اردو میں تحقیقی مجلات کی تعداد بہت کم ہے۔ چند گنے چنے رسالے ہی ہیں جو تحقیقی اور علمی مباحث پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان میں بھی بیشتر رسائل کے مدیران کو یہ شکایت رہتی ہے کہ جس معیار اور منہج کے مضامین انھیں مطلوب ہیں وہ مل نہیں پاتے۔ صورت حال یہ ہے کہ اب تحقیقی اور علمی مجلات کی نہ صرف تعداد کم ہے بلکہ لکھنے والوں کے ساتھ ساتھ قارئین کی تعداد بھی تشویش ناک حد تک کم ہوگئی ہے۔ قارئین کا بھی مزاج تبدیل ہوچکا ہے۔ ان کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ وہ مقبول عام ادب کی طرف زیادہ رجحان رکھتے ہیں اور ادق علمی اور ادبی مباحث سے گریز کرتے ہیں۔ زیادہ تر جامعات کے زیراہتمام کچھ تحقیقی رسائل نکل رہے ہیں اور وہ بھی سہ ماہی، شش ماہی یا سالانہ کی صورت میں۔
زوالِ تحقیق کی بہت ساری وجہیں ہوسکتی ہیں اور اس تعلق سے بہت سے مقالات اور مضامین بھی لکھے جارہے ہیں جن میں خاص طور پر جامعاتی تحقیق کو موضوعِ بحث بنا کر گفتگو کی جاتی ہے اور واقعتاً یہ المیہ ہے کہ جامعات میں جس انداز کی تحقیق ہورہی ہے وہ تحقیق کے اعلیٰ معیار اور ضابطے پر پوری نہیں اترتی۔ تحقیق کا مطلب نئے انکشافات یا نئے حقائق کی تلاش ہے۔ جبکہ ادبیات کے شعبے میں جو تحقیقی مقالے لکھے جارہے ہیں ان میں تلاش اور بازیافت کا عمل مفقود ہے۔ نہ ہی ان میں پرانے مسلمات کی تردید کا کوئی زاویہ ہوتا ہے اور نہ ہی نئے حقائق کی جستجو بلکہ وہی گھسٹے پٹے مضامین ہوتے ہیں جن پر دادِ تحقیق دی جاتی ہے۔ پرانے زمانے کے محققین کے پاس مطالعے کی وسعت تھی اور ان کے اندر جستجو کا ذوق بھی تھا تو انھوں نے تحقیق کو اعتبار و استناد بھی بخشا لیکن فی زماننا اب ایسے اذہان نہیں ہیں جو مسلمات کی نئی تعبیر پیش کرسکیں یا نئے تحقیقی مقدمات قائم کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب صرف مکھی پر مکھی مارنے کا کام ہورہا ہے۔ کوئی نئی تحقیق، کوئی نیا زاویہ، کوئی نئی جہت سامنے نہیں آپارہی ہے۔ آج کا المیہ یہ ہے کہ تحقیق و تنقید سے رشتہ رکھنے والے بھی تن آسان اور سہل انگارہوگئے ہیں۔ ان کے اندر نہ اتنی ذہنی توانائی و قوت ہوتی ہے کہ وہ علمی اور ادبی مباحث میں نئے زاویے پیدا کرسکیں اور نہ ہی وہ ریاضت، محنت اور لگن کے عادی ہوتے ہیں۔ ان کا کام بس کاتا اور لے دوڑی تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تحقیق کے نام پر کوئی نئی چیز سامنے نہیں آرہی ہے۔ وہی چبائے ہوئے نوالے ہیں۔ زوالِ تحقیق کا یہ منظرنامہ یقینی طور پر تشویش ناک ہے اور اس کی وجہ محنت اور مشقت سے روگردانی ہے۔ تحقیق کے لیے جس محنت اور ریاضت کی ضرورت ہے وہ مفقود ہے۔ علامہ اقبال نے ایک بہت اچھا شعر کہا تھا
بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا
روشن شرر تیشہ سے ہے خانہ فرہاد
اب نہ محنت پیہم ہے اور نہ ہی شرر تیشہ۔ اسی وجہ سے تحقیق کی جو ایک روشن روایت تھی وہ ختم ہوتی جارہی ہے۔ اس روایت میں محمود شیرانی، محمود حسن رضوی ادیب، قاضی عبدالودود، مولانا امتیاز علی عرشی، مالک رام، ڈاکٹر عبدالستار صدیقی، محی الدین قادری زور، رشید حسن خان اور دوسری شخصیتوں کے نام آتے ہیں۔ ان شخصیتوں کے بعد اب بہت ہی کم شخصیتیں ایسی ہیں جوتحقیق کے میدان میں کوئی امتیازی نشانات قائم کرسکیں۔
سہ ماہی’فکر و تحقیق‘ بھی ایک تحقیقی مجلہ ہے او راس کے ساتھ بھی وہی ساری دقتیں ہیں جو دیگر تحقیقی مجلات و جرائد کے ساتھ ہیں۔ پھر بھی کوشش کی جاتی ہے کہ کچھ اہم تحقیقی مضامین اس میں شائع کیے جائیں۔ اس شمارے میں بھی کچھ اہم مضامین شائع کیے جارہے ہیں جن میں کچھ نئی جہتیں ہیں۔ پھر بھی یہ کہنا ضروری ہے کہ تحقیق کا جو اعلیٰ معیار ہونا چاہیے اس معیار سے ہم ابھی بہت پیچھے ہیں۔
سہ ماہی ’فکر و تحقیق‘ میں اب کچھ تبدیلیوں کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ ایک اچھی صورت تو یہ تھی کہ اس میں شائع ہونے والے مضامین Peer Reviewکے لیے ماہرین کو بھیجے جاتے لیکن یہ طویل مدتی عمل ہے اس لیے اس پر عمل کرنا ناممکن ہے۔ پھر بھی اب کوشش کی جائے گی کہ صرف وہی مضامین شائع کیے جائیں جن میں حوالہ جات و حواشی کے ساتھ تلخیص اور کلیدی الفاظ کی وضاحت ہو۔ چونکہ نئے زمانے کے تحقیقی رسائل میں ان چیزوں کا التزام کیا جاتا ہے، اس لیے آئندہ ’فکر و تحقیق‘ میں اشاعت کے لیے مضامین بھیجتے وقت قلم کار حضرات ان چیزوں کا خیال رکھیں تو بہتر ہوگا۔ تلخیص، کلیدی الفاظ، حواشی اور حوالہ جات کے بغیر کسی بھی مضمون کی اشاعت سے ادارہ معذور ہوگا۔
’فکرو تحقیق‘ کا یہ شمارہ آپ کو کیسا لگا۔ اپنے گراں قدر تاثرات کے ساتھ اپنی قیمتی تجاویز بھی بھیجیں تو ہم آپ کے بے حد ممنون ہوں گے!
