ادب اورسماج کا باہمی رشتہ نہایت مضبوط ہے کیونکہ ادب سماج کی عکاسی کرتا ہے۔ ادب کے ذریعے ہی سماج کی تعمیر و تشکیل ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ادب کے بغیر سماج وحشی بن جاتا ہے۔ ایک سچا،حساس اور باشعور ادیب وہ کہلاتا ہے جو اپنے سماج اور معاشرے سے علیحدہ ہوکر نہ سوچتاہے اورنہ ہی لکھتاہے۔ اس کی تحریروں میں معاشرے کے مسائل ووسائل کا بہتر تجزیہ ہوتا ہے۔ کارآمد ادب وہی کہلاتا ہے جو اپنے زمانے کے مسائل سے ہم آہنگ ہواور جس میں حیات و کائنات کے حقائق سے بحث کی گئی ہو اور مختلف پہلووں کو اجاگرکیاگیاہو۔
ہر سچاادیب اپنے معاشرے پر گہری نگاہ رکھتاہے، وہ معاشرے کی خوبیوں کوبھی پہچانتاہے اور اس کی خامیوں پر بھی اس کی نظر ہوتی ہے، وہ معاشرے کو خوب صورتی عطا کرنے والے اخلاقی، علمی و عملی عناصر سے بھی آگاہ ہوتا ہے اور ان خامیوں کابھی اسے علم ہوتا ہے، جن کی وجہ سے ایک معاشرہ زوال و انحطاط کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی ادیبوں اور فنکارو ںکے قلم سے جو ادب وجودمیں آتا ہے وہ نہ صرف قارئین کے ذہن و فکر کو روشن کرتا ہے بلکہ معنویت کے اعتبار سے پورے انسانی معاشرے کے لیے نتیجہ خیزاور مفید ثابت ہوتا ہے۔ ہر زمانے کے ادیبوں نے سماجی ذمے داریوں کو محسوس کرتے ہوئے ایسا ادب تخلیق کیاہے جو اس زمانے کی سماجی ضروریات اور تقاضوں پر پورا اترتاہو۔ جب حالات نے تقاضا کیاکہ سماج میں تبدیلی لائی جائے او رافراد کے دلوں میں انقلاب کی چنگاری بیدار کی جائے تو انھوں نے انقلاب انگیز تحریروں کا سہارا لیا اور جب ایک غلام معاشرے کو آزادی کی قدروقیمت کا احساس ہوا تواس سماج کے ادیبوں نے نغمہ ہائے آزادی لکھے اور ان نغموں کی بدولت معاشرے کے ایک ایک فرد میں حصول آزادی کی تڑپ پیدا ہوئی، اسی طرح جب کبھی ضرورت محسوس ہوئی کہ قوم اور معاشرے میں امن و یکجہتی اور اتحاد و اخوت کاماحول قائم کیا جائے، تو ہمارے ادیبوں نے یہ ذمے داری بھی بخوبی نبھائی۔
آج کے ملکی و عالمی ماحول میں بھی اہل ادب کی ذمے داریاں پہلے کی طرح قائم ہیں،بلکہ کئی اعتبار سے اس وقت ان کی ذمے داریاں بڑھ گئی ہیں۔ اکیسویں صدی چونکہ اطلاعاتی انقلاب اور ٹکنالوجی کی صدی ہے،جس کے اپنے بے شمار فوائد ہیں،مگرسماجی سطح پر اس کے کئی نقصانات بھی سامنے آرہے ہیں۔ آج تفریح کے ذرائع بھی بہت سارے ہیں، مگر اسی تناسب سے تخریب کے ذرائع بھی بکھرے پڑے ہیں۔ پہلے معاشرہ اتنا ترقی یافتہ نہیں تھا، توانسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں بے چینی و بے اطمینانی کے اسباب بھی کم تھے،آج جبکہ ہم ترقی کی انتہاؤں پر پہنچتے جارہے ہیںتواسی کے ساتھ معاشرتی اقدار کے زوال کا بھی ہمیں سامناہے اوراسی وجہ سے سماجی انتشار و خلفشار اور انارکی کے واقعات روز بروز بڑھتے جارہے ہیں۔ قومی یکجہتی و ہم آہنگی کے جذبات سردپڑتے جارہے ہیں۔ایسے ماحول میں ہمارے ادیبوں کی ذمے داری ہے کہ وہ معاشرے کی ضروریات کا احساس کرتے ہوئے اتحاد و اخوت اور قومی یکجہتی کو مضبوطی بخشنے والاادب تخلیق کریں۔ اردو کے ادیبوں نے اس ضمن میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے ہمیشہ اپنی ذمے داری کو محسوس کیااوراسے پورا بھی کیاہے، انھوں نے انتشارزدہ ماحول میں لوگوں کے ذہنوں میں بقائے باہمی کی اہمیت کو جاگزیں کیا اور ایسی شاعری کی، جس سے ماحول میں عداوت کے بجائے محبت کا فروغ ہو۔
اردوکے ادیبو ںاور شاعروں نے ہمیشہ امن اور محبت ہی کی بات کی اور رواداری کے جذبے کو فروغ دیا۔ اردو زبان و ادب میں رواداری اور اتحاد ویگانگت کی ایک عظیم روایت رہی ہے، کلاسیکی شاعری میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جس میں جذبۂ اتحاد اور رواداری کو بڑی اہمیت دی گئی ہے اور اس طرح کے شعر کہے گئے ہیں جس سے مختلف طبقات کے درمیان تصادم کے بجائے تفاہم کی فضا ہموار ہو۔ یہی اردو زبان کی خوبصورتی اور اس کا حسن ہے۔
I am a heading
If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.
- This is a list item.
- This is a list item.
- This is a list item.
No spam, ever.