ستمبر 1986کی وہ شام آج بھی مجھے یاد ہے جب ایم-اے (اُردو) کی شبینہ کلاس کے لیے میں دہلی یونیورسٹی کی آرٹس فیکلٹی آیا تھا جہاں کلاس روم کے سامنے پارک میں ایک بزرگ استاد اپنے چند طالب علموں کے ساتھ محو گفتگو تھے۔ ان کا چہرہ گورا چٹا اور شگفتہ تھا۔ بال سفید تھے۔ ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ خاندانی شرافت اور پر وقار شخصیت میں دل کشی صاف نظر آرہی تھی۔ وہ بزرگ استاد کوئی اور نہیں داکٹر مغیث الدین فریدی تھے۔ جھجھکتے ہوئے میں اُن کے قریب پہنچا اور بتایا کہ میں عقیل احمد ہوں اور کچھ روزپہلے میرا داخلہ یہاں ہوا ہے لیکن آج پہلی بار شبینہ کلاس میں حاضر ہوا ہوں۔فریدی صاحب نے بڑی محبت سے مجھے بیٹھنے کے لیے کہا اور اپنی گفتگو جاری رکھی۔ کچھ ہی دیر میں کئی اور طلبہ وہاں آگئے۔ کلاس کا وقت بھی ہو گیا تھا۔ فریدی صاحب نے اپنی گھڑی دیکھی اور کلاس روم میں چلنے کے لیے کہا۔ وہاںموجود تمام طلبہ ان کے ہمراہ کلاس روم کی طرف چل پڑے۔ کئی سوالات اپنے ذہن میں لیے میںوہاں کھڑا ہواابھی سوچ ہی رہا تھا کہ استاد نے میری طرف اشارہ کرتے ہوے کہا کہ آئیے آپ بھی تشریف لائیے۔ میں فوراً ان لوگوں کے ساتھ کلاس روم میں داخل ہوااور ایک طرف بیٹھ گیا۔ فریدی صاحب نے مجھے کلاس کا وقت اورسلیبس لکھنے کے لیے کہا۔ پھر بعد میں انھوںنے میرؔ کی ایک غزل پڑھائی۔ایک ہی غزل پڑھانے میں وقت ختم ہو گیا—ہر شعر کی تشریح، اس کی شاعرانہ خوبی، شعر میں اگر کوئی ’’کلیدی‘‘ لفظ ہے تو وہ کون سا ہے۔دوسرے شعرا نے اسی مضمون کو اپنے کسی شعر میں اگر باندھا ہے تو کیسے۔ رنگ و آہنگ اوردل کشی کے اعتبار سے دونوں اشعار میں کیا فرق ہے اور ان اشعار کا تہذیبی اور تاریخی پس منظر کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام پہلوئوں پر فریدی صاحب ایسے روشنی ڈال رہے تھے جیسے ان اشعار کے خالق وناقد وہی ہوں—غزل کے موضوع پر جب وہ تقریر کرتے تھے تو ان کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو جاتی تھی چہرہ کھل جاتا تھا۔ ایک عجیب وغریب کیفیت طاری ہو جاتی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ ان کے ہونٹوں سے لیکچر نہیں پھول جھڑ رہے ہوں۔ کلاس میں سنّاٹا چھا جاتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ کلاس میں ان کے شاگرد نہیں بلکہ مجسمّے بیٹھے ہوئے ہوں— فریدی صاحب کے پڑھانے کا انداز اتناپیاراتھا کہ اکثر ان کے کلیگ چپکے سے ان کی کلاس میںجابیٹھتے تھے۔
فریدی صاحب کلاس ختم کرکے جب واپس جانے لگتے تھے تو ان کے تمام شاگرد بھی ان کے ساتھ ساتھ باہر گیٹ تک جاتے تھے۔ گیٹ سے فریدی صاحب کی رہائش گاہ بی-۱۳ ریڈس لائن کی دوری دو سو میٹر سے زیادہ نہیںتھی پھر بھی فریدی صاحب کو وہاں تک پیدل جانا گوارہ نہ تھا لہٰذا وہ ہمیشہ رکشے سے جایا کرتے تھے۔چونکہ میں اسی راستے سے انٹر نیشنل ہوسٹل جایا کرتا تھا اس لیے اکثر وہ مجھے بھی اپنے ساتھ بٹھا لیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی کلاس کے بعد وہ سیدھے کیمپ جایا کرتے تھے جہاں سے دوائیں اور پھل وغیرہ خریدا کرتے تھے۔ کیمپ جاتے وقت وہ مجھے ضرور ساتھ لے جاتے تھے تاکہ انہیں رکشا سے اترنا نہیں پڑے۔ ایک روز میں ان کے ساتھ کیمپ جا رہا تھا کہ راستے میں انہوں نے اپنے گھر کی طرف چھڑی سے اشارہ کرتے ہوے کہا کہ وہ ہے میرا گھر— گرائونڈ فلور پر — کل سے چھٹیاں ہو رہی ہیں۔ اگر تمہیں کچھ پوچھنا ہو تو چلے آنا لہٰذا ایک شام میں ان کے گھر گیا تو ان کے گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ ان کے بڑے بیٹے شاہد مغیث جن کی عمر ۲۹ یا ۳۰سال کی تھی، باہر برآمدے میں گیند کھیل رہے تھے۔فریدی صاحب ڈرائنگ روم میںبیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے مجھے اندر آتے ہوے دیکھ لیا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں گھنٹی بجاتا انہوں نے اندر سے آواز دی کہ عقیل آجائو میں اندر جاکر بیٹھ گیا فریدی صاحب مجھ سے کچھ پوچھنے لگے اتنے میں ان کے بیٹے شاہد جو باہر کھیل رہے تھے اندر آگئے اور اپنے مخصوص لب و لہجے میں کچھ پرانے واقعات و حادثات اور چند نئی خبروں کی جانکاری مجھے دینے لگے جس کوسمجھنے سے میںبالکل قاصر تھا لیکن فریدی صاحب ان کی باتوں کا ترجمہ کرتے رہے۔ انھوں نے بتایا کہ شاہد جب پانچ سال کے تھے تو ان کا دماغی Developmentرک گیاتھا۔ اس وقت سے آج تک ان سے چھوٹے بچوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ میں ان کے بیٹے کی معصوم ادائوں کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا۔ اور شاید بھائی کی وجہ سے اکثر ان کے گھر جانے لگا۔ رفتہ رفتہ میں ان کے گھر کا ایک فرد ہو گیا۔میرا بیشتر وقت ان کے گھرگذرتا۔ اس لیے فریدی صاحب کو میں نے ہر روپ میں دیکھا ہے اور ہر روپ میں میں نے انہیں ایک مثالی انسان پایا۔
فریدی صاحب ایک سچے، ایماندار اور مشفق استاد تھے۔ درس و تدریس ہی ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد تھا۔ اپنے شاگردوں کی کامیابی پر فخر محسوس کرتے تھے۔فریدی صاحب نے کبھی بھی اپنی کلاس نہیں چھوڑی اور اگر چھوڑی بھی تو غیر معمولی صورت حال پیدا ہونے کے بعد۔فریدی صاحب کے گھر سے آرٹس فیکلٹی کی دوری پانچ منٹ سے زیادہ کی نہیں تھی لیکن وہ کلاس شروع ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے اپنے گھر سے نکلتے تھے اور نکلنے سے دو گھنٹہ پہلے سے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کرتے تھے۔ انہیں کیا پڑھاناہے اور کیسے پڑھانا ہے اس کی تیاری پہلے سے کر کے جاتے تھے۔
فریدی صاحب اپنے استاد پروفیسر حامد حسن قادری اور پروفیسررشید احمد صدیقی سے بہت متاثر تھے اور ان سے بے حد محبت کرتے تھے اور اپنے انہیں اساتذہ کی طرح اپنے شاگردوں کو شاعری کے تمام رموزوعلائم سمجھاتے تھے۔
فریدی صاحب صبح سے شام تک اپنے شاگردوں اور دوستوں سے گھرے رہتے تھے۔ شبینہ کلاس کے طلبہ کے علاوہ صبح کے کلاس کے طلبہ بھی فریدی صاحب کے گھر جایا کرتے تھے اور فریدی صاحب انہیں گھنٹوں بیٹھا کر پڑھایا کرتے تھے۔ فریدی صاحب کو شاعری کے تمام اصناف پر قدرت حاصل تھی لیکن فریدی صاحب کا خاص موضوع عروض تھا لہٰذا عروض کافی دلچسپی سے پڑھایا کرتے تھے۔ اور شاگردوں سے مشق کرایا کرتے تھے۔ اپنے تمام شاگردوں میں ادبی ذوق پیدا کرنے کے لیے کو شاں رہتے تھے۔ ادبی اور شعری ذوق رکھنے والے اپنے شاگردوں اور دوستوں کے آنے سے بہت خوش ہوتے تھے بلکہ ان کی طبیعت بھی بہل جاتی تھی۔ ایسے دوستوں اور شاگردوںکو فارسی کلاسیکی شعرا، اُردو کلاسیکی شعرا اور جدید شعرا سے متعلق متعدد قصے، کہانیاں اور واقعات سنایا کرتے تھے۔ ایران کے تمام شہنشاہوں کے علاوہ ہندو ستان کے مغلیہ سلطنت کے دورِ حکومت میں شاعروں کی کیا اہمیت تھی، شاعر کس پائے کے ہوتے تھے، شاعروں کی سر پرستی شاہانِ وقت کس طرح کرتے تھے۔شاعروں نے بادشاہوں کی شان میں کس معیار کے قصیدے لکھے۔ درباروں میں قصیدے اور شاعری سنانے کے آداب کیا تھے۔ بادشاہوں نے ایک ایک شعر کے بدلے شاعروں کو کیسے کیسے انعامات و اکرامات سے نوازا اور کن کن شعراکو سونے چاندی اور ہیرے جواہرات میں تولا گیا۔ ان ادوار کی تہذیبی، ادبی اور شعری فضا کیا تھی۔ ان ادوار کی شاعری کے محر کات و عوامل کیا تھے۔ بادشاہوں، شہزادوں، شہزادیوں اور شاعروں کے مدرکات شعرو شاعری نیز ان کی زندگی میں ہونے والے کئی دلچسپ واقعات و حادثات اور ادبی لطیفوں کا ذکر ایسے کرتے تھے جیسے انہوں نے ان ادوار کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور ان تمام پہلوئوں کا مشاہدہ کیا ہے۔مجھے افسوس ہے کہ اُن کے اتنے قریب ہونے کے باوجود میں ان کی سنائی ہوئی وہ تمام تاریخی، تہذیبی، ادبی اور شعری حکایات نوٹ نہ کر سکا اور نہ ٹیپ کر سکا ورنہ اس موضوع پر ایک نادر و نایاب کتاب لکھی جا سکتی تھی۔بلا مبالغہ فریدی صاحب علم و ادب کی ایک انجمن اور مرکز تھے۔ ان کی شخصیت سے علم کی شعاعیں پھوٹتی تھیں جس سے کئی تاریک ذہنوں کو روشنی ملی۔ میں نے جب بھی ان سے علمی و ادبی گفتگو کی یا ان سے علمی باتیں سنی تو ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ اگر میں دن رات کتابیں پڑھتا رہوں تو بھی میری صلاحیت ان کے خاکِ پا کے برابر نہیں پہنچ سکتی۔ لہٰذا کبھی کبھی چھوٹے بچوں کی طرح میں سوچنے لگتا تھا کہ میرے پاس یا فریدی صاحب کے پاس کوئی غیبی طاقت ہوتی تو تھوڑی سی صلاحیت ان کے دماغ سے اپنے دماغ میں منتقل کرا لیتا اور اس طرح ان کا صحیح جاں نشیں اور شاگرد ہونے کا شرف حاصل کر لیتا۔
فریدی صاحب کو ایک والد کے روپ میں بھی بے حد قریب سے دیکھا ہے۔ فریدی صاحب کے صرف دو بیٹے ہیں۔ شاہد مغیث اور فیض الدین فریدی۔ فیض الدین فریدی ان کے چھوٹے بیٹے ہیں جو سعودی عرب میں ملازمت کرتے تھے اورمکّہ معظمہ و مدینہ منوًرہ میں ہمیشہ حاضری دیتے تھے۔ فریدی صاحب کو مکّہ معظمہ و مدینہ منوًرہ میں حاضر ہونے کا کبھی موقع نہیں ملا لیکن انہوں نے اپنے بیٹے کی آنکھوں سے مکّہ معظمہ اور مدینہ منوًرہ کی زیارت بار بار کی ہے۔ اپنے بیٹے کی زبان سے حضور اکرمﷺکے در بار تک اپنا سلام و پیا م پہنچایا ہے۔یہ شعر انُہوں نے اسِ موقع پر بے ساختہ کہا تھااور اکثر اسے رو رو کر پڑھا کرتے تھے۔ ؎
میں اپنی شومیٔ قسمت سے دور ہوں لیکن
بشکلِ فیض ہیں قلب و نظر مدینے میں
فریدی صاحب اور ان کے بیٹے کے درمیان مرا سلات کا وہ سلسلہ محض خیرو خبر اور سلام و کلام پر مبنی نہیں تھا۔ ان مرا سلات کو اگر آپ پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ حضور اکرام ؐ کے دربار اور فریدی صاحب کے درمیان کتنا گہرا تعلق تھا۔ اس لیے فیض فریدی کے خطوط پہلے آنکھوں سے لگاتے تھے پھر اسے بار بار پڑھتے تھے۔ اپنے شاگردوں اور دوستوں کو بھی سنایا کرتے تھے۔ پروفیسر خواجہ احمد فاروقی اور ڈاکٹر فرحت فاطمہ صاحبہ کو بھی خاص طور پر سنایا کرتے تھے۔خواجہ صاحب ان خطوط کی فوٹو اسٹیٹ کا پی اپنے فائل میں رکھتے تھے کیوںکہ ان خطوط میں مکّہ معظمہ، مدینہ منورہ، مسجد نبوی، خانۂ کعبہ اور دوسرے کئی مقدس مقامات کی تصویر کشی بے حد محبت، عقیدت اور جذبے سے لبریز ہوتی تھی ساتھ ہی ان کی ایک ادبی اہمیت بھی تھی۔ فریدی صاحب کو اپنے چھوٹے بیٹے فیض فریدی کی سعادت مندی، خدا اور خدا کے رسولؐ کے تئیں جذبۂ محبت پر فخر تھا۔ فیض فریدی سعود یہ سے جب دہلی تشریف لاتے اور ہوائی اڈّے پر جب دونوں باپ بیٹے ایک دوسرے سے گلے ملتے اور ایک دوسرے کو چشم عقیدت سے دیکھتے تو میری آنکھوں کے سامنے وہ منظر آجاتا جب حضرت یعقوب علیہ السلام برسوں کی جدائی کے بعد اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام سے ملے تھے اور بیٹے نے باپ کی تعظیم میں اور باپ نے پیغمبر بیٹے کی تعظیم میں ایک دوسرے کو سجدے کیے تھے اور ایک دوسرے کے گلے مل کر خوشی سے زارو قطار روئے تھے۔
فریدی صاحب ایک فرشتہ صفت انسان تھے۔ ان کے اندرخدااورخداکے رسول کے تئیں خودسپردگی کاجذبہ تھا اوریہی جذبہ صحیح معنوں میں عبادت ہے اور ایسے لوگ اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے جیتے ہیں۔ اپنے فرائض کوحکم خدا وندی سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔ فریدی صاحب نے بھی اپنے تمام فرائض کو حکم خدا وندی سمجھا اور بخوبی انجام دیا۔ جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں فریدی صاحب کے بڑے بیٹے شاہد میاں دماغی طور پر پانچ سال کے بچے تھے لیکن جسمانی طور پر ۳۶ یا ۳۷ سال سے بھی زیادہ عمر کے تندرست و توانا نوجوان لگتے تھے۔ ان کی تمام ادائیں، حرکات و سکنات معصوم بچوں کی طرح تھیں۔ لیکن کبھی کبھی نہ جانے وہ کن ذہنی یا جسمانی تکالیف سے دو چار ہوتے تھے کہ اچانک تخریبی حرکتیں کرنے لگتے تھے۔جوتے، چپلوں اور ڈنڈوں سے وار کرنے لگتے تھے اور ان کا نشانہ زیادہ تر فریدی صاحب ہی بنتے تھے جب کہ فریدی صاحب خود دل کے مریض تھے اور دو بار اس مرض کی زد میں آچکے تھے۔ مزید یہ کہ وہ بے حد نازک مزاج اور لطیف طبیعت کے انسان تھے۔ معمولی سے معمولی نا ساز گار حالات کو برداشت کرنا ان کے بس کی بات نہیں تھی پھر بھی انہوں نے شاید میاں کے تمام تخریبی حرکتوں کو نہ صرف برداشت کیا بلکہ اِن حرکتوںکو اُن کی معصوم ادا ئوں کاایک حصّہ سمجھا اور لطف اندوز ہوئے۔شاہد میاں کی ہر ادا انہیں بھاتی تھی یہی وجہ تھی کہ فریدی صاحب نے شاہد میاں کو کبھی بھی اپنے آپ سے جدا نہیں کیا۔ انہیں کسی ہوسپیٹل یا نرسنگ ہوم میں داخل نہیں کرایا۔ ہر وقت شاہد میاں۔ شاہد میاں کرتے رہتے تھے۔ کبھی شاہد میاں کو پیار کرتے اور کبھی شاہد میاں خود انہیں پیار کرتے۔ شاہد میاں کو کبھی پانی لانے کے لیے تو کبھی پان اور چھالیا لانے کو کہتے اور کبھی فیض میاں کو یا کبھی ان کی والدہ کو بلانے کے لیے کہتے اور اس طرح شاہد میاں ایک فرما ںبردار بچّے کی طرح فریدی صاحب کی خدمت میں مشغول نظر آتے۔ فریدی صاحب جب کبھی شاہد میاں کو کھِلونے یا گیند یا ٹوفی لاکر دیتے تو شاہد میاں خوشی سے اُچھل جاتے تھے اور ان کی آنکھوں میں خوشی کی چمک دیکھ کر فریدی صاحب کی آنکھیں خوشی سے بھر جاتی تھیں۔ شاہد میاں کی چھوٹی چھوٹی آرزئوں کی تکمیل کرنا، ان کی خدمت کرنا، ان کی داڑھی بنانا، ان کا منھ دھلانا، انہیں نہلانا، ان کو کپڑے پہنانا اور ان کا خیال رکھنا ہی فریدی صاحب نے اپنی زندگی کا مقصد جانا فریدی صاحب کے یہ تمام اعمال عبادت ہی تو ہیں۔ اس سے بڑی عبادت اور کیا ہو سکتی ہے؟
فریدی صاحب کی بیگم صاحبہ مشرف جہاں فریدی ممتا کا مجسّمہ ہیں۔ ان کی تمام زندگی شاہد میاں کی زندگی کے ساتھ سمٹ کر رہ گئی ہے انہوں نے اپنی تمام خوشیوں اور آرزئوں کا گلا گھونٹ کر اپنے آپ کو شاہد میاں کے لیے وقف کر دیا ہے۔ شاہد میاں کے ماضی کی چند ہیبت ناک یادیں اور مستقبل کے تصورات کسی ’’بری بلا‘‘ سے کم نہیں ہیں۔ ایسی کئی ’’بری بلائوں‘‘کے تصورات نے انہیں جیتے جی مار ڈالا ہے۔ نیز انہوں نے فریدی صاحب کی شاعری اور وضع داری کی ناز برداری بھی کی۔ فریدی صاحب کو اپنی شریک حیات کی قربانیوں کا احساس تھا اور وہ تمام عمر ان کی رفاقت پر نازاں اور ان کی عالی ظرفی اور تحمل کے ممنون رہے۔ فریدی صاحب نے ہمیشہ ان کی دل جوئی کی اور خوش رکھنے کی کوشش کی۔ فریدی صاحب کو اپنی شریکِ حیات کی پکائی ہوئی دال، قورمہ، شامی کباب، نرگسی کوفتے، بریانی، اور لہسن مرچ کی چٹنی کے علاوہ کوئی بھی میٹھی چیز بے حد پسند تھی۔ مزے لے لے کر کھاتے اور تعریف کرتے۔ کھانا کھانے کے دوران طرح طرح کے پکوانوں اور پھلوں کا بھی ذکر کرتے جسے انہوں نے اپنے بچپن میں کھایا تھا۔ ان کی والدہ، ان کی پھوپھیاں، ان کی بہنیں اور ان کی ساس اور ان کی شریک حیات کی بڑی بہنیں کیا کیا ڈشیں بنایا کرتی تھیں اور ان خاص خاص ڈشوں کی ترکیبیں اور خوبیاں کیا تھیں۔ مغل شہنشاہ، شہزادے شہزادیاں اور لکھنؤ کے نوابین کے دستر خوان پر کس کس طرح کے کھانے چنے جاتے تھے۔ کھانے پینے کے ایسے لوازمات کی منظر کشی دبستان لکھنؤ اور دہلی کی نمائندہ داستانوں میں کی گئی ہے۔ اس طرح کی تمام باتیں فریدی صاحب کھانے کے دوران کرتے تھے اور اِن کے ساتھ بیٹھے ہوے گھر کے تمام فرد بڑی دلچسپی سے سنتے رہتے تھے ۔
فریدی صاحب اپنے ننھّے پوتے عظیم محمد فریدی اور پوتی منیبہ فریدی سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ ان دونوں بچوں کے ساتھ خود بھی بچہ بن جاتے تھے اور انہیں بچوں کے لب و لہجہ میںگفتگو بھی کرتے تھے۔ اُن بچوں کے مخصوص لب ولہجہ اور زبان میں نظمیں بھی لکھا کرتے تھے اور اپنے گھر آنے جانے والوں کو سنایا کرتے اور خود بھی بار بار پڑھ کرخوش ہوتے۔ کانپور میں ادبی اورشعری سرگرمیاں نہیں کے برابر تھیں۔ شاگردوں اور دوستوں کا حلقہ بھی نہیں تھا ایسے میں یہ دونوں بچے ہی ان کے جینے کا سہارا تھے۔ایک ہاتھ میں چھڑی اور دوسرے ہاتھ سے بچوں کو سنبھالے ہوئے گُپتا کی دکان پر چلے جاتے تھے اور بچوں کو کبھی کھلونے تو کبھی ٹوفیاں دلاتے کبھی کبھی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوے اُن کی بہو صبا فریدی بھی گھر کے سودوں کی ایک طویل فہرست انہیں تھما دیا کرتیں اور فریدی صاحب خوشی خوشی سودے بھی لا دیا کرتے۔ فریدی صاحب کے دونوں بیٹے انہیں انکل کہہ کر پکارتے تھے لیکن ان کی بہو اور دونوں بچے انہیں اباّ کہا کرتے تھے اور فریدی صاحب کو اباّکہلوانا اچھا لگتا تھا۔
فریدی صاحب اپنے چھوٹے بھائی معین فریدی جو نواب میاں کے نام سے مشہور تھے اور آگرہ کے ایک اسکول میں استاد تھے،سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ ہر وقت نواب میاں نواب میاں کرتے ہر پریشانی اور الجھن کے موقع پر انہیں طلب کرتے اور وہ بھی فوراً آگرہ سے دہلی آجاتے۔ دونوں بھائیوں میں جو محبت تھی ایسی محبت میں نے صرف ٹی وی سیریل ’’رامائن‘‘ میں دیکھی ہے۔ معین فریدی گال بلاڈر کے مرض میں مبتلا ہوے۔ فوراً آپریشن کہا گیا لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا اور آخر میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اس سانحہ کے بعد فریدی صاحب ٹوٹ گئے تھے۔ اس سانحہ کو یاد کرکے ان کی نیند اُڑ جاتی تھی اور بھائی کی جدائی کا صدمہ برداشت نہیں کر پاتے تھے۔
فریدی صاحب اپنے تمام شاگردوں، دوستوں اور عزیزوں سے محبت کرتے تھے لیکن اپنے شاگردوں اور شاگردائوںمیں سب سے زیادہ محبت شکیلہ بیگم سے کرتے تھے۔ شکیلہ بیگم مولانا واصف دہلوی مرحوم کی صا حب زادی اور مفتی کفایت اللہ، جن کا ذکر پنڈت جواہر لال نہرو نے Discovery of Indiaمیں کیا ہے، کی پوتی ہیں ۔ فریدی صاحب کے چونکہ کوئی بیٹی نہیں تھی لہٰذا وہ انہیں اپنی بیٹی کی طرح مانتے تھے۔
فریدی صاحب اپنے دوستوں میں سب سے زیادہ پروفیسر خواجہ احمد فاروقی سے محبت کرتے تھے۔ ان کے بعد ڈاکٹر شریف احمد، پروفیسر ظہیر احمد صدیقی، ڈاکٹر تنویر احمد علوی، پروفیسر امیر عارفی، حیات جاوید صاحب، پروفیسر جی سی گوئل اور ڈاکٹر فہیم خاص ہیں۔ فریدی صاحب پروفیسر خواجہ احمد فاروقی کی دونوں بیٹیوں ڈاکٹر فرحت فاطمہ اور نزہت فہیم سے بھی بے پناہ محبت کرتے تھے۔ فریدی صاحب، استاد محترم ڈاکٹرشریف احمد اور ڈاکٹرتنویر احمد علوی صاحب کی علمی صلاحیتوں کے معترف تھے اور انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ شعبۂ اردو کی عزت و وقار بڑھانے میں پروفیسر خواجہ احمد فاروقی کے جو کارنامے ہیں ان کا ذکر فریدی صاحب ہمیشہ کرتے تھے۔ فاروقی صاحب کی نفاست پسندی، عمدہ کاغذ اور قلم کا استعمال، ہمیشہ سوٹِڈبوٹڈ رہنا فریدی صاحب کو بہت پسند تھا۔ فریدی صاحب کہا کرتے تھے کہ آتش شاعری میں اور فاروقی صاحب نثر میں مرصع سازی کے قائل تھے۔
فریدی صاحب اپنے اساتذہ حضرات کا ذکر خیربے حد احترام و عقیدت اور محبت سے کرتے تھے۔ ان میں ایک اہم نام حضرت نظام فتح پوری کا ہے جنہوں نے فریدی صاحب کی ابتدائی شاعری کی اصلاح فرمائی۔ فریدی صاحب آٹھویں کلاس کے طالب علم تھے تو اس وقت انہوںنے چند اشعار ’’سلام‘‘ کے کہے تھے جن کی اصلاح حضرت نظام فتح پوری نے کی تھی۔ ان اشعار کو دیکھ کر حضرتِ نظام فتح پوری نے پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ فریدی صاحب کے اندر بے شمار تخلیقی امکانات چھپے ہوے ہیں۔ انگریزی کے کسی تخلیق کار نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ
Military genius of Napolian and contemplative tendency of Lord Buddha were already manifested in their boyish pranks, sports and games. Milton in his Lost Paradise and Regain Paradise has said that child is the father of the man as morning shows the day.”
بہرحال نظامی صاحب نے فریدی صاحب کی ہمت افزائی کی، ان کے سینے میں شعر و ادب کی جو چنگاری دبی ہوئی تھی اسے ہوا دی، ان کے اندر تخلیقی شعور بیدار کیا۔ فریدی صاحب نے بھی شعرو ادب کے جوہر کو بروئے کار لانے کی مسلسل کوشش کی اور پیچھے مڑ کر کبھی نہیں دیکھا۔ شاید علاّمہ اقبالؔ نے فارسی کا یہ شعر فریدی صاحب کے لیے کہا تھا کہ
زشرر ستارہ جوئم زستارہ آفتابے
سرِ منزلے ندارم کہ بمیرم از قرارے
حضرتِ نظام فتح پوری کے علاوہ فریدی صاحب اپنے ہائی اسکول کے استاد مولوی سید حامد علی کا بھی ذکر کرتے تھے جنہوںنے اردو اور فارسی کی غزلیں انہیں پڑھائیں اور ان کی ابتدائی غزلوں کی نوک پلک درست کی۔
آگرہ کالج کے اساتذہ حضرات میں محمد طاہر فاروقی کا ذکر فریدی صاحب ہمیشہ کیا کرتے تھے۔ محمد طاہر فاروقی، فریدی صاحب کے مشفق، مہربان اور ہمدرد استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے سر پر ست بھی تھے۔ فریدی صاحب کو انہوں نے تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت بھی دی۔ فریدی صاحب تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی اہمیت پر بھی زور دیتے تھے۔ فریدی صاحب کہا کرتے تھے کہ پرانی قدریں ختم ہوتی جا رہی ہیں اسکول اور کالجوں کے ماحول مجروح ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ آج کل کے طالب علم تعلیم تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن تربیت حاصل نہیں کر پاتے میرے زمانۂ طالب علمی میں طلبہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی حاصل کرتے تھے لیکن اب صورتِ حال یہ ہے کہ’’وہ اثر کہن نہ تری حکایتِ سوز میں نہ مری حدیثِ گداز میںہے۔‘‘
فریدی صاحب کو آگرہ شہر، آگرے کا تاج محل اور آگرے کے تمام شعرا کرام بے حد پسند تھے۔ اپنے طالب علمی کے زمانے کے ادبی اور شعری سر گرمیوں کا ذکروہ بار بار کیاکرتے تھے۔ وہاں کی شعری محفلوں کو رونق بخشنے والے مقامی شعرأ میں سیماب اکبر آبادی، اخضر اکبر آبادی، میکش اکبرآبادی، اعجاز صدیقی، رعنا اکبر آبادی اور صبا اکبر آبادی—باہر کے شعرا میں فراق گورکھ پوری ،جوش ملیح آبادی، جگر مراد آبادی، قمر بدایونی،حفیظ جالندھری، ساغر نظامی، روش صدیقی، مجاز لکھنوی، جاں نثار اختر نشور واحدی، معین احسن جذبی، راز مراد آبادی اور شکیل بدایونی وغیرہ خاص تھے جن کا ذکر کرتے ہوے فریدی صاحب فخر محسوس کرتے تھے ان شعرأ کرام سے وابستہ بے شمار یادیں، قصے، کہانیاں اور ان کی نجی زندگی کے حالات فریدی صاحب کی یاداشت میں محفوظ تھے جن کا ذکر وہ اکثر کیا کرتے تھے۔
علی گڑھ یونیورسیٹی سے فریدی صاحب کا گہرا تعلق رہا ہے۔ انہوں نے وہیں سے اعلٰی تعلیم حاصل کی تھی۔ علی گڑھ کے شعبۂ اردو کے اساتذہ حضرات پروفیسر رشید احمد صدیقی، مسعود حسن خاں، ڈاکٹر عزیز، سید ظہیر الدین علوی کے علاوہ دوسرے شعبہ کے اساتذہ حضرات ڈاکٹر ہادی حسن، مولانا ضیاء احمد بدایونی، محمد حبیب، خواجہ منظور حسین، بابر مرزا اور مولانا عبدالعزیز میمن وغیرہ کا ذکروہ ہمیشہ کرتے رہتے تھے۔ ان اساتذہ حضرات کی صحبت سے استفادہ کرنے کا انہیں فخر تھا۔ان اساتذہ حضرات میں سب سے زیادہ پروفیسر رشید احمد صدیقی سے متاثر ہوئے تھے اور مستفید بھی۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی سے ان کی پہلی ملاقات کب اور کن حالات میں ہوئی تھی، پروفیسر رشید احمد صدیقی سے ان کی قربت کی انتہا کیا تھی، رشید صاحب اور ان کے تعلقات کو دیکھ کردوسرے حضرات کیسے رشک کرتے تھے۔ رشک کرنے والے حضرات میں پروفیسر ظہیر احمد صدیقی بھی تھے۔تبھی سے پروفیسر ظہیر احمد صدیقی فریدی صاحب کو اپنا بڑا بھائی ماننے لگے تھے۔ دہلی میں بھی یہ رشتہ آخر آخر تک برقرار رہا۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی کی پوری شخصیت، ان کی اہمیت،نثر نگاری اور تنقید نگاری کے علاوہ لکچرس میں جملوں کی حسنِ ادائیگی اور ان کے ایک ایک جملے کی ادبی اہمیت پر گھنٹوں گفتگو کرتے تھے۔ فریدی صاحب کہا کرتے تھے کہ رشید صاحب کا ہر جملہ تشریح طلب ہوتا ہے۔ان کے ہر جملوںکو رُک رُک کر اور سمجھ سمجھ کر پڑھنے سے لطف آتا ہے۔ کسی بھی موضوع یا مدعا کی وضاحت زیادہ سے زیادہ لفظوں کے سہارے کرنا آسان کام ہے لیکن کم لفظوں میں اس کی وضاحت کرنا بہت مشکل کام ہے۔ یہ آرٹ بھی ہے اور اس آرٹ کا بہترین نمونہ رشید صاحب کے مضامین ہیں۔ فریدی صاحب کہا کرتے تھے کہ رشید احمد صدیقی کی کتاب ’’غالب کی شخصیت اور شاعری‘‘ کے بعض جملے چھوٹے چھوٹے مضامین کے برابر ہیں۔ رشید صاحب کے مزاج میں طنزو مزاح کا جولطیف حسن ہے اس کا جواب نہیں۔ نیز رشید احمد صدیقی کی طبیعت میں موجود طنزو مزاح کے جو ہر کا بر محل استعمال اور سا معین کے ردِّ عمل وغیرہ سے متعلق بے شمار قصّے اور لطیفے فریدی صاحب سنایا کرتے تھے۔ رشید احمد صدیقی کے وسیلے سے فریدی صاحب کا تعلق سابق صدر جمہور یہ ڈاکٹر ذاکر حسین سے بھی تھا۔ رشید صاحب ذاکر صاحب کے قریبی دوستوں میں سے تھے اور دونوں ایک دوسرے سے بے حد محبت کرتے تھے۔ رشیدصاحب کا راشٹر پتی بھون میں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ فریدی صاحب کبھی رشید صاحب کے ہمراہ، کبھی ان کا خط اور پیغام لے کر راشٹر پتی بھون جایا کرتے تھے اور کبھی کبھی وہاں سے انہیںطلب بھی کیا جاتا تھا۔ فریدی صاحب ان تمام واقعات کا ذکر وقتاً فوقتاً کیا کرتے تھے حالاں کہ اس طرح کے تعلقات کو مشتہر کرنا ان کا مزاج نہیں تھا۔ سابق صدر جمہور یہ ڈاکٹر ذاکر حسین کے عادات و اطوار، ان کے پسند و ناپسند کا بھی فریدی صاحب نے مشاہدہ کیا تھا نیز ہندو ستان کے طرز تعلیم کے تئیں ذاکر صاحب کا نظر یہ کیا تھا، معاشرے میں وہ کس طرح کی تبدیلی چاہتے تھے ان پہلوئوںپر فریدی صاحب ہمیشہ باتیں کرتے تھے۔ اس کے علاوہ راشٹر پتی بھون کے کمرے، ہال، اندرونی ڈیکوریشن اور صدرہائوس کے اطراف کے باغات، خاص طورپرمغل گارڈن اور مغل گارڈن میں موجود گلاب کے پھولوں کے اقسام اور پھر ذاکر صاحب نے ان پھولوں کے پودوں کو کن کن ملکوں سے منگوایا تھا۔ اُن پھولوں اوردیسی گلاب کے پھولوں میں رنگ، خوشبو اور سائز میں کیا فرق ہے۔ مغل گارڈن کی تاریخ نیز ہندو ستان کے ان تمام باغوں پر تبصرہ کرتے تھے جنہیں مغلوں نے تفریح گاہ کے طور پر بنایا تھا۔اور ان باغوں کا Concept ایران سے حاصل کیا تھا۔فریدی صاحب کی ان تمام باتوں کو سن کر ایسا لگتا تھا کہ ان کے حالات اگر سازگار ہوتے اوروہ ان تمام باتوں کو لکھ ڈالتے تو یقینا وہ اپنے دور کے مولانا ابو الکلام آزاد ہوتے اور ان کی نثرغبارِ خاطر کی طرح مشہورہوتی۔
فریدی صاحب کے علمی و ادبی سفر میں کلائی مِکس کا دور وہ تھا جب وہ علی گڈھ میں زیر تعلیم تھے اور وہاں کی تمام ادبی وشعری سرگرمیوں میں نہ صرف شریک ہوتے بلکہ اس سے مستفید اور محظوظ بھی ہو تے ۔ فریدی صاحب کہا کرتے تھے کہ وہ دور ان کی زندگی کاسنہرہ دور تھا ۔ علی گڈھ یونیورسٹی کی تہذیب، وہاں کی پروردہ عظیم شخصیتیں، علی گڈھ سے وابستہ ہزاروں قصّے کہا نیاں، واقعات و حادثات اور لطیفے مزے لے لے کر سنایا کرتے تھے۔ سر سید احمد خان سے انہیں جذباتی لگائو تھا۔ سر سید احمد خان کے کارناموں، مسلم قوم کے تئیں ان کا خلوص، مسلمانوں کے علمی، معاشی اور سماجی حالات بہتر بنانے کا جذبہ وغیرہ موضوعات پر گفتگو کرتے وقت وہ جذباتی ہو جاتے تھے اور بعض دفعہ رونے لگتے تھے۔
فریدی صاحب کو اپنا بچپن بہت پیارا لگتا تھا۔ وہ اپنے بچپن کے زمانے کو ہمیشہ یاد کرتے تھے۔ اگر ان کا بس چلتا تو ایک بار اُسی زمانے میں واپس چلے جاتے۔ ان کے والد محترم ملازمت کے دوران ماٹ تحصیل میں رجسٹرارتھے اور وہیں رہتے تھے ۔ آلودگی سے پاک فضااور گائوں کا ماحول انہیں اچھا لگتا تھا۔ گائوں میں مٹّی سے بنے گھر، مٹّی کی صراحی اور مٹکے کا ٹھنڈا اور میٹھا پانی، مٹی کے برتنوں میں جمے ہوے دہی، اور مٹی کے کُلّھڑ میں گرم گرم دودھ کے ذائقے کا ذکر وہ ایسے کرتے تھے کہ سننے والوں کو غالبؔ کا وہ مصرعہ یاد آنے لگتا تھا کہ
جامِ جم سے یہ مرا جامِ سفال اچھا ہے
گائوں کی کھُلی ہوئی فضا میں طلوع آفتاب و غروبِ آفتاب کے مناظر اور شام میں پیپل کے درختوں پر چڑیوں کا چہچہانااور رات میں جگنوؤں کی چمچماہٹ جس کا ذکر وہ اکثر کرتے تھے۔ ملیح آباد کے آموں، الہ آباد کے امرو دوں اور ماٹ کے خربوزوں کی تعریف ایسے کرتے تھے جیسے یہ دنیا وی نہیں بلکہ بہشتی پھل ہوں۔ ماٹ کے علاقے کے خربوزوں کی خصوصیت بیان کرتے نہیں تھکتے تھے خاص طورپرماٹ کے ان خربوزوں کا ذکر تو وہ اکثر کرتے تھے جنہیں جمنا کے کنارے ریت میں دبادیا جاتا تھا جس سے وہ خربوزے ٹھنڈے ہو جاتے تھے اور ان کی مٹھاس بھی بڑھ جاتی تھی۔ گائوں کی تازہ ترین مختلف قسم کی سبزیاں جنہیں یوریا کے بجائے گوبر کی کھاد سے اُگایا جاتا تھا ان کا ذائقہ شہر کی سبزیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر ہوتا تھا۔ کھیتوں میں دور دور تک ہرے بھرے لہلہاتے ہوے پودے جن پر نظر دوڑائیے تو آنکھوں میں ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے۔ کھیت کھلیانوں میں غلّوں کے ڈھیر جس میں کوئی ملاوٹ نہیں وغیرہ نہ جانے کتنی ہی چیزوں کا ذکر فریدی صاحب کیا کرتے تھے۔
فریدی صاحب کے ساتھ آگرہ، علی گڈھ، کانپور اور لکھنؤ کے علاوہ حیدرآباد وغیرہ شہروں کا میں نے سفر کیا ہے۔ فریدی صاحب سفر کی صعو بتوں سے بہت گھبراتے تھے۔ وقت سے ایک گھنٹہ پہلے ریلوے اسٹیشن پہنچ جایا کرتے تھے۔ وہاں پوری طرح سستاتے تھے اور وہاں کی گھٹیا چائے بھی مزے لے لے کر پیتے تھے اور اپنے ساتھ موجود دوسرے لوگوں کو بھی پلایا کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ اسٹیشن پر چائے پینے کی عادت انہیں علی گڑھ میں پڑی تھی۔ علی گڑھ یونیورسیٹی کے اساتذہ جب باہر جاتے تھے تو انہیں الوداع کہنے ان کے شاگر بھی جایا کرتے جنہیں اسٹیشن پر چائے پلانا لازمی تھا کیوں کہ وہاں کی یہ روایت تھی۔ فریدی صاحب پہلے درجہ اور ایرکنڈیشن ڈبّوں میں ہی سفر کرتے تھے۔ سفر کے دوران اپنے ہمدردانہ و مخلصانہ سلوک اور لچھے دار گفتگو سے اپنے ہم سفروں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے تمام مسافر وں سے دوستوں اور شاگردوں کی طرح پیش آنے لگتے۔ ان میں سے بعضوں کو تو دہلی آنے کی دعوت بھی دے ڈالتے تھے۔ فریدی صاحب کے ساتھ میرا سب سے یاد گار سفر حیدر آباد کا تھا۔جہاں ہم لوگ عارفی صاحب کی بڑی صاحب زادی کی شادی میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ 1987میں غالباً جولائی کا مہینہ تھا۔ بے انتہا بارش ہو رہی تھی ملک کے مختلف علاقوں میں ریلوے لائنیں بھی متاثر ہوئی تھیں لہٰذا کئی ریل گاڑیاں یا تو رد کر دی گئی تھیں یا ان کے راستے تبدیل کر دیے گیے تھے۔ پروفیسر امیر عارفی صاحب ویسے بھی فریدی صاحب کے عزیزدوستوں میں شامل تھے اور فریدی صاحب نے شادی میں شریک ہونے کا وعدہ کر لیا تھا۔ لہٰذا تمام ناساز گار حالات کے باوجودہم لوگ حیدرآباد کے سفر پر نکل پڑے۔ جس ٹرین سے ہم لوگ حیدررآباد جا رہے تھے راستے میں معلوم ہوا کہ اس ٹرین کا بھی راستہ بدل دیا گیا ہے۔ لہٰذا راستے میں کسی اسٹیشن پر رات بھر حیدرآباد جانے والے مسافروں کو ٹھہرنا پڑا۔ دوسرے دن جب کوئی دوسری ٹرین وہاں آئی تو مسافروں کو راحت ملی۔ مجھے ڈر تھا کہ فریدی صاحب کی کہیں طبیعت نہ خراب ہو جائے لیکن ان کے چہرے پر وہی بشاشت تھی اوروہ اس ہنگامی حالات میں بھی غزل کے اشعار کی تخلیق میں محو تھے۔ بہر حال کسی طرح دوسرے دن صبح ہم لوگ حیدر آباد پہنچے اور شروع کے دو دن شادی کی گہما گہمی اور مختلف رسوم کی ادائیگی کا نظارہ کرتے رہے لیکن تیسرے دن راج بہادر گوڑ صاحب کی کسی رشتہ دار خاتون کی رہنمائی میں تاریخی شہر حیدر آباد کی سیر کرنے کے لیے نکلے۔ چار مینار، قلعہ اور خاص طور پر وہ پل جسے قلی قطب شاہ کے والد نے اپنے بیٹے اور ولی عہد سلطنت قلی قطب شاہ کے لیے بنوایا تھا۔ جس سے گزر کر قلی قطب شاہ اپنی محبوبہ بھاگمتی سے ملنے جایا کرتا ورنہ اس پل کے بننے سے پہلے پانی سے بھرے ہوئے دریا میں قلی قطب شاہ اپنے گھوڑے دوڑا دیتا تھا۔ فریدی صاحب نے وہاں کی پرانی عمارتوں اور سالار جنگ میوزیم وغیرہ کو نہ صرف دیکھا بلکہ ان ادوار کی پوری تاریخ بھی بتائی۔ سالار جنگ میوزیم کو دیکھ بہت متاثر ہوئے۔ کہنے لگے کہ حیدرآباد کا دوبارہ سفر کرنا پڑے گا کیوںکہ اس میوزیم کو ایک یا دو دِنوں میں دیکھنا ممکن نہیں ہے۔ اسے دیکھنے کے لیے کم سے کم ایک ہفتہ چاہیے لیکن وقت اور حالات نے انہیں وہاں دوبارہ جانے کا موقع نہیں دیا۔ فریدی صاحب کا تعلق صوفیاے کرام سے تھا حضرت سلیم چشتیؒ ان کے جدتھے اور ان کے وسیلے سے ان کا رشتہ با با فرید گنج شکرؒ تک پہنچتاہے۔ یہ والد کا شجرہ ہے اور والدہ کی طرف سے فریدی صاحب مولانا احمد حسن صاحب محدث کانپوری، جو اپنے زمانے کے جید عالم اور محدث تھے، فریدی صاحب کے حقیقی نانا تھے جن کی شہرت ہندوستان سے سر زمینِ عرب تک تھی بڑے بڑے بزرگانِ دین اور علماء حضرات ان کے سامنے دست بستہ کھڑے رہتے تھے۔ فریدی صاحب اگر چاہتے توفتح پو ر سیکری میں واقع حضرت سلیم چشتی ؒکے جانشین بن سکتے تھے اور پیری مر یدی کا سلسلہ بہ طرزِ ا حسن قائم کر سکتے تھے۔ لیکن فریدی صاحب کی ذہنی پرورش ہی اس ڈھنگ سے ہوئی تھی کہ وہ کبھی بھی اپنے شجرے کی تشہیر کر کے لوگوں پر رعب نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ بار بار میں خود ان کے ساتھ محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیا اور خواجہ بختیار کاکی ؒکے درگاہوں پر حاضر ہوا ہوں اور وہاں دور دور سے آنے والے لوگوں کو جب یہ معلوم ہوتا تھا کہ فریدی صاحب کا تعلق بابا فرید گنج شکرؒ اور شیخ سلیم چشتی ؒکے خاندان سے ہے تو لوگ فرطِ عقیدت میں ان کے ہاتھ چومنا چاہتے اور نذر انے پیش کرنا چاہتے جسے فریدی صاحب بہت محبت سے ٹال دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ مکھرجی نگر سے چند مذہبی سردار ان کے گھر تشریف لائے اور ان سے گزارش کی کہ وہ مکھرجی نگر کے گرو دوارے میں بابا فرید کی تعلیمات پر ایک لیکچر دیں واضح رہے کہ بابا فرید کی تعلیمات کا ذکر گرو گرنتھ صاحب میں جگہ جگہ کیا گیا ہے۔ فریدی صاحب گرو دوارے میں جانے کے حق میں نہ تھے لیکن یہ سوچ کر وہاں چلے گئے کہ کسی کا دل توڑنا مناسب نہںہے اور خاص کر جہاں مذہبی عقیدت کا سوال ہو۔ گرودوارے میں پہنچ کر انھوںنے جو عالمانہ تقریر کی اس نے ایک سماں باندھ دیا۔ لوگ فرطِ عقیدت سے انھیں نذرانے دینے لگے جسے انہوں نے اسی وقت گوردوارہ کو دے دیا اور وہ شالیں جو انہیں وہاں دی گئی تھیں دروازے پر کھڑے غریبوں کو پیش کر دیں۔ اس واقعے سے فریدی صاحب کی ذہنیت اور تربیت کا اندازہ ہوتا ہے۔فریدی صاحب صوفیانہ عقائد اور تعلیمات کے متعلق اکثر اپنے خیالات کااظہار کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ اسلام کو پھیلانے میں انہیں صوفیائے کرام کا سب سے زیادہ ہاتھ ہے لیکن آج کل خانقا ہوں کا ماحول خراب ہو چکا ہے۔ صوفیائے کرام کے نام کو بیچ کر پیسے کمائے جا رہے ہیں اور عقیدت مندوں کا استحصال کیا جا رہا ہے جس سے ایک عام انسان اسلام سے دور ہوتا جا رہا ہے۔
فریدی صاحب ۱۹۹۱ء میں دہلی یونیورسیٹی کے شعبۂ اُردو کی ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد ۱۹۹۲ء میں کانپور چلے گیے۔ ان کے کانپور جانے سے پہلے میرا زیادہ تر وقت ان کے گھر پر ان کے ساتھ گزرتا تھا۔ رفتہ رفتہ میرے اور ان کے تعلقات استاد اور شاگرد کے دائرے کو توڑ کر باپ اور بیٹے کے مانند ہو گئے تھے لہٰذا ان کے یہاں سے چلے جانے کے بعد بھی میں ذہنی طور پر ان سے کبھی جدا نہیں ہوا۔خط و کتابت اور فون کے ذریعہ ہمیشہ رابطہ قائم رہا۔ مختلف مسائل اور موضوعات پر ان سے تبادلۂ خیال ہوتا رہا۔ موقع مِلتے ہی میں ان کی خدمت میںحاضر ہو جاتا تھا۔ ۱۹۹۳ء میں دل کا دورا پڑنے سے میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا۔فریدی صاحب اس سانحے سے بے حد متاثر ہوئے۔ انہوںنے اقبال کی نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کے ایک مصرع سے میری والدہ مرحومہ کی تاریخ وفات نکالی۔
درد بن کر ’’نور‘‘ چھلکا مصرع تاریخ سے
۲۵۶
’’یادسے تیری دِل درد آشنا معمور ہے‘‘
۲۵۶-۱۶۷۰=۱۴۱۴ ہجری
فریدی صاحب نے اس وقت مجھے خط لکھ کر کانپور بلایا اور میں ان کے ساتھ لگاتا ر دو مہینے تک رہا۔ فریدی صاحب سے میری آخری ملاقات اپریل 2001میں ہوئی تھی۔ اس وقت وہ کافی کمزور ہو گیے تھے۔ چلنے پھرنے سے بھی معذور ہو گیے تھے لیکن دماغی اور ذہنی طور پر بالکل ٹھیک تھے۔ انہوں نے میرتقی میر کے ایک ہم عصر مگر گم نام شاعر محمد امان نثار کے دیوان کی تدوین کا کام میرے ذمہ کیا اور اس موضوع پر کام کرنے کے سلسلے میں ایک پلان بنا کر مجھے دیا۔ساتھ ہی انہوں نے محمد امان نثار کے دیوان کے سلسلہ میں ایک تعارفی مضمون لکھ کر دیا جس کے آخر میں انہوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ محمد امان نثار کے دیوان کی تدوین کا کام میرے شاگرد ڈاکٹر شیخ عقیل احمد کر رہے ہیں جو جلد ہی منظرِ عام پر آجائے گا۔ فریدی صاحب کا یہ مضمون ایوانِ اردو میںشائع ہونے والا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی ایک تازہ غزل سنائی جسے میں نے فوراً لکھ لیااور شائع کرانے کے لیے ایوانِ اردو کو دے دیا۔ اس غزل کا مقطع فریدی صاحب کی زندگی کی آخری خواہش کاترجمان ہے جس میں مایوسی کا احساس بھی ہے۔
کوئی دستک، کوئی آہٹ، کوئی جھونکا، کوئی خوشبو
فریدی دل کو بس زندہ اسی ارماں میں رکھتے ہیں
فریدی صاحب کے انتقال کے ایک ہفتہ پہلے میں نے انہیں اپنی کتاب ’’فنِ تضمین نگاری —تنقید وتجزیہ‘‘ کی تین کا پیاں بھیجی تھیں اس کے ساتھ ایک خط بھی لکھا تھا۔ مجھے اپنے خط کا جواب اور اپنی کتاب پر ان کے تاثرات کا انتظار تھا کہ اچانک ان کے انتقال کی خبر ملی۔ یہ منحوس خبرمیرے لیے کتنی جانکاہ تھی اس کا اندازہ صرف خدا کوہوسکتا ہے۔میں بھاگ کرکانپور پہنچا۔لیکن اب کیا تھا سب کچھ ختم ہوچکاتھا۔وہ شجرسایہ دار جس کے سائے میں میں نے اپنی زندگی کے بہترین شب وروز گذارے تھے جڑسے اُکھڑ چکا تھا۔مجھے اس وقت احساس ہواکہ اب میں بے آسمان ہوگیا شفقت ومحبت کا وہ مینار نور یوں بجھ گیا کہ بس۔۔۔۔۔!خدا انہیںجنت الفردوس اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین۔
آسماں تیری لحد پرشبنم افشانی کرے
