فلسفیانہ بصیرت اورعصری احساس کا شاعرفریدپربتی
فریدپربتی کی شاعری کے کئی رنگ ہیں جوان کے تمام شعری مجموعوںمیں منعکس ہوتے رہتے ہیں۔ان کیversatility کی دلیل ان کے شعری مجموعے’ابرتر‘، ’آبِ نسیاں، ’اثبات‘، ’فریدنامہ‘ ، ’گفتگوچاندسے‘،’ہزارامکاں‘، ’خبرِ تحیر‘اور ’ ہجوم آئینہ ‘ہیں۔ان کی تنقیدی کتابوں میں ’شہ زورکشمیری(تلمذسیماب اکبرآبادی)حیات وفن، ’انتقادواصلاح‘،’صنف رباعی‘ ،’داغ بحیثیت مثنوی نگار‘اور’تنقید رباعی شائع ہوئیں ۔ان کی آخری کتاب ’’شہ زورکشمیری(تلمذسیماب اکبرآبادی)حیات وفن ‘‘ترمیم واضافہ کے بعد شائع ہوئی لیکن جب یہ کتاب شائع ہوکرآئی اس وقت فرید پربتی اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے۔’’شاعر‘‘ ممبئی میں2005 اور2011 میں فرید بربتی کے اعتراف میںگوشے شائع ہوچکے ہیں۔اس کے علاوہ جناب سلیم سالک نے 2006 میں ’’فریدپربتیشعرشعورشعریات‘‘اور ڈاکٹرمشتاق حیدراورشاہ فیصل نے 2011 میں ’’فرید پربتیتنقید،تخلیق اورتفکر‘‘کے عنوانات سے ایک ایک کتاب مرتب کی تھی۔
فرید پربتی نے شاعری کے بیشتر اصناف میں طبع آزمائی کی لیکن غزل اوررباعی میں اپنے کمالات کے جوہرخوب دکھائے ہیں۔ان دونوںاصناف کی روایت بہت قدیم ہے۔کلاسیکی اورجدیددورکے نہ جانے کتنے شعرانے ان دونوںاصناف میں اپنے کمالات کاجوہردکھایاہے۔ان باکمال شعراکی بھیڑمیں اگرکوئی شاعرغزل اور رباعی جیسے اصناف میں شعری نزاکت ولطافت کوبرقراررکھتے ہوئے منفردمقام حاصل کرلے تویہ بہت بڑی بات ہے۔فرید پربتی کوبھی اس کااحساس تھاکہ انہوں نے ان دونوں اصناف میں اپناکمال دکھایاہے
وہ غزل ہو کہ رباعی ہو دیا تو نے فریدؔ
ایک اک صنف کو اندازِ بیاں ایک نیا
دراصل فریدپربتی نے اساتذہ کے کلام کاکثرت سے مطالعہ کیاتھا۔سنسکرت،فارسی اوراردوکی کلاسیکی شعری روایات کواپنے اندر جذب کیا ،پرانی تشبیہات ،استعارات، علامات اور لفظیات کو نئے معنی و مفہوم عطاکرکے نئے تجربے کے ساتھ شعرکے سانچے میں ڈھال دیا۔اساتذہ کے بعض اشعارکے مفہوم کونئے اندازاورنئے لب ولہجے میں پیش کیا۔اساتذہ کے بعض قافیوں کااستعمال کیالیکن ردیف بدل دی۔الغرض غالب نے جس طرح بیدل اور کئی فارسی کے دوسرے شعراکے خیالات سے استفادہ کیااسی طرح فریدپربتی نے بھی اساتذہ کے کلام وخیالات سے استفادہ کیااور اپنابناکرنئے تجربے اورنئے رنگ میں پیش کیا۔ اسی لیے ان کی شاعری کلاسیکی اورجدیدرنگ کی خوبصورت آمیزش ہے۔تخلیقی عمل سے گذرتے ہوئے کلاسیکی اورجدیدرنگ کے درمیان توازن برقراررکھنا بے حددشوار ہے۔ غزل کے عبوری دورکے بعض شعرانے کلاسیکی رنگ غزل سے جب انحراف کیاتو اکثر ان کالہجہ اُکھڑگیا اورشعرکی تاثیرختم ہوگئی لیکن فرید پربتی کی ذہنی تربیت، کلاسیکی رچاؤ اورعصری تہذیبی ومعاشرتی تقاضوںکے شعورنے کلاسیکیت اور جدیدیت کے فرق کو ختم کردیا۔پروفیسرقدوس جاویدنے بھی ’ہزارامکاں‘پراظہارخیال کرتے ہوئے لکھاہے
’’فریدپربتی کی غزل کلاسیکی غزل کے لسانی اوراظہاری رویوں سے رشتہ قائم رکھتی ہے لیکن دوسری جانب عصری زندگی اورثقافت کے حوالے سے سوچ اورفکرکوتخلیقی تجربے کے بطورپیش کرنے کی ہنرمندی کے سبب جدیدترین لسانی، فنی اورجمالیاتی شعورکاجواز بھی پیش کرتی ہے۔‘‘
فرید پربتی کو بھی اپنی زبان دانی کااحساس تھاانہوں نے اپنے اشعارمیں اکثراس کااظہار کیاہے
زباں ہے صاف خیالات بھی شگفتہ ہیں
فریدؔ تو نے یہ طرزِ سخن نکالی کیا
بولتی روحِ غنیؔ ہے تیرے شعروں میں فریدؔ
یہ ہمیں اندازہ تیری خوش بیانی سے ہوا
یوں توفریدپربتی نے تنقیدوتحقیق میں بھی اپنا ایک مقام پیدا کرلیاتھالیکن بنیادی طورپروہ ایک فطری شاعرتھے ۔فریدپربتی کاتعلق بھلے ہی وادیٔ کشمیرسے ہے لیکن انہوں نے اپنے آپ کو علاقائیت کے حصارسے باہرنکال کر خود کوآفاقی شعرا کی صف میں لاکرکھڑاکردیاتھا۔یہی وہ جذبہ ہے جس کی بدولت ان کی شاعری میں آفاقیت پیدا ہوئی اور انہیں آفاقی شہرت ملی۔انہوں نے اپنے کئی اشعارمیں اظہار کیا کہ بھلے ہی ان کاتعلق کشمیرسے ہے لیکن انہیں ہندوستان کاہرشہراورخطہ اپناوطن معلوم ہوتا ہے
ہوتا ہے دکن میں کبھی دلّی کبھی جموں
رہتا ہے فریدؔ اب نہیں کشمیر میں شاید
ایک سا لگتا ہے مجھ کو ہر دیار
کاشمر ہو وہ کہ دلّی یا دکن
یہی وہ احساس ہے جس کی وجہ سے شاعر کی سوچ میں وسعت پیدہوجاتی ہے۔شاعرکے نجی مسائل، عوامی مسائل سے ہم آہنگ ہوتے ہیں اورشاعر اپنے غموں اور مسائل کوعوامی یاآفاقی بناکر پیش کرتا ہے ۔ فرید پربتی نے بھی نجی واقعات وحالات اورعلاقائی مسائل کو آفاقی تناظر میں پیش کیا
چھلنی ہوا ہے جسم مرا پھر بھی دیکھنا
کرتے نہیں ہیں مشق وہ تیر و کماں بند
کھوگئے گاڑھے دھویں میں شہر کے منظر تمام
اک پرندہ رہ گیا آہ و فغاں کرتا ہوا
رونق یہ میرے شہر کی اب لے گیا ہے کون
ایک اک سڑک خموش ہے ایک اک دوکاں بند
میری بستی سے ہے گزرا ایک لشکر اس طرح
دودھ پیتے بچوں پر مشقِ سناں کرتا ہوا
یہ اشعار بھلے ہی کشمیرکے پس منظرمیں کہے گئے ہوں لیکن یہ صورتِ حال پوری دنیامیں ہے۔چاہے وہ پاکستان ہویاافغانستان،عراق ہویاایران،فلسطین ہویا مصریاشام ہرجگہ جنگ وجدل کامنظرہے،بچوں اور عورتوں پرمشق سِناں جاری ہے۔بارودکے گاڑھے دھنویں میں لپٹا ہواہر شہر،چاروں طرف کرفیو،دکانیں بند،سڑکوں پرسنّاٹا چھایاہواہے۔گھروں سے چیخ پکاراورکراہیں سنائی دے رہی ہیں۔الغرض معلوم ہوتاہے کہ فریدپربتی کے یہ اشعارآفاقی تناظرمیں کہے گئے ہیں۔ایک بڑے شاعرکی یہی پہچان ہے۔
فریدپربتی کی شاعری میں خواب کااستعمال کثرت سے ہواہے۔اس کے نفسیاتی پہلوؤں پراگرغورکیاجائے تومعلوم ہوتا ہے کہ انسان کی ہزاروں خواہشیں ایسی ہوتی ہیں جن کی تکمیل نہیں ہوپاتی ہے ۔ایسی خواہشیں مرتی نہیں ہیں بلکہ دب جاتی ہیں اور اس کے لاشعورکاحصہ بن جاتی ہیں۔انسان ان خواہشوں کو رات میں سونے کے بعدخواب میں دیکھتاہے یامحسوس کرتاہے ۔کبھی انسان ان دبی ہوئی خواہشوں کوعالم بیداری میں بھی دیکھتاہے جسے فنٹاسی یعنی جاگتی آنکھوں کاخواب سے تعبیرکرتے ہیں۔اس لیے کہاجاتاہے کہ خواب اورفنٹاسی ایک ہی سکّے کے دورخ ہیں۔رات کے خواب یادن کی جاگتی آنکھوں کے خواب کااظہارہم اکثرنہیں کرپاتے ہیں کیوں کہ خواب اور فنٹاسی میں کبھی کبھی ایسی خواہشیں جاگ جاتی ہیں جن کاذکرکرتے ہوئے ہم شرمندگی محسوس کرتے ہیں کیوں کہ ان کاتعلق ہمارے بچپن کی خواہشوں سے ہوتا ہے جن کااظہارزمانۂ طفلی میں تو اچھا لگتا ہے لیکن بڑے ہوجانے کے بعدان خواہشوں کااظہار کرتے ہوئے ہم شرم محسوس کرتے ہیں اس لیے ہم انہیں سختی سے دبادیتے ہیںلیکن ان دبی ہوئی خواہشوں کااظہار مسخ شدہ حالت میں ہوتا ہے جوآسانی سے ہماری سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ماہرین نفسیات کاخیال ہے کہ جس طرح رات میں ہماری دبی ہوئی خواہشیں تسکین پاتی ہیں اسی طرح دن کے خوابِ بیداری میںدبی ہوئی خواہشیں تسکین پاجاتی ہیں۔
ایک تخلیق کار یاشاعر جب تخلیقی عمل سے گزرتاہے تواپنے لیے ایک فنٹاسی کی دنیاخلق کرتاہے۔فرائڈ کاخیال ہے کہ فنٹاسی میں تینوں زمانے ماضی، حال اورمستقبل موجودہوتے ہیں۔ زمانۂ حال میںتخلیق کارکا کوئی شدید تجربہ ماضی میں گزرے ہوئے تجربے اوران کی تکمیل کی خواہش کوپھرسے جگادیتاہے جس کی تکمیل وہ اپنی تخلیق میں ڈھونڈ لیتاہے اور اس کااظہار اپنی تخلیق میں جمالیاتی عنصر کے ساتھ کرتاہے جس سے قاری محظوظ ہوتاہے اورسمجھتا ہے کہ یہ میرے ہی خوابوں کی تعبیرہے۔ فریدپربتی نے بھی ماضی کی اپنی پرانی خواہشوں کو زمانۂ حال سے ہم آہنگ کرکے اپنی شاعری میں پیش کیا اوراپنے پیرایۂ اظہارمیں جمالیاتی عناصرکوبھی شامل کیا جس سے ان کے اشعارمیں دلکشی پیداہوگئی ہے ۔چند اشعارملاحظہ کیجئے
کس نے رکھّی ہے مری آنکھوں میں خوابوں کی قطار
کون خواہش دل کی جاتا ہے جواں کرتا ہوا
تسلسل ٹوٹتے خوابوں میں پیدا کر گئی دنیا
نئے انداز سے شعلے نگہ میں بھر گئی دنیا
نہیں دور ہے خواب سے کیوں حقیقت
میں تفصیل اِس کی سنائوں گا اک دن
وہم و یقیں یکساں ہیں میرے لیے
خوابوں کا میں، ملبوس ہوں حیران ہوں
مَیں خوابوں کی شمعیں جلائوں گا اک دن
زمیں پر ستاروں کو لائوں گا اک دن
جانے کس سمت لیے جاتا ہے خوابوں کا بھنور
دائرہ دائرہ ہر موج سے پیدا ہو جائوں
لے کے نکلا ہوں میں پھر سوختہ خوابوں کا جلوس
خود تماشائی بنوں خود ہی تماشا ہو جائوں
خوابوں کے بعدفرید پربتی کے اشعار میں ’ہَوا ‘کااستعمال بھی کثرت سے ہوا ہے۔ہوا کے کثرتِ استعمال کے پیچھے کون سی سائیکی تھی یہ جاننے کے لیے ہواکے اساطیری پہلوؤں پر غورکرناضروری ہے۔دراصل ’ہَوا‘ کوسنسکرت میں ’وایو‘ کہا جاتا ہے۔‘ ہندؤںکے ابتدائی ہمہ اوست نظریے کے مطابق’وایو ‘ ہَوا کا دیوتا ہے جسے کافی عزت و احترام کی نظرسے دیکھا جاتاتھا کیوں کہ وہ تمام دیوتاؤں میں سب سے زیادہ طاقتوراوراہم تھا۔اس کی غیرموجودگی میں تمام دیوتاؤںکی زندگی تھم جاتی تھی کیوں کہ زندہ رہنے کے لیے سانس لیناضروری ہے۔ ’وایو‘ کو سنسکرت میں ’پران‘ یا ’پَون‘بھی کہاجاتا ہے یعنی پاک کرنے والا۔’وایو‘اکثربے حد حسین وجمیل شخص کی نمائندگی کرتاہے اور جس کے رتھ کوہلکے جامنی اورسفید رنگوں کے ہزاروں گھوڑے تیزرفتارسے کھینچتے ہیں لیکن جب وہ رتھ پرسوار نہیں رہتا ہے توپھرہرن کی سواری کرتا یعنی یہ رفتارکی بھی علامت ہے۔ ’وایو‘کو طوفان برپاکرنے والا دیوتاکے طورپرپیش کیاجاتاہے۔کہاجاتا ہے ایک دفعہ’ وایو‘ غصّے کے عالم میں اساطیری پہاڑ ’میرو‘کی چوٹی کو اڑا کرلے گیا اوراسے سمندرمیں ڈال دیا جسے موجودہ دور میں سری لنکا کہاجاتاہے۔’وایو‘اپنے ہَوَس کے لئے بھی کافی مشہورہے۔کہاجاتا ہے کہ یہ کئی بچوں کے ساتھ قدیم ہمہ اوست میںدیواتاؤں کوبھی جنم دیاہے۔ اس کا سب سے مشہورومعروف بیٹوں میں بندروں کا دیوتا ہنومان ہے جسے ہوا میں اڑنے کی ’وردان ‘(تحفہ) ’وایو‘ہی نے دیاتھا اوردوسرا مہابھارت کا ہیرو بھیم بھی ’وایو‘کاہی بیٹا تھا۔بھیم سراپاطاقت تھاتوہنومان طاقت کادیوتاتھا۔مختصر یہ کہ ہوابنیادی طورپر طاقت کی علامت ہے۔یہ تمام زی روح کو زندہ رکھنے میں اہم رول اداکرتی ہے۔یہ باغوں میں ٹھنڈک کا احساس دلاتی ہے تو صحراؤں میں تپش کا۔یہ سمندرمیں میں کشتیوں کو منزل مقصود تک پہچا نے میں مددکرتی ہے توکبھی سمندروں میں طوفاب برپاکرکے کشتیوں کو غرق آب بھی کردیتی ہے۔یہ پتوں اور پودوں کوہرابھرارکھنے میں مدد بھی کرتی ہے اور غصہ کے عالم میں بڑے بڑے تناور درختوں کو کوجڑ سے اکھاڑ بھینکتی ہے ۔غرض یہ زندگی کی بھی علامت ہے اور تخریبی طاقت کی بھی۔اس لیے شاعری میں اس کا استعمال دونوں معنوں ہواہے۔ شاعری میں صبح کی ٹھنڈی ہوا اپنی لطافت سے کلیوں کو گدگدادیتی ہے توکلیاں پھول بن جاتی ہیں ۔یہ جب محبوب کو گلے لگاکرآتی ہے تو عاشق کے قریب پہنچ کرنازواداسے جھجھک بھی جاتی ہے۔یہ کبھی محبوب کی زلفوں کی خوشبوکواڑا کر عاشق کے پاس لے جاتی اوراس کے دل کومہکادیتی ہے ۔ پھولوںکی خوشبوؤںکو گلشن میںبکھیرکرفضاکومعطرکردیتی ہے۔یہ بادلوں کوبھی اڑاکر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہے۔ان کالے کالے بادلوں کوآسمان میں اڑتے ہوئے دیکھ کر اقبال نے فیلِ بے زنجیرسے خطاب کیا۔ان بادلوں کو دیکھ کر کالی داس کی تخیل کی اڑان بھی تیزسے تیزتر ہوگئی تھی جس کی بدولت سنسکرت کی شاہکار تخلیق’’ میگھ دوتم‘‘ وجودمیں آئی ۔ لیکن ان ہواؤں فریدپربتی کے ساتھ اکثروہی سلوک کیاجو اساطیرپہاڑ’میرو‘ کے ساتھ کیاتھا یعنی فرید کے وجود کومستحکم نہیں ہونے دیا ان کی زندگی کوہلاکررکھ دیا۔ فریدپربتی نے ان ظالم ہواؤں سے بچ کرنکلنے کی کبھی کوشش نہیں کی بلکہ ان کا مقابلہ کیا اور اس کے ظلم ستم کوایک چیلنج کے طورپرلیااوراپنے قدم کوکبھی ڈگمگانے نہیں دیا۔اس کے تیزوتنددھارکے ہروارکوہنس کرسہا۔یعنی ہواؤں نے فرید کو زمانے کے کے طوفان سے مقابلہ کرنے کاحوصلہ دیا۔چنداشعارملاحظہ ہوں۔
کہاں پہ ٹوٹ گیا ہوں مجھے یہ فکرنہیں
میں سوچتاہوں کہاں سے گراگئی ہے ہَوا
بنے بنائے سے رستوں کو ڈھاگئی ہے ہَوا
تمام نقشِ کفِ پا مٹا گئی ہے ہَوا
کہیں پہ سبزہ نہ کوئی نشان پانی کا
نجانے لے کے کہاں مجھ کوآگئی ہے ہوا
کشتیٔ جاں ہو گئی ہے باد باں
اے ہَوا اس طور مت لے امتحان
آگے کی راہ گھیر لی سرکش ہَواؤں نے
واپس بھی لوٹ جانے کی صورت نہیں رہی
نہ پوچھو کس طرح اب تک جلا ہوں
ہَوا کے دوش پر میں اک دیا ہوں
کسی دامن نہ آنچل ہی کا سایہ
ہَواؤں کس نگر میں آگیا ہوں
تجھ کو کیا دوںگا نہ خوشبو ہے نہ شبنم اور نہ رنگ
میرے دامن میں بجزموجِ ہَوا کے کچھ بھی نہیں
خیال وخواب کے تتلی پروں کو روتے ہیں
اداس صحن میں فتنے جگا گئی ہے ہَوا
تازہ ہَوا سے رشتۂ موسم تو تھا ضرور
بے برگ وبار دل کا مگر ہر درخت تھا
مختصر یہ کہ فرید پربتی کشمیرکے ایک Versatile شاعروادیب تھے۔ان کی شاعری کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ فلسفیانہ بصیرت اور عصری احساس کے شاعر تھے۔ ان کی شخصیت اوران کے ادبی کارناموں کوہمیشہ قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھاجائے گا۔
