شکیل الرحمن:جمالیات کا سورج
9 مئی کی رات میرے لئے قیامت کی رات تھی، پڑھنا تو دور بستر پر سونابھی محال ہوگیاتھا۔رات بھرعجیب وغریب کیفیت میں مبتلا تھا۔کمرے میں اے سی بھی چل رہا تھا، بیڈروم کی فضابھی خوشگوارتھی لیکن میں عجیب کرب سے گزررہاتھا ۔ایک خلاسا محسوس ہورہاتھا۔شکیل صاحب کی باتوں اورملاقاتوں کا سلسلہ کسی فلم کی طرح میری نظروں کے سامنے سے گزرنے لگااور پوری رات گزر گئی۔صبح اُٹھ کر 7.30 بجے سب سے پہلے شکیل صاحب کے ایک بے حد عزیزشاگرداورکشمیریونیورسٹی کے سابق استادپروفیسرنذیرملک صاحب کوفون کیا۔یہ منحوس خبرسن کروہ لگاتار اُف اُف…اُف کرتے رہے ۔نہ انہوں نے مزید کچھ سوال پوچھااورنہ میں نے کچھ کہا لیکن ہم دونوں کی خاموشی میں شکیل الرحمٰن صاحب سے ہمارے تعلقات اور یادوں کی پوری داستان کی گونج سنائی دے رہی تھی۔ہم نے کشمیریونیورسٹی کے کئی پروفیسروں، اردواکیڈمی، بہار کے سیکریٹری مشتاق احمدنوری، پروفیسرجابرحسین اورآج کل کے مدیرابراررحمانی کو فون کرکے شکیل الرحمن کے متعلق اطلاع دی ۔ پروفیسرانورپاشاسے بات کرکے تدفین سے متعلق تمام جانکاری حاصل کی۔ان کی سب سے چھوٹی بیٹی شاہینہ شکیل جوماسکومیں رہتی ہیں ، کی فلائٹ 12 مئی کو صبح 4 بجے آئی۔ ان کے آنے کے بعدصبح10 بج کر40 منٹ پر NCERT کے پاس اربندومارگ پرواقع ادھ چینی جامع مسجد کے دائیں طرف ایک قبرستان میں شہنشاہِ جمالیات کو سپردخاک کردیاگیا ۔اسی قبرستان کے پاس حضرت بابا فریدگنجِ شکرکے حقیقی بھائی شیخ نجیب الدین متوکل کا بھی مزارہے۔ پاس ہی میں حضرت نظام الدین اولیا کی والدہ ’’مائی صاحبہ‘‘ کا بھی مزارہے۔
پروفیسرشکیل الرحمٰن صاحب کو میں 1980 سے جانتاہوں جب میں موتیہاری کے ایم ایس کالج میں 11 ویںکلاس کاطالب علم تھا۔ یہ میرے لئے باعثِ فخرہے کہ میں اسی شہر میں پیداہوا تھا جس شہرمیں پروفیسر شکیل الرحمن 18فروری 1931میں پیداہوئے تھے۔یہ وہی شہر ہے جہاں سے مہاتماگاندھی نے ’انگریزو بھارت چھوڑو‘‘آندولن شروع کیا تھا۔ یہی انگریزی کامشہورِزمانہ ناول Nineteen eighty-four کامصنف George Orwellکی بھی جنم بھومی ہے۔ شکیل الرحمن صاحب کو میں نے یہیںپہلی بار 1980 سے 1981 کے درمیان ایم ایس کالج میں دیکھاتھا جب وہ بہار یونیورسٹی (مظفرپور)کے وائس چانسلرکاچارج لینے کے بعد موتیہاری ایم ایس کالج تشریف لائے تھے۔ چہرے پر شاہانہ شان عیاں تھی۔ان کے سر کے بال Era Victorian کے بادشاہوں کے بال کی طرح گھونگھریالے تھے۔شخصیت میں دلکشی کے ساتھ عجیب غریب رعب ودبدبہ کاگمان ہوتاتھا۔بولتے تھے تولگتا منہ سے پھول جھڑرہے ہوں۔کالج کے Auditorium میں جب وہ طالب علموں سے خطاب کررہے تھے تب ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے تمام اساتذہ اور طلبہ کا سیلاب اُمڈ پڑا تھا۔امڈتا بھی کیوں نہیں، شکیل الرحمٰن اسی شہرموتیہاری کے شمس تھے۔وہاں کا بچہ بچہ ان پرفخرمحسوس کرتاتھا۔
1980 کے بعد28 ستمبر2002 کی تاریخ کا لکھا ہواایک پوسٹ کارڈ مجھے اپنے ستیہ وتی کالج( دہلی یونیورسٹی) میں ملاجس میں لکھاہواتھا
’’برادرم شیخ عقیل احمد صاحب ، سلامت رہئے۔آج ایوان اردوکاتازہ شمارہ ملا۔سب سے پہلے آپ کا مقالہ ’’جدیدنظمہیئتی وفنی تناظر‘‘پڑھا۔ کیوں پہلے پڑھامعلوم نہیں۔باقی مطبوعہ میںپڑھوں گا یانہیں معلوم نہیں۔مقالہ عمدہ اورمتوازن ہے، بات پیش کرنے کاسلیقہ کہاں سے ہاتھ آیاہے مجھے ضرور بتائیے گا۔آپ کے پیش کئے ہوئے خیالات سے متفق ہوں۔سچ جانئے اتنا اچھا مقالہ پڑھ کرلگاواقعی آج کچھ پڑھ لیاہے۔اﷲآپ کوسلامت رکھے۔اسی طرح غوروفکرکے بعدلکھتے جائیے اوراردوادب کومالامال کیجیے۔آپ کب سے لکھ رہے ہیں؟ کیا کیا لکھ رہے ہیں؟ کہاں کہاں چھپ رہے ہیں؟ مجھے بدقسمتی سے معلوم نہیں ہے۔جب وقت ملے’ بابا سائیں‘ کوضروربتائیے کہ آپ نے اب تک کیا کیا لکھاہے۔کچھ بھیجوائیے پڑھ کردعائیں دوں گا۔ میرا پتہ درج ہے۔فون نمبربھی۔خط مل جائے توفون ہی پررسیددے دیجئے گا۔ دعا گو… بابا سائیں‘‘۔
خط پڑھ کر پہلے تومیں پریشان ہوا کہ یہ ’’ باباسائیں‘‘ کون ہیں؟ لیکن جب پوسٹ کارڈ کی دوسری طرف اُلٹ کردیکھا تو پروفیسرشکیل الرحمن اورگھرکا پتہ و ٹیلی فون نمبر بھی لکھے ہوئے تھے۔مجھے یقین نہیں ہورہاتھا کہ شہنشاہِ جمالیات پروفیسرشکیل الرحمٰن صاحب مجھ جیسے ادب کے ایک حقیرفقیر طالب علم کوخط بھی لکھ سکتے ہیں۔میں اس خط کو باربار پڑھتا اوراپنے تمام دوستوں کو بھی پڑھاتارہا۔اس خط میں کیا لکھاہوا ہے یہ میرے لئے اتنا اہم نہیں تھا لیکن میرے لئے یہ اہم ضرورتھا کہ اس خط کو بابائے جمالیات نے لکھاہے۔مجھے اس بات سے بھی خوشی تھی کہ پروفیسر شکیل الرحمٰن میرے ہم وطن ہیں اور ان کی شان میں قصیدے میں بچپن سے ہی سنتاآرہاہوں۔ اس لئے اس خط کومیں ایسے سنبھال کررکھتاتھاجیسے یہ ایک خط نہیں بلکہ کسی خزانے کی کنجی ہو۔ان سے بات کرنے اور ملنے کے لئے میں بے حد پرُجوش تھا۔اب میں یہ سوچنے لگا کہ میں ان کوپہلے فون کروں یا بغیرفون کئے ان کی خدمت میںحاضرہوجاؤں۔ یہی سوچتے سوچتے کئی دن گزرگئے لیکن ایک دن ڈرتے ڈرتے ان کو فون کر ہی دیا۔انہوں نے بے حدمحبت سے بات کی اورکہاکہ کسی دن مجھ سے وقت لے کرمیرے گھرآئیے۔میں نے حقانی القاسمی کوبھی یہ بات بتائی اور ان سے بھی شکیل صاحب کے گھر چلنے کے لئے کہا۔حقانی بھائی چلنے کے لئے فوراً تیار ہوگئے پھر شکیل الرحمٰن صاحب سے وقت لے کرایک دن ان کے گھرکے لئے ہم دونوں روانہ ہوگئے۔جب ہم لوگ راستے میں تھے تو شکیل الرحمٰن صاحب نے یہ دریافت کرنے کے لئے کہ ہم لوگ کہاں تک پہنچے کئی بار فون کیا۔ان کے گھر267-A, South City پہنچ کردیکھا کہ گھرکے باہر ’’مدھوبن‘‘ کاایک بورڈ لگاہوا ہے۔ باہری دیوارکے کنارے ہرے ہرے پیڑ،پودے بیلیں لگی ہوئی تھیں۔باہری دروازہ کھول کرجب لان میں داخل ہوا تودیکھاکہ چاروں طرف کنارے کنارے گملوں میں خوبصورت پودے لگے ہوئے ہیں اوراندرونی دروازے کے چاروں طرف کتابوں کا ڈھیرہے۔جب گھر کے اندر داخل ہوا تو محسوس ہوا کہ سچ مچ میںکسی مدھوبن میں پہنچ گیاہوں۔ ان کاگھرچھوٹی لائبریری میں تبدیل ہوگیا تھا۔ہرجگہ کتابیں ہی کتابیں نظرآرہی تھیں۔ان کے گھرکے اندرزینے پر چاروں طرف کتابوں کا ڈھیرنظر آرہا تھا۔ شکیل الرحمن بے حدمحبت سے پیش آئے گھنٹوں باتیں کرتے رہے۔وہا ں سے دن کاکھاناکھانے کے بعدہم لوگ اپنے گھر واپس آئے۔ آتے وقت انہوں نے بطور تحفہ اپنی کئی کتابیں بھی ہم لوگوں کو دیں، جن میں کچھ کتابیں پوری اردودنیامیں مشہورہوچکی تھیں اورجنہیں میں کبھی حسرت بھری نظروں سے دیکھاکرتاتھا۔ان کتابوں میں سے کچھ کتابیں میں نے شکیل الرحمٰن صاحب کے اسکول کے زمانے کے ایک دوست اورراجیہ سبھاکے ممبر شمیم ہاشمی صاحب کے گھردیکھی تھیں۔
اس ملاقات کے بعدشکیل الرحمٰن صاحب سے ملاقاتوں کا جوسلسلہ شروع ہواوہ مرتے دم تک قائم رہا۔2002 سے ان کی وفات کے ایک ہفتہ پہلے تک شایدہی کوئی ایسا دن ہوجس دن ان سے فون پربات نہیں ہوئی ہو۔دو تین مہینے کے بعدان سے ملنے کے لئے میں ضرورجایاکرتاتھا۔میں جب بھی ان سے ملنے جاتاتھا توحقانی القاسمی کوبھی ساتھ لے جانے کی کوشش کرتاتھا اوروہ اکثرمیرے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہوجاتے تھے۔شکیل الرحمٰن صاحب بھی چاہتے تھے کہ حقانی القاسمی کومیں ہمیشہ ساتھ لے کرآؤں۔وہ ہمیشہ ادبی گفتگوکرتے تھے۔ہر ماہ سیکڑوں ادیبوں کی نئی کتابیں ان کے پاس آتی تھیں۔ شکیل الرحمن صاحب ان میں سے بیشترکتابوں کامطالعہ کرتے تھے اورجب بھی میں ان سے ملتاتھاتو ان کتابوں کے مصنفین کے متعلق باتیں کرتے تھے اوراپنی رائے دیتے تھے۔اکثرنئے ادیبوں کی تعریف کرتے تھے لیکن صفِ اول کے ادیبوں اوران کی تخلیقات میں اگرکوئی کمی ہے توانہیں بخشتے نہیں تھے۔ان کا خیال تھا کہ صفِ اول کے زیادہ ترادیب تنقید اور جمالیات کی اصل روح کوسمجھنے سے بھی قاصرہیں۔
شکیل الرحمٰن کی کتاب ’’پریم چندفکشن کے فنکار‘‘کوپڑھنے کے بعد ایک دن اپنے تاثرات کااظہار کرتے ہوئے دوران گفتگومیں نے ان سے کہاکہ آپ نے پریم چندکے متون کامطالعہ جس گہرائی میں اترکرکیا ہے اورتنقید کی جس بلندی پرپہنچ کراظہارخیال کیاہے یہ بڑے سے بڑے ناقد کے بس کی بات نہیں ہے۔میرے تاثرات سن کروہ بے حدخوش ہوئے اورکہاکہ جوکچھ آپ کہہ رہے ہیں اسے لکھ لائیے۔یہ کام میرے لئے بہت مشکل تھاکیوں کہ وہ بڑے بڑے ناقدین کوبھی کبھی خاطرمیں نہیں لاتے تھے، میری حیثیت توصرف ایک معمولی طالب علم کی تھی۔میں نے ڈرتے ڈرتے ہاں کہہ دیا۔اس کے بعدپریم چند پرلکھی متعددکتابوں کامطالعہ کر کے چھ مہینے بعد پریم چندکے حوالے سے شکیل الرحمن پرتقریباً 25 صفحات کاایک مضمون لکھ کر ان کی خدمت میں پیش کیا۔اسے پڑھ کروہ خوشی سے رونے لگے اور مجھے دعائیں دیں۔
اس مضمون کوپڑھ کردہلی یونیورسٹی کے ایک استاد ڈاکٹراحمدامتیاز اورکچھ دوسرے لوگوں نے بھی کہا کہ آپ کے مضمون کو پڑھنے کے بعد شکیل الرحمن کی کتاب’’پریم چند فکشن کافنکار‘‘ پڑھناضروری ہوگیا ہے۔ لیکن یہ کتاب بازارمیں موجود نہیں تھی۔جب میں نے اس کا ذکرشکیل الرحمٰن صاحب سے کیا توانہوں نے کہا کہ میں اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کروادونگا اگر آپ اس کوایڈٹ کرنے کی ذمہ داری لے لیں ۔میں نے ہاں کہہ دیااور اس طرح اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہوگیا۔لیکن اس کا نام بدل کر’’شکیل الرحمٰن اورفکشن کے فنکارپریم چند‘‘رکھاگیا۔اس کتاب کا نام اس لئے بدل دیاگیا کہ اس کے آخری حصہ میں کئی ناقدین کے مضامین شکیل الرحمٰن اورپریم چند کے حوالے سے شامل ہیں۔
شکیل الرحمن نے ایک دن مجھے چاول کے بورے میں بھرکر اپنے شائع شدہ مضامین کے تراشے دیے۔میں انہیں اپنے گھرلے آیا اور ان کی Classification کرنے کے بعد مہینوں مطالعہ کرتارہا۔ ان کے مضامین پڑھ کر نئے نئے آئیڈیاز اپنے اندر محسوس کرتاتھا۔ میں ان کے صرف ایک مضمون میں کئی دنوں تک کھویارہتاتھا۔اس درمیان نہ کوئی دوسری کتاب یانہ کوئی دوسرا مضمون پڑھ پاتاتھاکیوں کہ میرے حواس پرصرف شکیل الرحمن کا مضمون چھایارہتاتھا۔ مجھے ایسامحسوس ہوتا تھاکہ میں حقیقی دنیاکے بجائے کسی اور ہی دنیامیں جی رہاہوں۔مجھے لگتاتھاکہ جس طرح تمام دیوتاؤں نے مل کر سمندرمنتھن کیاتھااور وِش اورامرت کوالگ الگ کرکے نکالا تھا اسی طرح شکیل الرحمن نے تنہا ادب کامنتھن کرکے جمالیات کے امرت کونکالاتھا۔جمالیات کے اُسی امرت کی روح افزا خوشبوان کے مضامین کوپڑھتے وقت محسوس ہوتی ہے۔میںنے ان کے مضامین کی روشنی میں ایک مضمون’’شکیل الرحمن کی جمالیاتی بوطیقا‘‘کے عنوان سے لکھاجوکئی رسالوں میں شائع ہوچکاہے۔شکیل الرحمٰن صاحب نے اسے پڑھ کر بہت دعائیں دیں اور گھرکے دوسرے افراد کو بھی پڑھوایا۔اس کے بعدان کے مضامین میں سے کچھ مضامین جو مختلف اقسام کے قیمتی ہیرے اورجواہرات کے مانند تھے ، کوایڈٹ کرکے ایک کتاب’’ادب اورجمالیات‘‘شائع کرائی جس میں متذکرہ مضمون کچھ ترمیم واضافہ کے بعدمقدمہ کی صورت میں اس کتاب میں شامل ہے۔پروفیسروہاب اشرفی، پروفیسرسیدہ جعفر، پروفیسریوسف سرمست کے علاوہ کئی ادیبوں نے فون کرکے اپنی پسندیدگی کااظہارکیا۔
شکیل الرحمن صاحب نے جن موضوعات پرمضامین لکھے تھے ان ہی موضوعات پرادب کے چانداورستارے کہے جانے و الے ادیبوں کی کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں جو میری نظرسے گزری ہیں۔میں شکیل الرحمٰن صاحب کے مضمون سے جب ان کتابوں کامقابلہ کرتاہوںتومجھے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ایک مضمون دوسروں کی پوری کتاب پربھاری ہے۔دراصل شکیل الرحمٰن کی زندگی کا بیشترحصہ کشمیرکی وادیوں میں گزراہے۔ واضح رہے کہ سنسکرت کے مہاکوی کالی داس سمیت سنسکرت کے بیشترآچاریوں کاتعلق کشمیرسے ہی رہاہے۔ کشمیرکے غاروں میں وہاں کے رشیوں، منیوں اور صوفیوں کے علاوہ سنسکرت آچاریوں نے بھی سادھنااوردویہ شکتی سے علم حاصل کیا اورعلم کی روشنی سے ساری دنیاکومنورکردیا۔شکیل الرحمن نے بھی کشمیری آچاریوں کے نقش قدم پرچل کر کشمیریونیورسٹی کی لائبریری میں رکھی سنسکرت جمالیات کی تمام گرنتھوں کابرسوں مطالعہ کیااورجمالیات کے سمندرمیں ڈوب کرجمالیات کے ایسے ایسے آبدارموتیوں کونکالا اورکئی ہزارصفحات پرمشتمل اپنی تخلیقات میں ان موتیوں کوایسے ضم کردیا جس کی روشنی کی تاب لانا بڑے سے بڑے ادیبوں کے بس کی بات نہیںہے۔مختصریہ کہ بابائے جمالیات پروفیسرشکیل الرحمٰن نے اردوادب کو جمالیات کا تاج محل دیاہے۔شکیل الرحمٰن نے اردو تنقید کی عام ڈگر سے ہٹ کرنیاراستہ تعمیر کیا ہے۔ان کی تنقید عام روایتی اور کھردری تنقید نہیں ہے بلکہ ایک اعلیٰ پایہ کی تخلیقی تنقید ہے۔ شکیل الرحمٰن کی جمالیاتی تنقید کی کہانی فنتاسی اور اساطیر کی جمالیات سے شروع ہوتی ہے اور کلاسیکی ادب کے مطالعہ سے ہوتے ہوئے جدید ادب تک پہنچ جاتی ہے۔اس دائرے میں سبھی آجاتے ہیں۔ مولانارومی، حافظ شیرازی،مرزا بیدل اور حضرت امیرخسرو ہوں یا کبیر،نظیر،محمد قلی قطب شاہ، میر اور غالب ۔امیر ہمزہ کی داستان ہویا اقبال، ابوالکلام آزاد، پریم چند،منٹو اور احمد ندیم قاسمی۔ داستانوں کی فنٹاسی اور رومانیت سے ہندوستان کے نظام جمال اور ہندوستانی جمالیات اور ہنداسلامی جمالیات تک ایک طویل سفرطے کیا ہے۔فیض احمد فیض اور اخترالایمان کی جمالیات بھی ان کے موضوعات رہے ہیں۔ شکیل الرحمٰن کی زندگی کے حالات کے مطالعہ کے لیے ’آشرم‘، ’دربھنگے کا جو ذکر کیا‘اور’ ایک علامت کا سفر‘، سفرناموں کے مطالعہ کے لیے ’قصّہ میرے سفر کا‘،’لندن کی آخری رات‘، اور ’دیوار چین سے بت خانۂ چین تک‘اچھی مثالیں ہیں۔ شکیل الرحمن اپنے عہد کے سب سے بڑے ناقدتھے۔اس دور کے سب سے بڑے غالب شناس اور منٹو شناس تھے۔ان کا قول ہے ’’غالب دنیا کے سب سے بڑے شاعر ہیں اور منٹو دنیا کے سب سے بڑے افسانہ نگار‘‘۔
شکیل الرحمٰن ابتدائی زمانے میں پچاس سے زیادہ اسٹیج اورریڈیائی ڈرامے بھی لکھ چکے ہیں جن میں بہادرشاہ ظفر،تلاش، لہوکے رنگ،فصلِ گل آئی، سلطان زین العابدین،پھول کی خوشبو، پرچھائیں،واپسی، دوبالیاں گیہوں کی،اندر کا آدمی، آنگن،سانپ کے رقص کے بعد، شکور داد، تابوت، رات کا سورج، کالے پتھرکالہو،لالہ رُخ، گھٹن،پرانی حویلی، جنگل کاچہرا،نیاجنم، دلّی،دل کا سمندرگہرا،پتھرکادل،پیاس سمندرکی، مٹی کی مہک،ڈاک بنگلہ، پتھرکاچاند،زخمی پرندہ، تیسری آنکھ،باٹی بابا اورایک چہرہ پرچھائیں وغیرہ قابل ذکرہیں۔
ایک دن شکیل الرحمن صاحب کافون آیااور حکم دیاکہ حقانی القاسمی کولے کر گھرآئیے۔ میں حقانی بھائی کولے کرجب ان کے گھرحاضرہوا تو انہوں نے ہم دونوں کو ایک کتاب’’محمدداراشکوہ‘‘ دی۔ ہم نے ان کاشکریہ اداکیا اوراس کتاب کے اوراق الٹ پلٹ کردیکھنے لگے۔کچھ دیربعدانہوں نے کہا کہ پہلے اس کتاب کے ابتدائی صفحات دیکھئے اس کے بعدگھرجاکرپوری کتاب پڑھتے رہئے۔ابتدائی صفحات پرنظردوڑاتے ہوئے جب میری نظرانتساب والے صفحہ پرپڑی توہم دونوں حیران رہ گئے۔کبھی اس صفحہ کی طرف دیکھتاتوکبھی شکیل الرحمٰن صاحب کی طرف ۔سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ کس طرح اپنے جذبات کااظہارکریں لیکن شکیل صاحب سمجھ گئے کہ ہم دونوںکے چہروں پرجو کیفیت مرتب ہورہی ہے اس میں لکھاہوا ہے کہ ’’ہرمومرے بدن پرزبانِ سپاس ہے۔‘‘ انتساب کے صفحہ پر لکھاہوا تھا
’’نئی نسل کے صاحبِ قلم نقادحقانی القاسمی اورڈاکٹرشیخ عقیل احمدکے نام جن کی سچی چاندی کی مانندادبی تنقیدپسندکرنے والوں کاحلقہ انشاء اﷲتیزی سے بڑھتاہی جائے گا! بڑی بات یہ ہے کہ دونوں کی پہچان بین الاقوامی سطح پرہونے لگی ہے……اوراپنے دوپیارے شاگردوں پروفیسرنذیرعنایت ملک اورپروفیسرعبدالمجیدمضمرکے لیے جنہوں نے میرے بعد شعبۂ اردوکشمیریونیورسٹی کے وقار کوصرف قائم ہی نہ رکھا بلکہ اسے بلند بھی کیاہے!……باباسائیں۔
شکیل الرحمن پچھلے دو تین سالوں سے اپنی نجی لائبریری کی حفاظت کے لئے کافی فکرمندتھے۔وہ چاہتے تھے کہ ان کی تمام کتابیں کسی یونیورسٹی کی لائبریری میں پہنچا دی جائیں تاکہ ان سے ریسرچ اسکالرس استفادہ کرسکیں۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی اور اردویونیورسٹی حیدرآباد کے استادوں سے اس سلسلے میں بات بھی کی تھی لیکن کسی نے بھی اس کام میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ میں نے بھی اس سلسلے میں پروفیسر ظفرالدین سے گزارش کی تھی کہ شکیل الرحمن کی نجی لائبریری میں جوکتابیں ہیں انہیںاپنی یونیورسٹی کی لائبریری میں رکھوا دیں اور شکیل الرحمن کا گوشہ قائم کردیں۔انہوں نے کہا کہ یہ ممکن ہے لیکن ان کتابوں کی ایک فہرست بنواکرمجھے دیجئے اس کے بعد میں VC سے اجازت لے کراپنی لائبریری میں رکھوا دونگا لیکن شکیل الرحمن صاحب کے لئے ان کتابوں کی فہرست بنواناممکن نہیں تھا۔میں اندر ہی اندر سوچتا تھا کہ کاش شکیل الرحمن اپنی کتابوں میں سے چندکتابیں مجھے دے دیتے لیکن میری ہمت نہیں ہوتی تھی کہ میں اپنے دل کی بات ان سے کہوں۔تقریباًایک سال بعد ایک دن صبح 9 بجے ان کافون آیا۔کہنے لگے کہ میں نے خواب میں دیکھاہے کہ صرف آپ ہی ہیں جومجھ سے صحیح معنوں میں محبت کرتے ہیں اور میری تمام کتابوں کے صحیح حقداربھی آپ ہی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ جمالیاتی مطالعہ کوآگے بڑھائیں گے اورجو لوگ مجھ پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں ان کی مدد کریں گے اور مجھ پرمزید ریسرچ کروائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں نے جب اپنے اہلِ خانہ سے اس سلسلے میں بات کی توسبھی نے میری باتوں کی تائیدکی ۔مجھے پوری امید ہے کہ آپ میری کتابوں کوبے حد عزیزرکھیں گے اورجوکوئی ان کتابوں سے استفادہ کرناچاہے گا توآپ ان کو استفادہ کرنے دیں گے۔انہوں نے خواہش ظاہرکی کہ جن الماریوں میں ان کی دی ہوئی کتابیں رکھی جائیں ان میں شکیل الرحمٰن collection کے اسٹیکرس بھی لگا دیئے جائیں۔شکیل الرحمن کی اس پیش کش سے میری خوشی کاکوئی ٹھکانانہیں رہا۔اپنے گھر کی چھت پر میں نے دو بڑے بڑے کمرے بنوائے تھے جن میں ایک مہمانوں کے لئے ہے اور دوسرے میں میری نجی لائبریری ہے۔اس لائبریری میں میری نجی کتابوں کے Collection کے علاوہ استادِ محترم مغیث الدین فریدی کی نجی لائبریری کی کئی نایاب کتابیں بھی ہیں۔اسی لائبریری میں میں نے تین اور الماریاں خریدکررکھ دیں۔ اس کے بعد شکیل الرحمن صاحب کی تمام کتابوں کو ایک بڑی گاڑی میں بھرکر لے آیا جواب میری لائبریری کی زینت ہیں۔ان کتابوں میں مختلف موضوعات پر کئی نایاب کتابیں ہیںجنہیں پاکرمیں خود کو دنیاکاسب سے امیرانسان سمجھتاہوں۔میں ان کے خوابوں کوپوراکرنے کی کوشش کرتا ہوں اورآئندہ بھی کوشش کرتارہوں گا۔مجھے خوشی ہے کہ کشمیریونیورسٹی سے ایک ریسرچ اسکالرمسرت جان نے ایک ماہ پہلے ’’شکیل الرحمٰن اورجمالیاتی تنقید ‘‘پراپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کرجمع کردیاہے۔جموں یونیورسٹی میں بھی ان کی کتاب ’’آشرم‘‘پر ایک ایم فل کا مقالہ لکھاجارہاہے۔پاکستان کی یونیورسٹیوں میں بھی شکیل الرحمٰن صاحب پرریسرچ کرانے کی بات چل رہی ہے۔ایک ماہ کے اندرایک یونیورسٹی میں ان پرریسرچ کے لئے Registration ہوجائے گا۔
شکیل الرحمٰن صاحب سے وابستہ یادیں توبہت ہیں جنہیں ایک چھوٹے سے مضمون میں سمیٹنا ممکن نہیں ہے۔اس کے لئے ایک کتاب لکھنے کی ضرورت پڑے گی۔ پھربھی چند یادوں کاذکرضروری ہے۔ مثلاً پچھلے سال جنوری 2015 میں ایک دن پروفیسرانورپاشاکافون آیا۔انہوں نے بتایاکہ شکیل الرحمٰن صاحب کی طبیعت بہت خراب ہے اورانہیں ہوسپیٹل میں داخل کرایاگیاہے۔مجھے پہلے سے اندازہ تھاکہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے کیوں کہ دو تین دنوں سے جب ان کا فون نہیں آیا تومیں نے ان کے گھران کی خیریت دریافت کرنے کے لئے فون کیا تھالیکن کسی نے میری کال Receive نہیں کی تھی۔ جب میں نے ان کے بیٹے رومی شکیل کوفون کیا تو ان کی اہلیہ صاحبہ نے فون اٹھایا لیکن انہوں نے ان کی خیریت بتانے کے بجائے یہ کہا کہ رومی صاحب کو بتادونگی کہ آپ کی کال آئی تھی۔بہرحال جب پروفیسرانورپاشا صاحب کی کال آئی تواس وقت میں جنترمنترکے پاس دھون دیپ بلڈنگ میں ایک میٹنگ میں تھا۔میٹنگ سے شام 5 بجے فارغ ہوکر سیدھے جے این یوکے پروفیسر انورپاشاکے گھرگیاوہاں سے دونوں گڑگاواں کے لئے روانہ ہوگئے۔8 بجے رات میں جب ہم لوگ اسپتال پہنچے تووہ آئی سی یو میں بے ہوشی کے عالم میں تھے۔ان کی یہ حالت دیکھ کر بے حدتکلیف ہوئی۔ان کی اہلیہ صاحبہ نے بتایا کہ شکیل صاحب کو جب جب ہوش آتاتھا تب تب وہ آپ کو یاد کرتے تھے۔ان کی اہلیہ صاحبہ نے میرافون نمبرڈھونڈنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن میرانمبرانہیں نہیں ملا۔پھر ان کے بیٹے ڈاکٹررومی شکیل صاحب نے پروفیسرانورپاشاسے مجھے مطلع کروایا تھا۔ایک ہفتہ کے بعد شکیل الرحمٰن صاحب ہوسپیٹل سے اپنی بڑی بیٹی انجم شکیل کے گھرآگئے جوان کے پرانے گھرمدھوبن سے تھوڑی ہی دوری پرہے۔یہاں آکرانہوں نے کھاناپینابالکل چھوڑدیاتھا۔صرف liquid چیزیں لیتے تھے۔زیادہ ترلیٹے رہتے تھے اوربہت زیادہ سوتے تھے۔بہت کم باتیں کرتے تھے۔ایک دن شاہینہ باجی کافون آیا۔انہوں نے شکیل صاحب کے متعلق بتاتے ہوئے کہاکہ ہم لوگ چاہتے ہیں کہ آپ یہاں آئیے اوران سے باتیں کیجئے ۔ آپ سے باتیں کرکے وہ بہل جائیں گے۔میں دوسرے دن ہی ان کے گھرپہنچ گیااوردن بھران کے ساتھ رہا۔ حسب معمول بیچ بیچ میں وہ سوجاتے تھے لیکن عام دنوں کے مقابلے انہوں نے مجھ سے بہت باتیں کیں اوربہت خوش بھی ہوئے۔ہوسپیٹل سے آنے کے بعد اسی دن انہوں نے میرے ساتھ پہلی بارتین چار چمچ دال اورسبزی کے ساتھ چاول کھایا تھا۔ شام تک میں وہیں رہا اور انہیں بہلانے اورخوش رکھنے کی کوشش کی۔اسی دن انجم باجی اورشاہینہ باجی نے بتایاکہ 18 فروری کوشکیل صاحب کایوم پیدائش ہے۔ہم لوگ چاہتے ہیں کہ اس دن آپ ہم لوگوں کی طرف سے چندایسے لوگوں کویہاں آنے کی دعوت دیجئے جن سے مل کرانہیں بہت خوشی ہو۔میں نے دو تین لوگوں کو18 فروری کوان کے برتھ ڈے میں شریک ہونے کے لئے کہالیکن ورکنگ ڈے ہونے کی وجہ سے میرے اورحقانی القاسمی کے علاوہ کوئی نہیں آیا۔شکیل صاحب کو خوشی پہنچانے کے لئے ان کے اہلِ خانہ کے علاوہ حقانی القاسمی اورمیں ہی کافی تھے کیوں کہ وہ اپنے بیٹے، بیٹی اوراہلیہ کے بعد سب سے زیادہ شاید ہم ہی دونوں سے محبت کرتے تھے۔ بہرحال 18 فروری کو وہ بہت خوش تھے۔کیک بھی کاٹا اورکھانا بھی کھایا۔فوٹوگرافی بھی ہوئی۔شکیل الرحمٰن صاحب بے حد نازک مزاج اورحساس انسان تھے۔آخری دنوں میں وہ بالکل بچہ بن گئے تھے۔وہ ایک بچہ کی طرح سب کی توجہ attention چاہتے تھے۔ان کے بیٹے، دونوں بیٹیاں ،نواسی اور چھوٹے نواسے نے ان کے دل کوبہلانے اورانہیں خوش رکھنے کی ہمیشہ کوشش کی۔ان کے بڑے داماد ایک ڈاکٹر ہیں۔انہوں نے جس طرح سے ان کی خدمت کی اور ان کاخیال رکھا اتنا آج کے زمانے میں کسی کاسگابیٹابھی نہیں رکھتا۔شکیل صاحب سب سے زیادہ اپنی چھوٹی بیٹی شاہینہ شکیل کی بات مانتے تھے۔شاہینہ شکیل ماسکومیں رہتی ہیں لیکن جب جب انہوں نے اپنے والد کی طبیعت کی خبرسنی تب تب ماسکوسے ایسے تشریف لاتیں جیسے وہ اپنے والدکو دیکھنے کے لئے ماسکوسے نہیں بلکہ دہلی سے گڑگاؤں دوڑی ہوئی آرہی ہوں۔وہ ماسکومیں رہتی ضرورتھیں لیکن ان کی جان شکیل صاحب میں بستی تھی۔حیرت کی بات یہ ہے کہ شکیل صاحب کا کوئی اپنامکان نہیں تھا۔وہ جس ’مدھوبن‘ میں رہتے تھے وہ ان کی چھوٹی بیٹی شاہینہ باجی کامکان تھا،جسے انہوں نے اپنے والدین کے لئے خریداتھا۔
شکیل الرحمن صاحب کے قریب آنے کے بعد میں نے یہ بھی جاننے کی کوشش کی کہ انہیں ’’باباسائیں‘‘کیوں کہاجاتاہے؟شکیل الرحمٰن نے صرف یہ کہہ کرٹال دیاتھاکہ پاس پڑوس کے بچے مجھے کبھی بابا اورکبھی باباسائیں کہاکرتے تھے، اس لئے رفتہ رفتہ وہ باباسائیں ہوگئے۔لیکن ان کی زندگی کے چندواقعات جان کرمیں اس نتیجہ پرپہنچاکہ وہ سچ مچ ’’بابا‘‘یا ’’باباسائیں‘‘ہوگئے تھے۔ایک دفعہ انہوں نے ایک ایساواقعہ سنایاکہ اسے سن کرمیرے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔ بات چیت کے دوران انہوں نے بتایا کہ ایک دن انہوں نے خواب میں محمدؐ کودیکھااوریہ بھی دیکھاکہ سری نگرمیں حضرت بل اوریونیورسٹی کے کسی خاص راستے میں کسی جگہ پر ایک پتھرپڑاہوا ہے جسے ان کے لئے مکہ شریف سے بھیجاگیاہے۔ صبح ہوتے ہی اپنے شاگردپروفیسرمجیدمضمرصاحب کوفون کیااوراس پتھر کو ڈھونڈنے کے لئے کہا۔مجیدمضمر نے ان کی بتائی ہوئی جگہ پرجاکردیکھاتوسچ مچ وہاں ایک پتھرپڑاہواتھا جسے انہوں نے اپنے پاس محفوظ کرلیا اوربعدمیںباحفاظت شکیل الرحمن صاحب کے حوالہ کردیا۔ایک دفعہ مجھے اورحقانی القاسمی کواس پتھرکا دیداروضوکرنے کے بعد کرایاتھا۔ ایک دوسراواقعہ کشمیریونیورسٹی کے ایک استادڈاکٹرمشتاق حیدرنے بھی سنایاتھا۔وہ یہ کہ ایک دن شکیل الرحمن بار باراپنے گھرکادروازہ کھول کرباہردیکھتے تھے ایسامعلوم ہورہاتھا کہ وہ کسی کے آنے کاانتظارکررہے ہوں۔ جب ان کی اہلیہ صاحبہ نے بارباردروازہ کھول کرباہر دیکھنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ مجیدمضمرآنے والے ہیں۔ان کی اہلیہ نے پوچھاکہ کیاان کافون آیا تھایاکوئی خط آیاتھا یا آپ نے خواب دیکھاتھا؟شکیل صاحب نے بتایا کہ نہ فون آیاتھا، نہ خط آیاتھااورنہ خواب دیکھالیکن آج وہ آئیں گے ضرور۔ ٹھوڑی دیربعد جب انہوں نے دروازہ کھولاتودیکھاکہ سچ مچ مجید مضمرصاحب ان کے گھرکے باہرکادروازہ کھول کراندرآرہے تھے۔اس واقعہ کوجس نے بھی سنا حیران رہ گیا۔جب میں نے شکیل صاحب سے اس واقعہ کے متعلق پوچھاتو انہوں نے بتایا کہ یہ واقعہ صحیح ہے۔اس کے بعدمجھے یقین ہوگیاکہ چھوٹے اورمعصو م بچوں نے شکیل الرحمٰن صاحب کو’’باباسائیں‘‘یوں ہی کہنانہیں شروع کیاتھا۔کہاجاتاہے کہ بچے خداکا روپ ہوتے ہیں۔اس لئے ان کے منہ سے نکلی ہوئی بات اکثرسچ ہوجاتی ہے۔
شکیل صاحب تین یونیورسٹیوں کے وائس چانسلررہے اورمرکزی وزیرصحت بھی رہے لیکن ان کے پاس کوئی بینک بیلنس نہیں تھا۔دنیایہ سمجھتی تھی 267-A, South City-1 یعنی ’’مدھوبن‘‘ شکیل الرحمٰن صاحب کی اپنی کوٹھی ہے اوران کے پاس پیسوں کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن سچ یہ ہے کہ وہ نہایت ایماندار،شریف اورمعصوم شخصیت کے مالک تھے۔ان کے پاس بھلے ہی روپیے پیسے نہیں تھے لیکن وہ جمالیات کے شہنشاہ ضرور تھے۔انہوں نے اپنے لئے کسی محل کی تعمیرنہیں کرائی لیکن اردودنیاکے لئے جمالیات کا تاج محل ضرور بنادیاہے جوادب کی دنیامیں کسی عجوبہ سے کم نہیں ۔