت اگر موجودهے توا س كی حیثیت اسی ٫٫وحدت تامه٬٬ كے شیون كی سی ہے۔ پهلی صورت میں شیخ كهتے هیں كه كائنات خارج میں معدوم ہے۔ آپ كا قول ہے كه:٫٫الاعیان ماشمبت رائحته من الوجود٬ ﴿یعنی اعیان ثابته نے وجود خارجی كی بوتك نهیں سونگھی۔﴾ ﴿فلسفے كے بنیادی مسائل ،قاضی قیصر الا اسلام،ص:١٤٤﴾ كائنات اورخدا كے ربط كے بارے میں شیخ اكبر كهتے هیں كه یه بھی ایك عین واحد ہے۔ چنانچه اس عینیت كا اثبات یا تووه ٫٫وجود كائنات٬٬ كی نفی سے كرتے هیں یا پھر خدا كے اثبات سے كرتے هیں۔ وجود كائنات كی نفی سے آغاز كرتے هوئے وه كهتے هیں كه كائنات ٫٫جیسی كه وه ہے٬٬ اسے محض نام نهاد، غیرحقیقی اور واهمه هی كها جاسكتاهے۔ جو معروضی طورپر غیرموجودهے۔ وجودصرف خدا هی كاهے۔ یه كائنات اواس كی كثرت اگر موجودهے توا س كی حیثیت اسی ٫٫وحدت تامه٬٬ كے شیون كی سی ہے۔ پهلی صورت میں شیخ كهتے هیں كه كائنات خارج میں معدوم ہے۔ آپ كا قول ہے كه: ٫٫الاعیان ماشمبت رائحته من الوجود٬٬﴿یعنی اعیان ثابته نے وجود خارجی كی بوتك نهیں سونگھی۔﴾ دوسری صور ت میں وه كهتے هیں كه: ٫٫ عالم هی خدا ہے۔ یه اسی ذات واحد كی تجلی ہے جس میں اس وحدت مطلقه نے اپنے تئیں ظهور كیا اوران تجلیات میں یه وحدت كلی طور پر گم هوگئی ہے۔ ان تجلیات كے ماورا وحدت كا الگ تھلگ اپنا كوئی وجود نهیں، یعنی مابعد هذا الاالعدم المحض ﴿ان تجلیات كے ماورا عدم محض كے علاوه كچھ نهیں﴾۔ لهٰذا سالك كے لیے اس عالم سے ماورا خدا كی جستجو فضول ہے۔٬٬ لهٰذا اس صورتِ حال سے معلوم هوتا ہے كه ابن عربی كے مطابق خدا یا وجودان هی صفات كا عین ہے اور یهی صفات خود كو تجلیات میں منكشف كرتی رهتی ہے۔اس لیے اگریه كها جائے كه جو كچھ حقیقی طور پر مو جود ہے وهی خدا ہے یا اسی كو اس طرح بھی كها جا سكتا ہے كه جو كچھ حقیقی طور پر موجود ہے وهی كائنات بھی ہے۔ ابن عربی كے اس نظریے سے متا ثر هو كر غالب نے اپنی ایك غزل كے مقطعے میں هستی اور عدم كے وجود سے پهلے انكار كیا ہے پھرسوال كیا ہے كه اگر یه دونوںنهیں ہے تو خود غالب كی هستی كیا ہے؟ هستی ہے، نه كچھ عدم ہے غالب آخر تو كیا ہے، ہے نهیں ہے خدا اور كائنات كے متعلق شك و شبهات میں مبتلا هو نے بعد معلوم هوتا ہے كه غالب نے حقیقت كو دریافت كر لیا ہے۔اسی لیے ابن عربی كے دوسرے نظریات كا اظهار اپنے اشعار میں اس طرح كرتے هیں۔ دهر جز جلوئه یكتائی معشوق نهیں ہم كهاں هوتے اگر حسن نه هوتا خودبیں اس شعر میں وحدت الوجود كے اُس نظریے كو پیش كیا گیاهے جس میں كها گیا ہے كه یه كائنات جسے عالمِ كثرت سے تعبیر كیا جا تا ہے جو اصل میںخدائے واحدهے، كا مظهر ہے اسے بنائے جانے كا مقصد ظهورِ حسنِ مطلق ہے یعنی خدا نے یه دنیا اس لیے بنائی كه وه خود كو اس دنیا كے آئینے میں دیكھ سكے اور ساتھ هی انهیں پهچانا جا سكے۔ صبا اكبرآبادی كے اس شعرمیں اسی نظریے كو پیش كیا گیا ہے۔ : دنیا كو دیكھ كر انھیں كیا دیكھتے صبا گم هوگیا صفات میں احساس ، ذات كا اسی خیال كو فارسی كے ایك شعر میں اس طرح كها گیا ہے۔ جلوه و نظاره پنداری كه از یك گوهر است خویش را در پرده خلقے تماشا كرده اس نظریے كی وضاحت مندرجه ذیل اشعار میں بھی كی ہے۔كهتے هیں كه جس طرح آفتاب كی شعاعوںسے ذرّے جیسے بے جان شے میں حركت اور روشنی پیدا هوجاتی ہے اسی طرح خدا كی ذات كے پرتو كی بدولت تمام موجوداتِ عالم ظاهرهوئے هیںیعنی خدا كی تجلّی هی موجوداتِ عالم كا سبب ہے۔ ہے تجلّی تری سامانِ وجود ذره بے پر تُو خورشید نهیں ہے كائنات كو حركت تیرے ذوق سے پرتو سے آفتاب كے ذرّے میں جان ہے جگر مرادآبادی نے اسی مضمون كو انتهائی ندرت سے بیان كیا ہے۔جگر كا شعر ہے: ایك ذرّے كا اگر نور نمایاں هو جائے آدمی كثرتِ انوار سے حیراں هو جائے اسی لئے غالب نے ایك دوسرے شعر میں كها ہے كه: آرائشِ جمال سے فارغ نهیں هنوز پیش نظر ہے آئینه دائم نقاب میں یعنی خدا تعا لیٰ اس دنیا كوخوبصورت سے خوبصورت بنانے كا كام مسلسل كر رها ہے تاكه اس میں وه اپنا جلوه دیكھ سكے دوسرے لفظوں میں یه بھی كها جا سكتا ہے كه یه دنیا خدا كامظهر ہے ۔ غالب نے دراصل اس شعر میں شیخ ابن عربی كے اس نظریے كو بھی پیش كیا ہے جس میں كها گیا ہے كه ٫٫ یه عالم هر آن فیضان وجود حاصل كر رها ہے٬٬۔حضرت شاه نیاز نے بھی اس نظریے كو ایك شعر میں اس طرح بیان كیا ہے۔ از تقاضائے حبِ جلوه گری آمد اندر حصارِ شیشه پری صوفیه كرام كے مطابق یه نظریه اس حدیث سے ماخوذ ہے۔:٫٫كنتُ كَن زَاًمَخ فِیّافَاَح بَتُ اَن اَع رَفَ فَخَلَق تُ ال خَل قَ٬٬ اس سلسلے میںابن عربی كا توحیدی نقطه نظریه ہے : ٫٫وجود ایك یاواحد ہے٬٬ اوربس صرف یهی موجود ہے۔ یهی وجودواحدخدا ہے، الله ہے، ذات حق ہے، حقیقت مطلقه ہے جو اپنے مختلف ناموں سے معروف ہے۔ هر وه شئے جو اس كے علاوه یا اس كے ماسوا ہے، محض اسی وجود واحد كا ایك مظهر ہے۔ گویا یه كائنات، یه سارے كا سارا عالم فطرت اسی خدا كا عین ہے۔ كائنات كی الله سے عینیت كو ہم اس كی ذات وصفات كے تناظر میں هی مدرك كرتے هیں۔ یعنی جوهر كی عینیت كی بناپر۔ گویا یه تمام كائنات اسی وجود مطلق كی ٫٫تجلی٬٬هے یا پھریوں كهیے كه یه تمام عالم ظواهر اسی ٫٫وجود تامه٬٬ كے صدور كی ایك صورت ہے٬٬۔ ﴿ فلسفے كی بنیادی مسائل ،قاضی قیصر الا اسلام،ص:٩٣٤﴾ اس نظریے كی وضاحت كے لیے غالب نے مختلف قسم كے الگ الگ رنگوں كے پھولوں كو مثال كے طور پر پیش كیا ہے : ہے رنگ لاله و گل و نسریں جدا جدا هر رنگ میں بهار كا اِثبات چاهیے یعنی موجوداتِ كائنات اپنے رنگ و روپ كے اعتبار سے مختلف هیں لیكن ان سب میں خدا كا جلوه مو جود ہے۔ صوفیانه نظریے كے مطابق خدا واحد هونے كے باوجود هر ذرّے میں موجود ہے۔یعنی قطرے میں دریا اور جُز میں كُل ہے جسے دیكھنا بچّوں كا كھیل نهیں ہے بلكه اسے دیكھنے كے لیے دیده بینا یعنی عارف كی آنكھ كی دركار ہے۔ شعر ملاحظه كیجئے۔ قطره میں دجله دكھائی نه دے اور جُزو میں كُل كھیل لڑكوں كا هوا دیدئه بینا نه هوا ویدانت اور بدھ مت كی نفی خودی ﴿مكتی،نروان﴾ كے نظریے كے مطابق جس طرح سمندر كُل اور قطره اس كا جز ہے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ واحد هونے كے باوجود بھی اپنی ذات و صفات كے اعتبار سے بحرِ بے كراں كی مانند ہے اور انسان اس كا جز ہے۔ قطره ﴿یعنی جز﴾ سمندر میں مل كر كُل﴿ یعنی سمندر﴾ بن جاتا ہے جو باعثِ عشرت اور سعادت كا وسیله ہے۔اسی طرح انسان بھی جو جز ہے فنا هوكر كُل یعنی خدا تعلی سے مل كر كُل بن جاتا ہے۔اس حقیقت كی روشنی میں یه كهنا غلط نهیں هوگا كه فنا هی كائنات كے تمام اشیا كی شیرازه بندی كی ضمانت ہے دوسرے لفظوں میں یه كها جا سكتا ہے كه صرف فنا كے ذریعے هی روح سے مادے كا وصال هو سكتا ہے ۔افلاطون كا بھی یهی خیال ہے كه اشیائ عالم اپنی اصل كی طرف بازگشت كرتی ہے۔ افلاطون وه پهلا فلسفی تھا جس نے روح كے تصور كو روحانی جوهر كی حیثیت سے روشناس كرایا ۔اس كا خیال تھا كه انسانی روح كائنات كی روح كی هی ایك قسم ہے جو ابدی اور لافانی جوهر ہے اور اس كی فطری جگه عالمِ مثال ہے جهاں اس پهلی بار تصورات كے تصور كے رو سے بغیرجسم كے وجودپایا۔انسان چونكه ان تمام تعینات میں سب سے افضل اور ان تمام مظاهرِ صفات میں سب سے اكمل ہے اسی لئے سب سے زیاده مرتبه تعین سے جدائی كی شكایت كرتا ہے اس لئے وصال كے لئے ہمیشه بے قرار رهتا ہے۔رومی شعر ہے: بشنو از نے چوں حكایت می كند و زجدائی ها شكایت می كند غالب نے اس نظریے كو مندرجه ذیل اشعار میں یوں بیان كیاهے۔ عشرتِ قطره ہے دریا میں فنا هوجانا درد كا حد سے گزرنا ہے دوا هوجانا نظر میں ہے ہماری جاده راه فنا غالب كه یه شیرازه ہے عالم كے اجزائے پریشاں كا رونقِ هستی ہے عشق خانه ویراں ساز ہے انجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نهیں فانی نے اسی تصور كو مدِنظر ركھتے هوئے اپنی ذات كو حسن سے تعبیر كیا ہے۔عالِ تعینات میں آكر اسی ذات نے مظاهر كائنات كی صورت اختیار كرلی اور یه مانا گیا كه تمام مظاهر بالطبع اسی سابق مرتبه لاتعین كی جانب بازگشت كرنے كی آرزو ركھتے هیںجس كو فانی نے عشق كا نام دیا۔ان توجیهات كے بعد فانی كا شعر ملاحظه كیجئے: حسن ہے ذات میری عشق صفت ہے میری هوں تو میں شمع مگر بھیس ہے پروانے كا اصغر نے اسی خیا ل كو اس طرح ادا كیا ہے: كارفرما ہے فقط حسن كا نیرنگِ كمال چاهے وه شمع بنے چاهے وه پروانه بنے غالب نے اس نظریے كی مزید وضاحت مندرجه ذیل شعر میں اس طرح كی ہے۔ ہے مشتمل وجود صور پر وجودِ بحر یاں كیا دھرا ہے قطره و موج حباب میں یعنی قطره ،موج اور حباب وغیره سمندر كا هی حصهّ هیں لیكن سمندر سے الگ ان كی كوئی حقیقت نهیں ہے اس لیے یه كها جا سكتا ہے كه موجوداتِ عالم كی هستی وجودِ واجب میں مضمر ہے۔ اسی سلسلے كے مندرجه ذیل اشعار بھی قابلِ غور ہے۔ دلِ هر قطره ہے سازِ اناالبحر ہم اس كے هیں ہمارا پوچھنا كیا قطره اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیكن ہم كو تقلید تنك ظرفی منصور نهیں پهلے شعر كا مطلب یه ہے كه پانی كا قطره جو سمندر كاایك ادنیٰ سا جُز ہے ،اس كے دل سے یه آواز نكلتی ہے كه وه بھی سمندر كا ہے اور سمندر میں مِل كر سمندر هوجانے كا دعویٰ پیش كرتا ہے ۔ اس لیے انسان بھی یه دعویٰ پیش كر سكتا ہے كه وه بھی خدا ہے كیوں كه انسان بھی خدا كا جز ہے۔دوسرے شعر میں غالب نے كها ہے كه وه منصور كی نقل میں ٫٫اناالحق٬٬ كهنے سے گریز كرتے هیں لیكن دل میں اناالحق هی كهتے هیں كیوں كه صحیح معنوں میں قطره دریا هی ہے یعنی انسان حقیقت میں خدا ہے۔ اسی خیال كو فانی نے اس طرح ادا كیا ہے: ہے اتصال قطره و دریا په منحصر وه آبروئے قطره كه دریا كهیں جسے اس جگه كو حاصل ہے اعتبار ساحل كا حد جهاں په وطرے كی مل گئی ہے دریا سے فانی نے اسی نظریے كو صحرا اور ذرّه كی مثال دے كر سمجھانے كی كوشش كی ہے۔ان كا خیال ہے كه صحرا كی سعی بروئے كار آتی ہے تو ذرّے كی هستی موهوم نمایاں هونے لگتی ہے اور جب ذرّه اعتبار بهم پهنچا لیتا ہے تو صحرا میں جذب هو كر خود صحرا بن جاتا ہے۔ صحرا كا اجتهاد ہے ذرّے كی هر نمود ذرّه كا اعتبار ہے صحرا كهیں جسے غالب نے ایك اور شعر میں كها ہے كه وه هستی پا كر خدا كی ذات سے الگ هو گئے اس لیے اس هستی سے نیستی اچھی ہے۔اس كے لیے دلیل یه پیش كرتے هیں كه دنیا كے وجود میں آنے سے پهلے خدا تھا اور اگر دنیا وجود میں نهیں آتی تو بھی خدا كا وجود هوتا ۔اس لیے انهیں اگر پیدا نهیں كیا گیا هوتا تو وه خدا هوتے۔شعر ملاحظه كیجئے: نه تھا كچھ تو خدا تھا كچھ نه هوتا تو خدا هوتا ڈبویا مجھ كو هونے نے نه هوتا میں تو كیا هوتا ماهرین ِ تصوف كے مطابق تصوف كی فنا، ویدانت اور بدھ مت كی فنا سے مختلف ہے۔میكش اكبرآبادی نے تصوف كی فنا سے بحث كرتے هوئے ٫٫لوائح جامی٬٬كے حوالے ٫٫نقدِ اقبال٬٬ میں لكھا ہے: فنا كا مطلب یه ہے كه جب انسان كے باطن پر خدا كی هستی كے ظهور كا غلبه هو تو سوائے خدا كے كسی شے كا علم وشعور باقی نه رهے اور فنائ الفنا یه ہے كه اس بے شعوری كا بھی شعور نه رهے۔٬٬﴿نقدِ اقبال ،ص- 117 ﴾ اس نظریے كی روشنی میں آتش كا یه شعر ملاحظه كیجئے۔ دكھلا كے جلوه آنكھوں نے اك شمع نور كا گل كر دیا چراغ ہمارے شعور كا خدا اور انسان كے متعلق ابن عربی كا خیال ہے كه ان دونوں كے درمیان عینیت،سریان،تقرب ومعیت كا رشته ہے۔خدا اور انسان كے درمیان قرب ومعیت كی نسبت كے لیے قرآن كی یه آیت پیش كرتے هیں: ٫٫نحن اقرب الیه من حبل الورید٬٬﴿هم اس كی شه رگ سے بھی زیاده اس سے قریب هیں۔﴾اوراس آیت كے ذریعے ابن عربی كهنا یه چاهتے هیں كه خداخود بندے كے اعضا وجوارح هیں۔ابن عربی اپنے اس نظریے كی دلیل میں ایك اور حدیث پیش كرتے هیں : ٫٫خلق الادم علی صورته٬٬ ﴿یعنی ہم نے آدم كو اپنی هی صورت پر پیدا كیا﴾۔ابن عربی در اصل یه ثابت كرنا چاهتے هیں كه انسان صفاتِ ربانی كا مجسمه ہے۔مظاهرِ اسمائے الٰهیه میں انسان كی اهمیت كو ظاهر كرتے هوئے انهوں نے اپنی كتاب فصوص الحكم میں تمام عالم كو انسانِ كبیر سے اور تجّلی اعظم اور شانِ الوهیت كو روح سے تشبیه دے كر فرمایا ہے كه انسان جب تك اس دنیا میں پیدا نهیں هوا تھااس وقت تك عالم بے جان جسم كی مانند تھا كیوں كه اس میں حاكمانه شان كا مظهر نهیں تھالیكن جب انسان پیدا هوا تو عالم كے جسم میں جان پیدا هوگئی اور وه مكمل انسان هو گیا۔ابن عربی كے اس بیان سے معلوم هوتا كه خدا تعا لیٰ كی حاكمانه شان صرف انسانوں میں هی منعكس هوتا ہے۔ آتش نے اس تصور كی وضاحت اس شعر میں كی ہے۔ ظهور آدمِ خاكی سے یه ہم كو یقیں آیا تماشا انجمن كا دیكھنے خلوت نشیں آیا علّامه اقبال نے ذاتِ خداوندی كے اپنے اسماوصفات میں متعین هو كراس عالمِ مشهود میں ظهور كرنے كی توجیه یه دی ہے كه ذاتِ باری تعالیٰ خود گهرِ زندگی كی جستجو میں مضطرب و بے چین رهتی ہے كیوں كه یه گهرِ نایاب بھی اسی ایك بحرِ عظیم كا قطره سیمابی ہے۔اقبال كے نزدیك متذكره گهرِ نایاب ہے جسے انهوں نے كائنات اصغر سے تعبیر كیا ہے اور كها ہے كه انسان پر حقیقتِ الوهی كے اسرارورموز خود بخودمنكشف هوتے چلے جاتے هیںاور اسے پیهم یه احساس هوتا رهتا ہے كه واجب الوجوداور انسان كی روح كے درمیان جو پرده تھا وه هٹ گیا۔اس لئے علّامه نے كها ہے : نمود اس كی نمود تیری، نمود تیری نمود اس كی خدا كو تو بے حجاب كردے، خدا تجھے بے حجاب كردے انسان اورخدا كے درمیان جو مماثلت ہے اس سے خدا كا راز كهیں فاش نه هو جائے اس خدشے كا اظهار اقبال نے ایك شعر میں اس طرح كیا ہے۔ تونے یه كیا غضب كیا مجھ كو بھی فاش كر دیا میں هی تو ایك راز تھا سینه كائنات میں الغرض صوفیانه افكار كے مطابق اس دنیا میں كوئی بھی شے ایسی نهیں ہے جس میں خدا كا جلوه موجود نه هو تو پھر مذهب، نسل، علاقایت اور زبان كو بنیاد بنا كر سماج میں منافرت پھیلانے والوں كے دام میں ہم كیسے پھنس جاتے هیں۔ “Pre-Established harmony” كے متعلق لائبنیز كے فلسفے ،ویدك دھرم اور اسلام مذهب كے متعلق اهلِ علم حضرات كے خیالات اور صوفیوں كے افكار كا جو جائزه پیش كیا گیا اس كی روشنی میں كها جا سكتا ہے كه جو ہم آہنگی فطرت كے نظام ہے وهی ہم آہنگی سماجی سطح پر بھی هونی چاهئے كیوں سماج نظامِ فطرت سے الگ كوئی چیز نهیں ہے لیكن بد قسمتی سے ہمارے چند سماجی وسیاسی رهنما اپنی ذاتی مفاد كے لئے مذهب، ذات پات،علاقائیت اور زبان كو بنیاد بنا كر سماجی ہم آہنگی كو خطرے میں ڈال رهے هیں۔ اس لئے عوام كو خبردار كرنے كے لئے صوفیانه افكار كی تشهیر كی ضرورت پھر سے محسوس هو رهی ہے لهٰذا ادیبو ں اور خاص كر شاعروں كو یه احساس دلا نا چاهئے كه اس پهلو كی طرف بھی توجه دیں۔
