May 28, 2023

شکیل الرحمٰن: کچھ یادیں اورکچھ باتیں

شکیل الرحمٰن کچھ یادیں اورکچھ باتیں

9 مئی 2016 کو تقریباً 11.30 بجے رات میں میرے موبائل کی گھنٹی بجی اور میں نے موبائل کی Display screen پرحقانی القاسمی کا نام دیکھا تو مجھے عجیب سی گھبراہٹ ہوئی کیوں کہ اتنی رات میں ان کا کال پہلے کبھی نہیں آیا۔گھبراتے ہوئے جیسے ہی میں نے ہلو بولا انہوں نے پوچھا’’کیا شکیل الرحمٰن صاحب کا انتقال ہوگیا؟ میں نے گھبراتے ہوئے کہا نہیں تو! آپ کو کس نے کہا؟حقانی بھائی نے کہا کہ میرے پاس راشٹریہ سہارا سے فون آیاتھا۔میری آوازبندہوگئی اورڈرائنگ روم کی تیزروشنی میں بھی اندھیراچھانے لگا اورمجھے محسوس ہونے لگاکہ دنیائے ادب سے جمالیات کاسورج ڈوب گیا۔میری بیوی نے کیا ہوا؟ کیا ہوا کہتے ہوئے میری طرف دوڑی اور مجھے پکڑکر سوفے پربیٹھادیااور پوچھتی رہی کہ کیاہوا ؟کس کا فون تھا؟ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے میں نے کہا ’’باباسائیں‘‘ چل بسے۔ میری بیوی کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کچھ وہ بھی بولناچاہتی تھی کچھ میں بھی کہناچاہتا تھا لیکن دونوں کی قوتِ گویائی کچھ لمحے کے لئے چلی گئی تھی۔مجھے یقین نہیں آرہاتھاکہ ایسا ہوا ہے اس لئے شک دورکرنے کے لئے میں نے پروفیسرانورپاشاکو فون کیا توانہوں نے کہاکہ ’’میں ابھی آپ کو فون لگارہاتھا۔ابھی تھوڑی دیرپہلے تقریباً 11 بجے شکیل صاحب کا گُڑگاؤں کے فورٹس ہوسپیٹل میں انتقال ہوگیا۔ ان کی میّت ہوسپیٹل کے مردہ گھرمیں رکھ دیا گیاہے۔ان کی چھوٹی بیٹی شاہینہ ماسکوسے آ رہی ہیں ،ان کے آنے بعد تدفین ہوگی ‘‘۔اب شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں تھی پھربھی میں بابائے جمالیات کے بیٹے ڈاکٹر رومی شکیل کو فون کیا۔ انہوں نے بھی وہی کہا جو انورپاشانے کہا تھا۔رومی بھائی سے میں شکیل الرحمٰن صاحب کے انتقال کی تفصیل پوچھنا چاہتاتھالیکن وہ صدمے میں تھے اس لئے کچھ بھی کہنے کی حالت میں نہیں تھے۔
میں ہرروز2 بجے سے 2.30 بجے رات تک پڑھتاہوں لیکن 9 مئی کی رات میرے لئے قیامت کی رات تھی پڑھناتودوربسترپرسونابھی محال ہوگیاتھا۔رات بھرعجیب وغریب کیفیت میں مبتلاتھا۔بسترپرلیٹاہواتھا۔کمرے میں اے سی بھی چل رہی تھی، بیڈروم کی فضابھی خوشگوارتھی لیکن میں عجیب وغریب کرب سے گزررہاتھا اورایک خلاسا محسوس ہورہاتھا۔شکیل صاحب کی باتوں اورملاقاتوں کا سلسلہ سیلاب کی طرح میری نظروں کے سامنے سے گزرنے لگااوریوں ہی پوری رات گزر گئی۔صبح اُٹھ کر 7.30 بجے سب سے پہلے شکیل صاحب کے ایک بے حد عزیزشاگرداورکشمیریونیورسٹی کے سابق استادپروفیسرنذیرملک صاحب کوفون کیا۔یہ منحوس خبرسن کروہ لگاتار اُف اُف…اُف کرتے رہے ۔نہ انہوں نے مزید کچھ سوال پوچھااورنہ میں نے کچھ کہا لیکن ہم دونوں کی خاموشی میں شکیل الرحمٰن صاحب سے ہمارے تعلقات اور یادوں کی پوری داستان کی گونج سنائی دے رہی تھی۔ہم نے کشمیریونیورسٹی کے کئی پروفیسروں، اردواکیڈمی، بہار کے سیکریٹری، مشتاق احمدنوری، پروفیسرجابرحسین اورآج کل کے مدیرابراررحمٰانی کو فون کرکے شکیل الرحمٰن صاحب کے متعلق اطلاع دی ۔ ان تمام حضرات کے ردِّ عمل سے معلوم ہورہاتھاکہ سب یہی کہہ رہے ہیں کہ’’مدتوں رویاکریں گے جام وپیمانہ تجھے‘‘۔میری ہمت نہیں ہورہی تھی کہ میں شکیل الرحمٰن صاحب کے گھر فون کرکے ان کے بیٹے، بیٹی اوراہلیہ سے بات کروں کیوں کہ ان سب کی جان شکیل الرحمٰن صاحب کے اندررہتی تھی۔اسی لئے میں پروفیسرانورپاشاسے بات کرکے تدفین سے متعلق تمام جانکاری حاصل کرتارہا۔ان کی سب سے چھوٹی بیٹی شاہینہ شکیل جوماسکومیں رہتی ہیں ، کی فلائٹ 12 مئی کو صبح 4 بجے آئی۔ ان کے آنے کے بعدصبح10 بج کر40 منٹ پر NCERT کے پاس اربندومارگ پرواقع ادھ چینی جامع مسجد کے داہینی طرف ایک قبرستان میں شہنشاہِ جمالیات کو سپردخاک کردیاگیا ۔اسی قبرستان کے پاس حضرت بابا فریدگنجِ شکرکے حقیقی بھائی کا بھی مزارہے۔ پاس ہی میں حضرت نظام الدین اولیا کی والدہ صاحبہ’’ مائی صاحبہ‘‘ کا بھی مزارہے۔
پروفیسرشکیل الرحمٰن صاحب کو میں 1980 سے جانتاہوں جب میں موتیہاری کے M.S (منشی سنگھ)کالج میں 11 ویںکلاس کاطالب علم تھا۔میں یہ میرے لئے باعثِ فخرہے کہ میں اسی شہر میں پیداہوا تھا جس شہرمیں پروفیسر شکیل الرحمٰن 18فروری 1931میں پیداہوئے تھے۔یہ وہی شہر ہے جہاں سے مہاتماگاندھی نے انگریزوں کے خلاف ’’انگریزوں بھارت چھوڑو‘‘آندولن شروع کیا تھا۔ یعنی موتیہاری،مشرقی چمپارن کا ہیڈکوارٹر(بہار)۔ انگریزی کامشہورِزمانہ ناول Nineteen eighty-four کامصنف George Orwellکی بھی جنم بھومی ہے۔میں اپنی اس سرزمین کو Salute کرتا ہوں جس نے ادب اور جمالیات کے آفتاب وماہتاب کوجنم دیا۔شکیل الرحمٰن صاحب کو میں پہلی بار 1980 سے 1981 کے درمیان M.S. کالج میں دیکھاتھا جب وہ بہار یونیورسٹی (مظفرپور)کے وائس چانسلربننے کے بعد موتیہاری M.S کالج میں تشریف لائے تھے۔چہرے پر شاہانہ شان عیاں تھی۔ان کے سر کے بال Era Victorian کے بادشاہوں کے بال کی طرح گھونگھرولے تھے۔شخصیت میں دلکشی کے ساتھ عجیب غریب رعب ودبدبہ کاگمان ہورہاتھا۔بولتے تھے تولگتاتھاکہ پھول جھڑرہے ہیں۔کالج کا کے Auditorium میں جب وہ طالب علموں سے خطاب کررہے تھے تب ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے تمام اساتذحضرات اور طالب علموں کی سیلاب اُمڑپڑی تھی۔امڑتی بھی کیوں نہیں شکیل الرحمٰن اسی شہرموتیہاری کے جونونہال تھے۔وہاں کا بچہ بچہ ان پرفخرمحسوس کرتاتھا۔
1980 کے بعد28 ستمبر2002 کی تاریخ میں لکھا ہواایک پوسٹ کارڈ مجھے اپنے کالج (ستیہ وتی کالج، دہلی یونیورسٹی، دہلی) میں ملاجس میں لکھاہواتھا
’’برادرم شیخ عقیل احمد صاحب ، سلامت رہئے۔آج ایوان اردوکاتازہ شمارہ ملا۔سب سے پہلے آپ کا مقالہ ’’جدیدنظمہیئتی وفنی تناظر‘‘پڑھا۔ کیوں پہلے پڑھامعلوم نہیں۔باقی مطبوعہ میںپڑھوں گا یانہیں معلوم نہیں۔مقالہ عمدہ اورمتوازن ہے، بات پیش کرنے کاسلیقہ کہاں سے ہاتھ آیاہے مجھے ضروربتائیے گا۔آپ کے پیش کئے ہوئے خیالات سے متفق ہوں۔سچ جانئے اتنا اچھا مقالہ پڑھ کرلگاواقعی آج کچھ پڑھ لیاہے۔اﷲآپ کوسلامت رکھیں۔اسی طرح غوروفکرکے بعدلکھتے جائیے اوراردوادب کومالامال کیجیے۔آپ کب سے لکھ رہے ہیں؟کیاکیالکھ رہے ہیں؟ کہاں کہاں چھپ رہے ہیں؟ مجھے بدقسمتی سے معلوم نہیں ہے۔جب وقت ملے’ باباسائیں‘ کوضروربتائیے کہ آپ نے اب تک کیاکیالکھاہے۔کچھ بھیجوائیے پڑھ کردعائیں دونگا۔میرا پتہ درج ہے۔فون نمبربھی۔خط مل جائے توفون ہی پررسیددے دیجئے گا۔دعاگو…باباسائیں‘‘۔
خط پڑھ کر پہلے تومیں پریشان ہوا کہ’’ باباسائیں‘‘ کون ہیں؟ لیکن جب پوسٹ کارڈ کی دوسری طرف اُلٹ کردیکھا تو پروفیسرشکیل الرحمٰن اورگھرکا پتہ و ٹیلی فون نمبرس بھی لکھے ہوئے تھے۔مجھے یقین نہیں ہورہاتھا کہ شہنشاہِ جمالیات پروفیسرشکیل الرحمٰن صاحب مجھ جیسے ادب کے ایک حقیرفقیر طالب علم کوخط بھی لکھ سکتے ہیں۔میں اس خط کو باربار پڑھتارہا اوراپنے تمام دوستوں کو بھی پڑھاتارہا۔اس خط میں کیا لکھاہوا ہے یہ میرے لئے اتنا اہم نہیں تھا لیکن میرے لئے یہ اہم ضرورتھا کہ اس خط کو بابائے جمالیات نے لکھاہے۔مجھے اس بات سے بھی خوشی تھی کہ پروفیسر شکیل الرحمٰن میرے ہم وطن ہیں اور ان کی شان میں قصیدے میں بچپن سے ہی سنتاآرہاہوں۔ اس لئے اس خط کومیں ایسے سنبھال کررکھتاتھاجیسے یہ ایک خط نہیں بلکہ کسی خزانے کی کنجی ہو۔ان سے بات کرنے اور ملنے کے لئے میں بے حد پرُجوش تھا۔اب میں یہ سوچنے لگا کہ میں ان کوپہلے فون کروں یا بغیرفون کئے ان کی خدمت میںحاضرہوجاؤں۔ یہی سوچتے سوچتے کئی دن گزرگئے لیکن ایک دن ڈرتے ڈرتے ان کو فون کر ہی دیا۔انہوں نے بے حدمحبت سے بات کی اورکہاکہ کسی دن مجھ سے وقت لے کرمیرے گھرآئیے۔میں نے حقانی القاسمی کوبھی یہ بات بتائی اور ان سے بھی شکیل صاحب کے گھر چلنے کے لئے کہا۔حقانی بھائی چلنے کے لئے فوراً تیار ہوگئے پھر شکیل الرحمٰن صاحب سے وقت لے کرایک دن ان کے گھرکے لئے ہم دونوں روانہ ہوگئے۔جب ہم لوگ راستے میں تھے تو شکیل الرحمٰن صاحب نے یہ دریافت کرنے کے لئے کہ ہم لوگ کہاں تک پہنچے کئی بار فون کیا۔ان کے گھر267-A, South City پہنچ کردیکھا کہ گھرکے باہر ’’مدھوبن‘‘ کاایک بورڈ لگاہوا ہے یعنی اپنے گھرکانام انہوں مدھوبن رکھاتھا۔ باہری دیوارکے کنارے ہرے ہرے پیڑ،پودے بیلیں لگی ہوئی تھیں ۔باہری دروازہ کھول کرجب لان میں داخل ہوا تودیکھاکہ چاروں طرف کنارے کنارے گملوں میں خوبصورت پودے لگے ہوئے ہیں اوراندرونی دروازے کے چاروں طرف کتابوں کی ڈھیرہے۔جب گھر کے اندر داخل ہوا تھا محسوس ہوا کہ سچ مچ میںکسی مدھوبن میں پہنچ گیاہوں۔ ان کاگھرچھوٹی لائبریری میں تبدیل ہوگیا تھا۔ہرجگہ کتابیں ہی کتابیں نظرآرہی تھیں۔ان کے گھرکے اندرزینے پر چاروں طرف کتابوں کی ڈھیرنظر آرہی تھی۔ شکیل الرحمٰن صاحب بے حدمحبت سے پیش آئے دوگھنٹوں تک باتیں کرتے رہے۔وہا ں سے دن کاکھاناکھانے کے بعدہم لوگ اپنے گھر واپس آئے۔ آتے وقت انہوں نے بطور تحفہ اپنی کئی کتابیں بھی ہملوگوں کو دی، جن میں کچھ کتابیں پوری اردودنیامیں مشہورہوچکی تھیں اورجنہیں میں کبھی حسرت بھری نظروں سے دیکھاکرتاتھا۔ان کتابوں میں سے کچھ کتابیں میں نے شکیل الرحمٰن صاحب کے اسکول کے زمانے کے ایک دوست اورراجیہ سبھاکے ممبر شمیم ہاشمی صاحب کے گھردیکھی تھی۔
اس ملاقات کے بعدشکیل الرحمٰن صاحب سے ملاقاتوں کا جوسلسلہ شروع ہواوہ مرتے دم تک قائم رہا۔2002 سے ان کے وفات کے ایک ہفتہ پہلے تک شایدہی ایساکوئی ایسا دن ہوجس دن ان سے فون پربات نہیں ہوئی ہو۔دو تین مہینے کے بعدان سے ملنے کے لئے میں ضرورجایاکرتاتھا۔میں جب بھی ان سے ملنے جاتاتھا توحقانی بھائی کوبھی ساتھ لے جانے کی کوشش کرتاتھا اوروہ اکثرمیرے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہوجاتے تھے۔شکیل الرحمٰن صاحب بھی چاہتے تھے کہ حقانی بھائی کومیں ہمیشہ ساتھ لے کرآؤں۔دورانِ گفتگوشکیل الرحمٰن صاحب نے کبھی بھی فضول کی کوئی بات نہیں کی۔ہمیشہ ادبی گفتگوکرتے تھے۔ہر ماہ سیکڑوں ادیبوں کی نئی کتابیں ان کے پاس آتی تھیں۔شکیل الرحمٰن صاحب ان میں سے بیشترکتابوں کامطالعہ کرتے تھے اورجب بھی میں ان سے ملتاتھاتو ان کتابوں کے مصنفین کے متعلق باتیں کرتے تھے اوراپنی رائے دیتے تھے۔اکثرنئے ادیبوں کی تعریف کرتے تھے لیکن صفِ اول کے ادیبوں اوران کی تخلیقات میں اگرکوئی کمی ہے توانہیں نہیں بخشتے تھے۔ان کا خیال تھا کہ صفِ اول کے زیادہ ترادیب تنقید اور جمالیات کی اصل روح کوسمجھنے سے بھی قاصرہیں۔
شکیل الرحمٰن کی کتاب ’’پریم چندفکشن کے فنکار‘‘کوپڑھنے کے بعد ایک دن اپنے تاثرات کااظہار کرتے ہوئے دوران گفتگوان سے کہاکہ آپ نے پریم چندکے متون کامطالعہ جس گہرائی میں اترکرکیا ہے اورتنقید کی جس بلندی پرپہنچ کراظہارخیال کیاہے یہ بڑے سے بڑے ناقد کے بس کی بات نہیں ہے۔میرے تاثرات سن کروہ بے حدخوش ہوئے اورکہاکہ جوکچھ آپ کہہ رہے ہیں اسے لکھ لائیے۔یہ کام میرے لئے بہت مشکل تھاکیوں کہ وہ بڑے بڑے ناقدین کوکبھی کبھی خاطرمیں نہیں لاتے تھے، میری حیثیت توصرف ایک معمولی طالب علم کی تھی۔میں نے ڈرتے ڈرتے ہاں کہہ دیا۔اس کے بعدپریم چند پرلکھی متعددکتابوں کامطالعہ کر کے چھ مہنے بعد پریم چندکے حوالے سے شکیل الرحمٰن پرتقریباً 25 صفحات کاایک مضمون لکھ کر ان کی خدمت میں پیش کیا۔اسے پڑھ کروہ خوشی سے رونے لگے۔انہیں دیکھ مجھے ایسالگا کہ یہ تین یونیورسیٹیوں کے VC اورمرکزی وزیرصحت رہے شخص یا بابائے جمالیات پروفیسرشکیل الرحمٰن نہیں ہیں یہ توانتہائی معصوم اورفرشتہ صفت ایک بچہ ہیں جوپروفیسر شکیل الرحمٰن کی صورت میں نظرآرہے ہیں۔بہرحال انہوں نے میرا مضمون پڑھ کر مجھے بہت دعائیں دی۔
اس مضمون کوپڑھ کردہلی یونیورسٹی کے ایک استاد ڈاکٹراحمدامتیاز اورکچھدوسرے لوگوں نے بھی کہا کہ آپ کے مضمون کو پڑھنے کے بعد شکیل الرحمٰن صاحب کی کتاب’’پریم چندفکشن کافنکار‘‘ پڑھناضروری ہوگیا ہے۔لیکن یہ کتاب بازارمیں موجود نہیں تھی۔جب میں نے اس کا ذکرشکیل الرحمٰن صاحب سے کیا توانہوں نے کہا کہ میں اس کا دوسراایڈیشن شائع کروادونگا اگر آپ اس کوایڈٹ کرنے کی ذمہ داری لے لیں ۔میں نے ہاں کہہ دیااور اس طرح اس کتاب کی دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہوگیا۔لیکن اس کا نام بدل کر’’شکیل الرحمٰن اورفکشن کے فنکارپریم چند‘‘رکھاگیا۔اس کتاب کا نام اس لئے بدل دیاگیا کہ اس کے آخری حصہ میں کئی ناقدین کے مضامین شکیل الرحمٰن اورپریم چند کے حوالے سے شامل ہیں۔
شکیل الرحمٰن صاحب نے ایک دن مجھے چاول کے بورے میں بھرکر اپنے شائع شدہ مضامین کی کٹنگ دی جن کی تعداد گنتی سے باہرتھی۔میں انہیں اپنے گھرلایا اور ان کی Classification کرنے بعد مہینوں مطالعہ کرتارہا۔ ان کے مضامین کوپڑھ کر نئے نئے I deasاپنے اندرنزول ہوتے ہوئے محسوس کرتاتھا۔ میں ان کے صرف ایک مضمون میں کئی دنوں تک کھویاہوارہتاتھا۔اس درمیان نہ کوئی دوسری کتاب یاکوئی دوسرا مضمون پڑھ پاتاتھاکیوں کہ میرے حواس پرصرف شکیل الرحمٰن صاحب کا مضمون چھایاہوارہتاتھا۔ مجھے ایسامحسوس ہوتا تھاکہ میں حقیقی دنیاکے بجائے کسی متبادل دنیامیں جی رہاہوں۔مجھے لگتاتھاکہ جس طرح تمام دیوتاؤں نے مل کر سمندرمنتھن کیاتھااور وِش اورامرت کوالگ الگ کرکے نکالا تھا اسی طرح شکیل الرحمٰن صاحب نے تنہا ادب کامنتھن کرکے جمالیات کے امرت کونکالاتھا۔جمالیات کے اُسی امرت کی روح افزا خوشبوان کے مضامین کوپڑھتے وقت محسوس ہوتاہے۔ان کے مضامین کی روشنی میں ایک مضمو’’شکیل الرحمٰن کی جمالیاتی بوطیقا‘‘کے عنوان سے لکھاجوکئی رسالوں میں شائع ہوچکاہے۔شکیل الرحمٰن صاحب نے اسے پڑھ کر بہت دعائیں دی اور گھرکے دوسرے افراد کوبھی پڑھایا۔اس کے بعدان کے مضامین میں سے کچھ مضامین جو مختلف اقسام کے قیمتی ہیرے اورجواہرات کے مانند تھے ، کوایڈٹ کرکے ایک کتاب’’ادب اورجمالیات‘‘شائع کرایاجس میں متذکرہ مضمون کچھ ترمیم واضافہ کے بعدمقدمہ کی صورت میں اس کتاب میں شامل ہے۔پروفیسروہاب اشرفی، پروفیسرسیدہ جعفر،پروفیسر وغیرہ کے علاوہ کئی ادیبوں نے فون کرکے اپنی پسندیدگی کااظہارکیا۔
شکیل الرحمٰن صاحب نے جن موضوعات پرمضامین لکھے تھے ان ہی موضوعات پرادب کے چانداورستارے کہے جانے و الے ادیبوں کی کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں جو میری نظرسے گزری ہیں۔میں شکیل الرحمٰن صاحب کے مضمون سے جب ان کتابوں کامقابلہ کرتاہوںتومجھے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ایک مضمون دوسروں کی پوری کتاب پربھاری ہے۔دراصل شکیل الرحمٰن کی زندگی کا بیشترحصہ کشمیرکی وادیوں میں کزراہے۔ واضح رہے کہ سنسکرت کے مہاکوی کالی داس سمیت سنسکرت کے بیشترآچاریوں کاتعلق کشمیرسے ہی رہاہے۔ کشمیرکے غاروں میں وہاں کے رشیوں، منیوں اور صوفیوں کے علاوہ سنسکرت آچاریوں نے بھی سادھنااوردبیہ شکتی سے علم حاصل کی اورعلم کی روشنی سے ساری دنیاکومنورکردیا۔شکیل الرحمٰن نے بھی کشمیری آچاریوں کے نقشہ قدم پرچل کر کشمیریونیورسٹی کی لائبریری میں رکھی سنسکرت جمالیات کی تمام گرنتھوں کابرسوں مطالعہ کیااورجمالیات کے سمندرمیں ڈوب کرجمالیات کے ایسے ایسے آبدارموتیوں کونکالا اورکئی ہزارصفحات پرمشتمل اپنی تخلیقات میں ان موتیوں کوایسے ضم کردیا جس کی روشنی کی تاب لانا بڑے سے بڑے ادیبوں کے بس کی بات نہیںہے۔مختصریہ کہ بابائے جمالیات پروفیسرشکیل الرحمٰن نے اردوادب کو جمالیات کا تاج محل دیاہے۔شکیل الرحمٰن نے اردو تنقید کی عام ڈگر سے ہٹ کرنیاراستہ تعمیر کیا ہے۔ان کی تنقید عام روایتی اور کھردری تنقید نہیں ہے بلکہ ایک اعلیٰ پایہ کی تخلیقی تنقید ہے جوآنے والی نسلوں کے لیے سوچ کے نئے انداز اوراسلوب کی شگفتگی کی زندہ رہنے والی مثال ہے۔شکیل الرحمٰن کی جمالیاتی تنقید کی کہانی فانٹاسی اور اساطیر کی جمالیات سے شروع ہوتی ہے اور کلاسیکی ادب کے مطالعہ سے ہوتے ہوئے جدید ادب تک پہنچ جاتی ہے۔اس دائرے میں سبھی آجاتے ہیں۔وہ مولانارومی، حافظ شیرازی،مرزا بیدل اور حضرت امیرخسرو ہوں یا کبیر،نظیر،محمد قلی قطب شاہ، میر اور غالب ۔وہ امیر ہمزہ کی داستان ہویا اقبال، ابوالکلام آزاد، پریم چند،منٹو اور احمد ندیم قاسمی۔داستانوں کی فنٹاسی اور رومانیت سے ہندوستان کے نظام جمال اور ہندوستانی جمالیات اور ہنداسلامی جمایات تک بہت بڑا سفر کیا ہے۔فیض احمد فیض اور اخترالایمان بھی ان کے ایسے موضوعات رہے ہیں کہ ان کے جمالیات کا مطالعہ منفرد ہے۔شکیل الرحمٰن کی زندگی کے حالات کے مطالعہ کے لیے’ آشرم‘، ’دربھنگے کا جو زکر کیا‘اور’ ایک علامت کا سفر‘، سفرناموں کے مطالعہ کے لیے ’قصّہ میرے سفر کا‘،’لندن کی آخری رات‘، اور ’دیوار چین سے بت خانۂ چین تک‘اچھی مثالیں ہیں۔ شکیل الرحمٰن اپنے عہد کے سب سے بڑے ناقدتھے۔اس دور کے سب سے بڑے غالب شناس اور منٹو شناس تھے۔ان کا قول ہے ’’غالب دنیا کے سب سے بڑے شاعر ہیں اور منٹو دنیا کے سب سے بڑے افسانہ نگار‘۔‘
شکیل الرحمٰن نے ابتدائی زمانے میں پچاس سے زیادہ اسٹیج اورریڈیائی ڈرامے بھی لکھ چکے ہیں جن میں بہادرشاہ ظفر،تلاش، لہوکے رنگ،فصلِ گل آئی، سلطان زین العابدین،پھول کی خوشبو، پرچھائیں،واپسی، دوبالیاں گیہوں کی،اندر کا آدمی، آنگن،سانپ کے رقص کے بعد، شکورداد،تابوت،رات کا سورج، کالے پتھرکالہو،لالہ رُخ، گھٹن،پرانی حویلی، جنگل کاچہرا،نیاجنم، دلّی،دل کا سمندرگہرا،پتھرکادل،پیاس سمندرکی، مٹی کی مہک،ڈاک بنگلہ، پتھرکاچاند،زخمی پرندہ، تیسری آنکھ،باٹی بابا اورایک چہراپرچھائیں کاوغیرہ قابل ذکرہیں۔شکیل الرحمٰن کی ادبی خدمات کے لئے انہیںاحمد ندیم قاسمی ایوارڈ،(پاکستان)، غالب ایوارڈ، ادبی ایوارڈ، حالی ایوارڈ،بہاراردواکیڈمی ایوارڈوغیرہ سے نوازاجاچکاہے۔
شکیل الرحمٰن کی ابتدائی تعلیم موتیہاری میں ہوئی تھی اوربی اے، ایم اے، اور پی ایچ ڈی کی ڈگری پٹنہ یونیورسٹی سے حاصل کی تھی۔لیکن نوکری کی باقائدہ شروعات کشمیر یونیورسٹی سے کی۔ اگر یہ کہا جائے کہ تو غلط نہیں ہوگا کہ کشمیر ہی شکیل الرحمٰن کا میدان عمل تھا۔ شعبۂ اردو کشمیر یونیورسٹی کے بانی ہونے کے ساتھ ساتھ صدرشعبۂ اردو، ڈین آرٹس فیکلٹی، ڈین، فیکلٹی آف اورینٹل اسٹڈیز،چیرمن / ڈائرکٹرسینٹرآف سینٹرل ایشین اسٹڈیزبھی رہے۔کچھ دنوں کے لئے اسی یونیورسٹی کے وائس چانسلربھی رہے۔کشمیریونیورسٹی کے شعبۂ اردوکواپنے خون جگرسے سینچ کراس لائق بنایاکہ اردودنیایہاں کے شعبۂ اردوکوفخرکی نظرسے دیکھتی ہے۔یہاں کی باوقاراقبال اکیڈمی بھی شکیل الرحمٰن صاحب نے ہی قائم کیاتھا۔شعبۂ اردوکشمیریونیورسٹی کے کئی شہرت یافتہ اساتذہ نے شکیل الرحمٰن صاحب کی زیرنگرانی پی ڈی کی تھی۔ شکیل الرحمٰن نے کشمیریونیورسٹی چھوڑنے کافیصلہ اس وقت کیاجب انہیں بہاریونیورسٹی کا وائس چانسلربنادیاگیا۔لیکن شکیل الرحمٰن صاحب نے کشمیریونیورسٹی چھوڑنے کافیصلہ بہت بھاری من سے کیاتھا۔کشمیریونیورسٹی سے جب واپس آنے لگے تب ان کے تقریباًپچاس- ساٹھ طالب علم ان کورخصت کرنے کے لئے سری نگرکے ایئرپورٹ تک آئے تھے جن کی قیادت ڈاکٹرحمید اﷲبھٹ ( NCPUL کے سابق ڈائرکٹر) نے کی تھی۔ایئرپورٹ کی سیکوریٹی آفیسرس ان کے طالب علموں کو اندرجانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے لیکن انہیں جب سمجھایا گیاکہ یہ طالب علم اپنے استادکواندرجاکررخصت کئے بغیرواپس نہیں جائیں گے اورانہیں یہ بھی بتایاگیاکہ اندرکاکریہ کوئی ایسیویسی حرکت نہیں کریں جس سے کسی کوئی نقصان ہو۔ تب انہیں اندرجانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔اندرجاکریونیورسٹی کے تمام طالب علم پُرنم آنکھوں سے اپنے ہردل عزیزاستاد کورخصت کیا۔یہ واقعہ کوسناکرشکیل الرحمٰن صاحب جذباتی ہوجایاکرتے تھے اور کہتے تھے کہ کشمیرسے ان کا رشتہ تاقیامت رہے گا کیوں کہ کشمیرسے انہیں جوعزت اورمحبت ملی ہے اسے کبھی بھلانہیں پائیں گے۔ کشمیرنے ہی انہیں شکیل ارحمٰن سے بابائے جمالیا ت بنایا اور ان کے ایک بیٹے معصوم شکیل بھی سری نگر کے قبرستان میں دفن ہیں۔ میرے ایک استاد محترم ڈاکٹر شریف احمد نے بتایا تھا کہ ان کے بیٹے معصوم شکیل کا نوعمری میں جب انتقال ہواتھا تو وہ اس وقت شعبۂ اردومیں ہی استاد تھے۔بیٹے کے انتقال کے بعد شکیل الرحمٰن صاحب شیشہ کی طرح ٹوٹ کربکھر گئے تھے۔لیکن خدا نے ان کو صبرجمیل عطا کی اورآہستہ آہستہ خود کو پڑھنے لکھنے میں مصروف کرلیا۔
ایک دن شکیل الرحمٰن صاحب کافون آیااور حکم دیاکہ حقانی القاسمی کولے کر گھرآئیے۔ میں حقانی بھائی کولے کرجب ان کے گھرحاضرہوا توانہوں ہم دونوں کو ایک کتاب’’محمدداراشکوہ‘‘ دی۔ ہم نے ان کاشکریہ اداکیا اوراس کتاب کے اوراق الٹ الٹ کردیکھنے لگے۔کچھ دیربعدانہوں نے کہا کہ پہلے اس کتاب کے ابتدائی صفحات دیکھئے اس کے بعدگھرجاکرپوری کتاب پڑھتے رہئے۔ابتدائی صفحات پرنظردوڑاتے ہوئے جب میری نظرانتساب والے صفحہ پرپڑی توہم دونوں حیران رہ گئے۔کبھی اس صفحہ کی طرف دیکھتاتوکبھی شکیل الرحمٰن صاحب کی طرف ۔سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ کس طرح اپنے جذبات کااظہارکریں لیکن شکیل صاحب سمجھ گئے کہ ہم دونوںکے چہروں پرجو کیفیت مرتب ہورہی ہے اس میں لکھاہوا ہے کہ ’’ہرمومرے بدن پرزبانِ سپاس ہے۔‘‘ انتساب کے صفحہ پر لکھاہوا تھا
’’نئی نسل کے صاحبِ قلم نقادحقانی القاسمی اورڈاکٹرشیخ عقیل احمدکے نام جن کی سچی چاندی کی مانندادبی تنقیدپسندکرنے والوں کاحلقہ انشاء اﷲتیزی سے بڑھتاہی جائے گا! بڑی بات یہ ہے کہ دونوں کی پہچان بین الاقوامی سطح پرہونے لگی ہے۔……اوراپنے دوپیارے شاگردوں پروفیسرنذیرعنایت ملک اورپروفیسرعبدالمجیدمضمرکے لیے جنہوں نے میرے بعد شعبۂ اردوکشمیریونیورسٹی کے وقار کوصرف قائم ہی نہ رکھا بلکہ اسے بلند بھی کیاہے!……باباسائیں۔
شکیل الرحمٰن صاحب پچھلے دو تین سالوں سے اپنی نجی لائبریری کی حفاظت کے لئے کافی فکرمندتھے۔وہ چاہتے تھے کہ ان کی تمام کتابیں کسی یونیورسٹی کی لائبریری میں پہنچا دی جائیں تاکہ ان سے ریسرچ اسکالرس استفادہ کرسکیں۔انہوں نے جامیہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی اور اردویونیورسٹی حیدرآباد کے استادوں سے اس سلسلے میں بات بھی کی تھی لیکن کسی نے بھی اس کام میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ میں نے بھی اس سلسلے میں پروفیسر ظفرالدین صاحب سے گذارش کی تھی کہ وہ شکیل الرحمٰن صاحب کی نجی لائبریری میں جوکتابیں ہیں انہیںاپنی یونیورسٹی کی لائبریری میں رکھوا دلیں اور شکیل الرحمٰن گوشہ قائم کردیں۔انہوں نے کہا کہ یہ ممکن ہے لیکن ان کتابوں کی ایک فہرست بنواکرمجھے دیجئے اس کے بعد میں VC سے اجازت لے کراپنی لائبریری میں رکھوا دونگا لیکن شکیل الرحمٰن صاحب کے لئے ان کتابوں کی فہرست بنواناممکن نہیں تھا۔میں اندر ہی اندر سوچتا تھا کہ کاش شکیل الرحمٰن صاحب اپنی کتابوں میں چندکتابیں مجھے دی دیتے لیکن میری ہمت نہیں ہوتی تھی کہ میں اپنے دل کی بات ان سے کہوں۔تقریباًایک سال بعد ایک دن صبح 9 بجے ان کافون آیا۔کہنے لگے کہ میں نے خواب میں دیکھاہے کہ صرف آپ ہی ہیں جومجھ سے صحیح معنو میں محبت کرتے ہیں اور میری تمام کتابوں کے صحیح حقداربھی آپ ہی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ جمالیاتی مطالعہ کوآگے بڑھائیں گے اورجو لوگ مجھ پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں ان کی مدد کریں گے اور مجھ پرمزید ریسرچ کروائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں نے جب اپنے اہلِ خانہ سے اس سلسلے میں بات کی توسبھی نے میری باتوں کی تائیدکی ۔مجھے پوری امید ہے کہ آپ میری کتابوں کوبے حد عزیزرکھیں گے اورجوکوئی ان کتابوں سے استفادہ کرناچاہے گا توآپ ان کو استفادہ کرنے دیں گے۔انہوں نے خواہش ظاہرکی کہ جن Book Shelves میں ان کی دی ہوئی کتابیں رکھی جائیں ان میں شکیل الرحمٰن collection کا اسٹیکرس بھی لگا دیئے جائیں۔شکیل الرحمٰن صاحب کی اس پیش کش سے میری خوشی کاکوئی ٹھکانانہیں رہا۔اپنے گھر کی چھت پر میں نے دو بڑے بڑے کمرے بنوائے تھے جن میں ایک مہمانوں کے لئے ہے اور دوسرے میں میری نجی لائبریری ہے۔اس لائبریری میں میری نجی کتابوں کے Collection کے علاوہ استادِ محترم مغیث الدین فریدی کی نجی لائیبریری کی کئی نایاب کتابیں بھی ہیں۔اسی لائبریری میں میں نے تین اور الماریاں خریدکررکھ دیں۔ اس کے بعد شکیل الرحمٰن صاحب کی تمام کتابوں کو ایک بڑی گاڑی میں بھرکر لایا جواب میری لائبریری کی زینت ہیں۔ان کتابوں میں مختلف موضوعات پر کئی نایاب کتابیں ہیںجنہیں پاکرمیں خود کو دنیاکاسب سے امیرانسان سمجھتاہوں۔میں ان کے خوابوں کوپوراکرنے کی کوشش کرتا ہوں اورآئندہ بھی کوشش کرتارہوں گا۔مجھے خوشی ہے کہ کشمیریونیورسٹی سے ایک ریسرچ اسکالرمسرت جان نے ایک ماہ پہلے ’’شکیل الرحمٰن اورجمالیاتی تنقید ‘‘پراپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کرجمع کردیاہے۔جمو یونیورسٹی میں بھی ان کتاب ’’آشرم‘‘پر ایک ایم فل کا مقالہ لکھاجارہاہے۔پاکستان کی یونیورسٹیوں میں بھی شکیل الرحمٰن صاحب پرریسرچ کرانے کی بات چل رہی ہے۔ایک ماہ کے اندرایک یونیورسٹی میں ان پرریسرچ کے لئے Registration ہوجائے گا۔
شکیل الرحمٰن صاحب سے وابستہ یادیں توبہت ہیں جنہیں ایک چھوٹے سے مضمون میں سمیٹنا ممکن نہیں ہے۔اس کے لئے ایک کتاب لکھنے کی ضرورت پڑے گی۔ پھربھی چند یادوں کاذکرضروری ہے۔ مثلاً پچھلے سال جنوری 2015 میں ایک دن پروفیسرانورپاشاکافون آیا۔انہوں نے بتایاکہ شکیل الرحمٰن صاحب کی طبیعت بہت خراب ہے اورانہیں ہوسپیٹل میں داخل کرایاگیاہے۔مجھے پہلے سے اندازہ تھاکہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے کیوں دو تین دنوں سے جب ان کا فون نہیں آیا تومیں نے ان کے گھران کی خیریت دریافت کرنے کے لئے فون کیا تھالیکن کسی نے میراکال Receive نہیں کیاتھا۔ جب میں نے ان کے بیٹے رومی شکیل کوفون کیا تو ان کی اہلیہ صاحبہ نے فون اٹھایا لیکن انہوں نے ان کی خیریت بتانے کے بجائے یہ کہا کہ رومی صاحب کو بتادونگی کہ آپ کال آیا تھا۔بہرحال جب پروفیسرانورپاشا صاحب کا کال آیا تواس وقت میں جنترمنترکے پاس دھون دیپ بلڈنگ میں ایک مٹنگ میں تھا۔مٹنگ سے شام 5 بجے فارغ ہوکر سیدھے JNU پروفیسرانورپاشاکے گھرگیاوہاں سے دونوں گڑگاواں کے لئے روانہ ہوگئے۔8 بجے رات میں جب ہملوگ ہوسپیٹل پہنچے تووہ آ سی او میں بے ہوشی کے عالم تھے۔ان کی یہ حالت دیکھ کر بے حدتکلیف ہوئی۔ان کی اہلیہ صاحبہ نے بتایا کہ شکیل صاحب کو جب جب ہوش آتاتھا تب تب وہآپ کو یاد کرتے تھے۔ان اہلیہ صاحبہ نے میرافون نمبرڈھونڈنڈنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن میرانمبرانہیں نہیں ملا۔پھر ان کے بیٹے ڈاکٹررومی شکیل صاحب نے پروفیسرانورپاشاسے مجھے مطلع کرواتھا۔ایک ہفتہ کے بعد شکیل الرحمٰن صاحب ہوسپیٹل سے اپنی بڑی بیٹی انجم شکیل کے گھرآگئے جوان کے پرانے گھرمدھوبن سے تھوڑی ہی دوری پرہے۔یہاں آکرانہوں نے کھاناپینابالکل چھوڑدیاتھا۔صرف liquid چیزیں لیتے تھے۔زیادہ ترلیٹے رہتے تھے اوربہت زیادہ سوتے تھے۔بہت کم باتیں کرتے تھے۔ایک دنشاہینہ باجی کافوں آیا۔انہوں نے شکیل صاحب کے متعلق بتاتے ہوئے کہاکہ ہم لوگ چاہتے ہیں کہ آپ یہاں آئیے اوران سے باتیں کیجئے ۔ آپ سے باتیں کرکے وہ بہل جائیں گے۔میں دوسرے دن ہی ان کے گھرپہنچ گیااوردن بھران کے ساتھ رہا۔وہ حسب معمول بیچ بیچ میں وہ سوجاتے تھے لیکن عام دنوں کے مقابلے انہوں نے مجھ بہت باتیں کی اوربہت خوش بھی ہوئے۔ہوسپیٹل سے آنے کے بعد اسی دن انہوں نے میرے ساتھ پہلی بارتین چار چمچ دال اورسبزی کے ساتھ چاول کھایا تھا۔ شام تک میں وہیں رہا اور انہیں بہلانے اورخوش رکھنے کی کوشش کی۔اسی دن انجم باجی اورشاہینہ باجی نے بتایاکہ 18 فروری کوشکیل صاحب کایوم پیدائش ہے۔ہم لوگ چاہتے ہیں کہ اس دن آپ ہملوگوں کی طرف سے چندایسے لوگوں کویہاں آنے کی دعوت دیجئے جن سے مل کرانہیں بہت خوشی ہو۔میں نے دو تین لوگوں کو18 فروری کوان کے برتھ ڈے میں شریک ہونے کے لئے کہالیکن ورکنگ ڈے ہونے کی وجہ سے میرے اورحقانی بھائی کے علاوہ کوئی نہیں آیا۔شکیل صاحب کو خوشی پہنچانے کے لئے ان کے اہلِ خانہ کے علاوہ حقانی بھائی اورمیں ہی کافی تھاکیوں کہ وہ اپنے بیٹے، بیٹی اوراہلیہ کے بعد سب سے زیادہ شاید ہم ہی دونوں سے محبت کرتے تھے۔ بہرحال 18 فروری کو وہ بہت خوش تھے۔کیک بھی کاٹا اورکھانا بھی کھایا۔فوٹوگرافی بھی ہوئی۔شکیل الرحمٰن صاحب بے حد نازک مزاج اورحساس انسان تھے۔آخری دنوں میں وہ باکل بچہ بن گئے تھے۔وہ ایک بچہ کی طرح سب کی توجہہ attention چاہتے تھے۔ان کے بیٹے، دونوں بیٹیاں ،نواسی اور چھوٹے نواسے نے ان کے دل کوبہلانے اورانہیں خوش رکھنے کی ہمیشہ کوشش کی۔ان کے بڑے داماد ایک ڈاکٹر ہیں۔انہوں نے جس طرح سے ان کی خدمت کی اور ان کاخیال رکھا اتنا آج کے زمانے میں کسی کاسگابیٹابھی نہیں رکھتا۔شکیل صاحب سب زیادہ اپنی چھوٹی بیٹی شاہینہ شکیل کی بات مانتے تھے۔شاہینہ شکیل ماسکومیں رہتی ہیں لیکن جب جب انہوں نے اپنے والد کی طبیعت کی خبرسنی تب تب ماسکوسے ایسے تشریف لاتیں جیسے وہ اپنے والدکو دیکھنے کے لئے ماسکوسے نہیں بلکہ دہلی سے گڑگاؤں دوڑی ہوئی آرہی ہوں۔وہ ماسکومیں رہتی ضرورتھیں لیکن ان کی جان شکیل صاحب میں بستی تھی۔حیرت کی بات یہ ہے کہ شکیل صاحب کا کوئی اپنامکان نہیں تھا۔وہ جس مکان یعنی مدھوبن میں رہتے وہ ان کی چھوٹی بیٹی شاہینہ باجی کامکان تھاجسے انہوں نے اپنے والدین کے لئے خریداتھا۔
شکیل صاحب تین یونیورسٹیوں کے وائس چانسلررہے اورمرکزی وزیرصحت بھی رہے لیکن ان کے پاس کوئی بینک بیلنس نہیں تھا۔دنیایہ سمجھتی تھی 267-A, South City-1 یعنی ’’مدھوبن‘‘ شکیل الرحمٰن صاحب کی اپنی کوٹھی ہے اوران کے پاس پیسوں کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن سچ یہ کہ وہ نہایت ایماندار،شریف اورمعصوم شخصیت کے مالک تھے۔ان کے پاس بھلے ہی روپیے پیسے نہیں تھے لیکن وہ جمالیات کے شہنشاہ ضرور تھے۔انہوں نے اپنے لئے کسی محل کی تعمیرنہیں کرائی لیکن اردودنیاکے لئے جمالیات کا تاج محل ضرور بنادیاہے جوادب کی دنیامیں کسی عجوبہ سے کم نہیں ہے۔
دراصل شکیل الرحمٰن زمانۂ طالب علمی سے بے پناہ تخلیقی صلاحیت کے مالک تھے۔جب وہ موتیہاری کے گوپال سنگھ ہائی اسکول کے طالب علم تھے توڈرامے کے تخلیق کاراورفنکاربھی تھے۔ ان کے ایک دوست مرحوم شمیم ہاشمی صاحب نے ایک دفعہ بتایا تھاکہ شکیل صاحب کے لکھے ہوئے ایک ڈرامہ میں انہوں نے ان کی چھوٹی بہن کاکردارنبھایاتھا۔شکیل الرحمٰن صاحب نے انہیں دنوں پچاس ڈراموں کی تخلیق کی تھی۔انہوں یہ بھی نے بتایا تھاکہ شکیل صاحب موتیہاری میں دعوت کھانے اورکھلانے کے بہت شوقین تھے۔ان کے والد محترم خان بہادر محمدجان انگریزوں کے زمانے کے نامی گرامی وکیل تھے۔ان کے ایک چاچا انگوٹھے کی نشان کے مشہورومعروف پارکھ تھے۔ شکیل الرحمٰن صاحب کے دادا ہندوستان کے پہلے صدرجمہوریہ ڈاکٹرراجندرپرشاد کے سگے چچازادبھائی تھے۔شکیل الرحمٰن صاحب کاآبائی گھرموتیہاری میں اردولائبریری روڈ میں آج بھی موجودہے جس کے ایک حصہ میں ان کے چچازادبھائی اوراردوکے استاد پروفیسرفیروزمحمدجان رہتے ہیں۔
شکیل الرحمٰن صاحب کے قریب آنے کے بعد میں نے یہ بھی جاننے کی کوشش کی کہ انہیں ’’باباسائیں‘‘کیوں کہاجاتاہے؟شکیل الرحمٰن نے صرف یہ کہہ کرٹال دیاتھاکہ پاس پڑوس کے بچوں نے مجھے کبھی بابا اورکبھی باباسائیں کہاکرتے تھے، اس لئے رفتہ رفتہ وہ باباسائیں ہوگئے۔لیکن ان کی زندگی کے چندواقعات جان کرمیں اس نتیجہ پرپہنچاکہ وہ سچ مچ ’’بابا‘‘یا ’’باباسائیں‘‘ہوگئے تھے۔ایک دفعہ انہوں نے ایک ایساواقعہ سنایاکہ اسے سن کرمیرے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔ بات چیت کے دوران انہوں نے بتایا کہ ایک دن انہوں خواب میں محمدﷺکودیکھااوریہ بھی دیکھاکہ سری نگرمیں حضرت بل اوریونیورسٹی کے کسی خاص راستے میں کسی جگہ پر ایک پتھرپڑاہوا ہے جسے ان کے لئے مکہ شریف سے بھیجاگیاہے۔ صبح ہوتے ہی اپنے شاگردپروفیسرمجیدمضمرصاحب کوفون کیااوراس پتھرکوڈھونڈنے کے لئے کہا۔مجیدمضمرصاحب ان کے بتائے ہوئے جگہ پرجاکردیکھاتوسچ مچ وہاں ایک پتھرپڑاہواتھا جسیانہوں نے اپنے پاس محفوظ کرلیا اوربعدمیںباحفاظت شکیل الرحمٰں صاحب کے حوالہ کردیا۔ایک دفعہ مجھے اورحقانی بھائی کواس پتھرکا دیداروضوکرنے کے بعد کرایاتھا۔ ایک دوسراواقعہ کشمیریونیورسٹی کے ایک استادڈاکٹرمشتاق حیدرنے بھی سنایاتھا۔وہ یہ کہ ایک دن شکیل الرحمٰن صاحب بار باراپنے گھرکادروازہ کھول کرباہردیکھتے تھے ایسامعلوم ہورہاتھا کہ وہ کسی کے آنے کاانتظارکررہے ہوں۔ جب ان کی اہلیہ صاحبہ نے بارباردروازہ کھول کرباہر دیکھنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ مجیدمضمرآنے والے ہیں۔ان کی اہلیہ نے پوچھاکہ کیاان کافون آیا تھایاکوئی خط آیاتھا یا آپ نے خواب دیکھاتھا؟شکیل صاحب نے بتایا کہ نہ فون آیاتھا، نہ خط آیاتھااورنہ خواب دیکھالیکن آج وہ آئیں گے ضرور۔ ٹھوڑی دیربعد جب انہوں نے دروازہ کھولاتودیکھاکہ سچ مچ مجید مضمرصاحب ان کے گھرکے باہرکادروازہ کھول کراندرآرہے تھے۔اس واقعہ کوجس نے بھی سنا حیران رہ گیا۔جب میں نے شکیل صاحب سے اس واقعہ کے متعلق پوچھاتو انہوں نے بتایا کہ یہ واقعہ صحیح ہے۔اس کے بعدمجھے یقین ہوگیاکہ چھوٹے اورمعصو م بچوں نے شکیل الرحمٰن صاحب کو’’باباسائیں‘‘یوں ہی کہنانہیں شروع کیاتھا۔کہاجاتاہے کہ بچے خداکی روپ ہوتے ہیں۔اس لئے ان کے منہ سے نکلی ہوئی بات اکثرسچ ہوجاتی ہے۔

Prof. Shaikh Aquil Ahmad

author_name

author_bio

I am a heading

If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.

  • This is a list item.
  • This is a list item.
  • This is a list item.

No spam, ever.