سب سے پہلے میں آئیڈیا کمیونی کیشنز کے ڈائرکٹر آصف اعظمی کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ انھوں نے مجھے ایک ایسے شاعر کے شعری مجموعے کے اجرا کی تقریب میں مدعو کیا جس کا تعلق گوکہ ہندوستان سے ہے مگر وہ دیارِ غیر میں اردو شعر و ادب کا چراغ روشن کررہے ہیں۔ اردو سے ان کا مفاد یا ان کی کوئی منفعت وابستہ نہیں ہے بلکہ اس زبان سے ایک غیرمشروط محبت ہے، ایک جذباتی رشتہ ہے اپنی زبان اور تہذیب سے، اسی لیے اپنی مٹی اور ملک سے دور رہ کر اس زبان کا پرچم لہرا رہے ہیں جو گنگا جمنی تہذیب کی ایک روشن علامت ہے اور شاید اس زبان سے محبت ہی کا جذبہ ہے کہ وہ دوحہ قطر میں ادبی تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں اور اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر اردو زبان و ادب کے گیسو بھی سنوار رہے ہیں۔ ان کا امتیاز یہ نہیں ہے کہ وہ شاعر ہیں بلکہ انھوں نے ہندوستان کی نمائندہ اور معتبر شخصیات کے حوالے سے بہت اہم کام بھی انجام دیے ہیں جن میں ’فراق گورکھپوری شخصیت ، شاعری اور شناخت‘، ’عرفان صدیقی حیات، خدمات اور شعری کائنات‘، ’آنند نرائن ملا شخصیت اور فن‘ ، ’پنڈت برج نرائن چکبست‘ اور سالانہ کتابی سلسلہ ’دستاویز‘ کی ادارت بھی قابل ذکر ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ عزیز نبیل اردو کے سچے عاشق ہیں اور اپنے عشق کا اظہار مختلف حوالوں سے کرتے رہے ہیں۔ عشق کا ایک حوالہ اردو شاعری بھی ہے۔ بہت پہلے ان کی تخلیقی جستجو کا نقشِ اوّل ’خواب سمندر‘ کے عنوان سے سامنے آیا تھا جس کی علمی اور ادبی حلقوں میں خاطرخواہ پذیرائی ہوئی اور اس کتاب کے حوالے سے کافی تنقیدی گفتگو بھی ہوئی۔ زیادہ تر لوگوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ عزیز نبیل کی صورت میں اردو شاعری کو ایک نئی آواز نصیب ہوئی ہے جس کے یہاں تازگی ہے، ندرت ہے ، تنوع ہے ، نئی لفظیات، نئے تلازمے ہیں، نیا طرزِ احساس ہے۔ ظاہر ہے کہ جس شاعر کے یہاں اتنی ساری خوبیاں ہوں اس کو کوئی بھی نظرانداز نہیں کرسکتا۔اس کے تخلیقی تجربے کی ستائش ہر سطح پر اور ہر گروہ کے ذریعے ہوتی ہے۔ عزیز نبیل بھی انہی شاعروں میں ہیں جنھیں ہر طبقے میں مقبولیت و عزت حاصل ہے۔ جہاں تک ان کی شاعری کا سوال ہے تو شمس الرحمن فاروقی نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ ’’لہجے کی سطح پر ان کی غزلیں جدید حسیت کااظہار معلوم ہوتی ہیں اور ان کا پیرایہ بیان بالواسطہ استعاراتی ہے‘‘ اور حقیقت یہی ہے کہ عزیز نبیل کی شاعری جدید حسیت سے معمور ہے۔ وہ آج کے مسائل اور موضوعات کے حوالے سے بھی شعر کہتے ہیں اور اپنے داخلی جذبات کا بڑی خوبصورتی سے اظہار کرتے ہیں۔
’آواز کے پَر کھلتے ہیں‘ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ میں نے سرسری طور پر اس مجموعے کی ورق گردانی کی۔ اس میں بہت سے اشعار نے میری توجہ کو کھینچا اور مجھے محسو س ہوا کہ ان کی شاعری میں بے پناہ قوتِ کشش ہے۔ خاص طور پر انھوں نے سورج، صحرا، خواب، سمندر کا بڑی خوبصورتی سے اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے۔ بہت سے اشعار چونکانے والے ہیں اور چونکانے کی کیفیت آج کے عہد میں بہت کم شاعروں کے یہاں ملتی ہے۔ ان کے چند اشعار دیکھیے جس میں عزیز نبیل کا خاص رنگ سخن نظر آئے گا
صحرا کی سمت ایک سمندر اچھال کر
میں آرہا ہوں پیاس کو حیرت میں ڈال کر
اس نے ہر سانس میں صدیوں کی مسافت رکھ دی
خواب در خواب مری آنکھ میں ہجرت رکھ دی
روز دستک سی کوئی دیتا ہے سینے پہ نبیلؔ
روز مجھ میں کسی آواز کے پَر کھلتے ہیں
مجھ میں سمٹی رات کا منظر بدلتا کیوں نہیں
مدتیں گزریں کوئی سورج نکلتا کیوں نہیں
عمر گزاری گھر کا ہر اک کونا باندھ کے رکھنے میں
اور پھر اک دن اپنے گھر سے باہر ہوگیا میں
بہت سے چاند ستارے اُگا رہا ہوں نبیل
مری زمین پہ سورج کی روشنی کم ہے
ان میں نیا لہجہ بھی ہے، نیا طرز بھی ہے، نیا آہنگ بھی ہے اور یقینی طور پر یہی عزیز نبیل کا امتیاز و انفراد ہے۔ عزیز نبیل آج کے عہد میں نہایت خوبصورت شاعری کررہے ہیں، ایسی شاعری جو قلب و نظر کو بدلنے کی کیفیت رکھتی ہے۔ جو شاعری اپنے منفرد طرزِ اظہار کی وجہ سے اپنی طرف کھینچتی ہے۔ میں ان کے روشن مستقبل کے لیے دعا گو ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ شاعری کے اُفق پر عزیز نبیل کا نام ہمیشہ روشن رہے گا کیونکہ ان کی شاعری میں زندہ رہنے کی پوری قوت ہے۔
ان کے ان اشعار کے ساتھ میں اس نئے مجموعے کی اشاعت پر مبارک باد دیتا ہوں
حرف و صدا لپیٹے ہوئے گوشہ گیر ہوں
میں خانقاہِ شعر و سخن کا فقیر ہوں
سر پر اٹھائے پھرتا ہوں ہجرت کی گٹھریاں
میں رہگزارِ عشق کا اک راہ گیر ہوں
خانقاہِ شعر و سخن کے اس فقیر کی زنبیل میں جو متاعِ شعر و سخن ہے وہ بیش قیمت ہے اور ہماری زبان کی ثَروت میں اس سے گراں قدر اضافہ ہوا ہے۔
٭٭٭