تبصرے
اُردوزبان وادب میں تحقیق وتنقید کا جو معیار قدماء نے قائم کیا تھا، متأخیرین نے نہ صرف یہ کہ اس روایت کو امانت کے طور پر قبول کیا بلکہ عصری تقاضے بھی ان کے زیرِ مطالعہ رہے۔ یہی سبب ہے کہ زبان وادب کے سیاق میں ان کے کارہائے نمایاں رہنمااصول کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ مختلف تحریکات ونظریات نے تخلیق وتنقید کو متاثر کیالیکن معیاری تحقیق وتنقید کا منبع ومرکز ہنوز کلاسیکی اصول ہی ہیں۔
اردو تحقیق وتنقید کے منصب ومعیار کے ضمن میں عمیق مطالعہ کے ساتھ عمر اور تجربات کے طوالت کا تذکرہ بارہا آتارہاہے جسے نظرانداز نہیں کیاجاسکتا، لیکن نئی نسل کے بعض تخلیق کاروں نے زندگی، اس کے تقاضے اور حالات کی جو تصویرکشی کی ہے وہ قابلِ حیرت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ عہدِ رواں کی نسلیں نئی فہم وبصیرت کے ساتھ عصری آگہی سے بھی متصف ہیں یہی سبب ہے کہ منصب ومعیار، اسالیب وآہنگ سے تعین کے ساتھ فروغِ زبان وادب کے ضمن میں کئی موضوعات کے اعتراف اور بازیافت میں مصروف ہیں۔ ڈاکٹر شیخ عقیل احمد کی کتاب ’’فنِ تضمین نگاری‘‘ کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ ہرچند کہ پروفیسرحامدحسن قادری کا مضمون موسوم بہ ’’غالب کی تضمین‘‘ یا ڈاکٹر سیّدحامد کا مضمون ’’اقبال اور تضمین نگاری‘‘ کو ان معنوں میں تفوق حاصل ہے کہ یہ اس کتاب سے پہلے لکھے گئے تاہم محدود معلومات کے باعث یہ تنقیدی وتحقیقی کتاب کا بدل ہرگز نہیں ہوسکتے، اس اعتبار سے شیخ صاحب کی کتاب ’’فنِ تضمین نگاری‘‘ کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے جس میں تضمین کے مبادیات اور تاریخ کا معروضی سطح پر مطالعہ کیا گیاہے۔
چھ باب پر مشتمل اس کتاب کا پہلا حصہ تضمین کے فن اور اہمیت پر محیط ہے۔ جس میں تعریف، فن اور ہیئت کے تعین کی بابت معتبر ناقدین اور مشاہیر کی آراء کو حوالہ بنایاگیاہے۔ ان رایوں میں تضاد واختلاف کے پرتوموجود ہیں لیکن تضمین کے فنی لوازمات، جزئیات اور اس کی نزاکتوں اور لطافتوں کا تجزیہ جس انداز میں کیا گیا ہے اس سے اس باب کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ تضمین کے مبادیات اور فنی اصولوں سے ہمیں آگہی حاصل ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ اردو میں تضمین نگاری کا فن فارسی کے زیرِ اثر در آیا۔ فارسی ادبیات میں متعدد کلاسیکی شعراء نے تضمینیں لکھیں جس کا تتبع دکھنی شعراء کے یہاں فارسی غزلوں اور ہندی دوہوں کی شکل میں ملتا ہے۔ ’’فارسی شعراء‘‘ کے باب میں ڈاکٹر عقیل احمد نے فارسی کے بائیس شعراء کا تعارف پیش کیاہے جن کے مصرعوں یا اشعار کی تضمین اردوشعراء نے کی ہے ان میںفردوسی، حکیم سنائی، نظامی، سعدی، خسرو، حافظ، عرفی، نظیری، جلال الدین رومی، بیدل، خاقانی اور غنی کاشمیری وغیرہ کا نام قابلِ ذکر ہے۔ یہ باب جہاں فارسی شعراء کی شخصیت اور ان کے تخلیق عمل کی نشاندہی کرتاہے وہیں اردو شعراء کے تخیل اور فکری نظام کا ترجمان بھی ہے۔
اٹھارہویں صدی کی ہندوستانی تاریخ سیاسی اور سماجی اعتبار سے شورشوں، ہنگاموں اور افراتفری سے عبارت ہے۔ لیکن ادبی سطح پر یہ صدی زرخیز اور متمول ہے جہاں اردوشعروادب ترسیل وابلاغ کا ذریعہ بنے۔ فارسی سے اردو میں ترجمے اور فارسی اسالیب، بحور، اوزان، علامات، مضامین، تراکیب وکنایات کو اردوزبان کے سانچے میں ڈھالنے کا چلن عام ہوا۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ صدی اردوزبان میں فارسی طرزِ احساس کے جذب ہونے کی صدی ہے۔ ڈاکٹرعقیل احمد نے تیسرے باب بہ موسوم’’تضمین نگاری اٹھارہویں صدی میں‘‘ ان نکتوںکا تجزیہ کیاہے جو اٹھارہویں صدی میں اس فن کے فروغ میں محرک بنے اس بابت میرؔ کے تخلیقی جواہر اور سوداؔ کے خلاقانہ ذہن کا بالخصوص مطالعہ کیاہے جن کی توجہات وترجیہات سے تضمین کی روایت اورہیئت کو وقار حاصل ہوا۔ اس صدی میں خواجہ میرؔدرد، انشاء اللہ خاں انشاؔ، مصحفیؔ، سراج اورنگ آبادی نے بھی فارسی شعراء کے مصرع اور کلام کو بنیاد بنا کر تضمین لکھیں جس کی تفصیلات اس باب میں ملتی ہیں۔ انیسویں صدی میں تضمین کو برگ وبار عطا کرنے والے شعراء کی فہرست طویل ہے۔ البتہ مروجہ اصناف مثلاً غزل اور قصیدے خصوصیت کے ساتھ بروئے کار لائے گئے لیکن اس کی ہیئت اور تنوع روایتی ہی رہی۔ انیسویں صدی کے اردو شعروادب میں غالب کی شخصیت چھتناردرخت کی سی تھی۔ لیکن غالب نے اس فن کے فروغ میں کوئی خاطر خواہ دلچسپی نہ لی۔ البتہ دیوانِ غالبؔ نسخہ عرشی میں بہادرشاہ ظفر کی ایک غزل پر تضمین مخمس کے عنوان سے ضرور ملتی ہے۔ چوتھے باب میں اس پر سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے۔ مصنف نے مختلف دلائل سے یہ ثابت کرنے کی سعی کی ہے کہ یہ تضمین بہادرشاہ ظفر کی فرمائش پر لکھی گئی ہے۔ اسے قرین ازقیاس کے زمرے میں رکھا جائے گا۔چونکہ تحقیق میں دلائل کی بنیاد بہرحال شواہد پر قائم ہے۔ اس اعتبار سے غالب جیسا قادرالکلام بذلہ سنج شاعر کی تضمین کے ضمن میں تنگ دامانی ہنوزتحقیق طلب ہے، البتہ غالب کے شاگردوں مثلاً میرؔ مہدی، مجروحؔ، حالیؔ وغیرہ جنھوں نے اردو اور فارسی کے کلاسیکی شعراء کے کلام کو بنیادی اساس بناکر تضمین لکھیں ڈاکٹر عقیل نے اس پر خصوصی توجہ دی ہے۔
بیسوی صدی میں تضمین کی صورتِ حال کا جائزہ سیاسی، سماجی اور تہذیبی تناظر میں لیا گیاہے جس کے ڈانڈے بجا طور پر سرسیّد کی اصلاحی تحریک سے جاملتے ہیں۔ سرسیّد اور ان کے ناموررفقاء نے مسلمانوں کے ذہنی، ادبی، فکری اورمذہبی اصلاح کا جو بیڑا اٹھایا ان سے ان کی سوچ اور طریقۂ فکر نیز مذہبی عقیدے میں بلامبالغہ تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ مولانا محمدحسین آزاد اور حالیؔ کی ادبی کاوشیں اسی تحریک کے زیراثر رونما ہوئیں۔ ڈاکٹر عقیل احمد نے انگریزوں کے تسلط کے بعد نئے علوم وفنون نیز علی گڑھ تحریک کے سیاسی، سماجی اور ادبی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر کیاہے اور اس پس منظر میں تضمین کی ہیئت اور روایت کے علاوہ موضوع وآہنگ شعری اصناف سخن مثلاً غزل، مثنوی، مرثیہ اور قصیدے سے نظموں کی طرف مراجعت کے علاوہ شبلیؔ، اقبالؔ، جوشؔ، اکبرؔ،حسرتؔ اور صبااکبرآبادی وغیرہ کی نظموں کو ترجیحاتی بنیاد پر محور ومرکز بنایاگیاہے۔ جبکہ آخری باب پیروڈی پر مختص ہے جس میں اس کی تعریف، روایت کے علاوہ ان اسباب وعلل کو زیرِموضوع لایاگیاہے جن سے اردو میں پیروڈی کی روایت مستحکم ہوئی۔
بہرحال! عقیل احمد کی کتاب’’اردو میں تضمین کے فن اورروایت‘‘ پر ان معنوں میں اہم ہے کہ اس سے قبل اس موضوع پر تنقیدی وتحقیقی نقطۂ نظر سے باضابطہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ تنقید وتحقیق میں کوئی معلومات حتمی اور آخری نہیں ہوتی تاہم اردو تضمین نگاری کے سیاق میں کوئی بھی محقق یا نقاد اس کتاب کو نظرانداز نہیں کرسکتا اور یہی اس کی تاریخی عظمت ہے۔
ڈاکٹرآفتاب احمدآفاقی
ڈاکٹرشیخ عقیل احمد لیکچررشعبۂ اردو ستیہ وتی کالج کی کتاب فن تضمین نگاری صحرا میں نخلستان کی مثال ہے۔ ایسے وقت میں جب تنقید کے نام پر معمولی اور کم تر درجے کے مضامین کو یکجا کرکے شائع کرنے کا رواج زور پکڑچکا ہو فن تضمین جیسے وقار صنف پر ۲۴۰صفحات کا مقالہ لکھنا بڑے دل گردے کی بات ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب ناقدانِ ادب یہ کہتے نہیں تھکتے کہ یہ صدی فکشن کی صدی ہے۔
دراصل جملہ اصناف کا تعلق تخلیقی ذہن سے ہے۔ اب اگر تحلیق کار کا ذہن رسا کسی بھی صنف کی تمام باریکیوں سے واقف ہے تو وہ اس مخصوص صنف میں اپنے تخلیقی جوہر کی نگوں کاری سلیقے سے کرتا ہے ورنہ مقبول سے مقبول صنف کا تختہ ہوجانا حیرت کی بات نہیں۔
فن شاعری کا تعلق بھی فکر رسا اور انتخابِ الفاظ کے سلیقے سے ہے۔ اور ظاہر ہے یہ سلیقہ ایک طویل ریاضت کا طلبگار ہے لہٰذا ایسے شعرا جوفن شاعری میں کمال کو پہنچے ہوئے ہوں ان کے اشعار اور مصرعوں سے ایک جدید معانیاتی جہان خلق کرنا کسی ایرے غیرے کے بس کی بات نہیں اور تضمین نگاری کا فن اسی لیے اہم ہے۔ استادِ محترم ڈاکٹرشریف احمد صاحب نے ’’یہ صنف تو اب پرانی ہوچکی ہے‘‘ کا سوال جس حلقے سے منسوب کیا ہے یہ وہی لوگ ہیں جو اب چولہ بدل کرIntertextulityکی بات کرتے ہیں اور انتہا پسندی کی حد وہاں ختم ہوتی ہے جہاں وہ قاری کو تخلیق کار کی جگہ اور تخلیق کار کو قاری کی جگہ بٹھانے میں ذرا نہیں ہچکچاتے۔ حالاں کہ غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ تضمین وہ واحد صنف ہے جس کے ذریعے تشنہ اشعار اور اس کے موضوع کو سیرحاصل تشفی بخش بنایا جاسکتا ہے، شرط ہے پِتّہ مار کر بیٹھنے اور ذہن کی کھڑکی کا رُخ اپنی روایت کے سبزہ زار کی سمت کھولنے کی۔
قابل مقالہ نگار نے بڑے سادے انداز میں غزل کی تنگ دامانی کی شاکی حضرات کی یہ شکایت یوں دور کردی ہے
’’قصیدے اور مثنوی کے اشعار بھی تضمین کیے گئے ہیں لیکن جو لطف واثر غزل کے اشعار کی تضمین میں ہے وہ قصیدہ اور مثنوی کی تضمین میں نہیں ملتا کیوں کہ غزل کے اشعار کی رمزیت اپنے مفہوم کی توسیع اور توضیح کے لیے چند مصرعوں کی وسعت چاہتی ہے اور تضمین اسے وہ وسعت عطا کرتی ہے۔‘‘
صبااکبرآبادی کا غالب کے شعر پر یہ تضمین ملاحظہ ہو
شکر ہے مجھ کو فائدہ نہ ہوا
چارہ گر باعثِ شفا نہ ہوا
خوش ہوں احسان غیر کا نہ ہوا
’’درد منت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا
یا
ہائے اے گردشِ زمانے کی
ہے جگہ کون سی بٹھانے کی
شکل دیکھوں غریب خانے کی
’’ہے خبر گرم ان کے آنے کی‘‘
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا
اس مقالے میں ایسے انتخابات کی کمی نہیں۔ ڈاکٹرعقیل نے اپنے موضوع کے ساتھ پورا انصاف کیاہے اور ناکافی مواد کو اپنی محنت شاقہ اور تحقیقی جنون میں ڈوب کر کافی سے بھی زیادہ بنادیاہے۔
میں ڈاکٹر شیخ عقیل احمد کو ان کی اس کاوش کے لیے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور ادب کے طالب علموں کو یہ کتاب ضرور بالضرور پڑھنے کی سفارش کرتاہوں۔
شعیب رضا
]ماہنامہ’’ایوانِ اُردو،ماہ ستمبر۲۰۰۱ء[
اُردوشاعری میں تضمین نگاری کے فن پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ اسے محض حاشیائی بازی گری اور کبھی کبھار کا مشغلہ سمجھ کر نظرانداز کیاگیا۔ ڈاکٹرشیخ عقیل احمد نے پہلی بار تضمین نگاری کے فن پر خصوصی توجہ کی اور تحلیل وتجزیے کی روشنی میں اس میدان سے اتنے موتی اور آبدار جواہر پارے ڈھونڈ نکالے۔ ان سے پہلے پروفیسرحامدحسن قادری نے غالب کی تضمین نگاری پر اور سیّدحامد نے اقبال کی تضمین نگاری پر مضامین لکھے تھے۔ ڈاکٹرعقیل نے عہد قدیم کی اردو شاعر سے لے کر آج تک کی اردوشاعری کو پیش نظر رکھ کر اس کتاب میں فن تضمین نگاری کا محاکمہ کیاہے۔ اتنا ہی نہیں انھوں نے پس منظر کے طور پر فارسی زبان میں تضمین نگاری کا جو سرمایہ موجود ہے اس کا تنقیدی جائزہ بھی لیاہے۔ اس کی وجہ سے کتاب کی اہمیت میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا ہے۔
اس کتاب میں میرؔ،سوداؔ،مصحفیؔ،نظیرؔ،غالبؔ،امیرمینائیؔ، اقبالؔ،اکبرؔ اور جوشؔ وغیرہ کی شعری تخلیقات سے تضمین نگاری کی بڑی خوب صورت، دلکش اور معنی خیز مثالیں پیش کرکے اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے کہ تضمین نگاری کا فن بڑی اہمیت کا حامل ہے اور ناقدین کی توجہ کا ہر اعتبار سے مستحق ہے۔
اس تصنیف میں ایک دلچسپ باب ’’ہیئت کا تغیر‘‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ یہ دراصل ان شاعروں کا تجزیہ ہے جنھوں نے پیروڈی میں تضمین نگاری کی۔ پیروڈی کے باب میں انھوںنے کسی قدر تفصیل سے بحث کی ہے اور سیّدمحمدجعفری، طالب خوندمیری اور عبدالوہاب فرہاد کے کلام سے مثالیں پیش کی ہیں۔ ڈاکٹرشیخ عقیل احمد یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوںنے اس قدر تفصیل اور گہرائی کے ساتھ فن تضمین نگاری کی تنقیدی اور گہرائی کے ساتھ فن تضمین نگاری کا تنقیدی جائزہ پیش کیاہے۔ کتاب صوری اعتبار سے بھی پرکشش اور جاذبِ نظر ہے۔
ڈاکٹرمحمدمثنی رضوی،گیا
]ماہنامہ’’آجکل،نئی دہلی،ماہ اکتوبر۲۰۰۲ء[
یہ کتاب اپنی نوعیت کی ایک اہم تصنیف ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ شیخ عقیل احمد نے اس موضوع کا انتخاب کرکے اردو کے دامن میں ایک نیااضافہ کیاہے۔ اس موضوع کو انھوں نے چھ ابواب میں تقسیم کرکے بھرپور جائزہ پیش کیاہے۔ مناسب ہے کہ پہلے ان ابواب کا ذکر کردیاہے۔
پہلا باب تضمین کا فن—تعریف اور اہمیت، دوسرا بابفارسی شعرا— مختصرتعارف اور رنگ شاعری، تیسرا بابتضمین نگاری اٹھارہویں صدی میں، چوتھا بابتضمین نگاری انیسویں صدی میں— تنقیدی وتجزیہ، پانچواں باببیسویں صدی میں تضمین نگاری— تبدیلیاں، امکانات اور تجزیہ، چھٹا بابہیئت کا تغیر— پیروڈی وتضمین نگاری۔ اس کے بعد حرف آخر اور کتابیات ہے۔
جیسا کہ چلن ہے کہ کسی کتاب میں دوتین یا کم سے کم ایک بڑے دانشور یا ناقد سے کتاب کے ضمن میں تعریفی وتوصیفی کلمات لکھوائے جاتے ہیں۔ یہاں بھی اس روایت کو قائم رکھا گیاہے اور ڈاکٹر شریف احمد اور پروفیسر عتیق اللہ تابش کے خیالا ت اصل کام سے پیشتر بطور تتمہ کے پیش کیے گئے ہیں۔ حالانکہ اس موضوع پر خود عقیل صاحب کا کام اتنا جامع اور وقیع ہے کہ بغیر کسی صورت استناد کے اس کتاب کی پذیرائی ہوتی۔ لیکن قانع اور صابر ہونا بھی آسان کام نہیں ہے اور پھر اگر یہ روایت برقرار نہیں رہتی تو ہمارے پیش روئوں کی اہمیت وافادیت ( اس لفظ پر چونکنے کی قطعی ضرورت نہیں) کیا رہ جاتی ہے؟ اس موضوع پر شیخ عقیل احمد نے بہت کچھ پڑھا ہے اور اسی بنیاد پر وہ تضمین کے حوالے سے سابقہ منفی رایوں اور رویوں سے اختلاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں
’’جن حضرات نے اس فن کو قدیم کہہ کر نظر انداز کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ بھی اس فن کی نزاکت اور روایت سے بے خبر ہیں اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ فن حالی کے بعد ایک صنف کی حیثیت سے وجود میں آیا، وہ اس فن کی تاریخی اہمیت سے نابلد ہیں۔‘‘(۲۵)
تضمین نگاری میں اگر احتیاط اورفنکاری سے کام نہ لیا جاے تو مضحکہ خیز صورتِ حال پیدا ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اپنی فکر سے اس شاعر کی فکر کو ہم آمیز کرنا پڑتاہے جس کے شعریا مصرعے کی تضمین کی جاتی ہے۔ اس نکتہ کی طرف ڈاکٹرعقیل احمد بھی توجہ دلاتے ہیں۔ عام طور پر غزل کے اشعار پر تضمین زیادہ ملتی ہیں۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے شیخ عقیل احمد لکھتے ہیں
’’کیونکہ غزل کے اشعار کی رمزیت اپنے مفہوم کی توسیع اور توضیح کے لیے چند مصرعوں کی وسعت چاہتی ہے اور قافیہ کی ہم آہنگی سے نغمگی کی لَے اور بڑھ جاتی ہے۔‘‘ (۲۳)
تضمین کے لیے کوئی خاص صنف مقرر نہیں مگر جیسا کہ اس کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے، مخمس کی صنف میں زیادہ تضمینیں(بالخصوص میرومرزا کے زمانے میں) ملتی ہیں۔ تضمین کے لیے بھی ایسے اشعار یا مصرعوں کا انتخاب ہوتا ہے جن میں معنوی گہرائی بھی ہو، مشہور ہوں اور برجستہ وبرمحل بھی۔ تضمین نگاری میں کامیابی کے لیے نکتہ سنجی ضروری ہے۔ ایسا اس لیے ضروری ہے کہ تضمین میں نئی نئی تعبیریں پیدا کی جاتی ہیں۔ کچھ لوگ تضمین اور پیروڈی کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹرعقیل احمد نے اس پر سیرحاصل بحث کی ہے۔ پیروڈی میں تضحیک اور مزاح کا پہلو غالب ہوتاہے۔ ساتھ ہی اس میں مصرعوں یااشعار میں تحریف کی گنجائش ہوتی ہے جیسے منشی سجاد حسین کی ایک پیروڈی دیکھئے
ہوئے بچ کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق گڈھا
وہیں رہتے مثل مینڈک، وہیں غائیں غائیں کرتے
اس ضمن میں مصنف کتاب ہذا رقم طراز ہیں
’’پیروڈی خود ایک مقبول اور دلچسپ صنف سخن ہے لیکن پیروڈی میں تضمین اس کی دلکشی اور اثر آفرینی کو دوآتشہ بنادیتی ہے۔‘‘
ڈاکٹرشیخ عقیل احمد نے بڑی دقت نظری اور جاں فشانی سے اس فرسودہ موضوع کو لائق توجہ بنادیاہے۔ ان کے ذوق شعری اور تفہیم شعروشاعری نے ان کی رہنمائی کی ہے اس نامانوس اور بے التفافی کے شکار موضوع پر اتنااچھا پُرمغز اور معلوماتی مقالہ تیار کردینا آسان نہ تھا۔ اس کتاب کی حیثیت اس موضوع پر خشت اوّل کی ہے۔
ڈاکٹرکوثرمظہری
]استعارہ،نئی دہلی،[
پچھلے بیس پچیس برسوں میں یونیورسٹیوں میں جو تحقیقی کام ہوا ہے اس میں بڑی تعداد اس طرح کے کاموں کی ہے جو بالکل غیرمعیاری ہیں اور اسی لیے کسی مقالے پر یہ لکھا ہونا کہ ’’اس پر موصوف کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی‘‘ اس سے بے توجہی کے ساتھ گزر جانے پر اہل نظر کو مجبور کرتاہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ صرف نصابی کتابوں کو پڑھ کر کسی کا اس قابل ہوجانا کہ وہ بڑا تحقیقی کام کرسکے تقریبا ناممکن ہے۔ دوسری یہ کہ پچھلے بیس پچیس برسوں میں ایسا ہوا کہ آرٹس میں دوسرے درجے کے طلبہ، وہ طلبہ جن کا کسی وجہ سے سائنس میں داخلہ ممکن نہ ہوسکا وہ آنے لگے جن میں دماغ اوسط، فہم وادراک معمولی تھا، ان سے ظاہر ہے کسی بڑے کام کی توقع نہیں کی جاسکتی اور یہ فضا اب بھی ہے اسی لیے یونیورسٹیوں میں جو تحقیقی کام ہورہے ہیں ان سے بے اطمینانی عام ہے۔ لیکن کبھی کبھی ایسا تحقیقی نمونہ بھی سامنے آجاتاہے جس کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے اور یہ عام طور پر ان کی محنت کا نتیجہ ہوتاہے جن کا ادب سے لگائو فطری ہوتاہے اور جو کسی مجبوری کی وجہ سے آرٹس میں داخلہ نہیں لیتے۔
ڈاکٹر شیخ عقیل احمد انہی چند ریسرچ اسکالروں میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے بی ایس سی انجینئرنگ کی تعلیم سے کنارہ کیا اور ایم اے اردو میں داخلہ لیا اور امتیازی نمبر حاصل کرتے رہے اور ڈاکٹر مغیث الدین فریدی مرحوم کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کا یہ مقالہ تحریر کیا۔ ریسرچ کے لیے انھوں نے جس موضوع کا انتخاب کیا، وہ بذات خود ان کی علمی لگن اور حوصلے کی گواہی دیتاہے۔ تضمین نگاری کا چلن اردو میں نیا نیں، اس کے نمونے بڑی تعداد میں اٹھارہویں صدی میں بھی ملتے ہیں اور اس کا چلن آج بھی عام ہے لیکن تضمین نگاری کے فن اور اس کے ارتقا پر گفتگو خال خال ہی دیکھنے میںآتی ہے۔ یہ مقالہ(فن تضمین نگاریتنقید وتجزیہ) چھ ابواب کو محیط ہے۔ پہلا باب ہے’’تضمین کا فنتعریف اور اہمیت‘‘ اس باب میں عقیل احمد نے تضمین نگاری کے فن پر تفصیل سے گفتگو کی ہے اور اس ذیل میں ہمارے یہاں تضمین کے جو قدیم ترین نمونے ملتے ہیں وہ بھی سمٹ آئے ہیں جو ظاہر ہے میرؔ ومرزاؔ کے ہاں سے لیے گئے ہیں لیکن وہ مشہور شاید اس لیے نہیں ہیں کہ تضمین کے فن کو ہمارے ہاں دوسرے درجے کی چیز سمجھا جاتارہاہے اگرچہ اس کا اظہار کسی نے نہیں کیا، لیکن رویے سے ظاہر ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ میرؔ کے ہاں جو تضمین کے نمونے ملتے ہیں ان میں میرے محدودعلم کے مطابق ایک شعر بھی اردو کا نہیں جس کو میرؔ نے تضمین کے لیے منتخب کیاہو۔ سوداؔ کے ہاں البتہ درد کا مصرع بھی ملتاہے۔ غالبؔ نے ناسخؔ کا مصرع لیا اور یہ بھی دیکھئے کہ اپنے ایک خط میں انھیں ’’یک فنّا‘‘ بھی ٹھہرا دیا۔ ظفرؔ کے مقطعے کی بھی تضمین کی ہے تو ظفرؔ ظاہر ہے بادشاہ تھے، ان کی مدح کا ایک انداز یہ بھی سہی۔ دوسرا باب ’’فارسی شعرامختصر تعارف اور رنگ شاعری‘‘ میرے خیال میں بے جواز ہے، اس کی ضرورت نہ تھی۔ تیسرے باب میں انھوںنے اٹھارہویں صدی کی تضمین نگاری کا جائزہ لیاہے جو بے حد دلچسپ اور کارآمد ہے۔ اس مقالے کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس کی زبان تنقیدی ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔
چوتھا اور پانچواں باب ’’انیسویں اوربیسویںصدی میں تضمین نگاری ‘‘ کے جائزے پر مشتمل ہے۔ پانچویں باب میں تبدیلیاں، تجربے اور امکانات پر جو گفتگو کی ہے وہ کافی سنجیدہ، متوازن اور بصیرت افروز ہے اور چھٹا باب اگرچہ مختصر ہے لیکن بے حد اہم ہے۔ اس میں ہیئت کے تغیر(تجربے) سے بحث کی گئی ہے۔ اسی سلسلے میں پیروڈی میں تضمین نگاری بھی زیربحث آگئی ہے حالاںکہ اس پر الگ سے اور تفصیلی گفتگو ہونی چاہیے تھی جس میں مغرب سے اثرپذیری کی کیفیت اور نوعیت سے بحث کی کافی گنجائش تھی۔ بہرحال موجودہ شکل میں بھی اس کی اہمیت مسلم ہے اور ڈاکٹرشیخ عقیل احمد مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوںنے پہلی مرتبہ تضمین نگاری کے فناور ارتقا پر سیرحاصل گفتگو کی ہے ان سے پہلے اس فن کی تنقید وتاریخ کے نام پر ہمارے ہاں صرف دوچار مضامین ملتے ہیں۔ ایسی مفصل تنقید وتاریخ قطعی نہیں ملتی۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آئندہ اس موضوع پر جو بھی کام ہوگا اس کے لیے اس مقالے کی حیثیت نہ صرف ایک محرک کی ہوگی بلکہ اس سے استفادہ بھی ناگزیر ٹھہرے گا۔
جاوید دربھنگوی
]’’ہماری زبان‘‘یکم تا۷؍ماچ۲۰۰۲ء[