اردو وہ زبان ہے جس کا دوسری زبانوں سے اجنبیت یا غیریت کا رشتہ نہیں ہے۔ہر زبان اس کے لیے محبوب ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں سے اس نے اپنے رشتے اتنے مضبوط کیے ہیں کہ ان زبانوں کے بہت سے الفاظ و افکار بھی زبان اردو کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے اس زبان کا عوام سے گہرا تعلق رہا ہے۔ عوامی بولیاں اور الفاظ بھی اس زبان میں شامل ہوتے رہے ہیں اور اس طرح اس کی لسانی ثروت میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ جذب و انجذاب کی یہی قوت ہے جس کی وجہ سے اردو نہ صرف زندہ و تابندہ ہے بلکہ پوری دنیا میں اپنی زندگی کا ثبوت بھی دے رہی ہے۔برصغیر سے باہر اردو کی جونئی بستیاں آباد ہورہی ہیں وہ بھی اس کا ثبوت ہیں۔
اردو نے معاشرتی اور لسانی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور تغیرات کو ہمیشہ قبول کیا ہے اور کسی بھی سطح پر یہ منجمد نہیں رہی ہے اورشاید یہی اس کی زندگی کا راز بھی ہے کہ یہ بدلتے وقت کی ہر آہٹ کو محسوس کرتی ہے اور ہر اس لفظ اور فکر کو قبول کرتی ہے جس سے اس کے سرمایے میں اضافہ ہو۔
اردو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں بہت سارے الفاظ ہندی اور سنسکرت کے ہیں۔ فارسی اور عربی الفاظ کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اب لسانیات کی سطح پر جو تحقیقات ہورہی ہیں ان سے بھی بہت سے حقائق سامنے آرہے ہیں۔ اردو نے علاقائی ہندوستانی زبانوں سے بھی الفاظ لیے ہیں، خاص طور پر گجری، راجستھانی، مراٹھی اور دیگر زبانوں کے الفاظ بھی اردو میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اردو کا جہاں علاقائی زبانوں سے بہت گہرا رشتہ ہے وہیں عالمی زبانوں سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے اور اس تعلق کو استحکام ان تراجم کی وجہ سے بھی ملا ہے جو عالمی ادبیات یا علاقائی ادبیات کے حوالے سے اردو میں ہوتے رہے ہیں۔ دراصل کسی بھی زبان کو وسعت اور ترقی اسی وقت ملتی ہے جب وہ دوسری زبانوں سے لسانی اور فکری سطح پر اپنا مضبوط رشتہ قائم کرتی ہے۔ اردو نے اوّل دن سے ہی یہ محسوس کرلیا تھا کہ اگر اس زبان کو زندہ و متحرک رہنا ہے تو دوسری زبانوں کے علمی اور ادبی ذخیرے کو اردو میں منتقل کرنا ہوگا چنانچہ ترجمے کے بہت سے ادارے قائم ہوئے اور ان اداروں کے ذریعے بہت سی علمی اور فنی کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے گئے۔ فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، دارالترجمہ عثمانیہ، شمس الامرا کا دارالترجمہ، سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی وغیرہ نے اس سمت میں بہت مثبت اور اہم رول ادا کیا ہے۔ جو زبان پہلے صرف قصیدہ، مثنوی، مرثیہ اور غزل میں محدود ہوکر رہ گئی تھی وہ رفتہ رفتہ علمی زبان بھی بنتی گئی۔ سائنسی اور سماجی علوم کے ترجمے اس زبان میں ہوئے اور ترجمے کی وجہ سے اس کا افادی دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔
آج اردو زبان کو آپ کم مایہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ وہ زبان ہے جس میں جہاں عالمی ادبیات کے شاہکار کے تراجم موجود ہیں، وہیں مختلف علوم و فنون کے ترجمے بھی اس زبان میں کیے گئے۔ ترجمے کا عمل جاری ہے، مختلف زبانوں سے ترجمے آج بھی ہورہے ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ مطالعاتِ ترجمہ کے شعبے بھی قائم ہیں جہاں ترجمے کے نظری اور عملی مباحث پر گفتگو ہوتی ہے وہیں ترجمے کے دیگر مسائل پر بھی غور کیا جاتا ہے۔
ترجمے نے جہاں ہمیں بہت سے الفاظ و افکار دیے ہیں وہیں ثقافتی سطح پر بہت سے شکوک و شبہات اور بدگمانیوں کو بھی دو رکیا ہے۔ دراصل ترجمہ کے ذریعے ہی ہم کسی قوم یا معاشرے کے مزاج سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کے علمی آثار اور ثقافتی بیانیے سے بھی ہماری واقفیت ہوتی ہے۔ آج جبکہ مختلف قومو ںکے درمیان کشمکش اور تصادم ہے تو ایسے میں ترجمہ ایک ایسا وسیلہ بن کر سامنے آیا ہے جس کے ذریعے ہم اس تصادم کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور تفاہم کی فضا قائم کرسکتے ہیں۔اس لیے آج ضرورت ہے کہ ترجمے پر زیادہ زور دیا جائے۔ خاص طور پر ہندوستانی تناظر میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ہندوستان کی بہت سی علاقائی زبانیں ہیں جن میں بیش قیمت علمی و ادبی ذخیرہ موجود ہے مگر ہماری رسائی ان ذخیروں تک نہیں ہے۔ ترجمے کے ذریعے ہم ان علاقائی زبانوں سے نہ صرف قریب ہوسکتے ہیں بلکہ مشترکہ اقدار و افکار کی جستجو بھی کرسکتے ہیں۔
ہندوستان ایک کثیر لسانی اور تہذیبی ملک ہے، یہاں بہت سی ثقافتیں اور تہذیبیں ہیں اور ان تہذیبوں کے درمیان وحدت اور اشتراک کی تلاش صرف ترجمے کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ترجمے نے ہی مختلف افکار و اقدار کے درمیان مماثلات اور مشترکات کی نشاندہی کی ہے۔ آج بھی ہم ترجمے کے ذریعے دوسری قوموں کے تہذیبی، معاشرتی اقداو اطوار سے واقف ہوسکتے ہیںاس لیے آج ہمیں اپنے ترجمے کے دائرے کو اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔
اردو وہ زبان ہے جس کا دوسری زبانوں سے اجنبیت یا غیریت کا رشتہ نہیں ہے۔ہر زبان اس کے لیے محبوب ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں سے اس نے اپنے رشتے اتنے مضبوط کیے ہیں کہ ان زبانوں کے بہت سے الفاظ و افکار بھی زبان اردو کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے اس زبان کا عوام سے گہرا تعلق رہا ہے۔ عوامی بولیاں اور الفاظ بھی اس زبان میں شامل ہوتے رہے ہیں اور اس طرح اس کی لسانی ثروت میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ جذب و انجذاب کی یہی قوت ہے جس کی وجہ سے اردو نہ صرف زندہ و تابندہ ہے بلکہ پوری دنیا میں اپنی زندگی کا ثبوت بھی دے رہی ہے۔برصغیر سے باہر اردو کی جونئی بستیاں آباد ہورہی ہیں وہ بھی اس کا ثبوت ہیں۔
اردو نے معاشرتی اور لسانی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور تغیرات کو ہمیشہ قبول کیا ہے اور کسی بھی سطح پر یہ منجمد نہیں رہی ہے اورشاید یہی اس کی زندگی کا راز بھی ہے کہ یہ بدلتے وقت کی ہر آہٹ کو محسوس کرتی ہے اور ہر اس لفظ اور فکر کو قبول کرتی ہے جس سے اس کے سرمایے میں اضافہ ہو۔
اردو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں بہت سارے الفاظ ہندی اور سنسکرت کے ہیں۔ فارسی اور عربی الفاظ کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اب لسانیات کی سطح پر جو تحقیقات ہورہی ہیں ان سے بھی بہت سے حقائق سامنے آرہے ہیں۔ اردو نے علاقائی ہندوستانی زبانوں سے بھی الفاظ لیے ہیں، خاص طور پر گجری، راجستھانی، مراٹھی اور دیگر زبانوں کے الفاظ بھی اردو میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اردو کا جہاں علاقائی زبانوں سے بہت گہرا رشتہ ہے وہیں عالمی زبانوں سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے اور اس تعلق کو استحکام ان تراجم کی وجہ سے بھی ملا ہے جو عالمی ادبیات یا علاقائی ادبیات کے حوالے سے اردو میں ہوتے رہے ہیں۔ دراصل کسی بھی زبان کو وسعت اور ترقی اسی وقت ملتی ہے جب وہ دوسری زبانوں سے لسانی اور فکری سطح پر اپنا مضبوط رشتہ قائم کرتی ہے۔ اردو نے اوّل دن سے ہی یہ محسوس کرلیا تھا کہ اگر اس زبان کو زندہ و متحرک رہنا ہے تو دوسری زبانوں کے علمی اور ادبی ذخیرے کو اردو میں منتقل کرنا ہوگا چنانچہ ترجمے کے بہت سے ادارے قائم ہوئے اور ان اداروں کے ذریعے بہت سی علمی اور فنی کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے گئے۔ فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، دارالترجمہ عثمانیہ، شمس الامرا کا دارالترجمہ، سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی وغیرہ نے اس سمت میں بہت مثبت اور اہم رول ادا کیا ہے۔ جو زبان پہلے صرف قصیدہ، مثنوی، مرثیہ اور غزل میں محدود ہوکر رہ گئی تھی وہ رفتہ رفتہ علمی زبان بھی بنتی گئی۔ سائنسی اور سماجی علوم کے ترجمے اس زبان میں ہوئے اور ترجمے کی وجہ سے اس کا افادی دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔
آج اردو زبان کو آپ کم مایہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ وہ زبان ہے جس میں جہاں عالمی ادبیات کے شاہکار کے تراجم موجود ہیں، وہیں مختلف علوم و فنون کے ترجمے بھی اس زبان میں کیے گئے۔ ترجمے کا عمل جاری ہے، مختلف زبانوں سے ترجمے آج بھی ہورہے ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ مطالعاتِ ترجمہ کے شعبے بھی قائم ہیں جہاں ترجمے کے نظری اور عملی مباحث پر گفتگو ہوتی ہے وہیں ترجمے کے دیگر مسائل پر بھی غور کیا جاتا ہے۔
ترجمے نے جہاں ہمیں بہت سے الفاظ و افکار دیے ہیں وہیں ثقافتی سطح پر بہت سے شکوک و شبہات اور بدگمانیوں کو بھی دو رکیا ہے۔ دراصل ترجمہ کے ذریعے ہی ہم کسی قوم یا معاشرے کے مزاج سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کے علمی آثار اور ثقافتی بیانیے سے بھی ہماری واقفیت ہوتی ہے۔ آج جبکہ مختلف قومو ںکے درمیان کشمکش اور تصادم ہے تو ایسے میں ترجمہ ایک ایسا وسیلہ بن کر سامنے آیا ہے جس کے ذریعے ہم اس تصادم کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور تفاہم کی فضا قائم کرسکتے ہیں۔اس لیے آج ضرورت ہے کہ ترجمے پر زیادہ زور دیا جائے۔ خاص طور پر ہندوستانی تناظر میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ہندوستان کی بہت سی علاقائی زبانیں ہیں جن میں بیش قیمت علمی و ادبی ذخیرہ موجود ہے مگر ہماری رسائی ان ذخیروں تک نہیں ہے۔ ترجمے کے ذریعے ہم ان علاقائی زبانوں سے نہ صرف قریب ہوسکتے ہیں بلکہ مشترکہ اقدار و افکار کی جستجو بھی کرسکتے ہیں۔
ہندوستان ایک کثیر لسانی اور تہذیبی ملک ہے، یہاں بہت سی ثقافتیں اور تہذیبیں ہیں اور ان تہذیبوں کے درمیان وحدت اور اشتراک کی تلاش صرف ترجمے کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ترجمے نے ہی مختلف افکار و اقدار کے درمیان مماثلات اور مشترکات کی نشاندہی کی ہے۔ آج بھی ہم ترجمے کے ذریعے دوسری قوموں کے تہذیبی، معاشرتی اقداو اطوار سے واقف ہوسکتے ہیںاس لیے آج ہمیں اپنے ترجمے کے دائرے کو اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔
20
اردو وہ زبان ہے جس کا دوسری زبانوں سے اجنبیت یا غیریت کا رشتہ نہیں ہے۔ہر زبان اس کے لیے محبوب ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں سے اس نے اپنے رشتے اتنے مضبوط کیے ہیں کہ ان زبانوں کے بہت سے الفاظ و افکار بھی زبان اردو کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے اس زبان کا عوام سے گہرا تعلق رہا ہے۔ عوامی بولیاں اور الفاظ بھی اس زبان میں شامل ہوتے رہے ہیں اور اس طرح اس کی لسانی ثروت میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ جذب و انجذاب کی یہی قوت ہے جس کی وجہ سے اردو نہ صرف زندہ و تابندہ ہے بلکہ پوری دنیا میں اپنی زندگی کا ثبوت بھی دے رہی ہے۔برصغیر سے باہر اردو کی جونئی بستیاں آباد ہورہی ہیں وہ بھی اس کا ثبوت ہیں۔
اردو نے معاشرتی اور لسانی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور تغیرات کو ہمیشہ قبول کیا ہے اور کسی بھی سطح پر یہ منجمد نہیں رہی ہے اورشاید یہی اس کی زندگی کا راز بھی ہے کہ یہ بدلتے وقت کی ہر آہٹ کو محسوس کرتی ہے اور ہر اس لفظ اور فکر کو قبول کرتی ہے جس سے اس کے سرمایے میں اضافہ ہو۔
اردو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں بہت سارے الفاظ ہندی اور سنسکرت کے ہیں۔ فارسی اور عربی الفاظ کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اب لسانیات کی سطح پر جو تحقیقات ہورہی ہیں ان سے بھی بہت سے حقائق سامنے آرہے ہیں۔ اردو نے علاقائی ہندوستانی زبانوں سے بھی الفاظ لیے ہیں، خاص طور پر گجری، راجستھانی، مراٹھی اور دیگر زبانوں کے الفاظ بھی اردو میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اردو کا جہاں علاقائی زبانوں سے بہت گہرا رشتہ ہے وہیں عالمی زبانوں سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے اور اس تعلق کو استحکام ان تراجم کی وجہ سے بھی ملا ہے جو عالمی ادبیات یا علاقائی ادبیات کے حوالے سے اردو میں ہوتے رہے ہیں۔ دراصل کسی بھی زبان کو وسعت اور ترقی اسی وقت ملتی ہے جب وہ دوسری زبانوں سے لسانی اور فکری سطح پر اپنا مضبوط رشتہ قائم کرتی ہے۔ اردو نے اوّل دن سے ہی یہ محسوس کرلیا تھا کہ اگر اس زبان کو زندہ و متحرک رہنا ہے تو دوسری زبانوں کے علمی اور ادبی ذخیرے کو اردو میں منتقل کرنا ہوگا چنانچہ ترجمے کے بہت سے ادارے قائم ہوئے اور ان اداروں کے ذریعے بہت سی علمی اور فنی کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے گئے۔ فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، دارالترجمہ عثمانیہ، شمس الامرا کا دارالترجمہ، سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی وغیرہ نے اس سمت میں بہت مثبت اور اہم رول ادا کیا ہے۔ جو زبان پہلے صرف قصیدہ، مثنوی، مرثیہ اور غزل میں محدود ہوکر رہ گئی تھی وہ رفتہ رفتہ علمی زبان بھی بنتی گئی۔ سائنسی اور سماجی علوم کے ترجمے اس زبان میں ہوئے اور ترجمے کی وجہ سے اس کا افادی دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔
آج اردو زبان کو آپ کم مایہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ وہ زبان ہے جس میں جہاں عالمی ادبیات کے شاہکار کے تراجم موجود ہیں، وہیں مختلف علوم و فنون کے ترجمے بھی اس زبان میں کیے گئے۔ ترجمے کا عمل جاری ہے، مختلف زبانوں سے ترجمے آج بھی ہورہے ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ مطالعاتِ ترجمہ کے شعبے بھی قائم ہیں جہاں ترجمے کے نظری اور عملی مباحث پر گفتگو ہوتی ہے وہیں ترجمے کے دیگر مسائل پر بھی غور کیا جاتا ہے۔
ترجمے نے جہاں ہمیں بہت سے الفاظ و افکار دیے ہیں وہیں ثقافتی سطح پر بہت سے شکوک و شبہات اور بدگمانیوں کو بھی دو رکیا ہے۔ دراصل ترجمہ کے ذریعے ہی ہم کسی قوم یا معاشرے کے مزاج سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کے علمی آثار اور ثقافتی بیانیے سے بھی ہماری واقفیت ہوتی ہے۔ آج جبکہ مختلف قومو ںکے درمیان کشمکش اور تصادم ہے تو ایسے میں ترجمہ ایک ایسا وسیلہ بن کر سامنے آیا ہے جس کے ذریعے ہم اس تصادم کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور تفاہم کی فضا قائم کرسکتے ہیں۔اس لیے آج ضرورت ہے کہ ترجمے پر زیادہ زور دیا جائے۔ خاص طور پر ہندوستانی تناظر میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ہندوستان کی بہت سی علاقائی زبانیں ہیں جن میں بیش قیمت علمی و ادبی ذخیرہ موجود ہے مگر ہماری رسائی ان ذخیروں تک نہیں ہے۔ ترجمے کے ذریعے ہم ان علاقائی زبانوں سے نہ صرف قریب ہوسکتے ہیں بلکہ مشترکہ اقدار و افکار کی جستجو بھی کرسکتے ہیں۔
ہندوستان ایک کثیر لسانی اور تہذیبی ملک ہے، یہاں بہت سی ثقافتیں اور تہذیبیں ہیں اور ان تہذیبوں کے درمیان وحدت اور اشتراک کی تلاش صرف ترجمے کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ترجمے نے ہی مختلف افکار و اقدار کے درمیان مماثلات اور مشترکات کی نشاندہی کی ہے۔ آج بھی ہم ترجمے کے ذریعے دوسری قوموں کے تہذیبی، معاشرتی اقداو اطوار سے واقف ہوسکتے ہیںاس لیے آج ہمیں اپنے ترجمے کے دائرے کو اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ فروری 2020
اردو وہ زبان ہے جس کا دوسری زبانوں سے اجنبیت یا غیریت کا رشتہ نہیں ہے۔ہر زبان اس کے لیے محبوب ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں سے اس نے اپنے رشتے اتنے مضبوط کیے ہیں کہ ان زبانوں کے بہت سے الفاظ و افکار بھی زبان اردو کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے اس زبان کا عوام سے گہرا تعلق رہا ہے۔ عوامی بولیاں اور الفاظ بھی اس زبان میں شامل ہوتے رہے ہیں اور اس طرح اس کی لسانی ثروت میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ جذب و انجذاب کی یہی قوت ہے جس کی وجہ سے اردو نہ صرف زندہ و تابندہ ہے بلکہ پوری دنیا میں اپنی زندگی کا ثبوت بھی دے رہی ہے۔برصغیر سے باہر اردو کی جونئی بستیاں آباد ہورہی ہیں وہ بھی اس کا ثبوت ہیں۔
اردو نے معاشرتی اور لسانی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور تغیرات کو ہمیشہ قبول کیا ہے اور کسی بھی سطح پر یہ منجمد نہیں رہی ہے اورشاید یہی اس کی زندگی کا راز بھی ہے کہ یہ بدلتے وقت کی ہر آہٹ کو محسوس کرتی ہے اور ہر اس لفظ اور فکر کو قبول کرتی ہے جس سے اس کے سرمایے میں اضافہ ہو۔
اردو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں بہت سارے الفاظ ہندی اور سنسکرت کے ہیں۔ فارسی اور عربی الفاظ کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اب لسانیات کی سطح پر جو تحقیقات ہورہی ہیں ان سے بھی بہت سے حقائق سامنے آرہے ہیں۔ اردو نے علاقائی ہندوستانی زبانوں سے بھی الفاظ لیے ہیں، خاص طور پر گجری، راجستھانی، مراٹھی اور دیگر زبانوں کے الفاظ بھی اردو میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اردو کا جہاں علاقائی زبانوں سے بہت گہرا رشتہ ہے وہیں عالمی زبانوں سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے اور اس تعلق کو استحکام ان تراجم کی وجہ سے بھی ملا ہے جو عالمی ادبیات یا علاقائی ادبیات کے حوالے سے اردو میں ہوتے رہے ہیں۔ دراصل کسی بھی زبان کو وسعت اور ترقی اسی وقت ملتی ہے جب وہ دوسری زبانوں سے لسانی اور فکری سطح پر اپنا مضبوط رشتہ قائم کرتی ہے۔ اردو نے اوّل دن سے ہی یہ محسوس کرلیا تھا کہ اگر اس زبان کو زندہ و متحرک رہنا ہے تو دوسری زبانوں کے علمی اور ادبی ذخیرے کو اردو میں منتقل کرنا ہوگا چنانچہ ترجمے کے بہت سے ادارے قائم ہوئے اور ان اداروں کے ذریعے بہت سی علمی اور فنی کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے گئے۔ فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، دارالترجمہ عثمانیہ، شمس الامرا کا دارالترجمہ، سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی وغیرہ نے اس سمت میں بہت مثبت اور اہم رول ادا کیا ہے۔ جو زبان پہلے صرف قصیدہ، مثنوی، مرثیہ اور غزل میں محدود ہوکر رہ گئی تھی وہ رفتہ رفتہ علمی زبان بھی بنتی گئی۔ سائنسی اور سماجی علوم کے ترجمے اس زبان میں ہوئے اور ترجمے کی وجہ سے اس کا افادی دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔
آج اردو زبان کو آپ کم مایہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ وہ زبان ہے جس میں جہاں عالمی ادبیات کے شاہکار کے تراجم موجود ہیں، وہیں مختلف علوم و فنون کے ترجمے بھی اس زبان میں کیے گئے۔ ترجمے کا عمل جاری ہے، مختلف زبانوں سے ترجمے آج بھی ہورہے ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ مطالعاتِ ترجمہ کے شعبے بھی قائم ہیں جہاں ترجمے کے نظری اور عملی مباحث پر گفتگو ہوتی ہے وہیں ترجمے کے دیگر مسائل پر بھی غور کیا جاتا ہے۔
ترجمے نے جہاں ہمیں بہت سے الفاظ و افکار دیے ہیں وہیں ثقافتی سطح پر بہت سے شکوک و شبہات اور بدگمانیوں کو بھی دو رکیا ہے۔ دراصل ترجمہ کے ذریعے ہی ہم کسی قوم یا معاشرے کے مزاج سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کے علمی آثار اور ثقافتی بیانیے سے بھی ہماری واقفیت ہوتی ہے۔ آج جبکہ مختلف قومو ںکے درمیان کشمکش اور تصادم ہے تو ایسے میں ترجمہ ایک ایسا وسیلہ بن کر سامنے آیا ہے جس کے ذریعے ہم اس تصادم کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور تفاہم کی فضا قائم کرسکتے ہیں۔اس لیے آج ضرورت ہے کہ ترجمے پر زیادہ زور دیا جائے۔ خاص طور پر ہندوستانی تناظر میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ہندوستان کی بہت سی علاقائی زبانیں ہیں جن میں بیش قیمت علمی و ادبی ذخیرہ موجود ہے مگر ہماری رسائی ان ذخیروں تک نہیں ہے۔ ترجمے کے ذریعے ہم ان علاقائی زبانوں سے نہ صرف قریب ہوسکتے ہیں بلکہ مشترکہ اقدار و افکار کی جستجو بھی کرسکتے ہیں۔
ہندوستان ایک کثیر لسانی اور تہذیبی ملک ہے، یہاں بہت سی ثقافتیں اور تہذیبیں ہیں اور ان تہذیبوں کے درمیان وحدت اور اشتراک کی تلاش صرف ترجمے کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ترجمے نے ہی مختلف افکار و اقدار کے درمیان مماثلات اور مشترکات کی نشاندہی کی ہے۔ آج بھی ہم ترجمے کے ذریعے دوسری قوموں کے تہذیبی، معاشرتی اقداو اطوار سے واقف ہوسکتے ہیںاس لیے آج ہمیں اپنے ترجمے کے دائرے کو اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ فروری 2020
اردو وہ زبان ہے جس کا دوسری زبانوں سے اجنبیت یا غیریت کا رشتہ نہیں ہے۔ہر زبان اس کے لیے محبوب ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں سے اس نے اپنے رشتے اتنے مضبوط کیے ہیں کہ ان زبانوں کے بہت سے الفاظ و افکار بھی زبان اردو کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے اس زبان کا عوام سے گہرا تعلق رہا ہے۔ عوامی بولیاں اور الفاظ بھی اس زبان میں شامل ہوتے رہے ہیں اور اس طرح اس کی لسانی ثروت میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ جذب و انجذاب کی یہی قوت ہے جس کی وجہ سے اردو نہ صرف زندہ و تابندہ ہے بلکہ پوری دنیا میں اپنی زندگی کا ثبوت بھی دے رہی ہے۔برصغیر سے باہر اردو کی جونئی بستیاں آباد ہورہی ہیں وہ بھی اس کا ثبوت ہیں۔
اردو نے معاشرتی اور لسانی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور تغیرات کو ہمیشہ قبول کیا ہے اور کسی بھی سطح پر یہ منجمد نہیں رہی ہے اورشاید یہی اس کی زندگی کا راز بھی ہے کہ یہ بدلتے وقت کی ہر آہٹ کو محسوس کرتی ہے اور ہر اس لفظ اور فکر کو قبول کرتی ہے جس سے اس کے سرمایے میں اضافہ ہو۔
اردو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں بہت سارے الفاظ ہندی اور سنسکرت کے ہیں۔ فارسی اور عربی الفاظ کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اب لسانیات کی سطح پر جو تحقیقات ہورہی ہیں ان سے بھی بہت سے حقائق سامنے آرہے ہیں۔ اردو نے علاقائی ہندوستانی زبانوں سے بھی الفاظ لیے ہیں، خاص طور پر گجری، راجستھانی، مراٹھی اور دیگر زبانوں کے الفاظ بھی اردو میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اردو کا جہاں علاقائی زبانوں سے بہت گہرا رشتہ ہے وہیں عالمی زبانوں سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے اور اس تعلق کو استحکام ان تراجم کی وجہ سے بھی ملا ہے جو عالمی ادبیات یا علاقائی ادبیات کے حوالے سے اردو میں ہوتے رہے ہیں۔ دراصل کسی بھی زبان کو وسعت اور ترقی اسی وقت ملتی ہے جب وہ دوسری زبانوں سے لسانی اور فکری سطح پر اپنا مضبوط رشتہ قائم کرتی ہے۔ اردو نے اوّل دن سے ہی یہ محسوس کرلیا تھا کہ اگر اس زبان کو زندہ و متحرک رہنا ہے تو دوسری زبانوں کے علمی اور ادبی ذخیرے کو اردو میں منتقل کرنا ہوگا چنانچہ ترجمے کے بہت سے ادارے قائم ہوئے اور ان اداروں کے ذریعے بہت سی علمی اور فنی کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے گئے۔ فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، دارالترجمہ عثمانیہ، شمس الامرا کا دارالترجمہ، سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی وغیرہ نے اس سمت میں بہت مثبت اور اہم رول ادا کیا ہے۔ جو زبان پہلے صرف قصیدہ، مثنوی، مرثیہ اور غزل میں محدود ہوکر رہ گئی تھی وہ رفتہ رفتہ علمی زبان بھی بنتی گئی۔ سائنسی اور سماجی علوم کے ترجمے اس زبان میں ہوئے اور ترجمے کی وجہ سے اس کا افادی دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔
آج اردو زبان کو آپ کم مایہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ وہ زبان ہے جس میں جہاں عالمی ادبیات کے شاہکار کے تراجم موجود ہیں، وہیں مختلف علوم و فنون کے ترجمے بھی اس زبان میں کیے گئے۔ ترجمے کا عمل جاری ہے، مختلف زبانوں سے ترجمے آج بھی ہورہے ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ مطالعاتِ ترجمہ کے شعبے بھی قائم ہیں جہاں ترجمے کے نظری اور عملی مباحث پر گفتگو ہوتی ہے وہیں ترجمے کے دیگر مسائل پر بھی غور کیا جاتا ہے۔
ترجمے نے جہاں ہمیں بہت سے الفاظ و افکار دیے ہیں وہیں ثقافتی سطح پر بہت سے شکوک و شبہات اور بدگمانیوں کو بھی دو رکیا ہے۔ دراصل ترجمہ کے ذریعے ہی ہم کسی قوم یا معاشرے کے مزاج سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کے علمی آثار اور ثقافتی بیانیے سے بھی ہماری واقفیت ہوتی ہے۔ آج جبکہ مختلف قومو ںکے درمیان کشمکش اور تصادم ہے تو ایسے میں ترجمہ ایک ایسا وسیلہ بن کر سامنے آیا ہے جس کے ذریعے ہم اس تصادم کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور تفاہم کی فضا قائم کرسکتے ہیں۔اس لیے آج ضرورت ہے کہ ترجمے پر زیادہ زور دیا جائے۔ خاص طور پر ہندوستانی تناظر میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ہندوستان کی بہت سی علاقائی زبانیں ہیں جن میں بیش قیمت علمی و ادبی ذخیرہ موجود ہے مگر ہماری رسائی ان ذخیروں تک نہیں ہے۔ ترجمے کے ذریعے ہم ان علاقائی زبانوں سے نہ صرف قریب ہوسکتے ہیں بلکہ مشترکہ اقدار و افکار کی جستجو بھی کرسکتے ہیں۔
ہندوستان ایک کثیر لسانی اور تہذیبی ملک ہے، یہاں بہت سی ثقافتیں اور تہذیبیں ہیں اور ان تہذیبوں کے درمیان وحدت اور اشتراک کی تلاش صرف ترجمے کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ترجمے نے ہی مختلف افکار و اقدار کے درمیان مماثلات اور مشترکات کی نشاندہی کی ہے۔ آج بھی ہم ترجمے کے ذریعے دوسری قوموں کے تہذیبی، معاشرتی اقداو اطوار سے واقف ہوسکتے ہیںاس لیے آج ہمیں اپنے ترجمے کے دائرے کو اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ فروری 2020
اردو وہ زبان ہے جس کا دوسری زبانوں سے اجنبیت یا غیریت کا رشتہ نہیں ہے۔ہر زبان اس کے لیے محبوب ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں سے اس نے اپنے رشتے اتنے مضبوط کیے ہیں کہ ان زبانوں کے بہت سے الفاظ و افکار بھی زبان اردو کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے اس زبان کا عوام سے گہرا تعلق رہا ہے۔ عوامی بولیاں اور الفاظ بھی اس زبان میں شامل ہوتے رہے ہیں اور اس طرح اس کی لسانی ثروت میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ جذب و انجذاب کی یہی قوت ہے جس کی وجہ سے اردو نہ صرف زندہ و تابندہ ہے بلکہ پوری دنیا میں اپنی زندگی کا ثبوت بھی دے رہی ہے۔برصغیر سے باہر اردو کی جونئی بستیاں آباد ہورہی ہیں وہ بھی اس کا ثبوت ہیں۔
اردو نے معاشرتی اور لسانی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور تغیرات کو ہمیشہ قبول کیا ہے اور کسی بھی سطح پر یہ منجمد نہیں رہی ہے اورشاید یہی اس کی زندگی کا راز بھی ہے کہ یہ بدلتے وقت کی ہر آہٹ کو محسوس کرتی ہے اور ہر اس لفظ اور فکر کو قبول کرتی ہے جس سے اس کے سرمایے میں اضافہ ہو۔
اردو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں بہت سارے الفاظ ہندی اور سنسکرت کے ہیں۔ فارسی اور عربی الفاظ کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اب لسانیات کی سطح پر جو تحقیقات ہورہی ہیں ان سے بھی بہت سے حقائق سامنے آرہے ہیں۔ اردو نے علاقائی ہندوستانی زبانوں سے بھی الفاظ لیے ہیں، خاص طور پر گجری، راجستھانی، مراٹھی اور دیگر زبانوں کے الفاظ بھی اردو میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اردو کا جہاں علاقائی زبانوں سے بہت گہرا رشتہ ہے وہیں عالمی زبانوں سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے اور اس تعلق کو استحکام ان تراجم کی وجہ سے بھی ملا ہے جو عالمی ادبیات یا علاقائی ادبیات کے حوالے سے اردو میں ہوتے رہے ہیں۔ دراصل کسی بھی زبان کو وسعت اور ترقی اسی وقت ملتی ہے جب وہ دوسری زبانوں سے لسانی اور فکری سطح پر اپنا مضبوط رشتہ قائم کرتی ہے۔ اردو نے اوّل دن سے ہی یہ محسوس کرلیا تھا کہ اگر اس زبان کو زندہ و متحرک رہنا ہے تو دوسری زبانوں کے علمی اور ادبی ذخیرے کو اردو میں منتقل کرنا ہوگا چنانچہ ترجمے کے بہت سے ادارے قائم ہوئے اور ان اداروں کے ذریعے بہت سی علمی اور فنی کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے گئے۔ فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، دارالترجمہ عثمانیہ، شمس الامرا کا دارالترجمہ، سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی وغیرہ نے اس سمت میں بہت مثبت اور اہم رول ادا کیا ہے۔ جو زبان پہلے صرف قصیدہ، مثنوی، مرثیہ اور غزل میں محدود ہوکر رہ گئی تھی وہ رفتہ رفتہ علمی زبان بھی بنتی گئی۔ سائنسی اور سماجی علوم کے ترجمے اس زبان میں ہوئے اور ترجمے کی وجہ سے اس کا افادی دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔
آج اردو زبان کو آپ کم مایہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ وہ زبان ہے جس میں جہاں عالمی ادبیات کے شاہکار کے تراجم موجود ہیں، وہیں مختلف علوم و فنون کے ترجمے بھی اس زبان میں کیے گئے۔ ترجمے کا عمل جاری ہے، مختلف زبانوں سے ترجمے آج بھی ہورہے ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ مطالعاتِ ترجمہ کے شعبے بھی قائم ہیں جہاں ترجمے کے نظری اور عملی مباحث پر گفتگو ہوتی ہے وہیں ترجمے کے دیگر مسائل پر بھی غور کیا جاتا ہے۔
ترجمے نے جہاں ہمیں بہت سے الفاظ و افکار دیے ہیں وہیں ثقافتی سطح پر بہت سے شکوک و شبہات اور بدگمانیوں کو بھی دو رکیا ہے۔ دراصل ترجمہ کے ذریعے ہی ہم کسی قوم یا معاشرے کے مزاج سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کے علمی آثار اور ثقافتی بیانیے سے بھی ہماری واقفیت ہوتی ہے۔ آج جبکہ مختلف قومو ںکے درمیان کشمکش اور تصادم ہے تو ایسے میں ترجمہ ایک ایسا وسیلہ بن کر سامنے آیا ہے جس کے ذریعے ہم اس تصادم کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور تفاہم کی فضا قائم کرسکتے ہیں۔اس لیے آج ضرورت ہے کہ ترجمے پر زیادہ زور دیا جائے۔ خاص طور پر ہندوستانی تناظر میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ہندوستان کی بہت سی علاقائی زبانیں ہیں جن میں بیش قیمت علمی و ادبی ذخیرہ موجود ہے مگر ہماری رسائی ان ذخیروں تک نہیں ہے۔ ترجمے کے ذریعے ہم ان علاقائی زبانوں سے نہ صرف قریب ہوسکتے ہیں بلکہ مشترکہ اقدار و افکار کی جستجو بھی کرسکتے ہیں۔
ہندوستان ایک کثیر لسانی اور تہذیبی ملک ہے، یہاں بہت سی ثقافتیں اور تہذیبیں ہیں اور ان تہذیبوں کے درمیان وحدت اور اشتراک کی تلاش صرف ترجمے کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ترجمے نے ہی مختلف افکار و اقدار کے درمیان مماثلات اور مشترکات کی نشاندہی کی ہے۔ آج بھی ہم ترجمے کے ذریعے دوسری قوموں کے تہذیبی، معاشرتی اقداو اطوار سے واقف ہوسکتے ہیںاس لیے آج ہمیں اپنے ترجمے کے دائرے کو اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ فروری 2020
اردو وہ زبان ہے جس کا دوسری زبانوں سے اجنبیت یا غیریت کا رشتہ نہیں ہے۔ہر زبان اس کے لیے محبوب ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں سے اس نے اپنے رشتے اتنے مضبوط کیے ہیں کہ ان زبانوں کے بہت سے الفاظ و افکار بھی زبان اردو کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے اس زبان کا عوام سے گہرا تعلق رہا ہے۔ عوامی بولیاں اور الفاظ بھی اس زبان میں شامل ہوتے رہے ہیں اور اس طرح اس کی لسانی ثروت میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ جذب و انجذاب کی یہی قوت ہے جس کی وجہ سے اردو نہ صرف زندہ و تابندہ ہے بلکہ پوری دنیا میں اپنی زندگی کا ثبوت بھی دے رہی ہے۔برصغیر سے باہر اردو کی جونئی بستیاں آباد ہورہی ہیں وہ بھی اس کا ثبوت ہیں۔
اردو نے معاشرتی اور لسانی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور تغیرات کو ہمیشہ قبول کیا ہے اور کسی بھی سطح پر یہ منجمد نہیں رہی ہے اورشاید یہی اس کی زندگی کا راز بھی ہے کہ یہ بدلتے وقت کی ہر آہٹ کو محسوس کرتی ہے اور ہر اس لفظ اور فکر کو قبول کرتی ہے جس سے اس کے سرمایے میں اضافہ ہو۔
اردو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں بہت سارے الفاظ ہندی اور سنسکرت کے ہیں۔ فارسی اور عربی الفاظ کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اب لسانیات کی سطح پر جو تحقیقات ہورہی ہیں ان سے بھی بہت سے حقائق سامنے آرہے ہیں۔ اردو نے علاقائی ہندوستانی زبانوں سے بھی الفاظ لیے ہیں، خاص طور پر گجری، راجستھانی، مراٹھی اور دیگر زبانوں کے الفاظ بھی اردو میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اردو کا جہاں علاقائی زبانوں سے بہت گہرا رشتہ ہے وہیں عالمی زبانوں سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے اور اس تعلق کو استحکام ان تراجم کی وجہ سے بھی ملا ہے جو عالمی ادبیات یا علاقائی ادبیات کے حوالے سے اردو میں ہوتے رہے ہیں۔ دراصل کسی بھی زبان کو وسعت اور ترقی اسی وقت ملتی ہے جب وہ دوسری زبانوں سے لسانی اور فکری سطح پر اپنا مضبوط رشتہ قائم کرتی ہے۔ اردو نے اوّل دن سے ہی یہ محسوس کرلیا تھا کہ اگر اس زبان کو زندہ و متحرک رہنا ہے تو دوسری زبانوں کے علمی اور ادبی ذخیرے کو اردو میں منتقل کرنا ہوگا چنانچہ ترجمے کے بہت سے ادارے قائم ہوئے اور ان اداروں کے ذریعے بہت سی علمی اور فنی کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے گئے۔ فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، دارالترجمہ عثمانیہ، شمس الامرا کا دارالترجمہ، سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی وغیرہ نے اس سمت میں بہت مثبت اور اہم رول ادا کیا ہے۔ جو زبان پہلے صرف قصیدہ، مثنوی، مرثیہ اور غزل میں محدود ہوکر رہ گئی تھی وہ رفتہ رفتہ علمی زبان بھی بنتی گئی۔ سائنسی اور سماجی علوم کے ترجمے اس زبان میں ہوئے اور ترجمے کی وجہ سے اس کا افادی دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔
آج اردو زبان کو آپ کم مایہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ وہ زبان ہے جس میں جہاں عالمی ادبیات کے شاہکار کے تراجم موجود ہیں، وہیں مختلف علوم و فنون کے ترجمے بھی اس زبان میں کیے گئے۔ ترجمے کا عمل جاری ہے، مختلف زبانوں سے ترجمے آج بھی ہورہے ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ مطالعاتِ ترجمہ کے شعبے بھی قائم ہیں جہاں ترجمے کے نظری اور عملی مباحث پر گفتگو ہوتی ہے وہیں ترجمے کے دیگر مسائل پر بھی غور کیا جاتا ہے۔
ترجمے نے جہاں ہمیں بہت سے الفاظ و افکار دیے ہیں وہیں ثقافتی سطح پر بہت سے شکوک و شبہات اور بدگمانیوں کو بھی دو رکیا ہے۔ دراصل ترجمہ کے ذریعے ہی ہم کسی قوم یا معاشرے کے مزاج سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کے علمی آثار اور ثقافتی بیانیے سے بھی ہماری واقفیت ہوتی ہے۔ آج جبکہ مختلف قومو ںکے درمیان کشمکش اور تصادم ہے تو ایسے میں ترجمہ ایک ایسا وسیلہ بن کر سامنے آیا ہے جس کے ذریعے ہم اس تصادم کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور تفاہم کی فضا قائم کرسکتے ہیں۔اس لیے آج ضرورت ہے کہ ترجمے پر زیادہ زور دیا جائے۔ خاص طور پر ہندوستانی تناظر میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ہندوستان کی بہت سی علاقائی زبانیں ہیں جن میں بیش قیمت علمی و ادبی ذخیرہ موجود ہے مگر ہماری رسائی ان ذخیروں تک نہیں ہے۔ ترجمے کے ذریعے ہم ان علاقائی زبانوں سے نہ صرف قریب ہوسکتے ہیں بلکہ مشترکہ اقدار و افکار کی جستجو بھی کرسکتے ہیں۔
ہندوستان ایک کثیر لسانی اور تہذیبی ملک ہے، یہاں بہت سی ثقافتیں اور تہذیبیں ہیں اور ان تہذیبوں کے درمیان وحدت اور اشتراک کی تلاش صرف ترجمے کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ترجمے نے ہی مختلف افکار و اقدار کے درمیان مماثلات اور مشترکات کی نشاندہی کی ہے۔ آج بھی ہم ترجمے کے ذریعے دوسری قوموں کے تہذیبی، معاشرتی اقداو اطوار سے واقف ہوسکتے ہیںاس لیے آج ہمیں اپنے ترجمے کے دائرے کو اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔
اردو وہ زبان ہے جس کا دوسری زبانوں سے اجنبیت یا غیریت کا رشتہ نہیں ہے۔ہر زبان اس کے لیے محبوب ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں سے اس نے اپنے رشتے اتنے مضبوط کیے ہیں کہ ان زبانوں کے بہت سے الفاظ و افکار بھی زبان اردو کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے اس زبان کا عوام سے گہرا تعلق رہا ہے۔ عوامی بولیاں اور الفاظ بھی اس زبان میں شامل ہوتے رہے ہیں اور اس طرح اس کی لسانی ثروت میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ جذب و انجذاب کی یہی قوت ہے جس کی وجہ سے اردو نہ صرف زندہ و تابندہ ہے بلکہ پوری دنیا میں اپنی زندگی کا ثبوت بھی دے رہی ہے۔برصغیر سے باہر اردو کی جونئی بستیاں آباد ہورہی ہیں وہ بھی اس کا ثبوت ہیں۔
اردو نے معاشرتی اور لسانی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور تغیرات کو ہمیشہ قبول کیا ہے اور کسی بھی سطح پر یہ منجمد نہیں رہی ہے اورشاید یہی اس کی زندگی کا راز بھی ہے کہ یہ بدلتے وقت کی ہر آہٹ کو محسوس کرتی ہے اور ہر اس لفظ اور فکر کو قبول کرتی ہے جس سے اس کے سرمایے میں اضافہ ہو۔
اردو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں بہت سارے الفاظ ہندی اور سنسکرت کے ہیں۔ فارسی اور عربی الفاظ کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اب لسانیات کی سطح پر جو تحقیقات ہورہی ہیں ان سے بھی بہت سے حقائق سامنے آرہے ہیں۔ اردو نے علاقائی ہندوستانی زبانوں سے بھی الفاظ لیے ہیں، خاص طور پر گجری، راجستھانی، مراٹھی اور دیگر زبانوں کے الفاظ بھی اردو میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اردو کا جہاں علاقائی زبانوں سے بہت گہرا رشتہ ہے وہیں عالمی زبانوں سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے اور اس تعلق کو استحکام ان تراجم کی وجہ سے بھی ملا ہے جو عالمی ادبیات یا علاقائی ادبیات کے حوالے سے اردو میں ہوتے رہے ہیں۔ دراصل کسی بھی زبان کو وسعت اور ترقی اسی وقت ملتی ہے جب وہ دوسری زبانوں سے لسانی اور فکری سطح پر اپنا مضبوط رشتہ قائم کرتی ہے۔ اردو نے اوّل دن سے ہی یہ محسوس کرلیا تھا کہ اگر اس زبان کو زندہ و متحرک رہنا ہے تو دوسری زبانوں کے علمی اور ادبی ذخیرے کو اردو میں منتقل کرنا ہوگا چنانچہ ترجمے کے بہت سے ادارے قائم ہوئے اور ان اداروں کے ذریعے بہت سی علمی اور فنی کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے گئے۔ فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، دارالترجمہ عثمانیہ، شمس الامرا کا دارالترجمہ، سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی وغیرہ نے اس سمت میں بہت مثبت اور اہم رول ادا کیا ہے۔ جو زبان پہلے صرف قصیدہ، مثنوی، مرثیہ اور غزل میں محدود ہوکر رہ گئی تھی وہ رفتہ رفتہ علمی زبان بھی بنتی گئی۔ سائنسی اور سماجی علوم کے ترجمے اس زبان میں ہوئے اور ترجمے کی وجہ سے اس کا افادی دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔
آج اردو زبان کو آپ کم مایہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ وہ زبان ہے جس میں جہاں عالمی ادبیات کے شاہکار کے تراجم موجود ہیں، وہیں مختلف علوم و فنون کے ترجمے بھی اس زبان میں کیے گئے۔ ترجمے کا عمل جاری ہے، مختلف زبانوں سے ترجمے آج بھی ہورہے ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ مطالعاتِ ترجمہ کے شعبے بھی قائم ہیں جہاں ترجمے کے نظری اور عملی مباحث پر گفتگو ہوتی ہے وہیں ترجمے کے دیگر مسائل پر بھی غور کیا جاتا ہے۔
ترجمے نے جہاں ہمیں بہت سے الفاظ و افکار دیے ہیں وہیں ثقافتی سطح پر بہت سے شکوک و شبہات اور بدگمانیوں کو بھی دو رکیا ہے۔ دراصل ترجمہ کے ذریعے ہی ہم کسی قوم یا معاشرے کے مزاج سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کے علمی آثار اور ثقافتی بیانیے سے بھی ہماری واقفیت ہوتی ہے۔ آج جبکہ مختلف قومو ںکے درمیان کشمکش اور تصادم ہے تو ایسے میں ترجمہ ایک ایسا وسیلہ بن کر سامنے آیا ہے جس کے ذریعے ہم اس تصادم کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور تفاہم کی فضا قائم کرسکتے ہیں۔اس لیے آج ضرورت ہے کہ ترجمے پر زیادہ زور دیا جائے۔ خاص طور پر ہندوستانی تناظر میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ہندوستان کی بہت سی علاقائی زبانیں ہیں جن میں بیش قیمت علمی و ادبی ذخیرہ موجود ہے مگر ہماری رسائی ان ذخیروں تک نہیں ہے۔ ترجمے کے ذریعے ہم ان علاقائی زبانوں سے نہ صرف قریب ہوسکتے ہیں بلکہ مشترکہ اقدار و افکار کی جستجو بھی کرسکتے ہیں۔
ہندوستان ایک کثیر لسانی اور تہذیبی ملک ہے، یہاں بہت سی ثقافتیں اور تہذیبیں ہیں اور ان تہذیبوں کے درمیان وحدت اور اشتراک کی تلاش صرف ترجمے کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ترجمے نے ہی مختلف افکار و اقدار کے درمیان مماثلات اور مشترکات کی نشاندہی کی ہے۔ آج بھی ہم ترجمے کے ذریعے دوسری قوموں کے تہذیبی، معاشرتی اقداو اطوار سے واقف ہوسکتے ہیںاس لیے آج ہمیں اپنے ترجمے کے دائرے کو اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔
اردو وہ زبان ہے جس کا دوسری زبانوں سے اجنبیت یا غیریت کا رشتہ نہیں ہے۔ہر زبان اس کے لیے محبوب ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں سے اس نے اپنے رشتے اتنے مضبوط کیے ہیں کہ ان زبانوں کے بہت سے الفاظ و افکار بھی زبان اردو کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے اس زبان کا عوام سے گہرا تعلق رہا ہے۔ عوامی بولیاں اور الفاظ بھی اس زبان میں شامل ہوتے رہے ہیں اور اس طرح اس کی لسانی ثروت میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ جذب و انجذاب کی یہی قوت ہے جس کی وجہ سے اردو نہ صرف زندہ و تابندہ ہے بلکہ پوری دنیا میں اپنی زندگی کا ثبوت بھی دے رہی ہے۔برصغیر سے باہر اردو کی جونئی بستیاں آباد ہورہی ہیں وہ بھی اس کا ثبوت ہیں۔
اردو نے معاشرتی اور لسانی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور تغیرات کو ہمیشہ قبول کیا ہے اور کسی بھی سطح پر یہ منجمد نہیں رہی ہے اورشاید یہی اس کی زندگی کا راز بھی ہے کہ یہ بدلتے وقت کی ہر آہٹ کو محسوس کرتی ہے اور ہر اس لفظ اور فکر کو قبول کرتی ہے جس سے اس کے سرمایے میں اضافہ ہو۔
اردو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں بہت سارے الفاظ ہندی اور سنسکرت کے ہیں۔ فارسی اور عربی الفاظ کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اب لسانیات کی سطح پر جو تحقیقات ہورہی ہیں ان سے بھی بہت سے حقائق سامنے آرہے ہیں۔ اردو نے علاقائی ہندوستانی زبانوں سے بھی الفاظ لیے ہیں، خاص طور پر گجری، راجستھانی، مراٹھی اور دیگر زبانوں کے الفاظ بھی اردو میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اردو کا جہاں علاقائی زبانوں سے بہت گہرا رشتہ ہے وہیں عالمی زبانوں سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے اور اس تعلق کو استحکام ان تراجم کی وجہ سے بھی ملا ہے جو عالمی ادبیات یا علاقائی ادبیات کے حوالے سے اردو میں ہوتے رہے ہیں۔ دراصل کسی بھی زبان کو وسعت اور ترقی اسی وقت ملتی ہے جب وہ دوسری زبانوں سے لسانی اور فکری سطح پر اپنا مضبوط رشتہ قائم کرتی ہے۔ اردو نے اوّل دن سے ہی یہ محسوس کرلیا تھا کہ اگر اس زبان کو زندہ و متحرک رہنا ہے تو دوسری زبانوں کے علمی اور ادبی ذخیرے کو اردو میں منتقل کرنا ہوگا چنانچہ ترجمے کے بہت سے ادارے قائم ہوئے اور ان اداروں کے ذریعے بہت سی علمی اور فنی کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے گئے۔ فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، دارالترجمہ عثمانیہ، شمس الامرا کا دارالترجمہ، سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی وغیرہ نے اس سمت میں بہت مثبت اور اہم رول ادا کیا ہے۔ جو زبان پہلے صرف قصیدہ، مثنوی، مرثیہ اور غزل میں محدود ہوکر رہ گئی تھی وہ رفتہ رفتہ علمی زبان بھی بنتی گئی۔ سائنسی اور سماجی علوم کے ترجمے اس زبان میں ہوئے اور ترجمے کی وجہ سے اس کا افادی دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔
آج اردو زبان کو آپ کم مایہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ وہ زبان ہے جس میں جہاں عالمی ادبیات کے شاہکار کے تراجم موجود ہیں، وہیں مختلف علوم و فنون کے ترجمے بھی اس زبان میں کیے گئے۔ ترجمے کا عمل جاری ہے، مختلف زبانوں سے ترجمے آج بھی ہورہے ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ مطالعاتِ ترجمہ کے شعبے بھی قائم ہیں جہاں ترجمے کے نظری اور عملی مباحث پر گفتگو ہوتی ہے وہیں ترجمے کے دیگر مسائل پر بھی غور کیا جاتا ہے۔
ترجمے نے جہاں ہمیں بہت سے الفاظ و افکار دیے ہیں وہیں ثقافتی سطح پر بہت سے شکوک و شبہات اور بدگمانیوں کو بھی دو رکیا ہے۔ دراصل ترجمہ کے ذریعے ہی ہم کسی قوم یا معاشرے کے مزاج سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کے علمی آثار اور ثقافتی بیانیے سے بھی ہماری واقفیت ہوتی ہے۔ آج جبکہ مختلف قومو ںکے درمیان کشمکش اور تصادم ہے تو ایسے میں ترجمہ ایک ایسا وسیلہ بن کر سامنے آیا ہے جس کے ذریعے ہم اس تصادم کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور تفاہم کی فضا قائم کرسکتے ہیں۔اس لیے آج ضرورت ہے کہ ترجمے پر زیادہ زور دیا جائے۔ خاص طور پر ہندوستانی تناظر میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ہندوستان کی بہت سی علاقائی زبانیں ہیں جن میں بیش قیمت علمی و ادبی ذخیرہ موجود ہے مگر ہماری رسائی ان ذخیروں تک نہیں ہے۔ ترجمے کے ذریعے ہم ان علاقائی زبانوں سے نہ صرف قریب ہوسکتے ہیں بلکہ مشترکہ اقدار و افکار کی جستجو بھی کرسکتے ہیں۔
ہندوستان ایک کثیر لسانی اور تہذیبی ملک ہے، یہاں بہت سی ثقافتیں اور تہذیبیں ہیں اور ان تہذیبوں کے درمیان وحدت اور اشتراک کی تلاش صرف ترجمے کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ترجمے نے ہی مختلف افکار و اقدار کے درمیان مماثلات اور مشترکات کی نشاندہی کی ہے۔ آج بھی ہم ترجمے کے ذریعے دوسری قوموں کے تہذیبی، معاشرتی اقداو اطوار سے واقف ہوسکتے ہیںاس لیے آج ہمیں اپنے ترجمے کے دائرے کو اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔
20
اردو وہ زبان ہے جس کا دوسری زبانوں سے اجنبیت یا غیریت کا رشتہ نہیں ہے۔ہر زبان اس کے لیے محبوب ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں سے اس نے اپنے رشتے اتنے مضبوط کیے ہیں کہ ان زبانوں کے بہت سے الفاظ و افکار بھی زبان اردو کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے اس زبان کا عوام سے گہرا تعلق رہا ہے۔ عوامی بولیاں اور الفاظ بھی اس زبان میں شامل ہوتے رہے ہیں اور اس طرح اس کی لسانی ثروت میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ جذب و انجذاب کی یہی قوت ہے جس کی وجہ سے اردو نہ صرف زندہ و تابندہ ہے بلکہ پوری دنیا میں اپنی زندگی کا ثبوت بھی دے رہی ہے۔برصغیر سے باہر اردو کی جونئی بستیاں آباد ہورہی ہیں وہ بھی اس کا ثبوت ہیں۔
اردو نے معاشرتی اور لسانی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور تغیرات کو ہمیشہ قبول کیا ہے اور کسی بھی سطح پر یہ منجمد نہیں رہی ہے اورشاید یہی اس کی زندگی کا راز بھی ہے کہ یہ بدلتے وقت کی ہر آہٹ کو محسوس کرتی ہے اور ہر اس لفظ اور فکر کو قبول کرتی ہے جس سے اس کے سرمایے میں اضافہ ہو۔
اردو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں بہت سارے الفاظ ہندی اور سنسکرت کے ہیں۔ فارسی اور عربی الفاظ کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اب لسانیات کی سطح پر جو تحقیقات ہورہی ہیں ان سے بھی بہت سے حقائق سامنے آرہے ہیں۔ اردو نے علاقائی ہندوستانی زبانوں سے بھی الفاظ لیے ہیں، خاص طور پر گجری، راجستھانی، مراٹھی اور دیگر زبانوں کے الفاظ بھی اردو میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اردو کا جہاں علاقائی زبانوں سے بہت گہرا رشتہ ہے وہیں عالمی زبانوں سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے اور اس تعلق کو استحکام ان تراجم کی وجہ سے بھی ملا ہے جو عالمی ادبیات یا علاقائی ادبیات کے حوالے سے اردو میں ہوتے رہے ہیں۔ دراصل کسی بھی زبان کو وسعت اور ترقی اسی وقت ملتی ہے جب وہ دوسری زبانوں سے لسانی اور فکری سطح پر اپنا مضبوط رشتہ قائم کرتی ہے۔ اردو نے اوّل دن سے ہی یہ محسوس کرلیا تھا کہ اگر اس زبان کو زندہ و متحرک رہنا ہے تو دوسری زبانوں کے علمی اور ادبی ذخیرے کو اردو میں منتقل کرنا ہوگا چنانچہ ترجمے کے بہت سے ادارے قائم ہوئے اور ان اداروں کے ذریعے بہت سی علمی اور فنی کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے گئے۔ فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، دارالترجمہ عثمانیہ، شمس الامرا کا دارالترجمہ، سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی وغیرہ نے اس سمت میں بہت مثبت اور اہم رول ادا کیا ہے۔ جو زبان پہلے صرف قصیدہ، مثنوی، مرثیہ اور غزل میں محدود ہوکر رہ گئی تھی وہ رفتہ رفتہ علمی زبان بھی بنتی گئی۔ سائنسی اور سماجی علوم کے ترجمے اس زبان میں ہوئے اور ترجمے کی وجہ سے اس کا افادی دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔
آج اردو زبان کو آپ کم مایہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ وہ زبان ہے جس میں جہاں عالمی ادبیات کے شاہکار کے تراجم موجود ہیں، وہیں مختلف علوم و فنون کے ترجمے بھی اس زبان میں کیے گئے۔ ترجمے کا عمل جاری ہے، مختلف زبانوں سے ترجمے آج بھی ہورہے ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ مطالعاتِ ترجمہ کے شعبے بھی قائم ہیں جہاں ترجمے کے نظری اور عملی مباحث پر گفتگو ہوتی ہے وہیں ترجمے کے دیگر مسائل پر بھی غور کیا جاتا ہے۔
ترجمے نے جہاں ہمیں بہت سے الفاظ و افکار دیے ہیں وہیں ثقافتی سطح پر بہت سے شکوک و شبہات اور بدگمانیوں کو بھی دو رکیا ہے۔ دراصل ترجمہ کے ذریعے ہی ہم کسی قوم یا معاشرے کے مزاج سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کے علمی آثار اور ثقافتی بیانیے سے بھی ہماری واقفیت ہوتی ہے۔ آج جبکہ مختلف قومو ںکے درمیان کشمکش اور تصادم ہے تو ایسے میں ترجمہ ایک ایسا وسیلہ بن کر سامنے آیا ہے جس کے ذریعے ہم اس تصادم کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور تفاہم کی فضا قائم کرسکتے ہیں۔اس لیے آج ضرورت ہے کہ ترجمے پر زیادہ زور دیا جائے۔ خاص طور پر ہندوستانی تناظر میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ہندوستان کی بہت سی علاقائی زبانیں ہیں جن میں بیش قیمت علمی و ادبی ذخیرہ موجود ہے مگر ہماری رسائی ان ذخیروں تک نہیں ہے۔ ترجمے کے ذریعے ہم ان علاقائی زبانوں سے نہ صرف قریب ہوسکتے ہیں بلکہ مشترکہ اقدار و افکار کی جستجو بھی کرسکتے ہیں۔
ہندوستان ایک کثیر لسانی اور تہذیبی ملک ہے، یہاں بہت سی ثقافتیں اور تہذیبیں ہیں اور ان تہذیبوں کے درمیان وحدت اور اشتراک کی تلاش صرف ترجمے کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ترجمے نے ہی مختلف افکار و اقدار کے درمیان مماثلات اور مشترکات کی نشاندہی کی ہے۔ آج بھی ہم ترجمے کے ذریعے دوسری قوموں کے تہذیبی، معاشرتی اقداو اطوار سے واقف ہوسکتے ہیںاس لیے آج ہمیں اپنے ترجمے کے دائرے کو اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ فروری 2020
اردو وہ زبان ہے جس کا دوسری زبانوں سے اجنبیت یا غیریت کا رشتہ نہیں ہے۔ہر زبان اس کے لیے محبوب ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں سے اس نے اپنے رشتے اتنے مضبوط کیے ہیں کہ ان زبانوں کے بہت سے الفاظ و افکار بھی زبان اردو کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے اس زبان کا عوام سے گہرا تعلق رہا ہے۔ عوامی بولیاں اور الفاظ بھی اس زبان میں شامل ہوتے رہے ہیں اور اس طرح اس کی لسانی ثروت میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ جذب و انجذاب کی یہی قوت ہے جس کی وجہ سے اردو نہ صرف زندہ و تابندہ ہے بلکہ پوری دنیا میں اپنی زندگی کا ثبوت بھی دے رہی ہے۔برصغیر سے باہر اردو کی جونئی بستیاں آباد ہورہی ہیں وہ بھی اس کا ثبوت ہیں۔
اردو نے معاشرتی اور لسانی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور تغیرات کو ہمیشہ قبول کیا ہے اور کسی بھی سطح پر یہ منجمد نہیں رہی ہے اورشاید یہی اس کی زندگی کا راز بھی ہے کہ یہ بدلتے وقت کی ہر آہٹ کو محسوس کرتی ہے اور ہر اس لفظ اور فکر کو قبول کرتی ہے جس سے اس کے سرمایے میں اضافہ ہو۔
اردو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں بہت سارے الفاظ ہندی اور سنسکرت کے ہیں۔ فارسی اور عربی الفاظ کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اب لسانیات کی سطح پر جو تحقیقات ہورہی ہیں ان سے بھی بہت سے حقائق سامنے آرہے ہیں۔ اردو نے علاقائی ہندوستانی زبانوں سے بھی الفاظ لیے ہیں، خاص طور پر گجری، راجستھانی، مراٹھی اور دیگر زبانوں کے الفاظ بھی اردو میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اردو کا جہاں علاقائی زبانوں سے بہت گہرا رشتہ ہے وہیں عالمی زبانوں سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے اور اس تعلق کو استحکام ان تراجم کی وجہ سے بھی ملا ہے جو عالمی ادبیات یا علاقائی ادبیات کے حوالے سے اردو میں ہوتے رہے ہیں۔ دراصل کسی بھی زبان کو وسعت اور ترقی اسی وقت ملتی ہے جب وہ دوسری زبانوں سے لسانی اور فکری سطح پر اپنا مضبوط رشتہ قائم کرتی ہے۔ اردو نے اوّل دن سے ہی یہ محسوس کرلیا تھا کہ اگر اس زبان کو زندہ و متحرک رہنا ہے تو دوسری زبانوں کے علمی اور ادبی ذخیرے کو اردو میں منتقل کرنا ہوگا چنانچہ ترجمے کے بہت سے ادارے قائم ہوئے اور ان اداروں کے ذریعے بہت سی علمی اور فنی کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے گئے۔ فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، دارالترجمہ عثمانیہ، شمس الامرا کا دارالترجمہ، سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی وغیرہ نے اس سمت میں بہت مثبت اور اہم رول ادا کیا ہے۔ جو زبان پہلے صرف قصیدہ، مثنوی، مرثیہ اور غزل میں محدود ہوکر رہ گئی تھی وہ رفتہ رفتہ علمی زبان بھی بنتی گئی۔ سائنسی اور سماجی علوم کے ترجمے اس زبان میں ہوئے اور ترجمے کی وجہ سے اس کا افادی دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔
آج اردو زبان کو آپ کم مایہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ وہ زبان ہے جس میں جہاں عالمی ادبیات کے شاہکار کے تراجم موجود ہیں، وہیں مختلف علوم و فنون کے ترجمے بھی اس زبان میں کیے گئے۔ ترجمے کا عمل جاری ہے، مختلف زبانوں سے ترجمے آج بھی ہورہے ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ مطالعاتِ ترجمہ کے شعبے بھی قائم ہیں جہاں ترجمے کے نظری اور عملی مباحث پر گفتگو ہوتی ہے وہیں ترجمے کے دیگر مسائل پر بھی غور کیا جاتا ہے۔
ترجمے نے جہاں ہمیں بہت سے الفاظ و افکار دیے ہیں وہیں ثقافتی سطح پر بہت سے شکوک و شبہات اور بدگمانیوں کو بھی دو رکیا ہے۔ دراصل ترجمہ کے ذریعے ہی ہم کسی قوم یا معاشرے کے مزاج سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کے علمی آثار اور ثقافتی بیانیے سے بھی ہماری واقفیت ہوتی ہے۔ آج جبکہ مختلف قومو ںکے درمیان کشمکش اور تصادم ہے تو ایسے میں ترجمہ ایک ایسا وسیلہ بن کر سامنے آیا ہے جس کے ذریعے ہم اس تصادم کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور تفاہم کی فضا قائم کرسکتے ہیں۔اس لیے آج ضرورت ہے کہ ترجمے پر زیادہ زور دیا جائے۔ خاص طور پر ہندوستانی تناظر میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ہندوستان کی بہت سی علاقائی زبانیں ہیں جن میں بیش قیمت علمی و ادبی ذخیرہ موجود ہے مگر ہماری رسائی ان ذخیروں تک نہیں ہے۔ ترجمے کے ذریعے ہم ان علاقائی زبانوں سے نہ صرف قریب ہوسکتے ہیں بلکہ مشترکہ اقدار و افکار کی جستجو بھی کرسکتے ہیں۔
ہندوستان ایک کثیر لسانی اور تہذیبی ملک ہے، یہاں بہت سی ثقافتیں اور تہذیبیں ہیں اور ان تہذیبوں کے درمیان وحدت اور اشتراک کی تلاش صرف ترجمے کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ترجمے نے ہی مختلف افکار و اقدار کے درمیان مماثلات اور مشترکات کی نشاندہی کی ہے۔ آج بھی ہم ترجمے کے ذریعے دوسری قوموں کے تہذیبی، معاشرتی اقداو اطوار سے واقف ہوسکتے ہیںاس لیے آج ہمیں اپنے ترجمے کے دائرے کو اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ فروری 2020
اردو وہ زبان ہے جس کا دوسری زبانوں سے اجنبیت یا غیریت کا رشتہ نہیں ہے۔ہر زبان اس کے لیے محبوب ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں سے اس نے اپنے رشتے اتنے مضبوط کیے ہیں کہ ان زبانوں کے بہت سے الفاظ و افکار بھی زبان اردو کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے اس زبان کا عوام سے گہرا تعلق رہا ہے۔ عوامی بولیاں اور الفاظ بھی اس زبان میں شامل ہوتے رہے ہیں اور اس طرح اس کی لسانی ثروت میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ جذب و انجذاب کی یہی قوت ہے جس کی وجہ سے اردو نہ صرف زندہ و تابندہ ہے بلکہ پوری دنیا میں اپنی زندگی کا ثبوت بھی دے رہی ہے۔برصغیر سے باہر اردو کی جونئی بستیاں آباد ہورہی ہیں وہ بھی اس کا ثبوت ہیں۔
اردو نے معاشرتی اور لسانی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور تغیرات کو ہمیشہ قبول کیا ہے اور کسی بھی سطح پر یہ منجمد نہیں رہی ہے اورشاید یہی اس کی زندگی کا راز بھی ہے کہ یہ بدلتے وقت کی ہر آہٹ کو محسوس کرتی ہے اور ہر اس لفظ اور فکر کو قبول کرتی ہے جس سے اس کے سرمایے میں اضافہ ہو۔
اردو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں بہت سارے الفاظ ہندی اور سنسکرت کے ہیں۔ فارسی اور عربی الفاظ کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اب لسانیات کی سطح پر جو تحقیقات ہورہی ہیں ان سے بھی بہت سے حقائق سامنے آرہے ہیں۔ اردو نے علاقائی ہندوستانی زبانوں سے بھی الفاظ لیے ہیں، خاص طور پر گجری، راجستھانی، مراٹھی اور دیگر زبانوں کے الفاظ بھی اردو میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اردو کا جہاں علاقائی زبانوں سے بہت گہرا رشتہ ہے وہیں عالمی زبانوں سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے اور اس تعلق کو استحکام ان تراجم کی وجہ سے بھی ملا ہے جو عالمی ادبیات یا علاقائی ادبیات کے حوالے سے اردو میں ہوتے رہے ہیں۔ دراصل کسی بھی زبان کو وسعت اور ترقی اسی وقت ملتی ہے جب وہ دوسری زبانوں سے لسانی اور فکری سطح پر اپنا مضبوط رشتہ قائم کرتی ہے۔ اردو نے اوّل دن سے ہی یہ محسوس کرلیا تھا کہ اگر اس زبان کو زندہ و متحرک رہنا ہے تو دوسری زبانوں کے علمی اور ادبی ذخیرے کو اردو میں منتقل کرنا ہوگا چنانچہ ترجمے کے بہت سے ادارے قائم ہوئے اور ان اداروں کے ذریعے بہت سی علمی اور فنی کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے گئے۔ فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، دارالترجمہ عثمانیہ، شمس الامرا کا دارالترجمہ، سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی وغیرہ نے اس سمت میں بہت مثبت اور اہم رول ادا کیا ہے۔ جو زبان پہلے صرف قصیدہ، مثنوی، مرثیہ اور غزل میں محدود ہوکر رہ گئی تھی وہ رفتہ رفتہ علمی زبان بھی بنتی گئی۔ سائنسی اور سماجی علوم کے ترجمے اس زبان میں ہوئے اور ترجمے کی وجہ سے اس کا افادی دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔
آج اردو زبان کو آپ کم مایہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ وہ زبان ہے جس میں جہاں عالمی ادبیات کے شاہکار کے تراجم موجود ہیں، وہیں مختلف علوم و فنون کے ترجمے بھی اس زبان میں کیے گئے۔ ترجمے کا عمل جاری ہے، مختلف زبانوں سے ترجمے آج بھی ہورہے ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ مطالعاتِ ترجمہ کے شعبے بھی قائم ہیں جہاں ترجمے کے نظری اور عملی مباحث پر گفتگو ہوتی ہے وہیں ترجمے کے دیگر مسائل پر بھی غور کیا جاتا ہے۔
ترجمے نے جہاں ہمیں بہت سے الفاظ و افکار دیے ہیں وہیں ثقافتی سطح پر بہت سے شکوک و شبہات اور بدگمانیوں کو بھی دو رکیا ہے۔ دراصل ترجمہ کے ذریعے ہی ہم کسی قوم یا معاشرے کے مزاج سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کے علمی آثار اور ثقافتی بیانیے سے بھی ہماری واقفیت ہوتی ہے۔ آج جبکہ مختلف قومو ںکے درمیان کشمکش اور تصادم ہے تو ایسے میں ترجمہ ایک ایسا وسیلہ بن کر سامنے آیا ہے جس کے ذریعے ہم اس تصادم کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور تفاہم کی فضا قائم کرسکتے ہیں۔اس لیے آج ضرورت ہے کہ ترجمے پر زیادہ زور دیا جائے۔ خاص طور پر ہندوستانی تناظر میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ہندوستان کی بہت سی علاقائی زبانیں ہیں جن میں بیش قیمت علمی و ادبی ذخیرہ موجود ہے مگر ہماری رسائی ان ذخیروں تک نہیں ہے۔ ترجمے کے ذریعے ہم ان علاقائی زبانوں سے نہ صرف قریب ہوسکتے ہیں بلکہ مشترکہ اقدار و افکار کی جستجو بھی کرسکتے ہیں۔
ہندوستان ایک کثیر لسانی اور تہذیبی ملک ہے، یہاں بہت سی ثقافتیں اور تہذیبیں ہیں اور ان تہذیبوں کے درمیان وحدت اور اشتراک کی تلاش صرف ترجمے کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ترجمے نے ہی مختلف افکار و اقدار کے درمیان مماثلات اور مشترکات کی نشاندہی کی ہے۔ آج بھی ہم ترجمے کے ذریعے دوسری قوموں کے تہذیبی، معاشرتی اقداو اطوار سے واقف ہوسکتے ہیںاس لیے آج ہمیں اپنے ترجمے کے دائرے کو اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ فروری 2020
اردو وہ زبان ہے جس کا دوسری زبانوں سے اجنبیت یا غیریت کا رشتہ نہیں ہے۔ہر زبان اس کے لیے محبوب ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں سے اس نے اپنے رشتے اتنے مضبوط کیے ہیں کہ ان زبانوں کے بہت سے الفاظ و افکار بھی زبان اردو کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے اس زبان کا عوام سے گہرا تعلق رہا ہے۔ عوامی بولیاں اور الفاظ بھی اس زبان میں شامل ہوتے رہے ہیں اور اس طرح اس کی لسانی ثروت میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ جذب و انجذاب کی یہی قوت ہے جس کی وجہ سے اردو نہ صرف زندہ و تابندہ ہے بلکہ پوری دنیا میں اپنی زندگی کا ثبوت بھی دے رہی ہے۔برصغیر سے باہر اردو کی جونئی بستیاں آباد ہورہی ہیں وہ بھی اس کا ثبوت ہیں۔
اردو نے معاشرتی اور لسانی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور تغیرات کو ہمیشہ قبول کیا ہے اور کسی بھی سطح پر یہ منجمد نہیں رہی ہے اورشاید یہی اس کی زندگی کا راز بھی ہے کہ یہ بدلتے وقت کی ہر آہٹ کو محسوس کرتی ہے اور ہر اس لفظ اور فکر کو قبول کرتی ہے جس سے اس کے سرمایے میں اضافہ ہو۔
اردو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں بہت سارے الفاظ ہندی اور سنسکرت کے ہیں۔ فارسی اور عربی الفاظ کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اب لسانیات کی سطح پر جو تحقیقات ہورہی ہیں ان سے بھی بہت سے حقائق سامنے آرہے ہیں۔ اردو نے علاقائی ہندوستانی زبانوں سے بھی الفاظ لیے ہیں، خاص طور پر گجری، راجستھانی، مراٹھی اور دیگر زبانوں کے الفاظ بھی اردو میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اردو کا جہاں علاقائی زبانوں سے بہت گہرا رشتہ ہے وہیں عالمی زبانوں سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے اور اس تعلق کو استحکام ان تراجم کی وجہ سے بھی ملا ہے جو عالمی ادبیات یا علاقائی ادبیات کے حوالے سے اردو میں ہوتے رہے ہیں۔ دراصل کسی بھی زبان کو وسعت اور ترقی اسی وقت ملتی ہے جب وہ دوسری زبانوں سے لسانی اور فکری سطح پر اپنا مضبوط رشتہ قائم کرتی ہے۔ اردو نے اوّل دن سے ہی یہ محسوس کرلیا تھا کہ اگر اس زبان کو زندہ و متحرک رہنا ہے تو دوسری زبانوں کے علمی اور ادبی ذخیرے کو اردو میں منتقل کرنا ہوگا چنانچہ ترجمے کے بہت سے ادارے قائم ہوئے اور ان اداروں کے ذریعے بہت سی علمی اور فنی کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے گئے۔ فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، دارالترجمہ عثمانیہ، شمس الامرا کا دارالترجمہ، سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی وغیرہ نے اس سمت میں بہت مثبت اور اہم رول ادا کیا ہے۔ جو زبان پہلے صرف قصیدہ، مثنوی، مرثیہ اور غزل میں محدود ہوکر رہ گئی تھی وہ رفتہ رفتہ علمی زبان بھی بنتی گئی۔ سائنسی اور سماجی علوم کے ترجمے اس زبان میں ہوئے اور ترجمے کی وجہ سے اس کا افادی دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔
آج اردو زبان کو آپ کم مایہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ وہ زبان ہے جس میں جہاں عالمی ادبیات کے شاہکار کے تراجم موجود ہیں، وہیں مختلف علوم و فنون کے ترجمے بھی اس زبان میں کیے گئے۔ ترجمے کا عمل جاری ہے، مختلف زبانوں سے ترجمے آج بھی ہورہے ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ مطالعاتِ ترجمہ کے شعبے بھی قائم ہیں جہاں ترجمے کے نظری اور عملی مباحث پر گفتگو ہوتی ہے وہیں ترجمے کے دیگر مسائل پر بھی غور کیا جاتا ہے۔
ترجمے نے جہاں ہمیں بہت سے الفاظ و افکار دیے ہیں وہیں ثقافتی سطح پر بہت سے شکوک و شبہات اور بدگمانیوں کو بھی دو رکیا ہے۔ دراصل ترجمہ کے ذریعے ہی ہم کسی قوم یا معاشرے کے مزاج سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کے علمی آثار اور ثقافتی بیانیے سے بھی ہماری واقفیت ہوتی ہے۔ آج جبکہ مختلف قومو ںکے درمیان کشمکش اور تصادم ہے تو ایسے میں ترجمہ ایک ایسا وسیلہ بن کر سامنے آیا ہے جس کے ذریعے ہم اس تصادم کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور تفاہم کی فضا قائم کرسکتے ہیں۔اس لیے آج ضرورت ہے کہ ترجمے پر زیادہ زور دیا جائے۔ خاص طور پر ہندوستانی تناظر میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ہندوستان کی بہت سی علاقائی زبانیں ہیں جن میں بیش قیمت علمی و ادبی ذخیرہ موجود ہے مگر ہماری رسائی ان ذخیروں تک نہیں ہے۔ ترجمے کے ذریعے ہم ان علاقائی زبانوں سے نہ صرف قریب ہوسکتے ہیں بلکہ مشترکہ اقدار و افکار کی جستجو بھی کرسکتے ہیں۔
ہندوستان ایک کثیر لسانی اور تہذیبی ملک ہے، یہاں بہت سی ثقافتیں اور تہذیبیں ہیں اور ان تہذیبوں کے درمیان وحدت اور اشتراک کی تلاش صرف ترجمے کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ترجمے نے ہی مختلف افکار و اقدار کے درمیان مماثلات اور مشترکات کی نشاندہی کی ہے۔ آج بھی ہم ترجمے کے ذریعے دوسری قوموں کے تہذیبی، معاشرتی اقداو اطوار سے واقف ہوسکتے ہیںاس لیے آج ہمیں اپنے ترجمے کے دائرے کو اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ فروری 2020
اردو وہ زبان ہے جس کا دوسری زبانوں سے اجنبیت یا غیریت کا رشتہ نہیں ہے۔ہر زبان اس کے لیے محبوب ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں سے اس نے اپنے رشتے اتنے مضبوط کیے ہیں کہ ان زبانوں کے بہت سے الفاظ و افکار بھی زبان اردو کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے اس زبان کا عوام سے گہرا تعلق رہا ہے۔ عوامی بولیاں اور الفاظ بھی اس زبان میں شامل ہوتے رہے ہیں اور اس طرح اس کی لسانی ثروت میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ جذب و انجذاب کی یہی قوت ہے جس کی وجہ سے اردو نہ صرف زندہ و تابندہ ہے بلکہ پوری دنیا میں اپنی زندگی کا ثبوت بھی دے رہی ہے۔برصغیر سے باہر اردو کی جونئی بستیاں آباد ہورہی ہیں وہ بھی اس کا ثبوت ہیں۔
اردو نے معاشرتی اور لسانی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور تغیرات کو ہمیشہ قبول کیا ہے اور کسی بھی سطح پر یہ منجمد نہیں رہی ہے اورشاید یہی اس کی زندگی کا راز بھی ہے کہ یہ بدلتے وقت کی ہر آہٹ کو محسوس کرتی ہے اور ہر اس لفظ اور فکر کو قبول کرتی ہے جس سے اس کے سرمایے میں اضافہ ہو۔
اردو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں بہت سارے الفاظ ہندی اور سنسکرت کے ہیں۔ فارسی اور عربی الفاظ کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اب لسانیات کی سطح پر جو تحقیقات ہورہی ہیں ان سے بھی بہت سے حقائق سامنے آرہے ہیں۔ اردو نے علاقائی ہندوستانی زبانوں سے بھی الفاظ لیے ہیں، خاص طور پر گجری، راجستھانی، مراٹھی اور دیگر زبانوں کے الفاظ بھی اردو میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اردو کا جہاں علاقائی زبانوں سے بہت گہرا رشتہ ہے وہیں عالمی زبانوں سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے اور اس تعلق کو استحکام ان تراجم کی وجہ سے بھی ملا ہے جو عالمی ادبیات یا علاقائی ادبیات کے حوالے سے اردو میں ہوتے رہے ہیں۔ دراصل کسی بھی زبان کو وسعت اور ترقی اسی وقت ملتی ہے جب وہ دوسری زبانوں سے لسانی اور فکری سطح پر اپنا مضبوط رشتہ قائم کرتی ہے۔ اردو نے اوّل دن سے ہی یہ محسوس کرلیا تھا کہ اگر اس زبان کو زندہ و متحرک رہنا ہے تو دوسری زبانوں کے علمی اور ادبی ذخیرے کو اردو میں منتقل کرنا ہوگا چنانچہ ترجمے کے بہت سے ادارے قائم ہوئے اور ان اداروں کے ذریعے بہت سی علمی اور فنی کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے گئے۔ فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، دارالترجمہ عثمانیہ، شمس الامرا کا دارالترجمہ، سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی وغیرہ نے اس سمت میں بہت مثبت اور اہم رول ادا کیا ہے۔ جو زبان پہلے صرف قصیدہ، مثنوی، مرثیہ اور غزل میں محدود ہوکر رہ گئی تھی وہ رفتہ رفتہ علمی زبان بھی بنتی گئی۔ سائنسی اور سماجی علوم کے ترجمے اس زبان میں ہوئے اور ترجمے کی وجہ سے اس کا افادی دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔
آج اردو زبان کو آپ کم مایہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ وہ زبان ہے جس میں جہاں عالمی ادبیات کے شاہکار کے تراجم موجود ہیں، وہیں مختلف علوم و فنون کے ترجمے بھی اس زبان میں کیے گئے۔ ترجمے کا عمل جاری ہے، مختلف زبانوں سے ترجمے آج بھی ہورہے ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ مطالعاتِ ترجمہ کے شعبے بھی قائم ہیں جہاں ترجمے کے نظری اور عملی مباحث پر گفتگو ہوتی ہے وہیں ترجمے کے دیگر مسائل پر بھی غور کیا جاتا ہے۔
ترجمے نے جہاں ہمیں بہت سے الفاظ و افکار دیے ہیں وہیں ثقافتی سطح پر بہت سے شکوک و شبہات اور بدگمانیوں کو بھی دو رکیا ہے۔ دراصل ترجمہ کے ذریعے ہی ہم کسی قوم یا معاشرے کے مزاج سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کے علمی آثار اور ثقافتی بیانیے سے بھی ہماری واقفیت ہوتی ہے۔ آج جبکہ مختلف قومو ںکے درمیان کشمکش اور تصادم ہے تو ایسے میں ترجمہ ایک ایسا وسیلہ بن کر سامنے آیا ہے جس کے ذریعے ہم اس تصادم کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور تفاہم کی فضا قائم کرسکتے ہیں۔اس لیے آج ضرورت ہے کہ ترجمے پر زیادہ زور دیا جائے۔ خاص طور پر ہندوستانی تناظر میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ہندوستان کی بہت سی علاقائی زبانیں ہیں جن میں بیش قیمت علمی و ادبی ذخیرہ موجود ہے مگر ہماری رسائی ان ذخیروں تک نہیں ہے۔ ترجمے کے ذریعے ہم ان علاقائی زبانوں سے نہ صرف قریب ہوسکتے ہیں بلکہ مشترکہ اقدار و افکار کی جستجو بھی کرسکتے ہیں۔
ہندوستان ایک کثیر لسانی اور تہذیبی ملک ہے، یہاں بہت سی ثقافتیں اور تہذیبیں ہیں اور ان تہذیبوں کے درمیان وحدت اور اشتراک کی تلاش صرف ترجمے کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ترجمے نے ہی مختلف افکار و اقدار کے درمیان مماثلات اور مشترکات کی نشاندہی کی ہے۔ آج بھی ہم ترجمے کے ذریعے دوسری قوموں کے تہذیبی، معاشرتی اقداو اطوار سے واقف ہوسکتے ہیںاس لیے آج ہمیں اپنے ترجمے کے دائرے کو اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ فروری 2020
اردو وہ زبان ہے جس کا دوسری زبانوں سے اجنبیت یا غیریت کا رشتہ نہیں ہے۔ہر زبان اس کے لیے محبوب ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں سے اس نے اپنے رشتے اتنے مضبوط کیے ہیں کہ ان زبانوں کے بہت سے الفاظ و افکار بھی زبان اردو کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے اس زبان کا عوام سے گہرا تعلق رہا ہے۔ عوامی بولیاں اور الفاظ بھی اس زبان میں شامل ہوتے رہے ہیں اور اس طرح اس کی لسانی ثروت میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ جذب و انجذاب کی یہی قوت ہے جس کی وجہ سے اردو نہ صرف زندہ و تابندہ ہے بلکہ پوری دنیا میں اپنی زندگی کا ثبوت بھی دے رہی ہے۔برصغیر سے باہر اردو کی جونئی بستیاں آباد ہورہی ہیں وہ بھی اس کا ثبوت ہیں۔
اردو نے معاشرتی اور لسانی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور تغیرات کو ہمیشہ قبول کیا ہے اور کسی بھی سطح پر یہ منجمد نہیں رہی ہے اورشاید یہی اس کی زندگی کا راز بھی ہے کہ یہ بدلتے وقت کی ہر آہٹ کو محسوس کرتی ہے اور ہر اس لفظ اور فکر کو قبول کرتی ہے جس سے اس کے سرمایے میں اضافہ ہو۔
اردو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں بہت سارے الفاظ ہندی اور سنسکرت کے ہیں۔ فارسی اور عربی الفاظ کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اب لسانیات کی سطح پر جو تحقیقات ہورہی ہیں ان سے بھی بہت سے حقائق سامنے آرہے ہیں۔ اردو نے علاقائی ہندوستانی زبانوں سے بھی الفاظ لیے ہیں، خاص طور پر گجری، راجستھانی، مراٹھی اور دیگر زبانوں کے الفاظ بھی اردو میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اردو کا جہاں علاقائی زبانوں سے بہت گہرا رشتہ ہے وہیں عالمی زبانوں سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے اور اس تعلق کو استحکام ان تراجم کی وجہ سے بھی ملا ہے جو عالمی ادبیات یا علاقائی ادبیات کے حوالے سے اردو میں ہوتے رہے ہیں۔ دراصل کسی بھی زبان کو وسعت اور ترقی اسی وقت ملتی ہے جب وہ دوسری زبانوں سے لسانی اور فکری سطح پر اپنا مضبوط رشتہ قائم کرتی ہے۔ اردو نے اوّل دن سے ہی یہ محسوس کرلیا تھا کہ اگر اس زبان کو زندہ و متحرک رہنا ہے تو دوسری زبانوں کے علمی اور ادبی ذخیرے کو اردو میں منتقل کرنا ہوگا چنانچہ ترجمے کے بہت سے ادارے قائم ہوئے اور ان اداروں کے ذریعے بہت سی علمی اور فنی کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے گئے۔ فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، دارالترجمہ عثمانیہ، شمس الامرا کا دارالترجمہ، سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی وغیرہ نے اس سمت میں بہت مثبت اور اہم رول ادا کیا ہے۔ جو زبان پہلے صرف قصیدہ، مثنوی، مرثیہ اور غزل میں محدود ہوکر رہ گئی تھی وہ رفتہ رفتہ علمی زبان بھی بنتی گئی۔ سائنسی اور سماجی علوم کے ترجمے اس زبان میں ہوئے اور ترجمے کی وجہ سے اس کا افادی دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔
آج اردو زبان کو آپ کم مایہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ وہ زبان ہے جس میں جہاں عالمی ادبیات کے شاہکار کے تراجم موجود ہیں، وہیں مختلف علوم و فنون کے ترجمے بھی اس زبان میں کیے گئے۔ ترجمے کا عمل جاری ہے، مختلف زبانوں سے ترجمے آج بھی ہورہے ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ مطالعاتِ ترجمہ کے شعبے بھی قائم ہیں جہاں ترجمے کے نظری اور عملی مباحث پر گفتگو ہوتی ہے وہیں ترجمے کے دیگر مسائل پر بھی غور کیا جاتا ہے۔
ترجمے نے جہاں ہمیں بہت سے الفاظ و افکار دیے ہیں وہیں ثقافتی سطح پر بہت سے شکوک و شبہات اور بدگمانیوں کو بھی دو رکیا ہے۔ دراصل ترجمہ کے ذریعے ہی ہم کسی قوم یا معاشرے کے مزاج سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کے علمی آثار اور ثقافتی بیانیے سے بھی ہماری واقفیت ہوتی ہے۔ آج جبکہ مختلف قومو ںکے درمیان کشمکش اور تصادم ہے تو ایسے میں ترجمہ ایک ایسا وسیلہ بن کر سامنے آیا ہے جس کے ذریعے ہم اس تصادم کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور تفاہم کی فضا قائم کرسکتے ہیں۔اس لیے آج ضرورت ہے کہ ترجمے پر زیادہ زور دیا جائے۔ خاص طور پر ہندوستانی تناظر میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ہندوستان کی بہت سی علاقائی زبانیں ہیں جن میں بیش قیمت علمی و ادبی ذخیرہ موجود ہے مگر ہماری رسائی ان ذخیروں تک نہیں ہے۔ ترجمے کے ذریعے ہم ان علاقائی زبانوں سے نہ صرف قریب ہوسکتے ہیں بلکہ مشترکہ اقدار و افکار کی جستجو بھی کرسکتے ہیں۔
ہندوستان ایک کثیر لسانی اور تہذیبی ملک ہے، یہاں بہت سی ثقافتیں اور تہذیبیں ہیں اور ان تہذیبوں کے درمیان وحدت اور اشتراک کی تلاش صرف ترجمے کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ترجمے نے ہی مختلف افکار و اقدار کے درمیان مماثلات اور مشترکات کی نشاندہی کی ہے۔ آج بھی ہم ترجمے کے ذریعے دوسری قوموں کے تہذیبی، معاشرتی اقداو اطوار سے واقف ہوسکتے ہیںاس لیے آج ہمیں اپنے ترجمے کے دائرے کو اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ فروری 2020
اردو وہ زبان ہے جس کا دوسری زبانوں سے اجنبیت یا غیریت کا رشتہ نہیں ہے۔ہر زبان اس کے لیے محبوب ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں سے اس نے اپنے رشتے اتنے مضبوط کیے ہیں کہ ان زبانوں کے بہت سے الفاظ و افکار بھی زبان اردو کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے اس زبان کا عوام سے گہرا تعلق رہا ہے۔ عوامی بولیاں اور الفاظ بھی اس زبان میں شامل ہوتے رہے ہیں اور اس طرح اس کی لسانی ثروت میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ جذب و انجذاب کی یہی قوت ہے جس کی وجہ سے اردو نہ صرف زندہ و تابندہ ہے بلکہ پوری دنیا میں اپنی زندگی کا ثبوت بھی دے رہی ہے۔برصغیر سے باہر اردو کی جونئی بستیاں آباد ہورہی ہیں وہ بھی اس کا ثبوت ہیں۔
اردو نے معاشرتی اور لسانی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور تغیرات کو ہمیشہ قبول کیا ہے اور کسی بھی سطح پر یہ منجمد نہیں رہی ہے اورشاید یہی اس کی زندگی کا راز بھی ہے کہ یہ بدلتے وقت کی ہر آہٹ کو محسوس کرتی ہے اور ہر اس لفظ اور فکر کو قبول کرتی ہے جس سے اس کے سرمایے میں اضافہ ہو۔
اردو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں بہت سارے الفاظ ہندی اور سنسکرت کے ہیں۔ فارسی اور عربی الفاظ کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اب لسانیات کی سطح پر جو تحقیقات ہورہی ہیں ان سے بھی بہت سے حقائق سامنے آرہے ہیں۔ اردو نے علاقائی ہندوستانی زبانوں سے بھی الفاظ لیے ہیں، خاص طور پر گجری، راجستھانی، مراٹھی اور دیگر زبانوں کے الفاظ بھی اردو میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اردو کا جہاں علاقائی زبانوں سے بہت گہرا رشتہ ہے وہیں عالمی زبانوں سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے اور اس تعلق کو استحکام ان تراجم کی وجہ سے بھی ملا ہے جو عالمی ادبیات یا علاقائی ادبیات کے حوالے سے اردو میں ہوتے رہے ہیں۔ دراصل کسی بھی زبان کو وسعت اور ترقی اسی وقت ملتی ہے جب وہ دوسری زبانوں سے لسانی اور فکری سطح پر اپنا مضبوط رشتہ قائم کرتی ہے۔ اردو نے اوّل دن سے ہی یہ محسوس کرلیا تھا کہ اگر اس زبان کو زندہ و متحرک رہنا ہے تو دوسری زبانوں کے علمی اور ادبی ذخیرے کو اردو میں منتقل کرنا ہوگا چنانچہ ترجمے کے بہت سے ادارے قائم ہوئے اور ان اداروں کے ذریعے بہت سی علمی اور فنی کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے گئے۔ فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، دارالترجمہ عثمانیہ، شمس الامرا کا دارالترجمہ، سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی وغیرہ نے اس سمت میں بہت مثبت اور اہم رول ادا کیا ہے۔ جو زبان پہلے صرف قصیدہ، مثنوی، مرثیہ اور غزل میں محدود ہوکر رہ گئی تھی وہ رفتہ رفتہ علمی زبان بھی بنتی گئی۔ سائنسی اور سماجی علوم کے ترجمے اس زبان میں ہوئے اور ترجمے کی وجہ سے اس کا افادی دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔
آج اردو زبان کو آپ کم مایہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ وہ زبان ہے جس میں جہاں عالمی ادبیات کے شاہکار کے تراجم موجود ہیں، وہیں مختلف علوم و فنون کے ترجمے بھی اس زبان میں کیے گئے۔ ترجمے کا عمل جاری ہے، مختلف زبانوں سے ترجمے آج بھی ہورہے ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ مطالعاتِ ترجمہ کے شعبے بھی قائم ہیں جہاں ترجمے کے نظری اور عملی مباحث پر گفتگو ہوتی ہے وہیں ترجمے کے دیگر مسائل پر بھی غور کیا جاتا ہے۔
ترجمے نے جہاں ہمیں بہت سے الفاظ و افکار دیے ہیں وہیں ثقافتی سطح پر بہت سے شکوک و شبہات اور بدگمانیوں کو بھی دو رکیا ہے۔ دراصل ترجمہ کے ذریعے ہی ہم کسی قوم یا معاشرے کے مزاج سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کے علمی آثار اور ثقافتی بیانیے سے بھی ہماری واقفیت ہوتی ہے۔ آج جبکہ مختلف قومو ںکے درمیان کشمکش اور تصادم ہے تو ایسے میں ترجمہ ایک ایسا وسیلہ بن کر سامنے آیا ہے جس کے ذریعے ہم اس تصادم کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور تفاہم کی فضا قائم کرسکتے ہیں۔اس لیے آج ضرورت ہے کہ ترجمے پر زیادہ زور دیا جائے۔ خاص طور پر ہندوستانی تناظر میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ہندوستان کی بہت سی علاقائی زبانیں ہیں جن میں بیش قیمت علمی و ادبی ذخیرہ موجود ہے مگر ہماری رسائی ان ذخیروں تک نہیں ہے۔ ترجمے کے ذریعے ہم ان علاقائی زبانوں سے نہ صرف قریب ہوسکتے ہیں بلکہ مشترکہ اقدار و افکار کی جستجو بھی کرسکتے ہیں۔
ہندوستان ایک کثیر لسانی اور تہذیبی ملک ہے، یہاں بہت سی ثقافتیں اور تہذیبیں ہیں اور ان تہذیبوں کے درمیان وحدت اور اشتراک کی تلاش صرف ترجمے کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ترجمے نے ہی مختلف افکار و اقدار کے درمیان مماثلات اور مشترکات کی نشاندہی کی ہے۔ آج بھی ہم ترجمے کے ذریعے دوسری قوموں کے تہذیبی، معاشرتی اقداو اطوار سے واقف ہوسکتے ہیںاس لیے آج ہمیں اپنے ترجمے کے دائرے کو اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ فروری 2020
اردو وہ زبان ہے جس کا دوسری زبانوں سے اجنبیت یا غیریت کا رشتہ نہیں ہے۔ہر زبان اس کے لیے محبوب ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں سے اس نے اپنے رشتے اتنے مضبوط کیے ہیں کہ ان زبانوں کے بہت سے الفاظ و افکار بھی زبان اردو کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے اس زبان کا عوام سے گہرا تعلق رہا ہے۔ عوامی بولیاں اور الفاظ بھی اس زبان میں شامل ہوتے رہے ہیں اور اس طرح اس کی لسانی ثروت میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ جذب و انجذاب کی یہی قوت ہے جس کی وجہ سے اردو نہ صرف زندہ و تابندہ ہے بلکہ پوری دنیا میں اپنی زندگی کا ثبوت بھی دے رہی ہے۔برصغیر سے باہر اردو کی جونئی بستیاں آباد ہورہی ہیں وہ بھی اس کا ثبوت ہیں۔
اردو نے معاشرتی اور لسانی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور تغیرات کو ہمیشہ قبول کیا ہے اور کسی بھی سطح پر یہ منجمد نہیں رہی ہے اورشاید یہی اس کی زندگی کا راز بھی ہے کہ یہ بدلتے وقت کی ہر آہٹ کو محسوس کرتی ہے اور ہر اس لفظ اور فکر کو قبول کرتی ہے جس سے اس کے سرمایے میں اضافہ ہو۔
اردو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں بہت سارے الفاظ ہندی اور سنسکرت کے ہیں۔ فارسی اور عربی الفاظ کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اب لسانیات کی سطح پر جو تحقیقات ہورہی ہیں ان سے بھی بہت سے حقائق سامنے آرہے ہیں۔ اردو نے علاقائی ہندوستانی زبانوں سے بھی الفاظ لیے ہیں، خاص طور پر گجری، راجستھانی، مراٹھی اور دیگر زبانوں کے الفاظ بھی اردو میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اردو کا جہاں علاقائی زبانوں سے بہت گہرا رشتہ ہے وہیں عالمی زبانوں سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے اور اس تعلق کو استحکام ان تراجم کی وجہ سے بھی ملا ہے جو عالمی ادبیات یا علاقائی ادبیات کے حوالے سے اردو میں ہوتے رہے ہیں۔ دراصل کسی بھی زبان کو وسعت اور ترقی اسی وقت ملتی ہے جب وہ دوسری زبانوں سے لسانی اور فکری سطح پر اپنا مضبوط رشتہ قائم کرتی ہے۔ اردو نے اوّل دن سے ہی یہ محسوس کرلیا تھا کہ اگر اس زبان کو زندہ و متحرک رہنا ہے تو دوسری زبانوں کے علمی اور ادبی ذخیرے کو اردو میں منتقل کرنا ہوگا چنانچہ ترجمے کے بہت سے ادارے قائم ہوئے اور ان اداروں کے ذریعے بہت سی علمی اور فنی کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے گئے۔ فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، دارالترجمہ عثمانیہ، شمس الامرا کا دارالترجمہ، سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی وغیرہ نے اس سمت میں بہت مثبت اور اہم رول ادا کیا ہے۔ جو زبان پہلے صرف قصیدہ، مثنوی، مرثیہ اور غزل میں محدود ہوکر رہ گئی تھی وہ رفتہ رفتہ علمی زبان بھی بنتی گئی۔ سائنسی اور سماجی علوم کے ترجمے اس زبان میں ہوئے اور ترجمے کی وجہ سے اس کا افادی دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔
آج اردو زبان کو آپ کم مایہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ وہ زبان ہے جس میں جہاں عالمی ادبیات کے شاہکار کے تراجم موجود ہیں، وہیں مختلف علوم و فنون کے ترجمے بھی اس زبان میں کیے گئے۔ ترجمے کا عمل جاری ہے، مختلف زبانوں سے ترجمے آج بھی ہورہے ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ مطالعاتِ ترجمہ کے شعبے بھی قائم ہیں جہاں ترجمے کے نظری اور عملی مباحث پر گفتگو ہوتی ہے وہیں ترجمے کے دیگر مسائل پر بھی غور کیا جاتا ہے۔
ترجمے نے جہاں ہمیں بہت سے الفاظ و افکار دیے ہیں وہیں ثقافتی سطح پر بہت سے شکوک و شبہات اور بدگمانیوں کو بھی دو رکیا ہے۔ دراصل ترجمہ کے ذریعے ہی ہم کسی قوم یا معاشرے کے مزاج سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کے علمی آثار اور ثقافتی بیانیے سے بھی ہماری واقفیت ہوتی ہے۔ آج جبکہ مختلف قومو ںکے درمیان کشمکش اور تصادم ہے تو ایسے میں ترجمہ ایک ایسا وسیلہ بن کر سامنے آیا ہے جس کے ذریعے ہم اس تصادم کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور تفاہم کی فضا قائم کرسکتے ہیں۔اس لیے آج ضرورت ہے کہ ترجمے پر زیادہ زور دیا جائے۔ خاص طور پر ہندوستانی تناظر میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ہندوستان کی بہت سی علاقائی زبانیں ہیں جن میں بیش قیمت علمی و ادبی ذخیرہ موجود ہے مگر ہماری رسائی ان ذخیروں تک نہیں ہے۔ ترجمے کے ذریعے ہم ان علاقائی زبانوں سے نہ صرف قریب ہوسکتے ہیں بلکہ مشترکہ اقدار و افکار کی جستجو بھی کرسکتے ہیں۔
ہندوستان ایک کثیر لسانی اور تہذیبی ملک ہے، یہاں بہت سی ثقافتیں اور تہذیبیں ہیں اور ان تہذیبوں کے درمیان وحدت اور اشتراک کی تلاش صرف ترجمے کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ترجمے نے ہی مختلف افکار و اقدار کے درمیان مماثلات اور مشترکات کی نشاندہی کی ہے۔ آج بھی ہم ترجمے کے ذریعے دوسری قوموں کے تہذیبی، معاشرتی اقداو اطوار سے واقف ہوسکتے ہیںاس لیے آج ہمیں اپنے ترجمے کے دائرے کو اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ فروری 2020
اردو وہ زبان ہے جس کا دوسری زبانوں سے اجنبیت یا غیریت کا رشتہ نہیں ہے۔ہر زبان اس کے لیے محبوب ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں سے اس نے اپنے رشتے اتنے مضبوط کیے ہیں کہ ان زبانوں کے بہت سے الفاظ و افکار بھی زبان اردو کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے اس زبان کا عوام سے گہرا تعلق رہا ہے۔ عوامی بولیاں اور الفاظ بھی اس زبان میں شامل ہوتے رہے ہیں اور اس طرح اس کی لسانی ثروت میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ جذب و انجذاب کی یہی قوت ہے جس کی وجہ سے اردو نہ صرف زندہ و تابندہ ہے بلکہ پوری دنیا میں اپنی زندگی کا ثبوت بھی دے رہی ہے۔برصغیر سے باہر اردو کی جونئی بستیاں آباد ہورہی ہیں وہ بھی اس کا ثبوت ہیں۔
اردو نے معاشرتی اور لسانی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور تغیرات کو ہمیشہ قبول کیا ہے اور کسی بھی سطح پر یہ منجمد نہیں رہی ہے اورشاید یہی اس کی زندگی کا راز بھی ہے کہ یہ بدلتے وقت کی ہر آہٹ کو محسوس کرتی ہے اور ہر اس لفظ اور فکر کو قبول کرتی ہے جس سے اس کے سرمایے میں اضافہ ہو۔
اردو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں بہت سارے الفاظ ہندی اور سنسکرت کے ہیں۔ فارسی اور عربی الفاظ کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اب لسانیات کی سطح پر جو تحقیقات ہورہی ہیں ان سے بھی بہت سے حقائق سامنے آرہے ہیں۔ اردو نے علاقائی ہندوستانی زبانوں سے بھی الفاظ لیے ہیں، خاص طور پر گجری، راجستھانی، مراٹھی اور دیگر زبانوں کے الفاظ بھی اردو میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اردو کا جہاں علاقائی زبانوں سے بہت گہرا رشتہ ہے وہیں عالمی زبانوں سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے اور اس تعلق کو استحکام ان تراجم کی وجہ سے بھی ملا ہے جو عالمی ادبیات یا علاقائی ادبیات کے حوالے سے اردو میں ہوتے رہے ہیں۔ دراصل کسی بھی زبان کو وسعت اور ترقی اسی وقت ملتی ہے جب وہ دوسری زبانوں سے لسانی اور فکری سطح پر اپنا مضبوط رشتہ قائم کرتی ہے۔ اردو نے اوّل دن سے ہی یہ محسوس کرلیا تھا کہ اگر اس زبان کو زندہ و متحرک رہنا ہے تو دوسری زبانوں کے علمی اور ادبی ذخیرے کو اردو میں منتقل کرنا ہوگا چنانچہ ترجمے کے بہت سے ادارے قائم ہوئے اور ان اداروں کے ذریعے بہت سی علمی اور فنی کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے گئے۔ فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، دارالترجمہ عثمانیہ، شمس الامرا کا دارالترجمہ، سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی وغیرہ نے اس سمت میں بہت مثبت اور اہم رول ادا کیا ہے۔ جو زبان پہلے صرف قصیدہ، مثنوی، مرثیہ اور غزل میں محدود ہوکر رہ گئی تھی وہ رفتہ رفتہ علمی زبان بھی بنتی گئی۔ سائنسی اور سماجی علوم کے ترجمے اس زبان میں ہوئے اور ترجمے کی وجہ سے اس کا افادی دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔
آج اردو زبان کو آپ کم مایہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ وہ زبان ہے جس میں جہاں عالمی ادبیات کے شاہکار کے تراجم موجود ہیں، وہیں مختلف علوم و فنون کے ترجمے بھی اس زبان میں کیے گئے۔ ترجمے کا عمل جاری ہے، مختلف زبانوں سے ترجمے آج بھی ہورہے ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ مطالعاتِ ترجمہ کے شعبے بھی قائم ہیں جہاں ترجمے کے نظری اور عملی مباحث پر گفتگو ہوتی ہے وہیں ترجمے کے دیگر مسائل پر بھی غور کیا جاتا ہے۔
ترجمے نے جہاں ہمیں بہت سے الفاظ و افکار دیے ہیں وہیں ثقافتی سطح پر بہت سے شکوک و شبہات اور بدگمانیوں کو بھی دو رکیا ہے۔ دراصل ترجمہ کے ذریعے ہی ہم کسی قوم یا معاشرے کے مزاج سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کے علمی آثار اور ثقافتی بیانیے سے بھی ہماری واقفیت ہوتی ہے۔ آج جبکہ مختلف قومو ںکے درمیان کشمکش اور تصادم ہے تو ایسے میں ترجمہ ایک ایسا وسیلہ بن کر سامنے آیا ہے جس کے ذریعے ہم اس تصادم کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور تفاہم کی فضا قائم کرسکتے ہیں۔اس لیے آج ضرورت ہے کہ ترجمے پر زیادہ زور دیا جائے۔ خاص طور پر ہندوستانی تناظر میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ہندوستان کی بہت سی علاقائی زبانیں ہیں جن میں بیش قیمت علمی و ادبی ذخیرہ موجود ہے مگر ہماری رسائی ان ذخیروں تک نہیں ہے۔ ترجمے کے ذریعے ہم ان علاقائی زبانوں سے نہ صرف قریب ہوسکتے ہیں بلکہ مشترکہ اقدار و افکار کی جستجو بھی کرسکتے ہیں۔
ہندوستان ایک کثیر لسانی اور تہذیبی ملک ہے، یہاں بہت سی ثقافتیں اور تہذیبیں ہیں اور ان تہذیبوں کے درمیان وحدت اور اشتراک کی تلاش صرف ترجمے کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ترجمے نے ہی مختلف افکار و اقدار کے درمیان مماثلات اور مشترکات کی نشاندہی کی ہے۔ آج بھی ہم ترجمے کے ذریعے دوسری قوموں کے تہذیبی، معاشرتی اقداو اطوار سے واقف ہوسکتے ہیںاس لیے آج ہمیں اپنے ترجمے کے دائرے کو اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ فروری 2020
اردو وہ زبان ہے جس کا دوسری زبانوں سے اجنبیت یا غیریت کا رشتہ نہیں ہے۔ہر زبان اس کے لیے محبوب ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں سے اس نے اپنے رشتے اتنے مضبوط کیے ہیں کہ ان زبانوں کے بہت سے الفاظ و افکار بھی زبان اردو کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے اس زبان کا عوام سے گہرا تعلق رہا ہے۔ عوامی بولیاں اور الفاظ بھی اس زبان میں شامل ہوتے رہے ہیں اور اس طرح اس کی لسانی ثروت میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ جذب و انجذاب کی یہی قوت ہے جس کی وجہ سے اردو نہ صرف زندہ و تابندہ ہے بلکہ پوری دنیا میں اپنی زندگی کا ثبوت بھی دے رہی ہے۔برصغیر سے باہر اردو کی جونئی بستیاں آباد ہورہی ہیں وہ بھی اس کا ثبوت ہیں۔
اردو نے معاشرتی اور لسانی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور تغیرات کو ہمیشہ قبول کیا ہے اور کسی بھی سطح پر یہ منجمد نہیں رہی ہے اورشاید یہی اس کی زندگی کا راز بھی ہے کہ یہ بدلتے وقت کی ہر آہٹ کو محسوس کرتی ہے اور ہر اس لفظ اور فکر کو قبول کرتی ہے جس سے اس کے سرمایے میں اضافہ ہو۔
اردو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں بہت سارے الفاظ ہندی اور سنسکرت کے ہیں۔ فارسی اور عربی الفاظ کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اب لسانیات کی سطح پر جو تحقیقات ہورہی ہیں ان سے بھی بہت سے حقائق سامنے آرہے ہیں۔ اردو نے علاقائی ہندوستانی زبانوں سے بھی الفاظ لیے ہیں، خاص طور پر گجری، راجستھانی، مراٹھی اور دیگر زبانوں کے الفاظ بھی اردو میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اردو کا جہاں علاقائی زبانوں سے بہت گہرا رشتہ ہے وہیں عالمی زبانوں سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے اور اس تعلق کو استحکام ان تراجم کی وجہ سے بھی ملا ہے جو عالمی ادبیات یا علاقائی ادبیات کے حوالے سے اردو میں ہوتے رہے ہیں۔ دراصل کسی بھی زبان کو وسعت اور ترقی اسی وقت ملتی ہے جب وہ دوسری زبانوں سے لسانی اور فکری سطح پر اپنا مضبوط رشتہ قائم کرتی ہے۔ اردو نے اوّل دن سے ہی یہ محسوس کرلیا تھا کہ اگر اس زبان کو زندہ و متحرک رہنا ہے تو دوسری زبانوں کے علمی اور ادبی ذخیرے کو اردو میں منتقل کرنا ہوگا چنانچہ ترجمے کے بہت سے ادارے قائم ہوئے اور ان اداروں کے ذریعے بہت سی علمی اور فنی کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے گئے۔ فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، دارالترجمہ عثمانیہ، شمس الامرا کا دارالترجمہ، سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی وغیرہ نے اس سمت میں بہت مثبت اور اہم رول ادا کیا ہے۔ جو زبان پہلے صرف قصیدہ، مثنوی، مرثیہ اور غزل میں محدود ہوکر رہ گئی تھی وہ رفتہ رفتہ علمی زبان بھی بنتی گئی۔ سائنسی اور سماجی علوم کے ترجمے اس زبان میں ہوئے اور ترجمے کی وجہ سے اس کا افادی دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔
آج اردو زبان کو آپ کم مایہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ وہ زبان ہے جس میں جہاں عالمی ادبیات کے شاہکار کے تراجم موجود ہیں، وہیں مختلف علوم و فنون کے ترجمے بھی اس زبان میں کیے گئے۔ ترجمے کا عمل جاری ہے، مختلف زبانوں سے ترجمے آج بھی ہورہے ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ مطالعاتِ ترجمہ کے شعبے بھی قائم ہیں جہاں ترجمے کے نظری اور عملی مباحث پر گفتگو ہوتی ہے وہیں ترجمے کے دیگر مسائل پر بھی غور کیا جاتا ہے۔
ترجمے نے جہاں ہمیں بہت سے الفاظ و افکار دیے ہیں وہیں ثقافتی سطح پر بہت سے شکوک و شبہات اور بدگمانیوں کو بھی دو رکیا ہے۔ دراصل ترجمہ کے ذریعے ہی ہم کسی قوم یا معاشرے کے مزاج سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کے علمی آثار اور ثقافتی بیانیے سے بھی ہماری واقفیت ہوتی ہے۔ آج جبکہ مختلف قومو ںکے درمیان کشمکش اور تصادم ہے تو ایسے میں ترجمہ ایک ایسا وسیلہ بن کر سامنے آیا ہے جس کے ذریعے ہم اس تصادم کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور تفاہم کی فضا قائم کرسکتے ہیں۔اس لیے آج ضرورت ہے کہ ترجمے پر زیادہ زور دیا جائے۔ خاص طور پر ہندوستانی تناظر میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ہندوستان کی بہت سی علاقائی زبانیں ہیں جن میں بیش قیمت علمی و ادبی ذخیرہ موجود ہے مگر ہماری رسائی ان ذخیروں تک نہیں ہے۔ ترجمے کے ذریعے ہم ان علاقائی زبانوں سے نہ صرف قریب ہوسکتے ہیں بلکہ مشترکہ اقدار و افکار کی جستجو بھی کرسکتے ہیں۔
ہندوستان ایک کثیر لسانی اور تہذیبی ملک ہے، یہاں بہت سی ثقافتیں اور تہذیبیں ہیں اور ان تہذیبوں کے درمیان وحدت اور اشتراک کی تلاش صرف ترجمے کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ترجمے نے ہی مختلف افکار و اقدار کے درمیان مماثلات اور مشترکات کی نشاندہی کی ہے۔ آج بھی ہم ترجمے کے ذریعے دوسری قوموں کے تہذیبی، معاشرتی اقداو اطوار سے واقف ہوسکتے ہیںاس لیے آج ہمیں اپنے ترجمے کے دائرے کو اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ فروری 2020
اردو وہ زبان ہے جس کا دوسری زبانوں سے اجنبیت یا غیریت کا رشتہ نہیں ہے۔ہر زبان اس کے لیے محبوب ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں سے اس نے اپنے رشتے اتنے مضبوط کیے ہیں کہ ان زبانوں کے بہت سے الفاظ و افکار بھی زبان اردو کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے اس زبان کا عوام سے گہرا تعلق رہا ہے۔ عوامی بولیاں اور الفاظ بھی اس زبان میں شامل ہوتے رہے ہیں اور اس طرح اس کی لسانی ثروت میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ جذب و انجذاب کی یہی قوت ہے جس کی وجہ سے اردو نہ صرف زندہ و تابندہ ہے بلکہ پوری دنیا میں اپنی زندگی کا ثبوت بھی دے رہی ہے۔برصغیر سے باہر اردو کی جونئی بستیاں آباد ہورہی ہیں وہ بھی اس کا ثبوت ہیں۔
اردو نے معاشرتی اور لسانی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور تغیرات کو ہمیشہ قبول کیا ہے اور کسی بھی سطح پر یہ منجمد نہیں رہی ہے اورشاید یہی اس کی زندگی کا راز بھی ہے کہ یہ بدلتے وقت کی ہر آہٹ کو محسوس کرتی ہے اور ہر اس لفظ اور فکر کو قبول کرتی ہے جس سے اس کے سرمایے میں اضافہ ہو۔
اردو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں بہت سارے الفاظ ہندی اور سنسکرت کے ہیں۔ فارسی اور عربی الفاظ کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اب لسانیات کی سطح پر جو تحقیقات ہورہی ہیں ان سے بھی بہت سے حقائق سامنے آرہے ہیں۔ اردو نے علاقائی ہندوستانی زبانوں سے بھی الفاظ لیے ہیں، خاص طور پر گجری، راجستھانی، مراٹھی اور دیگر زبانوں کے الفاظ بھی اردو میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اردو کا جہاں علاقائی زبانوں سے بہت گہرا رشتہ ہے وہیں عالمی زبانوں سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے اور اس تعلق کو استحکام ان تراجم کی وجہ سے بھی ملا ہے جو عالمی ادبیات یا علاقائی ادبیات کے حوالے سے اردو میں ہوتے رہے ہیں۔ دراصل کسی بھی زبان کو وسعت اور ترقی اسی وقت ملتی ہے جب وہ دوسری زبانوں سے لسانی اور فکری سطح پر اپنا مضبوط رشتہ قائم کرتی ہے۔ اردو نے اوّل دن سے ہی یہ محسوس کرلیا تھا کہ اگر اس زبان کو زندہ و متحرک رہنا ہے تو دوسری زبانوں کے علمی اور ادبی ذخیرے کو اردو میں منتقل کرنا ہوگا چنانچہ ترجمے کے بہت سے ادارے قائم ہوئے اور ان اداروں کے ذریعے بہت سی علمی اور فنی کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے گئے۔ فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، دارالترجمہ عثمانیہ، شمس الامرا کا دارالترجمہ، سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی وغیرہ نے اس سمت میں بہت مثبت اور اہم رول ادا کیا ہے۔ جو زبان پہلے صرف قصیدہ، مثنوی، مرثیہ اور غزل میں محدود ہوکر رہ گئی تھی وہ رفتہ رفتہ علمی زبان بھی بنتی گئی۔ سائنسی اور سماجی علوم کے ترجمے اس زبان میں ہوئے اور ترجمے کی وجہ سے اس کا افادی دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔
آج اردو زبان کو آپ کم مایہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ وہ زبان ہے جس میں جہاں عالمی ادبیات کے شاہکار کے تراجم موجود ہیں، وہیں مختلف علوم و فنون کے ترجمے بھی اس زبان میں کیے گئے۔ ترجمے کا عمل جاری ہے، مختلف زبانوں سے ترجمے آج بھی ہورہے ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ مطالعاتِ ترجمہ کے شعبے بھی قائم ہیں جہاں ترجمے کے نظری اور عملی مباحث پر گفتگو ہوتی ہے وہیں ترجمے کے دیگر مسائل پر بھی غور کیا جاتا ہے۔
ترجمے نے جہاں ہمیں بہت سے الفاظ و افکار دیے ہیں وہیں ثقافتی سطح پر بہت سے شکوک و شبہات اور بدگمانیوں کو بھی دو رکیا ہے۔ دراصل ترجمہ کے ذریعے ہی ہم کسی قوم یا معاشرے کے مزاج سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کے علمی آثار اور ثقافتی بیانیے سے بھی ہماری واقفیت ہوتی ہے۔ آج جبکہ مختلف قومو ںکے درمیان کشمکش اور تصادم ہے تو ایسے میں ترجمہ ایک ایسا وسیلہ بن کر سامنے آیا ہے جس کے ذریعے ہم اس تصادم کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور تفاہم کی فضا قائم کرسکتے ہیں۔اس لیے آج ضرورت ہے کہ ترجمے پر زیادہ زور دیا جائے۔ خاص طور پر ہندوستانی تناظر میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ہندوستان کی بہت سی علاقائی زبانیں ہیں جن میں بیش قیمت علمی و ادبی ذخیرہ موجود ہے مگر ہماری رسائی ان ذخیروں تک نہیں ہے۔ ترجمے کے ذریعے ہم ان علاقائی زبانوں سے نہ صرف قریب ہوسکتے ہیں بلکہ مشترکہ اقدار و افکار کی جستجو بھی کرسکتے ہیں۔
ہندوستان ایک کثیر لسانی اور تہذیبی ملک ہے، یہاں بہت سی ثقافتیں اور تہذیبیں ہیں اور ان تہذیبوں کے درمیان وحدت اور اشتراک کی تلاش صرف ترجمے کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ترجمے نے ہی مختلف افکار و اقدار کے درمیان مماثلات اور مشترکات کی نشاندہی کی ہے۔ آج بھی ہم ترجمے کے ذریعے دوسری قوموں کے تہذیبی، معاشرتی اقداو اطوار سے واقف ہوسکتے ہیںاس لیے آج ہمیں اپنے ترجمے کے دائرے کو اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ فروری 2020
اردو وہ زبان ہے جس کا دوسری زبانوں سے اجنبیت یا غیریت کا رشتہ نہیں ہے۔ہر زبان اس کے لیے محبوب ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں سے اس نے اپنے رشتے اتنے مضبوط کیے ہیں کہ ان زبانوں کے بہت سے الفاظ و افکار بھی زبان اردو کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے اس زبان کا عوام سے گہرا تعلق رہا ہے۔ عوامی بولیاں اور الفاظ بھی اس زبان میں شامل ہوتے رہے ہیں اور اس طرح اس کی لسانی ثروت میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ جذب و انجذاب کی یہی قوت ہے جس کی وجہ سے اردو نہ صرف زندہ و تابندہ ہے بلکہ پوری دنیا میں اپنی زندگی کا ثبوت بھی دے رہی ہے۔برصغیر سے باہر اردو کی جونئی بستیاں آباد ہورہی ہیں وہ بھی اس کا ثبوت ہیں۔
اردو نے معاشرتی اور لسانی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور تغیرات کو ہمیشہ قبول کیا ہے اور کسی بھی سطح پر یہ منجمد نہیں رہی ہے اورشاید یہی اس کی زندگی کا راز بھی ہے کہ یہ بدلتے وقت کی ہر آہٹ کو محسوس کرتی ہے اور ہر اس لفظ اور فکر کو قبول کرتی ہے جس سے اس کے سرمایے میں اضافہ ہو۔
اردو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں بہت سارے الفاظ ہندی اور سنسکرت کے ہیں۔ فارسی اور عربی الفاظ کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اب لسانیات کی سطح پر جو تحقیقات ہورہی ہیں ان سے بھی بہت سے حقائق سامنے آرہے ہیں۔ اردو نے علاقائی ہندوستانی زبانوں سے بھی الفاظ لیے ہیں، خاص طور پر گجری، راجستھانی، مراٹھی اور دیگر زبانوں کے الفاظ بھی اردو میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اردو کا جہاں علاقائی زبانوں سے بہت گہرا رشتہ ہے وہیں عالمی زبانوں سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے اور اس تعلق کو استحکام ان تراجم کی وجہ سے بھی ملا ہے جو عالمی ادبیات یا علاقائی ادبیات کے حوالے سے اردو میں ہوتے رہے ہیں۔ دراصل کسی بھی زبان کو وسعت اور ترقی اسی وقت ملتی ہے جب وہ دوسری زبانوں سے لسانی اور فکری سطح پر اپنا مضبوط رشتہ قائم کرتی ہے۔ اردو نے اوّل دن سے ہی یہ محسوس کرلیا تھا کہ اگر اس زبان کو زندہ و متحرک رہنا ہے تو دوسری زبانوں کے علمی اور ادبی ذخیرے کو اردو میں منتقل کرنا ہوگا چنانچہ ترجمے کے بہت سے ادارے قائم ہوئے اور ان اداروں کے ذریعے بہت سی علمی اور فنی کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے گئے۔ فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، دارالترجمہ عثمانیہ، شمس الامرا کا دارالترجمہ، سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی وغیرہ نے اس سمت میں بہت مثبت اور اہم رول ادا کیا ہے۔ جو زبان پہلے صرف قصیدہ، مثنوی، مرثیہ اور غزل میں محدود ہوکر رہ گئی تھی وہ رفتہ رفتہ علمی زبان بھی بنتی گئی۔ سائنسی اور سماجی علوم کے ترجمے اس زبان میں ہوئے اور ترجمے کی وجہ سے اس کا افادی دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔
آج اردو زبان کو آپ کم مایہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ وہ زبان ہے جس میں جہاں عالمی ادبیات کے شاہکار کے تراجم موجود ہیں، وہیں مختلف علوم و فنون کے ترجمے بھی اس زبان میں کیے گئے۔ ترجمے کا عمل جاری ہے، مختلف زبانوں سے ترجمے آج بھی ہورہے ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ مطالعاتِ ترجمہ کے شعبے بھی قائم ہیں جہاں ترجمے کے نظری اور عملی مباحث پر گفتگو ہوتی ہے وہیں ترجمے کے دیگر مسائل پر بھی غور کیا جاتا ہے۔
ترجمے نے جہاں ہمیں بہت سے الفاظ و افکار دیے ہیں وہیں ثقافتی سطح پر بہت سے شکوک و شبہات اور بدگمانیوں کو بھی دو رکیا ہے۔ دراصل ترجمہ کے ذریعے ہی ہم کسی قوم یا معاشرے کے مزاج سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کے علمی آثار اور ثقافتی بیانیے سے بھی ہماری واقفیت ہوتی ہے۔ آج جبکہ مختلف قومو ںکے درمیان کشمکش اور تصادم ہے تو ایسے میں ترجمہ ایک ایسا وسیلہ بن کر سامنے آیا ہے جس کے ذریعے ہم اس تصادم کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور تفاہم کی فضا قائم کرسکتے ہیں۔اس لیے آج ضرورت ہے کہ ترجمے پر زیادہ زور دیا جائے۔ خاص طور پر ہندوستانی تناظر میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ہندوستان کی بہت سی علاقائی زبانیں ہیں جن میں بیش قیمت علمی و ادبی ذخیرہ موجود ہے مگر ہماری رسائی ان ذخیروں تک نہیں ہے۔ ترجمے کے ذریعے ہم ان علاقائی زبانوں سے نہ صرف قریب ہوسکتے ہیں بلکہ مشترکہ اقدار و افکار کی جستجو بھی کرسکتے ہیں۔
ہندوستان ایک کثیر لسانی اور تہذیبی ملک ہے، یہاں بہت سی ثقافتیں اور تہذیبیں ہیں اور ان تہذیبوں کے درمیان وحدت اور اشتراک کی تلاش صرف ترجمے کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ترجمے نے ہی مختلف افکار و اقدار کے درمیان مماثلات اور مشترکات کی نشاندہی کی ہے۔ آج بھی ہم ترجمے کے ذریعے دوسری قوموں کے تہذیبی، معاشرتی اقداو اطوار سے واقف ہوسکتے ہیںاس لیے آج ہمیں اپنے ترجمے کے دائرے کو اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔