July 14, 2023

مارچ 2020

مارچ 2020
اکیسویں صدی میں اردو ادب کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ بہت سے سوالات ہیں جن کے معروضی اور منطقی جوابات کی ضرورت ہے۔ یہ سوال بھی پیدا ہورہا ہے کہ اس عہد میں ادب کی سماجی معنویت کا دفاع کس طور پر کیا جائے اور اس کی افادیت کو بیان کرنے کے لیے کیا نقطۂ نظر اختیار کیا جائے کہ آج کا پورا معاشرہ افادی پہلوؤں پر زیادہ توجہ دے رہا ہے اور جو غیرمفید اشیا ہیں ان سے گریز کی ایک صورت سامنے آرہی ہے۔ اردو ادب کے ساتھ معاملہ یہ بھی ہے کہ ادب کے پرانے مسائل پر بھی کما حقہ گفتگو نہیں ہوپائی ہے۔ ادب میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان پر بھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا ہے۔ہم سب اپنی پسند ناپسند، اپنی نظر اور اپنے نظریے میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں اسی لیے ادب کے بنیادی مسائل سے ہماری توجہ ہٹتی جارہی ہے اور اس کی وجہ سے ادب کا ارتقائی سفر ایک نقطے پر ٹھہر سا گیا ہے۔ نئے عہدکے اپنے تقاضے و مطالبات بھی ہوتے ہیں اور ان مطالبات پر توجہ بھی بہت ضروری ہے ورنہ ہمارا ادب اپنے عہد سے ہم آہنگ نہیں ہوپائے گا اور اپنی معنویت اور افادیت کھو دے گا۔ جہاں ادب کے تعلق سے بہت سے چیلنجز ہیں، خاص طور پر آج کی کیبل، انٹرنیٹ کے زمانے میں، تو وہیں اردو صحافت کو بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ماضی میں اردو صحافت کی ایک زرّیں تاریخ رہی ہے اور اس ملک کی تعمیر و تشکیل میں اردو صحافت کا بہت سرگرم کردار رہا ہے۔ خاص طور پر برطانوی شکنجے سے ملک کو آزاد کرانے میں اردو صحافت کا جو رول ہے وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے اور اس صحافت کی قوت یہ تھی کہ اس سے ہندوستان کا ہر طبقہ جڑا ہوا تھا۔ خاص طور پر غیرمسلموں نے اردو صحافت کے ارتقا میں بہت سرگرم اور معنی خیز کردار ادا کیا ہے۔ یہ بات کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی کہ اردو صحافت کا آغاز ایک ایسے اخبار سے ہوا جس کے مالک اور مدیر غیرمسلم طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ کلکتہ کے ہفت روزہ ’جامِ جہاں نما‘ سے اردو صحافت کی شروعات ہوتی ہے جسے اردو کا پہلا اخبار سمجھا جاتا ہے۔ 27 مارچ 1822 سے اس کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ اس کے مالک ہری ہر دَت اور مدیر منشی سدا سکھ رائے تھے۔ یہاں یہ بھی یاد رکھا جانا چاہیے کہ 1823 سے 1900 تک تقریباً پچیس فیصد اردو اخبارات کے مالکان ہندو تھے اور پڑھنے والوں کی اکثریت بھی ہندوؤں پر مشتمل تھی۔ ان اخبارات نے جہاں برطانوی سامراج کے خلاف عوامی جذبات کو ابھارا، وہیں ہندو مسلم اتحاد کو فروغ دینے میں بھی ان اخبارات کا رول قابل ذکر رہا ہے اور ہمارے لیے فخر اور مسرت کی بات یہ ہے کہ اردو صحافت صرف ہندوستان تک محدود نہیں رہی بلکہ یہاں کی سرحدوں سے نکل کر دوسرے علاقوں میں بھی تحریک آزادی کے حامی اخبارات شائع ہوئے۔ امریکہ سے لالہ رام ناتھ پوری نے ’سرکلر آزادی‘ کے نام سے جنوری 1908 میں اردو کا پہلا اخبار جاری کیا تو وہیں جاپان سے ’اسلاک فریٹرنیٹی‘ کے نام سے مولوی برکت اللہ بھوپالی نے ایک رسالہ شائع کیا ۔ لندن سے بپن چندر پال نے ’سوراج‘ نام کا ایک سہ لسانی رسالہ شائع کیا اور کیلیفورنیا امریکہ سے لالہ ہردیال نے ہفت روزہ ’غدر‘1913 میں جاری کیا۔ اس طرح دیکھا جائے تو ملک کی آزادی میں اردو صحافت کا بہت فعال کردار رہا ہے اور اردو صحافت انیسویں صدی سے اکیسویں صدی تک اپنے تسلسل اور تواتر کو قائم رکھنے میں کامیاب بھی رہی ہے۔
آج اردو صحافت کو ادب کی طرح چیلنجز کا سامنا ہے لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ اردو صحافت جدید ترین تکنیکی وسائل کی وجہ سے تمام چیلنجزکا مقابلہ کررہی ہے اور معاصر قومی صحافت کے دو ش بہ دوش عوامی بیداری کا اہم کام انجام دے رہی ہے۔ اب اردو صحافت کے موضوعات کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ چنانچہ سائنس، قانون، انفوٹن مینٹ، معاشیات، سماجیات بھی اب اردو صحافت کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ پھر بھی یہاں اس حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ سرمایے کی کمی کی وجہ سے اردو اخبارات مالی مشکلات کا شکار ہیں اور انھیں اشتہارات نہ ملنے کی وجہ سے بھی بہت سی دقتوں کا سامنا ہے۔ اردو صحافت ہمارے جذبات و احساسات کی نہ صرف ترجمانی کرتی ہے بلکہ علاقائی، قومی اور عالمی موضوعات اور مسائل سے ہمیں آگاہ کرتی ہے۔ اس لیے اردو صحافت کو درپیش مسائل پر ہمیں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے!

Prof. Shaikh Aquil Ahmad

author_name

author_bio

I am a heading

If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.

  • This is a list item.
  • This is a list item.
  • This is a list item.

No spam, ever.