انسان کی ذہنی کیفیت کی پراسراریت تمام تر سائنسی ترقیات کے باوجودبوالعجمیوں کی اماجگاہ ہے۔کبھی کبھی ساری مصروفیات اورمعمول کی چہل پہل کے باوجودیوں لگتا ہے جیسے شہرسائیں سائیں کررہا ہواور خارج باطن سے کٹ کر یتیم ہوچکا ہوں۔ہم ایسے ہی لمحے سے دوچار تھے کہ پڑھنے کی عادت نے ہمیں ایک ایسی کتاب تک پہنچا دیا جس نے ہم پرہمارے ہی ماضی کے کئی دریچے واکردیے اور ماضی وحال میں بیک وقت سانس لینے لگے۔اس کتاب کا نام ہے ’’مغیث الدین فریدی کا تخلیقی کینوس‘‘اور اس کے منصف ہیں دلّی یونیورسٹی میں اردو کے استاد،جواں سال ناقدشیخ عقیل احمد۔
گہرے سیاہ، ماضی کے رنگ کے ٹائٹل کے درمیان سے فریدی صاحب کا جھانکتا ہوا پروقار چہرہ،ہونٹوں پر وہی مانوس مسکراہٹ جس نے پینتیس برس پہلے دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کی ایک شا م میرا استقبال پہلی بارکیا تھا۔ماضی کے آسمان سے کبھی نہ چھٹ سکنے والے بادل سے لمحے،بارش کی ایک ایک بوند کی طرح حال کے کینوس پر گرگرکرتصویریں ابھار رہے ہیں۔وہ مسکراہٹ جو استادالاستاتذہ مغیث الدین فریدی صاحب کے پاکیزہ ہونٹوں پر مجھے دیکھ کر پہلی باراس وقت ابھری تھی، وہ میرے لیے صرف ایک مسکراہٹ نہ تھی بلکہ شفقت واعانت کا ایک سایا تھی جس نے مجھ جیسے قصبے کے نووارد، مہانگر کے بے رحم سورج کی تپش سے نڈھال،انجانے ماحول کے بیگانہ پن کے خارزار میں مدرسہ کے سادہ ماحول سے واردہوئے نوجوان کووہ حوصلہ بخشا تھاجس حوصلے کے پروں سے میں آگے پرواز کرسکا۔فریدی صاحب کا ہی شعر یاد آرہا ہے
ہر کڑے وقت پر آئینہ دکھایا ہے مجھے
زندگی تونے بڑے پیار سے برتا ہے مجھے
شیخ عقیل احمد دہلی یونیورسٹی کے کالج میں اردو کے استاد ہیں اور دس اہم کتابوں کے مصنف ہیں جن میں’’غزل کا عبوری دور‘‘، فن تضمین نگاریتنقیدوتجزیہ‘‘، ’’مغیث الدین فریدی اورقطعاتِ تاریخ‘‘، ’’ادب،اسطوراورآفاق‘‘،’’ادب کے معمارمغیث الدین فریدی‘‘، ’’مغیث الدین فریدی کاتخلیقی کینوس‘‘وغیرہ شامل ہیں۔
شیخ عقیل احمدمغیث الدین فریدی صاحب مرحوم کے چہیتے شاگردوں میں سے ہیں اور اس اعتبار سے وہ دیگر شاگردوں سے زیادہ سعادت مند ہیں کہ انہوں نے فریدی صاحب کی بہت دن تک اولاد کی طرح خدمت انجام دی، شاید اسی سعادت کا نتیجہ ہے کہ وہ ایسی کتاب سامنے لائے جو فریدی صاحب کی زندگی اورفن پرایک مکمل کتاب ہے۔مصنف نے اس کتاب میں صرف معلومات ہی فراہم نہیں کیںبلکہ جگہ جگہ ان جذبوں،تاثرات اور لمحوں کی دھڑکنوں کو بھی منطر کردیا ہے جس منظر کا وہ خود بھی ایک حصہ ہیں
’’غزل کے موضوع پر جب وہ تقریر کرتے تھے توان کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوجاتی تھی ،چہرہ کھل جاتا تھا۔ایک عجیب وغریب کیفیت طاری ہوجاتی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ ان کے ہونٹوں سے لکچر نہیں پھول جھڑ رہے ہوں۔کلاس میں سنّاٹا چھا جاتا تھا، ایسا لگتا تھا کہ کلاس میں ان کے شاگرد نہیں مجسمے بیٹھے ہوں…‘‘
مغیث الدین فریدی صاحب ان شخصیات میں سے تھے جو اپنے آپ میں تہذیب،تاریخ،ثقافت وشرافت کا ایک مکمل اسکول ہوتے تھے۔انہوں نے کسی ادبی گروہ بندی سے تعلق نہیں رکھالیکن سب ان کی قابلیت کوتسلیم کرتے تھے۔
’’مغیث الدین فریدی کاتخلیقی کینوس‘‘ایک ایسی داستاویزی کتاب ہے جس میں مصنف نے فریدی صاحب کی زندگی اور فن کے سارے پہلوؤں کو نہ صرف یکجا کردیا ہے بلکہ کچھ ایسی خصوصیات جوفریدی صاحب سے خاص طور پر منسوب ہیں انہیں تفصیلی جائزے کے ساتھ پیش کیا ہے۔
فریدی صاحب کی تاریخ گوئی کی بے پناہ صلاحیت سے اردودنیا واقف ہے۔تاریخ گوئی کا فن وہ نایاب فن ہے جس میںفن اورزبان پر قادرالکلامی کے بغیر قابوپاناناممکن ہے۔اس فن میں فریدی صاحب کی قادرالکلامی اورخلاقیت منفرد ہے۔فیض احمد فیض کاانتقال 1984 میں ہوا۔اس موقع پرفریدی صاحب نے سات اشعار پر مشتمل ایک قطعہ منظوم کیا۔تاریخ گوئی کے اس نادر نمونے میں ہرمصرعے میں فیض احمدفیض کی شخصیت اور شاعری کی خصوصیات منظوم کیں۔اس قطع کا عنوان ہے۔’’سادہ طبع فیض احمدفیض‘‘۔عنوان کے اعدادسے سنہ وفات 1984 برآمد ہوتا ہے
اے شاعرِ شعلہ بیاں، جانِ غزل شیریں سخن
دردِ جہاں تیرے لیے تھا طبع شاعر کا وطن
پابندِ زنداں ہو کے بھی آزاد تھی طبع رسا
یادِ خمِ کا کُل سے تھا کُنج قفس رشکِ چمن
تو خونِ دل میں انگلیاں اپنی ڈبو کر لکھ گیا
جبر و ستم کی داستاں افسانۂ دار و رسن
خونِ جگر کے فیض سے رنگین تر ہوتا گیا
پیراہنِ سلمائے جاں دامانِ لیلائے وطن
ساغر اُد اس اور میکدہ ویران ہو کر رہ گیا
تجھ سے تھا لطفِ انجمن اے ساقی صہبائے فن
دستِ اجل سے اور بھی کج ہوگئی تیری کلاہ
تونے غرورِ عشق کو بخشا کچھ ایسا بانکپن
خوشبو ترے اشعار کی دستِ صبامیں بس گئی
تاریخ بن کر رہ گیا’’لطفِ غزل حسنِ سخن‘‘
1984
تاریخ گوئی کے اس باب پرمصنف نے خاص توجہ دی ہے۔اورفریدی صاحب کی تاریخ نگاری کی تفصیل سے پہلے فن تاریخ نگاری پرگراں قدرمعلومات فراہم کی ہیں۔
فن تاریخ نگاری کی طرح فن تضمین نگاری کے فن میں بھی فریدی صاحب کومہارت حاصل تھی۔ میر کا مطلع ہے
میں کون ہوں اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں
اِک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں
فیض کا بند ہے
آشفتہ مزاجی سے میں آشوبِ جہاں ہوں
پر کالۂ آتش ہوںکبھی برقِ تپاں ہوں
یانالہ ہوں یا درد ہوں یا آہ وفغاںہوں
ــ’’میں کون ہوں اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں
اِک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں ‘‘
تضمین نگاری کے باب میں بھی مصنف نے تضمین نگاری سے متعلق بہت عمدہ معلومات یکجا کردی ہیں جس سے اس ضمن میںان کی علمی بصیرت اور ذوق شعر ی کا پتہ چلتا ہے۔فریدی صاحب مرحوم کو شاعری کی مختلف اصناف میں مہارت حاصل تھی مگرغزل میں ان کا مزاج زیادہ کھلتا تھا۔دیکھئے آئینہ کو کس کس طرح باندھا ہے
پڑتی ہے نظر ہاتھ مگر اب نہیں پڑتے
ٹوٹا ہوا آئینہ ہوں رستے میں پڑا ہوں
ہوائے وقت سے دھندلا گیا ہے آئینہ دل کا
مگر اب تک رُخِ آئینہ ساز آنکھوں میں پھرتا ہے
فریدی صاحب کا بہت مشہور شعر ہے
کیا عرض ہنرلفظ پرستوں میں فریدی
آئینے کے ہاتھوں پہ حنا باندھ رہا ہوں
اس طرح کے لاجواب اشعار کی مثالوں سے ان کا مجموعہ’’کفرتمنا‘‘مملو ہے۔شیخ عقیل احمد نے اس کتاب کو آٹھ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہرباب قیمتی دلچسپ اور معلوماتی ہے۔ان ابواب سے جہاں مغیث الدین فریدی صاحب مرحوم کی ہمہ جہت صلاحیتوں کی توشیق ہوتی ہے وہیں ڈاکٹر عقیل احمد کی ادبی صلاحیت، محنت اور شعروسخن میں ان کا انہماک بھی ظاہر ہوتا ہے۔اردو کے منفرد اور صاحب اسلوب نقادحقای القاسمی صاحب کے لفظوں میں’’یہ کتاب مغیث الدین فریدی کے تخلیقی وجود سے ایک زندہ تنقیدی مکالمہ ہے۔مغیث الدین فریدی کے نوائے سرمدی کوایسے ہی نورنقد کی ضرورت تھی…خون جگر سے خراج عقیدت پیش کرنے کی ایک روشن مثال ہے اور ایک ایسے دور میں جب کہ اساطین وصنادید ادب بھی اجتماعی ثقافتی حافظہ سے محو ہوتے جارہے ہیں اپنے استاد کو یاد رکھنا اور ان کے تخلیقی تجربے سے دنیا کو روشناس کرنابہت بڑی بات ہے۔‘‘
اردو والے عام طور پر اور مغیث الدین فریدی صاحب سے متعلق افراد خاص طور پر شیخ عقیل احمد ، ان کی کاوشوں کے لیے شکرگزار رہیں گے۔
فریدی صاحب کے ہی شعر پر گفتگوختم کرتا ہوں
بستی میں بسیرے کا ارادہ تو نہیں تھا
دیوانہ ہوں صحرا کا پتہ بھول گیا ہوں
انجم عثمانی