May 28, 2023

فنِ تضمین نگاری اور اس کی روایت

فنِ تضمین نگاری اور اس کی روایت

’’تضمین‘‘عربی کے لفظ ’’ضم‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی ہیں ملانا یاشامل کرنا۔ شاعری کی اصطلاح میں تضمین وہ فن ہے جس میں تضمین نگار اپنے پسندیدہ شعرا کے کسی شعر یا مصرعے پر اپنے چند مصرعوں کا اضافہ اس حسن وخوبی سے کرتاہے کہ وہ اصل شعر یا مصرعے میں ضم ہوجائے اور ایک الگ اکائی بن جائے۔ تضمین نگاری کے اس تخلیقی عمل میں تضمین نگار ’’تضمین کے شعر یا مصرعے کا رنگ وآہنگ‘‘ اس کی داخلی کیفیت اور اس کے مفہوم کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مصرعوں کو تضمین کے شعر یا مصرعے میں اس طرح پیوست کرتاہے کہ ان میں کسی بھی اعتبارسے کوئی فرق محسوس نہیں کیا جاسکے اور تضمین کے بعد سارے مصرعے کسی ایک ہی شاعر کے کہے ہوئے معلوم ہوں۔ تضمین نگار اس عمل میں اصل شعر یا مصرعے کے مفہوم کی توسیع کرتاہے یا اس کی علامتوں کی نئی توجیہ پیش کرتاہے جس سے دونوں شاعروں کے تخلیقی عمل کے امتزاج سے ایک نئی فضا اور ایک نئی کیفیت حاصل ہوتی ہے۔
تضمین کا فن بڑا نازک اور لطیف ہے۔ غزل کے شعرا کے لیے شعر کہنا آسان کام ہے لیکن کسی دوسرے شاعر کے شعر پر تضمین کرنا مشکل ہے کیوںکہ غزل کے ہر شعر میں شاعر کی داخلی کیفیت، رنگ وآہنگ اور اس کی پوری شخصیت کے ارتعاشات موجود ہوتے ہیں۔ تضمین نگار کو اپنے مصرعوں کی تخلیق کرتے وقت ان سب باتوں کا خیال رکھتے ہوئے اپنی شخصیت کی سطح کو اس شاعر کی شخصیت کی سطح کے برابر لانا پڑتاہے جس شاعر کے شعر یا مصرعے کی تضمین کرنی ہوتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں وہ اصل شعر یا مصرعے کے مفہوم کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اس کے کچھ نامکمل پہلوئوں کو تلاش کرتاہے اور اپنے جذبات وخیالات سے ہم آہنگ کرکے ان کے مفہوم کو ایک نئی جہت عطا کرتاہے۔
غزل کے اشعار پر تضمین کرنا اردو کے شاعروں کا محبوب مشغلہ رہاہے۔قصیدے اور مثنوی کے اشعار بھی تضمین کیے گئے ہیں لیکن جو لطف واثرغزل کے اشعار کی تضمین میں ہے وہ قصیدے اور مثنوی کی تضمین میں نہیں ملتا۔ کیونکہ غزل کے اشعار کی رمزیت اپنے مفہوم کی توسیع اورتوضیح کے لیے چندمصرعوں کی وسعت چاہتی ہے اور قافیہ کی ہم آہنگی سے نغمگی کی لَے اور بڑھ جاتی ہے۔
تضمین کے لیے کسی مخصوص ہیئت کی قید نہیں ہے، مخمس، مسدس، مثلث اور ترکیب بند وغیرہ میں تضمین کے فن کی نادرمثالیں مل جاتی ہیں لیکن مخمس کی شکل میں تضمین کا فن زیادہ مقبول ہوا۔ مخمس کے فارم میں دومصرعے کسی دوسرے شاعر کے ہوتے ہیں جن میں تضمین نگار تین مصرعے اپنی طرف سے اضافہ کردیتاہے۔ کبھی کبھی تضمین نگار اپنے ہی شعر کی تضمین کرتاہے۔ جس میں شاعر اپنے ہی کہے ہوئے شعر کے دومصرعوں پر تین مصرعوں کا اضافہ کرتاہے۔ اس طرح پانچ مصرعوں کی ایک الگ اکائی بن جاتی ہے۔ مخمس کی شکل میں غزل کے اشعار کی تضمین کے نمونے بے شمار ملتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غزل کے اشعار کی رمزیت اپنے مفہوم کی توضیح وتوسیع کے لیے کم سے کم تین مزید مصرعوں کی وسعت چاہتی ہے (جیسا کہ پہلے ذکر کیاجاچکاہے) یہی وجہ ہے کہ تضمین کی اس شکل کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ مخمس کو ہی تضمین سمجھا جاتا رہا۔ تضمین کے فن پر اب تک جن نقادوں نے اظہار خیال کیا ہے ان کے پیشِ نظر خمسے یا مخمس رہے ہیں اور مخمس کے ہی آئینے میں تضمین کے فن کی خوبیوں اورخامیوں کو دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں بعض متضاد بیانات سامنے آئے ہیں۔
مثلاً سراج منیرخاں سحرؔ بھوپالی نے لکھا ہے
’’اُردو میں تضمین نگاری کا فن عہدِ قدیم کی یادتازہ کرتا ہے۔۔۔ اردو میں تضمین نگاری کے پختہ نشانات عہدِحالی کے بعد نظر آتے ہیں۔ خاص طور سے جسے اردو غزل کے لیے نشاۃ الثانیہ کہا جاسکتاہے۔ اس عہد کے بعد سے تضمین نگاری باقاعدہ ایک صنف کے طور پر وجود میںآئی۔‘‘ (عکس درعکس، شاہدساگری، مضمون نگار، سحرؔبھوپالی،ص۷)
رفعت سروش نے لکھا ہے
’’تضمین ایک مشکل فن ہے۔۔۔۔ تضمین کار کا صاحب ِ فکر وفن اور کہنہ مشق ہونابہت ضروری ہے۔ اسی لیے اردو میں بہت کم شعرا نے اچھی تضمین کہی ہیں یہ فن قدیم اصناف میں سے ہے اورآج کل معدوم ہوتا جارہاہے۔‘‘
(عکس درعکس، ص۱۱۸)
ڈاکٹرگیان چند جین نے لکھا ہے
’’میںتضمین کا قائل نہیں۔۔۔ زیرتضمین شعر معنوی اعتبار سے مکمل ہوتاہے۔ اس کے پہلے جوتین مصرعے چسپاں کیے جاتے ہیں وہ محض حشوہوتے ہیں۔‘‘ (عکس درعکس، ص۱۶۶)
ڈاکٹرجاویدوششٹ نے لکھاہے
’’آتش نے شاعری کو مرصع سازی قراردیاتھا مگر تضمین محض کارِمرصع ساز ہی نہیں اس سے کہیں باریک کام ہے۔ کامیاب تضمین کاراپنی تضمین کے ذریعے سے شعر شاعرپرتصرف کرلیتاہے۔ اس سے تضمین کے فن کی دشواری، لطافت ونزاکت اورباریکی کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتاہے۔‘‘
(عکس درعکس، ص۱۱۳)
مولاناحامدحسن قادری نے اپنے مقالے’’کلامِ غالبؔ کی تضمین‘‘ میں لکھا ہے کہ
’’تضمین کارواج قدیم ہے۔ لیکن کثرت وعمومیت کو کچھ بہت دن نہیں ہوئے۔ غالب کے زمانے تک اپنی یاکسی دوسرے کی غزل پر خمسہ لکھنے کی عادت شاذ و نادر پائی جاتی ہے لیکن مثالیں مل جاتی ہیں۔ ناسخ وآتش تک خمسے بہت کم ملتے ہیں۔ رندوغیرہ نے بعض غزلوں کی تضمین کی ہے۔ مومنؔ، ذوقؔ، اورغالبؔ نے کوئی خمسہ نہیں لکھا۔ ان کے تلامذہ کے زمانے سے یہ سلسلہ چلا۔ عصرحاضر کے شعرا میں یہ رجحان کم ہوگیا۔ اب سے پہلے غزل ہی مخصوص نہ تھی۔ لمبے چوڑے قصیدے بھی سب کے سب تضمین کردیتے تھے۔ طویل قطعوں پربھی خمسے لکھے گئے ہیں۔ غزلیات میں محمدجان قدسی کی غزل (مرحباسیّدمکی مدنی العربی) پراردو میں جتنے خمسے لکھے گئے وہ شمار وحساب سے باہرہیں۔‘‘
(نقدونظر، ص۵۹-۵۶)
تضمین کے فن پر ان متضاد رایوں کو پڑھ کر یہ محسوس ہوتاہے کہ جن حضرات نے اس فن کو قدیم کہہ کر نظر انداز کرنے کی کوشش کی ہے وہ بھی اس فن کی نزاکت اورروایت سے بے خبر ہیں اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ فن حالی کے بعد ایک صنف کی حیثیت سے وجود میں آیاوہ اس فن کی تاریخی اہمیت سے نابلدہیں۔ البتہ ڈاکٹرجاویدوششٹ نے اس فن کو مرصع سازی سے بھی زیادہ باریک بتایاہے اورتضمین کے ذریعے سے شعرشاعرپر تصرف کر لیتا ہے۔ورنہ پروفیسرگیان چند جین نے تو یہ کہہ کر اپنی بے نیا زی کا اظہار کر دیا کہ’’میں تــضمین کاقائل نہیں۔زیر تضمین شعر معنوی اعتبار سے مکمل ہوتا ہے۔اس کے پہلے جو تین مصرعے چسپاں کئے جاتے ہیں وہ محض حشو ہوتے ہیں۔‘‘جین صاحب کا یہ فرماناتو درست ہے کہ ’’زیرتضمین شعر معنوی اعتبار سے مکمل ہوتاہے‘‘ مگر ان کا یہ قول کہ’’اس کے پہلے تین مصرعے چسپاں کئے جاتے ہیں وہ محض حشو ہوتے ہیں۔‘‘ اس بات کا غماز ہے کہ تضمین کے سرسری مطالعے سے محض نا قص تضمین کے نمونے سامنے رکھ کر انھوں نے یہ بات کہی ہے۔ورنہ تضمین کا کمال تو اسی وقت ظا ہر ہوتا ہے جب زیر تضمین شعر معنوی اعتبار سے مکمل ہوا اور تضمین نگار اس مکّمل شعر کی رمزیت سے فائدہ اٹھا کر اس طرح سے تضمین کرے کہ تضمین کے مصرعے سن کر یہ محسوس ہو کہ ان مصرعوں کے بغیر شعر نا تمام تھا۔مثلاً غالبؔ کے اس شعر پر ؎
نسیم مصر کو کیا پیر کنعاں کی ہوا خواہی
اسے یوسف کی بوئے پیرہن کی آزمائش ہے
صباؔ اکبر آبادی نے بڑے دلکش اسلوب اور لطف تخیل کے ساتھ تضمین کا حق ادا کیا ہے۔ تیسرے مصرع کی ندرت اور برجستگی نے غالب کے شعر کی معنویت کو ایک نئی جہت دے دی ہے۔
مداواے دلِ رنجور کا سامان کیا معنی

زمانے کو نہیں ہے فکر عشق نالہ فرساکی
ہواے حسن بہرِ راحتِ الفت نہیں چلتی

نسیم مصر کو کیا پیرِ کنعاں کی ہوا خواہی
اسے یوسف کی بوئے پیرہن کی آزمائش ہے
تضمین کے فن کی ایک خوبی یہ ہے کہ تیسرا مصرع اس طرح سے لگا یا جائے کہ اصل شعر کا مفہوم بدل جائے۔ حالیؔ کی مشہور غزل کا مقطع ہے ؎
ان کو حالیؔ بھی بلاتے ہیں گھر اپنے مہماں
دیکھنا آپ کی اور آپ کے گھر کی صورت
اُس وقت علی گڑھ میں ایک طالب علم دائود بلا کے ذہین اور شگفتہ مزاج تھے۔ انھوں نے حالیؔ کے اس شعر پر اس طرح تضمین کی ؎
گر کرے قصد کسی کام کا دل میں انساں

پہلے یہ دیکھے کہ اس کام کے ہے بھی شایاں
سن کے لوگوں سے کہ وہ آئے تھے دائود کے ہاں

ـ’’ان کوحالیؔ بھی بلاتے ہیں گھر اپنے مہماں
دیکھنا آپ کی اور آپ کے گھر کی صورت ‘‘
محمود احمدعباسیؔ نقوش کے شخصیات نمبر میں لکھے ہیں
’’اس مقطع کی جو تضمین دائود مرحوم نے کی تھی مولانا محمد علی مرحوم اس کے متعلق لکھتے ہیں۔ــ’’باوجود پوری سنجیدگی کے دائود مرحوم کی طبیعت نہایت شگفتہ تھی اور مولانا حالی کی مشہور غزل کے مقطع پر جوتضمین انہوں نے لکھی تھی اس لئے تو مولانا حالی تک کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا تھا کہ دائود میری ساری غزل لے لیں۔ صرف میرا تخلص مقطع سے نکال ڈالیں تو میں خوش اور میرا خدا خوش۔ مگر تضمین بھی بلا کی تھی۔ ایک ہی مصرع نے مولانا مرحوم کے شعر کا ستیاناس کر دیا‘‘ (ص ۹۲۳)
اسی طرح قدسیؔ کی نعت کے ایک شعر پر ولیؔ فتح پوری نے اس طرح تضمین کی ہے کہ وہ حضرت امام علیہ السلام کی منقبت کا شعر بن گیا ہے۔ قدسیؔ کے شعر پر ولیؔ فتح پوری کی تضمین ہے ؎
شہ نے فرمایا لعینوں سے کہ ہیہات ہیہات
آج اتراتے ہو تم چھین کے دریا ئے فرات
کل نہ کہنا سرِ محشر کہ شہ نیک صفات
’’ماہمہ تشنہ لبا نیم توئی آبِ حیات
لطف فرما کہ زحد می گزرد تشنہ لبی‘‘
قدسیؔ تو بارگاہِ رسالت میں فریاد کر رہے ہیں کہ تشنہ لبی حدسے گزر رہی ہے۔ ہم سب پیاسے ہیں۔ آپ ہی آبِ حیات ہیں لطف فرمائیے ۔ ولیؔ فتح پوری نے تضمین میں یہ پہلو پیدا کیا کہ حضرت امام عالی مقام نے یزید کی فوج کے سپاہیوں سے یہ کہا کہ آج تم نے فرات پر قبضہ کر لیا اور ہمارا پانی بند کر کے اپنی کامیابی پر اترارہے ہو کل قیامت کے دن جب گرمی کی شدت سے تڑپوگے تو پریشان ہو کر ہم سے یہ نہ کہنا کہ ؎
ماہمہ تشنہ لبا نیم توئی آبِ حیات
لطف فرما کہ زحد می گزرد تشنہ لبی
ولیؔ فتح پوری کی تضمین کے تینوں مصرعے قدسی کی نعت کے شعر سے اس طرح پیوست ہو گئے ہیں کہ پانچوں مصرعے ایک ہی شاعر کے کہے ہوئے معلوم ہوتے ہیں تضمین کے مصرعوں کی برجستگی نے قدسی کے شعر کا مفہوم بدل کر ایک نئی فضا پیدا کر دی۔ یہی فنِ تضمین کا کمال ہے ۔
تضمین کے فن کی خوبی کا دارومدار تضمین کرنے والے کی قادرالکلامی اور حسنِ انتخاب ِشعر پر ہوتا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اگر تضمین نگار قادرالکلام نہیں ہے تو اچھے سے اچھے شعر کی تضمین میں وہ ناکام ہوتاہے اور اگر قادرالکلام ہے تو معمولی شعر بھی تضمین کے مصرعوں سے چمک جاتاہے۔ غالبؔ کے ایک مشہور شعر پر مرزاؔ سہارن پوری نے جو تضمین کی ہے وہ بس کلامِ موزوں کا ایک نمونہ کہی جاسکتی ہے، تضمین کے فن کا حق ادا نہیں کرتی۔ مرزاؔ سہارن پوری کی تضمین ہے ؎
ہمارا قصد تھا چکھیں کسی دن ہم بھی اس سم کو

مز ہ لینے نہ پائے خود بخود گھلنے لگے ہم تو
زباں کا ذکر کیا اس کا اثر آگے تو بڑھنے دو

رگ و پئے میں جب ترے زہرِ غم تب دیکھئے کیا ہو
ابھی تو تلخی ٔ کام و دہن کی آزمائش ہے
اس تضمین میں غالبؔ کے شعر کی بے کیف توسیع کی ایک ناکام کوشش ہے۔ تضمین کے مصرعے غالبؔ کے شعر کے لطف واثر کوبجائے بڑھانے کے اورکم کرگئے ۔
غالبؔ کے اسی شعر کی صباؔ اکبرآبادی نے اس طرح تضمین کی ہے ؎
ابھی تو ابتدائے عشق ہے اور نالہ فرسا ہو

ابھی سے دل پہ پہلی چوٹ کھاکر ناشکیبا ہو
صبا سنبھلو مآلِ عاشقی کی خیریت چاہو

رگ و پے میں جب اترے زہر غم تب دیکھئے کیا ہو
ابھی تو تلخی ٔ کام و دہن کی آزمائش ہے
صباؔ اکبرآبادی کی تضمین کے پہلے دومصرعوں کے تخیل کی ندرت نے تیسرے مصرعے کی برجستگی اورجدتِ ادا کے ساتھ مل کر غالبؔ کے شعر کی شراب کو دوآتشہ بنادیاہے۔
بہادرشاہ ظفرؔ کے ایک معمولی شعر کو غالبؔ نے اپنی تضمین کے مصرعوں سے آراستہ کرکے اس طرح پیش کیاہے ؎
تم جو فرماتے ہو دیکھ اے غالب ِ آشفتہ سر

ہم نہ تجھ کو منع کرتے تھے گیا کیوں اس کے گھر
جان کی پائوں اماں باتیں یہ سب سچ ہیں مگر

دل نے کی ساری خرابی لے گیا مجھ کو ظفرؔ
واں کے جانے میں مری توقیر آدھی رہ گئی
ظفرؔ کا مقطع معمولی درجہ کا تھا۔ غالبؔ نے اپنی تخیل کی جدت اوراسلوب کی دلکشی سے اس کو پُرلطف بنادیا۔ تیسرے مصرع میں ’’مگر‘‘ کا لفظ رکھ کر غالبؔ نے ظفرؔ کے مقطع کو ایک نیارخ دے دیا۔ ظفرؔ نے جو الزام اپنے دل کو دیا ہے وہ غالبؔ نے ظفرؔ کے سررکھ دیا۔یہی تضمین کا کمال ہے۔
تضمین کے فن کی اہمیت اوراثر انگیزی پرتبصرہ کرتے ہوئے سید حامد نے لکھا ہے
’’زمان ومکاں کے فاصلوں کے باوجود دوبڑے شاعروں کے درمیان اشتراک عمل کا منظر دیدنی ہوتاہے۔ ماضی اور حال کی اس ملی جلی تخلیقی کوشش میں خیالات وجذبات کی عجیب گہماگہمی دیکھنے میں آتی ہے۔ پہلے شاعر نے اپنے شعر میں جن خیالات اور احساسات کی ترجمانی کی ہے وہ پڑھنے والے کے دماغ سے نکل نہیں پاتے اوربعد میں آنے والے شاعر (تضمین نگار) نے اس شعر میں جو نئے مطالب داخل کیے ہیں، اسے جو نیافکری اورجذباتی رُخ دیاہے، وہ پہلے شاعر کے مفہوم ومقصود سے ٹکراتاہے۔ اس تصادم سے شرار اٹھتے ہیں اورمفاہیم کے نئے خزائن منکشف ہوتے ہیں اورتعبیر اورخط کے لیے نئی راہیں کھلتی ہیں۔ زیرتضمین شعرکا حسن تضمین اشعار کے پیرہن سے چھلکتاہے۔ ایک تحریر کے اوپر دوسری تحریر نگاہوں کو جستجو اورجمال سے نوازتی ہے۔ ابتدائی اورثانوی مفاہیم کی باہمی کشمکش کی لطف سامانی کوکیاکہئے۔ ابتدائی مفہوم کی وجہ توانائی یہ ہے کہ وہ قارئین کے دماغ میں ایک مدت سے پیوست ہوتاہے، ثانوی مفہوم (جوتضمین نگار نے دیاہے) کی طاقت کا راز یہ ہے کہ اسے تضمین نظم کی پوری کمک حاصل ہے۔۔۔ ایک زاویہ سے دیکھئے توتضمین زیرتضمین شعر کی تخمینِ جدید یاتعبیرِ نوہے۔ اس نئی تعبیر (RE-INTERPRETATION) کی اہمیت اس لیے اوربڑھ جاتی ہے کہ تعبیر کرنے والا خود ایک بڑا شاعر ہے۔۔۔
تضمین کی اثرانگیزی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ طویل تضمین ماقبل کوپڑھتے ہوئے قاری کے دماغ کا توقع اورمفہوم طلبی سے یہ عالم ہوجاتاہے جیسے ٹائم پیس میں الارم کی چابی بھردی گئی ہو۔ یہ تنائو، یہ آشوب ِانتظار، یہ کھینچائوتب ختم ہوتاہے جب الارم کی گھنٹی بجتی ہے اور زیرتضمین شعر، جس کا بے تابی کے ساتھ انتظار تھا، ذہن کو آسودہ کردیتاہے۔‘‘
(نگارِخانۂ رقصاں،ص۲۸۱)
جیسا کہ عرض کیاجاچکاہے۔ مخمس کے علاوہ تضمین کے نمونے مثلث، مسدس، ترکیب بند اورترجیع بند وغیرہ کی شکل میں بھی ملتے ہیں۔ یہاں تفصیلی جائزہ پیش کیا جاتاہے۔
مثلث شاعری کی وہ صنف ہے جس میں ہر بندتین مصرعوں کا ہوتاہے۔ تضمین کی اس شکل کا نقشِ اوّل اٹھارویں صدی میں میرؔ کے کلام میں ملتاہے۔ میرؔ نے کسی مکمل غزل کو مثلث کی شکل میں تضمین نہیں کیاہے بلکہ اپنے پسندیدہ اشعار پر ایک ایک مصرع لگا کر ہر شعر کو تین مصرعوں کی ایک اکائی بناکر پیش کیاہے۔ ایک اعتبار سے یہ تضمین کا نہایت دلچسپ تجربہ تھا مگر بدقسمتی سے اس انداز کوقبول عام حاصل نہ ہوسکا۔ مخمس کی جو مثالیں پیش کی گئی ہیں ان سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی ہے کہ مخمس کی صورت میں تضمین کے کمال کا دارومدار تیسرے مصرع پر ہوتاہے۔ تیسرا مصرع جتنا بھرپور اور مربوط ہوتاہے تضمین اتنی ہی دل کش اور پرلطف ہوتی ہے۔ اکثرتضمین کے تیسرے مصرع کی جامعیت اوردلکش ابتدائی دومصرعوں کے ہلکے پن کی پردہ داری بن جاتی ہے۔ شاید اسی نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے میرؔ نے مثلث کو تضمین کے فنّی اظہار کا کامیاب وسیلہ سمجھا۔ میر کی تضمین بشکل مثلث کے چندنمونے پیش کیے جاتے ہیں ؎
اے وفائے گل کے عاشق سب میں ہے یہ راز فاش

چوں صبا بیہودہ سرگردانِ ایں گلشن مباش
من چہ گل چیدم کہ عمرے باغبانی کردہ ام
میرؔ کا مصرع پڑھنے کے بعد یہ محسوس ہوتاہے کہ فارسی کا شعر ناتمام تھا۔ میرؔ نے وفائے گل کی بے اعتباری کا راز فاش کرکے فارسی شعر کے لطف واثر میں اضافہ کردیاہے ؎
بابِ ذلّت رہوں کہاں تک میرؔ

بکجا سر نہم کہ چوں زنجیر
ہر درد حلقہ درد گراست
فارسی شعر میں درد کو حلقۂ درد سے تشبیہ دے کر مجبوری کی زنجیر کے سلسلے کو دراز کردیا ہے۔ میرؔ نے اس مجبوری کو ذلت سے تعبیر کرکے محرومی کے احساس کی شدت کو اور بڑھادیاہے تینوں مصرعوں کو پڑھنے کے بعد فارسی کے مصرعے بھی میر کے کہے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ؎
نالہ بلبل غنچہ غم شمشاد آہِ دل فگار

باغباں جاروب گل خمیازہ و من انتظار
ہر کسے چیزے بیادت در گلستاں می کشد
میرؔ نے اپنی تخئیل کی جدت سے فارسی کے شعر کے مفہوم کی بہت پرلطف توسیع کی ہے۔ فارسی کے شعر میں باغباں کے جھاڑو دینے، پھول کے انگڑائی لینے اور شاعر کے انتظار کے لیے ’’می کشد‘‘ کا فعل استعمال ہواہے۔ میرؔ نے فارسی محاروں کے مطابق اسی فعل ’’می کشد‘‘ سے بلبل کے نالے غنچہ کے غم اور شمشاد کی آہ کو وابستہ کرکے شعر کے مفہوم کو ایسی وسعت دی ہے کہ تینوں مصرعے ایک ہی شاعر کی تخلیق معلوم ہوتے ہیں۔
مسدس کے فارم میں تضمین نگار کسی شاعر کے اشعار پر اپنے چار چارمصرعوں کا اضافہ کرکے اس کی ایک الگ اکائی بناتاہے۔ تضمین بہ شکل مسدس کے نمونے بھی میرؔ کے ہی دور میں سوداؔ کے کلام میں مل جاتے ہیں۔ سوداؔ نے ایک مسدس میں فارسی کے ایک شعرپر اردو کے چار مصرعے لگائے ہیں ؎
کتابی مکھ پہ یوں اس کی دھنک کاجل کی پھیلی ہے
کہ لونڈی جس کی اب ہرسطرِ انوار سہیلی ہے
کب اس کی میٹھی تیوری کی گرہ کڑوی کسیلی ہے
غرض اس کی ادا کا بوجھنا مشکل پہیلی ہے
بدقت می تواں فہمید معنی ہائے نازِ او
کہ شرح حکمت الغینست مزگانِ دراز او
سوداؔکے کلام میں مسدس کی شکل میں ایک تضمین ایسی بھی ملتی ہے جس میں پانچویں اورچھٹے مصرعے میں قافیہ نہیں ہے۔ یعنی جس شعر کو تضمین کیاگیا ہے وہ مطلع نہیں ہے سوداؔ نے تضمین کے چاروں مصرعوں کو شعر کے پہلے کے مصرعے کا ہم قافیہ کیاہے۔اس طرح مسدس کی روایتی تعریف پر تو بند پورا نہیں اترتا لیکن چونکہ چھ مصرعوں کا ایک بند ہے اس لیے مسدس کے سوا اسے کوئی اورنام بھی نہیں دیاجاسکتا۔ وہ بند یہ ہے ؎
رات آیا وہ صنم سن کے ہمیں زار و نزار

شور خلخال میں پہچان کے بولا اک بار
کون ہے! کہنے لگا دولت ِ گیتی اے یار

میں نے کہا خیر نہ اس بات کو مانوں زنہار
دولت آنست کے بے خونِ دل آید بکنار
ورنہ باسعیِ عمل باغ جناں ایں ہمہ نیست
اب تک تضمین کے جونمونے پیش کیے گئے ہیں ان میں تضمین کرنے والے نے کسی شاعر کے شعر پر مصرعے بہم پہنچا کر اس شعر کے مفہوم کی توسیع کی ہے یا اس کی علامتوں کی نئی توجیہ پیش کی ہے جس سے دوشاعروں کے تخلیقی عمل کے امتزاج سے ایک نئی فضا اور ایک نئی کیفیت حاصل ہوئی ہے۔ اب کچھ ایسی مثالیں پیش کی جاتی ہیں جہاں کسی شاعر کے صرف ایک ہی مصرعے کو تضمین کیاگیاہے۔ ایک مصرع کی تضمین قصیدہ، غزل اورطویل نظم یاقطعہ کی صورت میں ہوتی ہے۔ سوداؔ نے اپنے مشہور قصیدہ میں جس کا مطلع ہے ؎
اٹھ گیابہمن ودے کا چمنستاں سے عمل

تیغ اُردی نے کیا ملک خزاں مستاصل
تشبیب کے بہار یہ اشعار میں موسم بہار کی مختلف کیفیات بیان کرتے ہوئے اپنی تشبیب کو عرفی ؔکے اس مصرع پر ختم کیاہے ؎
تا کجا شرح کروں میں کہ بقول عرفیؔ
’’اخگر از فیض ہوا سبز شود در مِنقل‘‘
غزل میں مصرع کی تضمین کے نمونے کثرت سے ملتے ہیں۔ اٹھارہویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک تضمین کا یہ انداز بہت عام اورمقبول رہا۔ یہاں چند نمونے پیش کیے جاتے ہیں ؎
سوداؔ نے اپنی ایک غزل کے مقطع میں خواجہ میردردؔ کے مصرع کو تضمین کیاہے ؎
میں کیا کہوں کہ کون ہوں سودا بقول دردؔ
’’جو کچھ کہ ہوں سو ہوں غرض آفت رسیدہ ہوں‘‘
طویل نظم میں کسی شاعر کے مصرع کی تضمین بیسویں صدی کے نظم گوشعرا کے کلام میں ملتی ہے اقبالؔ کی نظم ’’ثنائیؔ کے مزار پر‘‘ میں انھوںنے ثنائیؔ کے ایک مصرع کی تضمین کی ہے۔ اس نظم میں اقبالؔ نے ثنائیؔ کے ایک مشہور قصیدہ کی پیروی کی ہے۔ اس نظم کا آخری شعر ؎
حضورِ حق میں اسرافیلؑ نے میری شکایت کی
یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے برپا
کہنے کے بعد ثنائیؔ کا مصرع اس خوبی سے تضمین کیا ہے کہ دونوں مصرعے ایسے مربوط اور پیوست ہیں کہ لگتا ہے ثنائیؔ نے یہ مصرع اسی موقع کے لیے کہاتھا ؎
ندا آئی کہ آشوبِ قیامت سے یہ کیا کم ہے
’’گرفتہ چینیاں احرام و مکی خفتہ در بطحا‘‘
ایک مصرع کی تضمین غزل کے بعد قطعہ کی شکل میں زیادہ مقبول ہوئی۔ اس کا فروغ بیسویں صدی میں ہی اکبرؔ، شبلیؔ اوراقبالؔ کے ہاتھوں ہوا۔ ایک مصرع کی تضمین اس فن کی بنیادی خصوصیت کی آئینہ دار ہے۔ اردو میں طرحی مشاعروں نے مصرع طرح کو تضمین کرنے کے رجحان کو عام کیا۔ یہی رجحان کسی پسندیدہ مصرع کی تضمین کا محرک ہوتاہے تھا۔
سوداؔ نے فارسی کے ایک ضرب المثل مصرع کی بڑی بے ساختگی کے ساتھ ایک قطعہ میں تضمین کی ہے ؎
تیرے جویا ہیں اس چمن میں ہم

ڈھونڈے ہے گل کو عندلیب اے دوست
تو برا مان مت مضائقہ کیا

’’فکر ہر کس بقدرِ ہمت اوست‘‘
فارسی کے مشہور شاعر صائبؔ کے ایک شہرہ آفاق مصرع کو سوداؔ نے اپنے قطعے میں اس طرح تضمین کیاہے ؎
سنا نہوے جو سودا یہ مصرع صائبؔ

تو پوچھ خلق سے میں کیا کروں بیاں تنہا
کہ ایک دن میں اوسے راہ میں اکیلا دیکھ

کہا کدھر چلے اے فخرِ شاعراں تنہا
دیا جواب ’’دلم سیرباغ می خواہد‘‘

کہا میں ہو متبسّم کہ مہرباں تنہا
جو ہوئے امر تو میں بھی چلوں رکاب کے بیچ

رکھے ہے لطف بھی کچھ سیر بوستاں تنہا
سنا یہ مجھ سے توکہنے لگا کہ پوچ مگو
’’گرفتہ ایم اجازت ز باغباں تنہا‘‘
صائبؔ کے اس مصرع کے حسنِ قبول کا یہ عالم ہے کہ بیسویں صدی میں امیرؔ مینائی نے اپنے ایک نعتیہ قطعہ میں اس پورے شعر کو تضمین کرکے تضمین نگاری کاحق ادا کردیاہے ؎
ہوئی جب آپ کے یاروں کو بیشتر سے خبر

کہ ہوں گے راہی معراج شاہِ جن و بشر
کیا سوال کہ ہم بھی ہوں ہم رکابِ سفر

دیا جواب کرو اس شرف سے قطع نظر
’’اگرچہ خوش نبود سیرِ بوستاں تنہا
گرفتہ ایم اجازت ز باغباں تنہا‘‘
غزل کے ایک شعرکو معراجِ نبویؐ کے مضمون سے اس طرح پیوست کرکے امیرؔ مینائی نے اپنی قادرالکلامی سے تضمین کے فن کی آبرو بڑھادی۔
تضمین کے فن کا مختصر جائزہ پیش کیاگیا جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تضمین کا فن محض ہاں میں ہاں ملانے کا فن نہیں ہے۔ باکمال تضمین نگاروں نے اپنے پسندیدہ اشعار سے متاثرہوکر ان اشعار کی معنویت کو اپنے تخیل کی مدد سے وسعت دے کر ان کے کیف واثر کو دوبالا کیاہے۔ یا اپنی صلاحیت سے کام لے کر دوسروں کے اشعار کی رمزیت اورتہ، داری کو اپنے جذبات اورخیالات سے ہم آہنگ کرکے ان کے مفہوم کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔ تضمین کے فن کا مطالعہ کرتے وقت یہ نکتہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جس طرح کسی غزل کے تمام اشعار ایک معیار کے نہیں ہوتے اسی طرح خمسہ کی شکل میں تضمین کا ہر بند معیاری نہیں ہوتاہے۔ اکثراشعار کی تضمین صرف برائے تضمین ہوتی ہے۔اچھے شعروں پر بُرے مصرعے بھی لگے ہیں اور معمولی شعر اچھے مصرعوں کی مددسے چمک اٹھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیسویں صدی میں غزلوں کے خمسوں کے مقابلے میں منفرد اشعار کی تضمین کا رجحان عام ہوا۔ اورتضمین کے نادر نمونے بیسویں صدی کے شاعروں نے پیش کیے۔
یوں تو تضمین کی روایت بہت پرانی ہے لیکن اٹھارھویں صدی میں تضمین کے فن کو فروغ حاصل ہوا۔ اس صدی میں اردو شاعری فارسی شاعری کی دلکشی اور بانکپن کے سامنے کمتر اور ہیچ نظر آتی تھی لہذا اس عہد کے شعراء نے اپنی شاعری کا معیار بلند کر نے اور فارسی کے اشعار کی سی دلکشی پیدا کرنے کے لیے جہاں فارسی شاعری سے دلکش ترکیبیں معنی خیز اصطلاحات، پر لطف تشبیہات و استعارات اور لطیف احساسات اخذ کئے وہیں فارسی اشعار کے ترجمے اورتضمینیں بھی ہوئیں تاکہ اردو کو فارسی کے ہم پلہ بنایا جا سکے۔ اسی رجحان اور جذبہ کے تحت اٹھارہویں صدی کے شعرا نے فارسی کے اشعار پر کافی تضمینیں کی ہیں جن میں میر تقی میرؔ، محمد رفیع سوداؔ اور نظیرؔ اکبر آبادی قابل ذکر ہیں۔ میرؔ، سوداؔ اور نظیرؔ نے فارسی کے اشعار پر دلکش تضمینیں کر کے تضمین نگاری کے نت نئے پہلوئوں سے اردو شاعری کو آب ورنگ بخشا۔ فارسی اشعار کی کیفیات کی بازآفرینی اور غزل کے اشعار کی رمزیت اور تہہ داری سے شعر کے مفہوم کی نئی توجیہ کر کے تضمین کے فن کو بام عروج تک پہنچایا ۔ میرؔ، سوداؔ اور نظیرؔ نے ہیئت کے اعتبار سے تضمین کے تمام امکانات کو بروئے کار لا نے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ہیئت کا جیسا تنوع میرؔ، سوداؔ اور نظیرؔ کی تضمین نگاری میں ملتا ہے اس کی مثالیں کسی دور کے تضمین نگار کے یہاں نہیں ملتی۔ مخمس، مثلث، مسدس، مثمن ترکیب بند، ترجیع بند اور قطعہ کے علاوہ مصرع کی تضمین کے قابل قدر نمونے اس دور میں ملتے ہیں میرؔ نے فارسی کے مطلع پر اردو کے مطلع کی بہترین تضمین کی ہے۔ اس طرح تضمین میرؔ کے علاوہ کسی دوسرے شاعر نے نہیں کی۔ سوداؔ نے ندرتؔ کمشیری کے ہجویہ اشعار کی تضمین اس حسن وخوبی سے کی ہے کہ ان اشعار کا وار پلٹ گیا اور ندرتؔ اپنے ہجویہ اشعار کا خود ہدف بن گئے۔ اس طرح تضمین نے پیروڈی کی صورت اختیار کر لی۔ جو بیسویں صدی میں پیروڈی میں تضمین کرنے والوں کے لیے مشعل راہ بنی۔ میرؔ، سوداؔ اور نظیر کی وہ تضمین جو فارسی غزل کے اشعار پر ہیں بے حد پر کیف پر لطف اور پر اثر ہیں لیکن اردو کے اشعار کی تضمینوں میں وہ دلکشی اور اثر آفرینی پیدا نہیں ہو سکی جو فارسی اشعار کی تضمینوں میں موجود ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو اشعار میں تغزل کے کیفیات کی وہ باز آفرینی اور غزل کی رمزیت کی وہ تہہ داری نہیں ہے جو فارسی غزل کے اشعار کا طرّہ امتیاز رہا ہے۔
انیسویں صدی میں بھی تضمین نگاری کی یہ روایت بر قرار رہی۔ اس عہد میں غزل کے علاوہ نعتیہ، قصدے، مثنوی اور طویل قطعوں کی بھی تضمین کی گئی لیکن تضمین کی ہیئت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس عہد کے ممتاز اور مشہور شعرامیں غالب ؔاور ذوقؔ کو تضمین کا کوئی شوق نہیں تھا پھر بھی غالبؔ نے بہادر شار ظفر کی ایک غیر معروف غزل کی تضمین کر کے اسے مشہور کر دیا۔ غالبؔ کے ہمعصر شعراء میں مومنؔ نے فارسی غزل کی تضمین کی ہیں۔ غالبؔ اور مومن ؔ کے بعد بہادر شاہ ظفر ؔ، داغ دہلوی، میرؔمہدی، مجروحؔ اور امیرؔ مینائی وغیرہ نے فارسی غزل نعتیہ قصیدے اور اردو غزل کے اشعار پر بے شمار تضمینیں کی ہیں ان کی تضمینیں ان کے رنگ سخن کی آئینہ دار ہیں۔
غالبؔ — غالبؔکی غزلوں میں مرزا بیدلؔ کاایک مصرع ’’عالم ہمہ افسانۂ ماداردوماہیچ‘‘ اور ایک ناسخؔ کا مصرع آمدِ سخن میں تضمین ہو گیا ہے۔
غالبؔاپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخؔ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں
البتہ دیوان غالب نسخۂ عرشی میں بہادر شاہ ظفر ؔکی ایک غزل پر تضمین ملتی ہے جو مخمس کے عنوان سے چھپی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تضمین بادشاہ کی فرمائش پر لکھی گئی ہے۔ اگر غالبؔ بادشاہ کو خوش کر نے کے لیے ان کی غزل تضمین کرتے تو ظفرؔ کی اس سے بہتر غزل انتخاب کرتے۔ ظفرؔ کی یہ بے لطف غزل جس پر غالبؔ نے تضمین کی ہے ظفرؔ کی نمائندہ غزل نہیں ہے مگر غالبؔ نے اپنی قادر الکلامی سے اس غزل کے بعض اشعار کی تضمین میں ردیف کی بے لطفی کو دور کر دیا ہے اور مضمون آفرینی کے لیے کوئی نیا پہلو نکال لیا ہے۔
تونے دیکھا مجھ پہ کیسی بن گئی اے راز دار

خواب وبیداری پہ کب ہے آدمی کو اختیار
مثلِ زخم آنکھوں کو سی دیتا جو ہوتا ہوشیار

’’کھینچتا تھا رات کو میں خواب میں تصویرِ یار
جاگ اٹھا جو کھنچی تصویر آدھی رہ گئی‘‘
تیسرا مصرع کتنا دلچسپ ہے اور خواب میں تصویر کے نامکمل رہ جانے کی کیسی نادر توجیہ پیش کی ہے کہ اگر میں آنکھوں کو بند رکھنے پر قادر ہوتا تو تصویر مکمل ہو جاتی۔ تخیل کے اس انداز نے ظفرؔ کے اس شعر کے مفہوم کو وسعت دینے کی گنجائش نکال لی۔
بیسویں صدی میں ہندوستان کے بدلتے ہوئے سیاسی، سماجی اور معاشی صورتِ حال کے تحت ادب میں بھی تبدیلی آئی۔ اردو ادب ، انگریزی، اور کئی دوسرے غیر ملکی ادب سے متاثر ہوا اور اپنے اندر وسعت پیدا کی۔ اردو شاعری میں ہیئت اور فکر کے اعتبا رسے بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ شعراء نے غزل سے نظم کی طرف مراجعت کی اور موضوعاتی شاعری کا رجحان تیز ہوا۔ بے شماراصلاحی، سیاسی اور فکری نظمیں لکھیں گئیں۔ ان تبدیلیوں کے زیر اثر تضمین کی روایتی ہیئت میں بھی تبدیلی آئی شبلیؔ، اور شبلیؔ کے بعداقبالؔ، جوشؔ، اکبرؔ اور فیض وغیرہ نے فارسی کے پر لطف اور معنی خیز اشعار کے مصرعوں پر اپنی اکثر نظموں کا اختتام کیاجس سے تضمین کی نئی ہیئت ایجاد ہوئی اور تضمین کے فن نے خمسہ کے روایتی طلسم سے آزاد ہو کر یہ ثابت کر دیا کہ تضمین کا فن اثرآفرینی اور ایجاد معانی کے امکانات کا حامل ہے۔ تضمین میں کسی رمزیت کو نئی توجیہ اور نئی تعبیر کے لائق بنا دینا کمالِ فن سمجھا گیا۔ شبلیؔ، جوشؔ، اقبالؔ، اکبرؔ اور فیضؔ نے اپنی نظموں میںاس فن کا جیسا جادو جگایا اس کی نظیر اردو شاعری کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
اس صدی کے شعرامیں جہاں شبلیؔ، اقبالؔ، جوشؔ، اکبرؔاور فیضؔ وغیرہ نے تضمین کے قدیم فن کو وسعت دی اور اسے خمسہ کے روایتی طلسم سے آزاد کرایا وہیں حسرتؔ موہانی، صباؔ اکبرآبادی، پروفیسر حامد حسن قادری اور مرزا ؔسہارنپوری مانی جائسی وغیرہ خمسہ کے روایتی طلسم میں اسیر رہے۔ ان شعراء کی تضمین نگاری بھی ان کی غزلوں کی طرح کلاسیکی روایات کے دائرے میں رہ کر سچے عاشقانہ جذبات صوفیانہ واردات اور بے تکلف وبر جستہ انداز بیان کی آئینہ دار ہے۔
اقبال ؔنے فارسی کے برگزیدہ شعرا کے اعلیٰ ترین اشعار پر تضمین کی ہے۔ اقبال ؔ کے اس شاعرانہ عمل سے تضمین کے فن کی اہمیت پر مہر تصدیق ہوگئی ہے۔ اور یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ اقبال ؔ کسی مشہور اور بلند پایہ شاعر کی شہرت کے سہارے اپنی ناموری نہیں چاہتے تھے۔ اقبال ؔروایت پرست شاعروںکی طرح قافیہ پیمائی کے قائل نہیں اور سچ تو یہ ہے کے ان کی شاعری کا تصوّر بھی اُردو شاعری کی روایت سے مختلف ہے۔ وہ شاعروں کو دیدئہ بینا ئے قوم سمجھتے ہیں اور قوم کے درد میں آنسو بہانے کو شاعر کا مقدس فریضہ قراردیتے ہیں۔ شعری روایت کو توسیع دے کر قدیم اصناف کو جدید تر خیالات کے اظہار کا وسیلہ بنا دینا اقبال ؔ کاکارنامہ ہے۔ انھوں نے جس طرح پر انی علامتوں کو نئے معانی دیئے اسی طرح بعض قدیم اسالیب کو بھی نئی معنویت کے ابلاغ کا ذریعہ بنایا۔ تضمین میں کسی رمزیت کو نئی توجیہ اور نئی تعبیر کا حامل بنا دینا کمالِ فن سمجھا گیاہے۔ اقبالؔنے اپنی نظموں میں اس فن کا ایسا جادو جگایا ہے کہ اس کی نظیر اُردو شاعری کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ فارسی اساتذہ کے اشعار کو اپنی نظم کے اشعار سے اس طرح پیوست کیاہے کہ اگر اس نظم سے وہ شعر ہٹا دیا جائے تو نظم نا تمام معلوم ہوتی ہے۔ اس دعوے کی دلیل میں ان کی ان نظموں کا مختصر تنقیدی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔ جن کی بنیاد کسی فارسی شعر پر رکھی گئی ہے۔ تضمین کا اندازشبلی ؔنے اُردو نظم کو دیا۔ جس سے تضمین کے امکانات کونمایاںوسعت ہوئی۔ اقبالؔ ان تمام امکانات کو بروئے کار لائے۔ اقبالؔ کی بدولت تضمین کے فن کو نئی زندگی ملی۔ اس کی معنویت اور اہمیت مسلم ہوئی۔ تضمین کا فن خمسہ کی روایتی طلسم سے آزاد ہو ااور اسے وہ حسن قبول ملا کہ جو ش ؔ ملیح آبادی او ر فیض احمد فیضؔنے بھی تضمین کے نگینوں سے اپنے کلام کو آراستہ کیا۔
غنیؔ کاشمیری کی مشہور غزل کے مقطع پر تضمین ہے۔
’’غنی روزِ سیاہِ پیرِکنعاں را تماشا کن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را‘‘
یہ نظم بھی قطعہ کی صورت میںہے اور اس کے اشعار غنیؔ کے شعر کے دوسرے مصرع کے ہم قافیہ ہیں۔ غنی ؔ کے شعر کی رمزیت کی اثر آفرینی کے امکانات کو بروئے کار لاکر پیر کنعاں اور زلیخا کی علامتوں کو نیا مفہوم دے دیاہے۔ یہ نظم صرف ایک تضمین ہی نہیں بلکہ فکری اور فنی اعتبار سے ایک تخلیقی کارنامہ بھی ہے۔اقبالؔ نے اس نظم میں مسلم نوجوانوں کو ان کے شاندار ماضی کی یاددلائی ہے۔ معنی خیز ترکیبوں کی مدد سے نظم کی ابتدا میں اسلامی شعار او رکردار کی تصویر پیش ہے۔ چوتھے شعر میں حافظؔ کی مشہور غزل کے بہت مشہور مصرع کو اس کاریگری سے تضمین کیا ہے کہ غزل کی معروف علامتو ں کا مفہوم یکسر بدل کر رہ گیا۔ الفقر فخری کی دلنشین تفسیرغز ل کی زبان میں پیش کردی۔ اصلاحی نظم میں ایسی شعریت پیدا کردینا اقبالؔکا کمال ہے۔ بحرکی نغمگی سے اشعار گنگناتے ہیں۔
یورپ میں اقبالؔ کو اپنے اسلاف کی وہ کتا بیں جب نظر آئیں جن سے ظلمت ِ یورپ نے نورِدانش حاصل کیا تو ان کا دل تڑپ اُٹھا۔ اس درد و کرب کی ترجمانی غنی ؔ کے شعر کی مدد سے جیسی بھر پور ہوئی ہے کسی اور پیر ایۂ اظہار سے ممکن ہی نہ تھی۔
کبھی اے نو جواں مسلم ! تدبّر بھی کیا تو نے؟

وہ کیا گردو ں تھا ، تو جس کاہے اک ٹوٹا ہوا تارا؟
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں

کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سر دارا
تمدّن آ فریں ، خلّاق ِآئین جہاں داری

وہ صحرا ئے عرب ، یعنی شتر بانو ں کا گہوارہ
سماں اَلفَقرُ فخری کا رہا شانِ امارت میں

’’بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبارا‘‘
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے

کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے

جہاں گیر و جہاں دارو جہاں بان و جہاں آرا
اگر چاہو ں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دو ں

مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظّارا
تجھے آ با سے اپنے کو ئی نسبت ہو نہیں سکتی

کہ تو گفتا ر، وہ کر دار ، تو ثابت ، وہ سیارا
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
حکو مت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی

نہیں دنیا کے آئینِ مسلّم سے کوئی چارا
مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آبا کی

جو دیکھیں ان کو یو رپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
’’غنی روزِ سیا ہِ پیرِ کنعاں را تماشاکن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخا را‘‘
’’اے حبیبِ عنبر دست‘‘ فیض احمد فیض کی مہکتی ہوئی نظم ہے جس میں انہوں نے اپنے احساس کی لطافت اور جذبہ کی سرشاری کو بڑی نفاست اور فنکاری کے ساتھ شعر کے پیکر ڈھال دیا ہے۔ نظم کو پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ کنج زنداں میں خوشبو کا تحفہ وصول ہونے کے بعد شاعر اسیری کے جبر اور زندوں کی گھٹن سے آزاد ہو کر محبت کی اس دلنواز فضا میں پہنچ گیا جہا ںکی فضا زلفِ یار کی طرح مہک رہی تھی او رجہاں خوشبو کی گرمی سے ہوا اس طرح سرمست تھی جیسے وہاں سے کوئی گل بدن، غنچہ بدست، گیسو بدوش قریب سے گزر گیا ہو، اس پرکیف عالم میں حافظ کا شعر ذہن میں آیا اور اس کی ردیف کو اس قطعہ کے لیے قافیہ کا شکل لے کر فیض نے جو شعر کہے وہ اس لطیف تجربہ کے کامیاب اظہار کے ساتھ اس کیفیت کے بھی آئینہ دار ہیں کہ محبت اور رفاقت کی خوشبو قید و بند کو نیا حوصلہ عطا کرتی ہے۔ نظم بڑے بے ساختہ انداز سے حافظ کے شعر پر ختم ہوتی ہے اورتضمین کا حق ادا کر دیتی ہے۔
کسی کے دستِ عنایت نے کنجِ زنداں میں
کیا ہے آج عجب دل نواز بند و بست
مہک رہی ہے فضا زلفِ یار کی صورت
ہوا ہے گرمیٔ خوشبو سے اس طرح سرمست
ابھی ابھی کوئی گزرا ہے گل بدن گویا
کہیں قریب سے، گیسو بدوش، غنچہ بدست
لئے ہے بوئے رفاقت اگر ہوائے چمن
تو لاکھ پہرے بٹھائیں قفس پہ ظلم پرست
ہمیشہ سبز رہے گی وہ شاخِ مہر و وفا
کہ جس کے ساتھ بندھی ہے دلوں کی فتح وشکست
یہ شعرِ حافظؔ شیراز، اے صبا! کہنا
ملے جو تجھ سے کہیں وہ حبیبِ عنبر دست
‘‘خلل پذیر بود ہر بنا کہ مے بینی
بجز بنائے محبت کہ خالی از خلل است‘‘
’’ختم ہوئی بارش سنگ‘‘ فیضؔ کی یہ نظم رہائی کے بعد کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔ جرم ثابت نہیں ہوا۔ حکومت کے عتاب سے نجات ملی، سنگِ ملامت کی بارش بھی رک گئی، مگر تہمت بے جا کی تکلیف کا بوجھ شاعر کے دل پر رہا۔ اسی کیفیت میں یہ شعر بھی ہوا ہوگا۔
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگواری گزری ہے
ایسے ماحول میں جہاں ناکردہ گناہی پر حبس بے جا کا دھڑکا لگا ہوا ایک حساس شاعر ہمت نہیں ہارتا اور ظلم کے آگے سر نہیں جھکاتا، مگر اسے اس کا بھی غم ہے کہ یہ حوصلہ اور یہ کس بل پر ایک کے بس کی بات نہیں۔ ظلم کی طاقت کسی نہ کسی کو پھر ہدف بنائے گی۔ اس سے کون نبرد آزما ہوگا۔ اس نظم کا نقطۂ عروج غالبؔ کے شعر کی تضمین کی صورت میں نظم کی تکمیل اور نظم کے اثر اور نفوذ کی بے کرانی لے کر ابھرتا ہے۔ برجستہ تضمین اردو میں بہت کم ملتی ہے۔ ایک اور خصوصیت اس تضمین کی یہ ہے کہ یہ نظم قافیہ کی قید سے آزاد بھی ہے او رپابند بھی۔ آزاد یوں کہ پہلا شعر مطلع کی شکل کا ہے مگر تیسرا مصرع نہ پہلے شعر کا ہم قافیہ ہے نہ اگلے شعر کا ہم قافیہ ہے۔ چھٹا اور ساتواں مصرع ہم قافیہ ہے۔ آٹھواں اور نواں مصرع الگ ایک مطلع کی شکل رکھتا ہے۔ آخری چار مصرعوں میں دوسرا اور چوتھا مصرع ہم قافیہ ہے۔ یہ شکل آزاد نظم اور نظم معری کے بین بین ایک نئی ہئیت اختیار کر گئی ہے۔ گویا طبیعت کی روانی میں شاعر نے اپنے جذبات کے اظہار کے لیے صرف شعری آہنگ کو ملحوظ رکھا۔ پوری نظم آمد ہی آمد ہے آورد اور تکلف کا شائبہ بھی نہیں۔ غالبؔ کا بھی شعر اس کیفیت اور آہنگ سے پیوست ہو کر رہ گیا ہے۔ اگر یہ شعر اتنا مشہور نہ ہوتا تو اس پر گفتہ فیضؔ کا گمان ہوتا۔
ناگہاں آج مرے تارِ نظر سے کٹ کر
ٹکڑے ٹکڑے ہوئے آفاق پہ خورشید و قمر
اب کسی سمت اندھیرا نہ اجالا ہوگا
بجھ گئی دل کی طرح راہ وفا میرے بعد
دوستو! قافلۂ درد کا اب کیا ہوگا
اب کوئی اور کرے پرورش گلشنِ غم
دوستو ختم ہوئی دیدۂ ترکی شبنم
تھم گیا شورِ جنوں ختم ہوئی بارشِ سنگ
خاکِ رہ آج لئے ہے لبِ دلدار کا رنگ
کوئے جاناں میں کھلا میرے لہو کا پرچم
دیکھئے دیتے ہیں کس کس کو صدا میرے بعد
’’کون ہوتا ہے حریفِ مَے مرد افگنِ عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد‘‘

بیسویں صدی میں ہی تضمین کے فن نے صنف پیروڈی میں غیر معمولی اور دلچسپ رول ادا کیا ہے۔ پیروڈی خود ایک مقبول اور دلچسپ صنف سخن ہے لیکن پیروڈی میں تضمین اس کی دلکشی اور اثرآفرینی کو دوآتشہ بنا دیتی ہے۔ سید محمد جعفری، دلاور فگار ایچ، ایف، فتح پوری وغیرہ نے پیروڈی میں بہترین تضمین کر کے تضمین کے فن کی اہمیت بڑھا دی ہے۔ اقبال کی نطم شکوہ کی پیروڈی متعدد شاعروں نے مختلف پیرائے بیان میں کی ہے جن میں تحریف کے ساتھ خوبصورت تضمین بھی ہیں۔
ہر دور میں ہیئت کے اعتبار سے تضمین میں وسعت پیدا ہوئی ہے اور ہر صنف سخن کو فن تضمین نے اپنی اثر آفرینی اور دلکشی سے خوبصورت اور پر لطف بنایا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں اس کی مقبولیت میں بھی اضافہ کیا ہے۔ مستقبل میں اگر کوئی صنف سخن وجود میں آئی تو تضمین اسے بھی آراستہ کر ے گی اور اس کی دلکشی اور مقبولیت کو بڑھائے گی کیونکہ ہیئت کے اعتبار سے تضمین میں وسعت پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔
اردو کے کامیاب پیروڈی نگاروں کے جو کارنامے ہمارے سامنے ہیں ان میں تضمین کے فن کی کاریگری صرف چند ممتاز پیروڈی نگاروں کے کلام میں ملتی ہے۔ ہم بھی صرف ان ہی پیروڈی نگاروں کو اس باب میں شامل کریں گے جن کے کلام میں تحریف کے ساتھ تضمین کا فن بھی کارفرما ہے۔ ان میں سرِ فہرست سید محمد جعفری کانام ہے جن کی پیروڈی ان کی جودتِ طبع اور جدت ادا کی آئینہ دار ہے۔ نظیرؔ اکبر آبادی کی نظم بنجارہ نامہ کی پیروڈی کے پہلے دوبند میں چوتھا اور پانچواں مصرع نظیرؔ کا ہے۔ اس طرح نظیرؔ اکبرآبادی کے سنجیدہ کلام کو اپنے مزاحیہ مصرعوں کی تضمین سے ایک نئی معنویت دے دی۔
جب وفد بنا کر چودھریوں کا لے جاتا ہے طیارہ
کچھ اس میں افسر جاتے ہیں کچھ بیوپاری ناکارہ
ایکسپنج انھیں دے دیتا ہے یہ ملک ہمارا بیچارا
ٹک حرص وہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا
نظیرؔ کے مصرع میں لکھّی بنجارا اس عہد کے سرمایہ دار کی علامت ہے۔ محمد جعفری کی تضمین کے تیسرے مصرع میں’’ڈالر سے جو تیری یاری ہے‘‘ کا ٹکڑا جدید سرمایہ داری کی علامت بن کر تضمین کو مربوط بھی کرتا ہے اور نظیرؔ کے شعر کو نئی معنویت بھی دیتا ہے۔ ابتدائی دو مصرعے اپنے انداز سے پیروڈی کا رنگ پیدا کرنے میں کامیاب ہیں۔
پروفیسر رشید احمد صدیقی نے پیروڈی کے فن کے سلسلے میں اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ کسی شاعر یا مصنف کی پیروڈی اس امر کی دلیل ہے کہ اس کے کلام کا غیر معمولی طور پر چرچا ہے۔ اقبالؔ کے شکوہ کی پیروڈی جتنی کی گئی ہے اتنی کسی دوسرے شاعر کے کلا م کی نہیں ہوئی۔
پیروڈی میں تضمین کے روایتی انداز سے بھی کام لیا گیا ہے۔ غالبؔکی غزل پر ایچ۔ ایف فتحپوری کی مزاحیہ تضمین اس کی سب سے عمدہ مثال ہے۔ اس انداز کی پیروڈی میں تحریف کا عمل بالکل نہیںہوتا ہے۔ تضمین کے مصرعوں کی مدد سے سنجیدہ شعر کے مفہوم کو مضحکہ خیز بنادیا جاتا ہے۔ غالبؔ کی غزل پر یہ مزاحیہ تضمین پیروڈی کا ایک نادر نمونہ ہے۔ کلامِ غالبؔمیں کوئی تحریف نہیں کی گئی۔ لیکن ہر شعر کا مفہوم مضحکہ خیز ہوگیا ہے۔
اب وہ مِس مرے گھرنہیں آتی

دور کی چارہ گر نہیں آتی
بنتِ مریم ادھر نہیں آتی

’’کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظرنہیں آتی‘‘
اس بند میں تیسرے مصرع کے ظریفانہ انداز سے غالبؔ کے مطلع کے دوسرے مصرع کا مفہوم بالکل بدل گیا ہے۔ اب صورت کے معنی ہی کچھ اور ہو گئے۔

Prof. Shaikh Aquil Ahmad

author_name

author_bio

I am a heading

If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.

  • This is a list item.
  • This is a list item.
  • This is a list item.

No spam, ever.