May 28, 2023

جنوری تا مارچ 2019

ادبیات میں تحقیق کا معیار گرا ہے۔
اس حقیقت سے اب انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جامعات کے معتبر، موقر اساتذہ اور نگراں حضرات اب یہ کہنے لگے ہیں کہ اردو میں تحقیق زوال پذیر ہے اور اب اس طرح کے علمی اور تحقیقی مقالات نہیں لکھے جاتے جو پہلے لکھے جاتے تھے۔ گوکہ اس میں عمومیت نہیں ہے کچھ مقالے یقینی طور پر مستثنیٰ قرار دیے جاسکتے ہیں جن میں مقالہ نگار کی محنت، ژرف نگاہی اور عرق ریزی نظر آتی ہے یا اس میں کوئی نیا زاویہ سامنے آجاتا ہے۔ لیکن عموماً جن موضوعات پر تحقیقی مقالے رقم کیے جاتے ہیں خود ان کی معنویت سوالوں کی زد میں ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ادبیات میں تحقیق کا موضوعاتی دائرہ بہت وسیع ہے لیکن اسے محدود کردیا گیا ہے۔ اب چند ہی موضوعات اس کے دائرے میں آتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ موضوعاتی سطح پر تکرار کی وجہ سے بھی تحقیق کی معنویت اور افادیت مجروح ہورہی ہے۔ ایک ہی موضوع پر مختلف جامعات میں مقالے لکھے جاتے ہیں اور ان مقالوں میں کوئی نئی بات نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ مقالہ نگاروں کے اندر تجسس اور تفحص کا جذبہ بھی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے کسی بھی مقالے میں نئی جہات کی جستجو کم نظر آتی ہے۔جبکہ تحقیق کا بنیادی مقصد تلاش و جستجو اور نئے حقائق کا انکشاف ہوتا ہے۔جامعات کے تحقیقی مقالوں کا اگر غائر مطالعہ کیا جائے تو چند کو چھوڑ کر بیشتر مقالوں سے مایوسی ہوتی ہے۔ شاید ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ اس مادّی اور صارفی دور میں تحقیق سے لوگوں کا رشتہ کمزو رہوتا جارہا ہے، انھیں تحقیق میں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ یعنی ان کے لیے تحقیق ایک کارِ عبث ہے یا محض ڈگری کا حصول۔ جب یہ احساس ہو تو ظاہر ہے کہ انسان محنت سے بھی جی چرائے گا اور اپنی تحقیق کو بے دلی سے مکمل کرے گا۔ اس کے علاوہ ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ جو اچھے تحقیقی مقالے لکھے جاتے ہیں ان کی قدر بھی نہیں کی جاتی۔ یہ تحقیقی مقالے اشاعت کی منزلوں سے نہیں گزر پاتے۔جبکہ جن جامعات میں یہ مقالے تحریر کیے جاتے ہیں وہاں کے ارباب حل و عقد کی ذمے داری ہوتی ہے کہ ان مقالوں کی اشاعت کا اہتمام کریں تاکہ مقالہ نگار کی محنت اور جستجو سے دوسرے لوگ بھی فائدہ اٹھا سکیں۔ بیشتر جامعات میں محققین اور باحثین کی ایک بڑی تعداد ہے جن کے سامنے ادبی، علمی اور ثقافتی موضوعات اور مسائل بھی ہیں مگر یہ افراد بھی اپنے طلبا پر زیادہ توجہ نہیں دے پاتے جس کی وجہ سے تحقیق کرنے والے طلبا میں بھی ذوق اور جذبہ ختم ہوجاتا ہے۔
زوالِ تحقیق کے تعلق سے جو باتیں کہی گئی ہیں وہ اس لیے کہ جامعات کو اب معیار تحقیق پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور موضوعات کے تعین میں بھی یکسانیت اور تکرار سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ان ذہین طلبا کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو بہتر علمی استعداد رکھتے ہیں اور تحقیق کے میدان میں کچھ نیا کردکھانے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ پہلے زمانے میں وسائل کم تھے اب وسائل کی فراوانی ہے اس لیے تحقیق کی راہ میں اتنی دشواریاں نہیں ہیں۔ اب ایک کلک پر سارا مطلوبہ مواد مل جاتا ہے۔ اس لیے اب اگر ذرا سی توجہ دی جائے تو تحقیق کا معیار بلند سے بلند تر ہوسکتا ہے۔
سہ ماہی ’فکرو تحقیق‘ میں ہمیشہ کوشش کی گئی ہے کہ اس طرح کے مضامین شائع کیے جائیں جن میں کچھ نئے زاویے تلاش کیے گئے ہوں مگر یہ کوشش بھی کبھی کبھی ناکام اس لیے ہوجاتی ہے کہ ہمارے عہد میں اچھے محققین کی کمی ہے۔ ’فکر و تحقیق‘ کو بھی اسی طرح کی دقتوں کا سامنا ہے جس طرح کی دشواریاں اردو کے دیگر تحقیقی مجلات کو ہیں۔ پھر بھی کوشش کی گئی ہے کہ کچھ اہم موضوعات پر ’فکر و تحقیق‘ میں مضامین شامل کیے جائیں اور اس شمارے میں کچھ ایسی ہی تحریریں شائع کی جارہی ہیں جن سے یقینی طور پر قارئین کی معلومات میں اضافہ ہوگا۔لیکن یہاں پر ایک بات اور ضروری ہے کہ مقالہ نگاروں کو چاہیے کہ اپنے تحقیقی مقالوں میں ایسے مکالمے قائم کریں جس سے بات کچھ آگے بڑھ سکے اور طلبا نئے زاویے اور نئی جہتیں تلاش کرنے پر مجبور ہوں کیونکہ تحقیق اگر ایک ہی نقطے پر ٹھہر گئی تو پھر تحقیق کا سفر رک جائے گا۔
فکرو تحقیق‘ کے اس شمارے کے بارے میں اپنی رائے سے ضرور نوازیں کیونکہ آپ کی رائے سے ہی رسالے کو خوب سے خوب تر بنایا جاسکتا ہے۔ ہمیں آپ کے قیمتی تاثرات کا انتظار رہے گا!

Prof. Shaikh Aquil Ahmad

author_name

author_bio

I am a heading

If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.

  • This is a list item.
  • This is a list item.
  • This is a list item.

No spam, ever.