July 14, 2023

مئی 2022

اردو صحافت نے دوسوسال مکمل کرلیے ہیں۔ اس موقعے پراہل اردوکے درمیان جشن کا ماحول ہے۔ جلسے، کانفرنسیں اورسمینار منعقد ہورہے ہیں جن میں اردو صحافت کی شاندار تاریخ، عظیم صحافیوں کے کارنامے اور اردو صحافت کی موجودہ صورتِ حال پر اہل دانش اپنے خیالات کا اظہار بھی کررہے ہیں اور ماضی کی روشنی میں اردو صحافت نے جو سفر طے کیا ہے وہ یقینا قابل رشک ہے اور اس اعتبار سے بہت معنویت کا حامل ہے کہ عصری تقاضوں سے بھی ہماری اردو صحافت ہم آہنگ ہے۔ موضوعات کی سطح پر بھی تنوع ہے اور جن موضوعات پر قومی صحافت میں تحریریں شائع ہوتی ہیں ان پر بھی اردو اخبارات میں مضامین شائع ہورہے ہیں، خاص طور پر اقتصادیات اور تجارت کے تعلق سے بھی اردو اخبارات میں مضامین کی اشاعت ایک خوش آئند پہلو ہے۔
1822 میں ’جام جہاں نما‘ سے اردو صحافت کا آغاز ہوا تھا اور تب سے اب تک اس کے 200 سال پورے ہوچکے ہیں۔ ان دو صدیوں میں اردو صحافت بہت سے نشیب و فراز سے گزری اور اس صحافت نے بہت سے نئے امکانات بھی تلاش کیے۔ اب اردو صحافت تیسری صدی میں داخل ہورہی ہے۔ اس لیے اس موقعے پر ماضی کے تجربات ومشاہدات سے فائدہ اٹھاکر مستقبل کے لیے کوئی ایسا لائحۂ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے جس کے تحت اردو صحافت کی تیسری صدی کا سفر بھی کامیابی کے ساتھ جاری وساری رہے۔ یہ موقع ایک لمحۂ احتساب بھی ہے کہ فی زمانہ اردو صحافت کہاں کھڑی ہوئی ہے، معاصر زبانوں کی صحافت کے درمیان اس کا کیا مقام ہے۔ اس میں کتنی دور تک چلنے کی ہنوز توانائی موجود ہے اور اس کا مستقبل کیاہے؟
اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ اردو اخبارات ورسائل خود کو جدید تکنیکی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، طباعت سے لے کر آن لائن تک اردو صحافت نے اپنے وجود کا احساس کرایا ہے، اور اپنے مواد و پیشکش کے لحاظ سے بھی اردو صحافت نے کافی ترقی کی ہے، خاص طور پر عالمی، قومی، موضوعات کے حوالے سے اردو صحافت کا رویہ نہایت منصفانہ ہے لیکن یہ عجیب سی صورت حال ہے کہ اردوکے اخبارات تو معتدبہ تعدادمیں موجود ہیں مگر ان کے قارئین کا دائرہ بہت محدود ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اخبارات کی تعداد میںتو اضافہ ہورہا ہے مگر قارئین کی شرح گھٹ رہی ہے۔ اردو والوں کے لیے یہ بھی ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
اردو صحافت کے دوسوسالہ جشن کے موقعے پر جب ہم اردو کی ادبی صحافت یا اردو کے ادبی مجلات کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ ادبی رسائل ومجلات کا دائرہ بھی دن بہ دن سکڑتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔ انھیں خریدنے والے بھی کم ہیں اور پڑھنے والے بھی کم ہیں۔ حالانکہ اب سے چند دہائیوں قبل یہ صورت حال قطعی نہ تھی۔ اردو کے ادبی رسائل بڑی شان وشوکت کے ساتھ نکلتے تھے اور بڑی تعداد میں خریدے اور پڑھے جاتے تھے۔ نیادور، شب خون، شاعر، بیسویںصدی، شمع، آجکل جیسے رسائل خوب خریدے اورپڑھے جاتے تھے، لیکن اب گزشتہ دہائیوں کے بہت سے مقبول ادبی رسائل میں سے زیادہ تر یا تو بند ہوچکے ہیں یا پھر اپنی آخری سانسیں گن رہے ہیں۔ ایسے حالات میں باقی ماندہ ادبی رسائل کے معیار پر گفتگو کرنا ہی بیکار ہے، کیونکہ معیار سے زیادہ اس وقت اہمیت اردو رسائل کے تحفظ اور بقا کی ہے کیونکہ ادبی صحافت جس تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہورہی ہے ،اسے دیکھ کرکبھی کبھی دل میں یہ ڈرائونا خیال آنے لگتا ہے کہ کہیں اگلی چند دہائیوں میںیہ دائرہ کہیں اور بھی نہ سکڑجائے۔ لہٰذا اس موقعے پر اردو والوں کو چاہیے کہ وہ اردواخبارات ورسائل کے قارئین کی تعداد کو لے کر فکر مند ہوں اور اخبارات وجرائد خریدنے اور پڑھنے کی مہم چلائیں۔ ساتھ ہی ادبی رسائل کی طرف بھی دھیان دیں تاکہ ادبی رسائل کی مدھم شمع روشن رہے۔ یہ کام اتنا مشکل بھی نہیں ہے ۔ اگر اردو زبان جاننے والے لوگ کم از کم ایک اخبار اور رسالہ خریدنے کا عزم کرلیں تو نہ صرف یہ کہ بہت سے اخبارات ورسائل بند ہونے سے بچ جائیں گے بلکہ مزید نئے رسائل وجرائد وجود میں آجائیں گے، اس طرح اردوکی اخباری اور ادبی صحافت کو زندگی مل جائے گی۔ اس لیے آج ہی ہم خود سے عہد کریں کہ اردو کا ایک اخبار اور ایک رسالہ اپنے گھر پر جاری کروائیں گے اورفوری طورپر اس پر عمل بھی شروع کریں گے۔ دیکھیے گا کہ کتنی جلدی اس کے بہترین نتائج ہمارے سامنے آتے ہیں۔

Prof. Shaikh Aquil Ahmad

author_name

author_bio

I am a heading

If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.

  • This is a list item.
  • This is a list item.
  • This is a list item.

No spam, ever.