May 28, 2023

نثری نظم

نثری نظم
’نظم‘ (Poem/Poetry ) شعری اصطلاح ہے۔اس کے لغوی معنی لڑی،پرونا، ترتیب، تشکیل، بندوبست، انتظام، صنعت،موزوں، کلام اور شعر وغیرہ ہیں۔ یعنی بے ترتیب یا بکھرے ہوئے الفاظ کو موزوں اورخاص ترتیب کے ساتھ پیش کرنا نظم ہے۔لیکن نظم کی یہ تعریف مکمل نہیں ہے۔اس کی تعریف ان لفظوں میں کرنا مناسب ہوگا کہ بکھرے ہوئے خیالات کو اس طرح سے ترتیب دیا جائے کہ اس میں موزونیت کے ساتھ تخلیقیت، غنائیت، جذبات، مشاہدے، تفکر، لفظی مصوری اور صنعت کے عمل سے گزر کر ایک خوبصورت الفاظ کا پیکروجودمیں آئے تو یہ (شاعری)کہلاتی ہے۔قاضی قیصر الاسلام نے اپنی کتاب ’’فلسفے کے بنیادی مسائل‘‘)صفحہ : 50-51 )میںلکھاہے
’’شاعری الفاظ کی ترتیب وتنظیم کا ایک ایسا اظہار ہے، جو بحروں کی اشکال میں پابندِ عروض ہوتا ہے۔اور یوں اس اظہار میں آراستہ وپیراستہ افکارومحسوسات کا ایک حسین تاثر قائم ہوجاتا ہے۔شاعری ایک فنکارانہ تخلیق ہے جو خوشگوار اورمسحورکن اثرات چھوڑتی ہے۔شاعری کی نمایاں خصوصیات، وحدت، توازن، ہم آہنگی، خوش آہنگی ہیں ۔نغمگی شاعری کی روحِ رواں ہے اور خود نغمگی خوبصورت بندشوں کی پیدا کردہ ایک تحریک ہے۔ یہ فنکار کے ہاتھوں میں ایک تخلیقی قوت ہے۔جب تک الفاظ نثری شکل میں ہوتے ہیں ، وہ حقیقی احساسات کے لئے کوئی دیرپا اثر نہیں چھوڑ پاتے اور جیسے ہی انہیں غنائی تنظیم وترتیب میں ڈھالا جاتا ہے، وہ ایک نغمہ ومعنی کے محیط دائرے کی صورت میں مرتعش ہوجاتے ہیں،جھنجھنا جاتے ہیں، بولتے ہیں اور کبھی کبھی تو یہ اس طور پر بول اٹھتے ہیں کہ ان کا جمال وجلال بہ تمام وکمال ایک پیکر کی صورت میں چلتا پھرتا اورگنگناتانیزگرجتا نظرآتا ہے۔لفظوں کے کارواں،بانگ درا، صدائے جرس، آواز ِکوس کے ملے جلے تاثرات لئے سوئے منزل اک پیغام ِزندگی گاتے ہوئے رواں ہردم جواں نظر آتے ہیں۔‘‘
نظم شاعری کی بنیا دی صنف ہے جس کے مختلف بندوںکو Stanzas کی صورت میں لکھا جاتا ہے۔نظم کا شجرہ ہیئت اورموضوع میں تقسیم ہوکر مختلف صورتیں پیدا کرتا ہے۔مسدس، مخمس،مثمن، مثنوی، قصیدہ ، مرثیہ ، رباعی، قطعہ، ترکیب بند، ترجیع بند،جدید نظم نظمِ معرا، آزادنظم، سانٹ وغیرہ ’نظم‘ (Poem/Poetry )کی مختلف قسمیں ہیں۔
سرسید ، آ زاد ؔ اور حالیؔ نے زوال آ مادہ اردوشاعری میں موضوع کے اعتبار سے تبدیلی لانے کی کوشش کی تاکہ اُردو شاعری قوم کے لیے کار آمد بن سکے۔ سرسید، ؔ آزادؔ اور حالیؔ نے اُردو شاعری میں جس طرح کے موضوع نظم کرنے کی تلقین کی تھی اس طرح کے موضوعات اس سے پہلے بھی لکھے جا چکے تھے۔ مناظرِ فطرت سے متعلق نظیر ؔ نے بہت پہلے نظمیں لکھی تھیں اس کے علاوہ مثنویوں اور بعض مرثیوں میں مناظرِفطرت کا بیان موجود تھا لیکن سرسید ؔ ،آزاد ؔ اور حالیؔ کی کوششوں سے اُردو شاعری کو ایک مخصوص طرز اختیار کرنے کی تحریک ملی۔ اس دور میں بعض اہل علم نے اسے ’’جدید نظم‘‘ کی تحریک کہا جو صحیح تھا۔ اس تحریک کے شروع ہونے کے بعد اُردو شاعری کے موضوعات بدلنے لگے۔ اس تحریک کے دور رس اثرات پڑے اور اس تحریک کی بنیادی تبدیلی اقبالؔ کی شاعری میں نظر آتی ہے۔
آزادؔ اور حالیؔ نے ’’جدید نظم‘‘ کا جو تصوّر پیش کیا اس سے نہ صرف ان کے معاصر شعرااثر اندازہوئے بلکے ان کے بعد کے شعرا بھی متاثر ہوئے جو بیسویں صدی کے شروع میں منظر ِعام پرآئے۔ ان شعرا نے حالیؔ اور آزاد ؔ کے شعری اصولوںکی پیروی کی اور زیادہ تر انھیں موضوعات پر نظمیں لکھیں جن سے اخلاقی اصلاح ہوسکے یا جو لوگوں میں قومی جَذبہ پیداکر سکے۔ اس کے علاوہ ان شعرا نے ایسی نظمیں بھی لکھیں جن میں مناظرفطرت کی عکاسی کی گئی ہو۔ ان شعرا میں اسمٰعیل ؔمیرٹھی ، شبلیؔ ،شوقؔ قدوائی ، وحیدالدین سلیمؔ، نظمؔ طباطبائی ،سرورؔجہاںآبادی،نادرؔکاکوروی، چکبستؔاور اکبر وغیرہ خاص ہیں۔ ان شعرا کا دور موضوعاتی شاعری کا دور تھا۔ ان شعرا میں سے بعض نے مغربی شاعری کے منظوم ترجمے بھی کیے۔ نظمؔ طباطبائی نے ’’گرے‘‘ کی’’ایلجی‘‘کا منظوم ترجمہ ’’گور غریباں‘‘ کے عنوان سے کیا۔ جس کی آج تک ایک تاریخی اور ادبی حیثیت باقی ہے۔
نظم پر سب سے پہلے با قا عدہ مضمون پروفیسر کلیم الدین احمد نے لکھااور اس کے حدود کی وضاحت کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے نظم کی تعریف میں جن پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور جن شرا ئط کو ضروری قرار دیا وہ نثر کے مقبول اصناف ناول ، افسانہ اور ڈرامے وغیرہ میں بھی مشترک تھے۔لہٰذا بات وہیںکی وہیں رہی۔کلیم الدین احمد کے بعد متعدد ناقدین نے ا س مو ضوع پر مضامین لکھے لیکن نظم کی کو ئی جامع تعریف متعین نہیں کی جا سکی۔لہٰذا بحیثیت صنف جب بھی ’نظم‘ کی بات کی جاتی ہے تو اندھیرے کمرے میں کالی بلّی کی تلاشِ بے سود سے زیادہ کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
ڈ اکٹروزیر آغا نے ’ نظم ‘ پر کتابیں ا ور متعدد مضامین لکھے ہیں جن میں انہوں نے نظم کے مختلف پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کی ہے لیکن غزل اور نظم کے فرق کی وضاحت کے دوران وہ بھی سرسری طورپر یہ کہتے ہو ئے آگے بڑھ گئے ہیں کہ ’’ غزل مشرق کی پیداوار ہے اور نظم مغرب کی‘‘ــ۔ ڈاکٹر وزیر آغا کا یہ کہنا تو بجا ہے کہ غزل مشرق کی پیداوار ہے لیکن نظم مغرب سے اسمگل کیا ہوا مال ہے ۔اس کے متعلق تھوڑا رک کر سوچنا ہو گا کیوںکہ نظم کی جو ابھی تشنہ ہی سہی تعریف ہمارے سامنے ہے اس کی روشنی میں قصیدہ ، مثنوی ، رباعی ، مرثیہ اور مسدس اور مثمن وغیرہ بھی نظم کی حدود میں آجاتے ہیں یا اس سے آگے بڑھ کر اگر ہم اپنے اپنے طور پر نظم کو سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ بات صاف طور سے سمجھ میںآتی ہے کہ اردوکا شعری سرمایہ یاہر وہ منظومہ جو غزل نہیں ہے نظم ہے ۔ لہٰذا اگر آپ ہماری اس بات سے متفق ہیںتو آپ کو ہماری اس بات سے بھی اتفاق ہونا چاہئے کہ نظم مغرب کی صنف نہیں ہے بلکہ مشرق میں اس کی جڑیں کافی گہری ہیں۔البتّہ ۷۵۸۱ کے بعد انگریزی ادب کے زیرِ اثر اور بعد میں انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسوں کی مدد سے جو شاعری اردو ادب میں متعارف ہوئی اس کا تعلق مغرب سے ضرور ہے ا ور اسے جدید نظم کہا جا تا ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا نے غزل کو مشرق اور نظم کو مغرب میں فروغ پانے کے جن سماجی اور معاشی وجوہات کاذکر کیا ہے اس سے اتفاق کرتے ہوے میرا یہ ماننا بھی ہے کہ مشرق میں مشاعرے اور شعری نشستوں کی جو مقبول روایت رہی ہے وہ مغرب میں مفقود ہے۔لہٰذا مغرب کی شاعری کا تعلق انفرادیت سے قریب رہا جب کہ مشرق میںاجتماعیت کا رجحان پورے تمکنت کے ساتھ جلوہ گر رہاہے۔
مغرب اور مشرق کی شاعری کے بیچ یہ خطِ تمیز کھینچ کر میرا مقصد صرف یہ ہے کہ میں اس کے آگے جس شاعری کا ذکر کروںگاوہ شاعری جس ماحول کا نقشہ آپ کے سامنے کھینچتی ہے وہ صرف اور صرف انفرادیت سے ملتا ہے۔ جدید شاعری نے انفرادی فکر کو عام کرنے میں بہت اہم رول ادا کیا ہے اور جدید نظم کی یہی خوبی اسے قدیم نظموں سے الگ کرتی ہے۔اسی لیے نظم کو شخصی تاثرات کا بہتا ہوا سر چشمہ کہا جاتا ہے جس کی بے شمار لہریں تصور کی نگاہوں کے سامنے ایک منظر پیش کرتی ہیں جن کا پس منظر انفرادی تجربہ ہو تا ہے۔
سماجی تغیرات کے سبب ہیئتیں پیدا ہوتی ہیں اور مر بھی جاتی ہیں ۔ مگربعض ہیئتیں اپنا وجود ہمیشہ برقرار رکھتی ہیں مثلاًغزل کی ہیئت ایک طویل سفر طے کرنے کے باوجود بھی مری نہیںبلکہ آج بھی تازہ ہے ۔ تجربے کے بعد تشکیل شدہ نئی ہیئتیںبھی با لکل نئی نہیں ہوتی ہیں بلکہ ان میں پرانی ہیئتوں کی نشانیاں موجود ہو تی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ نئی ہیئتیں مانوس ہوتی ہیں اور شہرت پا جاتی ہیں ۔ شہرت پا جانے کے بعد پھر وہ روایت بن جاتی ہیں جو کامیاب تجربے کی دلیل ہیں۔
ہیئت میں تجربے کی روایت نئی نہیں ہے بلکہ اردو شاعری کے ہر دور میںتجربے ہوئے ہیں۔ 1875 سے پہلے کی کلاسیکی اردو شاعری میں بھی ہیئت کے تجربے کی مثالیں مل جاتی ہیں مثلاًغزل کے اشعار کے ساتھ ساتھ قطعے ، مرثیے ،مسدس اور مستزاد وغیرہ ۔اس کے علاوہ قلی قطب شاہ کے زمانے میں بعض نظمیں جو نظیر اکبرآبادی کی نظموں کی ابتدائی شکل ہیں ، تجربے کی بہترین مثالیں ہیں ۔لیکن ان تجربوں کا دائرہ کافی محدود ہے ۔ان ہیئتوں میں بعض اصناف تو فارسی شاعری میں پہلے سے موجود تھیں ۔ لہٰذا ان تجربوں کی ادبی اہمیت نہیں کے برابر ہے۔
قوم کا مجموعی شعور جب نئے ماحول ، نئے حالات اور مغربی اثرات سے متاثر ہوا تو اردو میں جدید نظم کا آغاز ہوا ۔ جدید نظم کے آغاز کے ساتھ ساتھ اس کی ہیئت اور تکنیک میں تجربے کا دور بھی شروع ہوا۔ اردو میں تجربوں کا آغاز1875 ء کے بعد اُس شاعری میں ہوا جو سماجی ،سیاسی اور تہذیبی تغیرات ،نیزانگریزی ادب کے زیرِ اثر سرسید ، آزاد اور حالی کی اصلاحی کوششوں سے وجود میں آئی تھی جسے جدید نظم نگاری کا نام دیا گیا ۔اس سلسلے کا پہلا تجربہ حالی کے ایک شاگرد برج موہن دتّاتریہ کیفیؔ نے1887 میں کیا جو انگریزی شاعری کی ایک مخصوص ہیئت ’’اسٹنزا‘‘فارم(الف ب الف ب) پر مشتمل تھا۔
دوسری زبانوں کے ادب سے جتنی بھی ہیئیتیں مثلاً نظم، ناول اور افسانہ وغیرہ مغرب سے اردو ادب میں آئی ہیںان کو من وعن نہیں اختیار کیا گیا بلکہ کچھ تبدیلیوں کے بعد اسے اپنایا گیا۔نثری نظم بھی ایسی ہی ایک ہیئت ہے جسے کافی بحث و مباحثہ کے بعد تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اردو شاعری میں اپنا لیا گیااور اسے نثری نظم کا نام دیا گیا۔لیکن اب اس کی صورت اردو میں تقلیدی نہیں ہے بلکہ اصل کی حیثیت رکھتی ہے کیوں کہ یہ اظہار کے فطری تقاضوں کے تحت وجود میں آئی ہے اور آج بھی اس میں تخلیقی قوت بدرجہ اتم موجود ہے ۔
نثری نظم دراصل انگریزی کے پروز پوئم کا ترجمہ ہے جسے کچھ ناقدین ادب ’’ادب لطیف ‘‘ یا ’’ نثرِ لطیف‘‘ کہتے ہیںاور چند ناقدین اسے خالص ایک الگ صنف قرار دیتے ہیں۔لہٰذاجس طرح مقفّیٰ نظم،معریٰ نظم اور آزاد نظمیں،نظم کی قسمیں ہیں اسی طرح ’’نثری نظم‘‘نظم کی ہی ایک قسم ہے۔
نثری نظم دراصل انگریزی کے پروز پوئم کا اردو ترجمہ ہے جسے کچھ ناقدین ’’ادب لطیف ‘‘ یا ’’ نثرِ لطیف‘‘ کہتے ہیں۔ نثری نظم عروضی سانچے مثلاً وزن، بحر،موزونیت اور شعری آہنگ سے آزادہوتی ہے۔نثری نظم میں لفظوں کی ترتیب نثر کی طرح فطری اور سادہ ہوتی ہے اور اکثروبیشتر واقعاتی ہوتی ہے۔اس لیے بیشتر ناقدین کا خیال ہے کہ اس میں شعری آہنگ کے بجائے نثری آہنگ پایا جاتا ہے جسے گفتگوکا بنیادی آہنگ قرار دیا جاسکتاہے۔پھربھی بعض الفاظ نثری ترتیب میں بھی دوسرے لفظوں سے مل کر شعری آہنگ پیدا کردیتے ہیں۔لہٰذا نثری نظم میں بھی شعری آہنگ کا شائبہ موجود ہو سکتا ہے۔بعض نقادوں نے اسے ’’نامیاتی آہنگ‘‘سے تعبیر کیا ہے۔ بہر حال نثری نظم میں صوت ومعنی کابہاؤ پایاجاتا ہے اور اس میں ہر طرح کا لہجہ پیدا کرنے کی صلاحیت بہ درجہ اتم موجود ہوتی ہے۔نثری نظم میں مشاہدے ، مابعدالطبعیات ،سائنسی حقیقتوں اورعجائباتِ دنیا کا علم ضروری ہے۔نثری نظم کا کلیدی عنصر فکرِ محسوس کی توانائی ہے۔اس میں غزل جیسی فکرِ محسوس کا ارتکاز اور ایجاز ہو تا ہے۔نثری نظم قاری کے لیے ایک پوری کیفیت عطا کرتی ہے۔نثری نظم لکھنے والوں کے بہاؤ کو فن اپنی گرفت میں کبھی نہیں لیتاہے۔ چند ناقدین اسے صنف کا درجہ نہیں دیتے ہیں لیکن بیشتر اسے ایک الگ صنف قرار دیتے ہیں۔بہر حال اگر کوئی تجربہ جیتا جاگتا ہو اور اعتبار و استناد رکھتا ہو تو اسے کسی بھی ہیئت میں ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ڈاکٹر سید عبداﷲنے لکھا ہے
’’شعری فارم، نثر کی فارم سے بے شک مختلف ہے مگریہ صحیح نہیں کہ شعری فارم اورنثری فارم میں اتنا بُعدہے کہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آہی نہیں سکتے۔ہم دیکھتے ہیں کہ جس چیز کو ہم نثر سمجھ رہے ہوتے ہیں بسااوقات شعراس کے اندربول رہاہوتاہے۔خیال کے پیچ درپیچ سلسلے،قیدوں سے آزاد رہ کربھی جب اپنے اظہار کے لیے کوئی سانچا تلاش کرتے ہیں تو ان میں یقیناً ہیئت نمودار ہوجاتی ہے۔شعراحساس کا ایک خاص رویہ ہے۔اس کے لیے کسی معین قطعی سانچے کی ضرورت نہیں‘‘ (نئی شاعریایک تنقیدی مطالعہ، مرتبہ افتخار جالب، 1966 ص- 123 )
دراصل نثری نظم پر جو اعتراض ہوتے ہیںاس کا تعلق اکثر و بیشتر شعریت سے ہے۔معاصر نظم نگاروں کے یہاں نثری نظم کے جو نمونے ملتے ہیں وہاں شعریت سے متعلق جو اصول نظر آتے ہیں وہ قدیم تصور شعر سے انحراف کی حیثیت رکھتے ہیں مثلاً جب ہم اخترالایمان کو پڑھتے ہیں تو نظم کی زبان میںزبردست Deviationکا اندازہ ہوتا ہے۔یہاں غزل کا ڈکشن جو جدیدیت سے تعلق رکھنے والے شاعروں کے یہاںحد درجہ دکھائی دیتا تھا۔اختر نے کھردری نثر میںشعریت پیدا کرکے یہ بتایا ہے کہ نظم قائم کرنے کے لیے الگ نوع کی زبان کی سخت ضرورت ہے۔اخترنہ صرف ہیئت بلکہ زبان میں بھی تجربے کی مثال پیش کرتے ہیں۔’’ایک لڑکا‘‘ پروفیسر محمد حسن کی نظر میںنثری نظم کی بھی ایک مثال ہے تو وہیں اختر کی نظم ’’کرم کتابی‘‘ معاصر ادب وشعر کے رجحانات اور فکروفلسفے یعنی ہیئت کے فلسفے کو پیش کرتی ہے۔نظم ملاحظہ ہو
کتاب راہ نما ہے نہ منزلِ مقصود،
یہ صرف نقشِ قدم ہے گزرنے والوں کا،
نئے نقوش جسے محو کرتے رہتے ہیں،
ہمارے ذہنوں سے ہر روز اک شگوفہ نیا،
یہاں پہ کھلتا ہے یہ رسم ہے یونہی تازہ،
اور سائرس ، نہ زیست، آج کوئی زندہ نہیں،
وہ روزنامچہ مردوں کا وہ عمل نامہ،
جسے خدائوں نے لکھا تھا کھو گیا ہے کہیں،
منوسمرتی نہ توریت سب وہ ہنگامہ،
بگولہ بن کے اٹھا تھا جو سو گیا ہے کہیں،
موجودہ دور میں اختر ا لایمان کے بعدجن شاعروں نے نظم میں نت نئے تجربے کیے ہیں ان میں کمارپاشی، عمیق حنفی، ستیہ پال آنند، عنبر بہرائچی کے علاوہ صلاح الدین پرویزکا نام نمایا ںہے۔صلاح الدین پرویز دراصل ایک ما بعد جدید شاعر تھے جن کے یہاں مابعد جدیدیت کے واضح نقوش مثلاً بین المتنیت کے علاوہ تہذیب و ثقافت کی گہری بصیرت نیز جڑوں کی تلاش پر زور ہے۔صلاح الدین پرویز نظم میں ایک ساتھ کئی تجربے کرتے تھے اور یہ صرف بین المتنیت کے اقدار سے قریب ہونے کی وجہ سے ہے۔وہ نثری نظموں میں ما قبل متون یعنی با وزن اشعار کو اس طرح سے جوڑ دیتے ہیں کہ نظم جاگ اٹھتی ہے اس پر طرہ یہ کہ ان کی زبان لوک بھاشایعنی جڑوں کی خمیر سے تیار ہوتی ہے۔پوربیا،بھوجپوری،پنجابی،اور اردو کا خالص انداز ان کی نظم کی زبان کو پوری اردو شاعری سے الگ کر دیتا ہے۔صلاح الدین پرویزنے نثری نظم کو واقعتاایک ایسی شاعری بنا دی ہے جسے نثری نظم کا جواز کہا جا سکتا ہے۔صلاح الدین پرویز کی شاعری میں آزاد اور نثری نظم ایک دوسرے کے ساتھ ضم ہوتی ہوئی نظرآتی ہے اور وزن اور بحر کا فرق ختم ہوتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ مثالیں بہت ہیں میں صرف ان کی نظموں میں پائے جانے والے موسم کے احساس کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔صلاح الدین پرویز نے کئی نثری وشعری قدیم اصناف کا احیاء کیا ہے اور اسکی ہیئت میں انوکھے تجربے کیے ہیں۔ان کے مشہور مجموعہ کلام’’آتما کے پتر پرماتما کے نام‘‘ سے ماخوذ یہ بند ملاحظہ کریں
جیسے ساون کی رم جھم کے پیچھے
بھادو کے سانپوں کا ڈیرہ ہوتا ہے،
جیسے کنوار کے سنًاٹے کے پیچھے،
کارتک کے چندا کا لہرا ہوتاہے،
جیسے اگہن کی سردی کے پیچھے،
پوس کا ڈسنے والا کہرہ ہوتاہے،
جیسے ماگھ کی مدماہٹ کے پیچھے،
پھاگن کی ہولی کا پھیرا ہوتا ہے،
جیسے ہر دو آنکھوں کے پیچھے،
اک سپنا ہوتا ہے،
ویسے ہی ہر موسم میں وہ تیرے موسم ہوں یا میرے موسم،
اے نظم اے میری ازلی محبوبہ میں ہوتا ہوں۔
نثری نظم کا آغازبہت پہلے ہوچکاتھا۔ابتدائی دور میں اسے نثر رنگین بھی کہا جاتا تھا کیوں کہ جذبات کے بہاؤ اور شدّتِ احساس کے تحت اس میں رنگین خیالات، حسین استعارے اور مبالغے کثرت سے استعمال کئے جاتے تھے۔نثری نظم کے نمونے کئی زبانوں کی قدیم نظموں میں ملتے ہیں ۔نثری نظم کی ابتدا سب سے پہلے فرانس میں ہوئی۔اس نظم کے ابتدائی نشونمامیں بودلیر، رمبو، ملارمے ،لوتریاموں وغیرہ شاعروں نے اہم کردار ادا کیا۔دراصل فرانس کے متذکرہ شعرا شاعری کے روایتی اصولوں مثلاً وزن، بحر اور قافیہ کی پابندیوں سے شاعری کو آزادکرنا چاہتے تھے۔اس لیے نثری نظم کا تجربہ کیا اور اسے کامیاب بنانے کی کوشش کی۔انگریزی زبان میں نثری نظم کا فروغ نسبتاً کم ہوالیکن اس کے نمونے والٹ وٹمین، ترگنیف ریکے ، سولزنٹس اور بورخس وغیرہ کے یہاں مل جاتے ہیں۔ویسے والٹ وٹمین انگریزی زبان کاایک ایسا شاعر تھا جس کی شاعر ی کے متعلق کہا جاتا رہا ہے کہ اس کی شاعری مروجّہ اوزان کے سانچوں پر کھری نہیں اترتی۔انگریزی میں نثری نظم کے شاعر کی حیثیت سے جیمزجوائس، پاسٹرناک اور ہرمن ہس مشہور ہیں۔
ہندوستان میں ربندر ناتھ ٹیگور کی مشہور تخلیق گیتانجلی بھی نثری نظم تسلیم کی جاتی ہے لیکن بعض نقادوں کا خیال ہے کہ گیتانجلی کا اردو ترجمہ ’’عرضِ نغمہ‘‘ کے شائع ہونے سے پہلے میر ناصر علی کی تحریریں ’’خیالاتِ پریشاں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوچکی تھیں۔مختصر یہ کہ بیسویں صدی کے آغاز سے مختلف ناموں سے نثری نظمیں شائع ہونے لگی تھیں۔ناقدین کا خیال ہے کہ نیرنگِ خیال کے مدیر حکیم یوسف حسین نے 1929 میں ’’پنکھڑیاں‘‘ کے عنوان سے جو شعری مجموعہ مرتب کیا تھااس کی نظمیں ہیئت اور مزاج کے عتبار سے نثری نظم کے ذیل میں آتی ہیں۔اسی طرح بعض ناقدین کا خیال ہے کہ 1920 میں جوش کا جو پہلا مجموعہ ’’روح ادب‘‘ شائع ہوا تھا اس میں بھی نثری نظم کے نمونے موجود ہیں۔
1947 کے بعدبمبئی سے شائع ہونے والارسالہ ’خیال‘میں چند نظمیں ’’نثری نظمیں‘‘کے عنوان سے شائع ہوتی تھیں جن کے مصنف بسنت سہاہے تھے لیکن زیادہ ترناقدین کا خیال ہے کہ یہ نظمیں ’خیال‘ کے مدیر میراجی لکھتے تھے۔ان نظموں میں میرا جی نے وزن وبحر کی پابندی نہیں کی تھی لیکن ان نظموں میں جذبات واحساسات بہتراورموثر طور پر پیش کیے گئے تھے۔ان میں نثری نظم کے واضح رجحانات ملتے ہیں۔اس کے بعد کئی شعرا نے میراجی کے تجربے کواپنایا ۔ نثری نظم کے ارتقا کے متعلق ناقدین کے ان تمام خیالات سے اتفاق کرنے کے باوجود 1964 میں شائع ہونے والاسجاد ظہیر کا مجموعہ کلام ’’پگھلا نیلم‘‘کو نثری نظم کا پہلا مجموعہ تسلیم کیا جاتا ہے۔اس مجموعہ کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ نثری نظم صرف ایک شعری تجربہ نہیں بلکہ شاعر کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی وہ آواز ہے جو اب وقت کی پکار بن چکی ہے۔ اسی زمانے میں اعجاز احمد کی نثری نظمیں سویرا اورسوغات میں شائع ہوتی تھیں جنہیں قاری پسند کرتے تھے۔لیکن تازہ اور توانا نثری نظم کی باقاعدہ ترویج کی کامیاب کوشش 1974 کے بعد شروع ہوئی۔ترویج کی اس کوشش میںہندوستان اور پاکستان کے باکمال شاعروں نے اہم کردار نبھایا۔ان شاعروں میںپاکستانی شعرا نسبتاً زیادہ تھے ۔ان میں ایسے بھی شعرا تھے جو پابند شاعری کرتے تھے پھر بھی نثری نظم کی ہیئت میں اپنے خیالات وجذبات کا اظہار کیا۔ پاکستانی شعرا میں جو قابل ذکر ہیں ان میں مبارک علی، عبدالرشید، انیس ناگی، زاہد ڈارسلیم الرحمٰن، افضال احمد سید، ثروت حسین ، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض ، منیر نیازی،ساقی فاروقی،صلاح الدین محمود، قمرجمیل،رئیس فروغ، سارا شگفتہ،یوسف کامران،فاطمہ حسن، جاوید شاہین، اسد محمد خان، عذرا عبّاس، سعادت سعید، نسرین انجم بھٹی، سیما خان، شائستہ حبیب، ذی شان ساحل،عشرت آفرین وغیرہ۔ ن .م. راشد نے بھی نثری نظم کی اہمیت کو قبول کرتے ہوئے اسے اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا۔رفتہ رفتہ نثری نظم دس، پندرہ سالوںمیں ہندوستان کے ادبی منظرنامے پر چھانے لگی اور ۔ن م راشد کے بعدہندوستان کے شعرا خورشید الاسلام، باقر مہدی، بلراج کومل،قاضی سلیم، شہر یار،کمار پاشی، ندا فاضلی، عادل منصوری،مخمور سعیدی، زبیر رضوی، صلاح الدین پرویز، حمید الماس، عین رشید،صادق، ظفراحمد،صفیہ اریب، مشتاق علی شاہد،مصحف اقبال توصیفی،شین کاف نظام،اعجاز احمد، احمد ہمیش،شمیم انور وغیرہ نے نثری نظم کوفروغ دینے میں کلیدی رول ادا کیا۔
1990 کی دہائی میں پاکستانی شعرامیں نصیراحمد ناصر، علی محمد فرشی، مصطفی ارباب، آفتاب اقبال شمیم، اظہار الحق،ناہید قمر، عشرت آفریں، انجم سلیمی، ابرار احمد، سعیدالدین وغیرہ شعرا نے نئی لفظیات،منفرد آہنگ سے نثری نظم کو آراستہ کیا اور اپنی ایک الگ پہچان بنائی۔ہندوستان میں پاکستان کے مقابلہ میں شعرا نے نثری نظم کی مخالفت زیادہ کی پھربھی ہندوستان میں نثری نظم لکھنے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔موجودہ دور میں خلیل مامون، عذراپروین،جینت پرمار، پرتپال سنگھ بیتاب، شہنازنبی، شبنم عشائی،اکرام خاور،حبیب حق،فوزیہ فاروقی، نعمان شوق،جمال اویسی، چندربھان خیال،خالد عبادی،ریاض لطیف، بلقیس ظفیرالحسن، فیاض رفعت،مظرمہدی کے علاوہ اور بھی کئی شعرانثری نظم کی روایت کو آگے بڑھارہے ہیں۔
آج کی نظم نثر کے قریب ہے تو کوئی حیران کن بات نہیں کیوں کہ سر سید کے بعد سے ہی نظم پر نثر کے اثرات نمایاں ہونے لگے تھے۔دراصل نثر کی قسمیں ہی اب نثری نظم بن گئی ہیں۔میرا اشارہ ’نثر مرجز‘ اور’ نثر مقفٰی‘ یا دیگر اقسام ِنثر کی طرف ہے جس میں رنگین نثر بھی شامل ہے۔آج میڈیاتماشہ کی وجہ سے ہر چیز دیکھنے والا کلچر سے وابستہ ہے ۔اس لیے بصارتی احساسات نظموں کا طرئہ امتیاز بن چکے ہیںجو کئی معاصرشاعروں کے یہاںمحسوس کیے جا سکتے ہیںیعنی نظموں میں مونتاژ کی تکنیک اور مصوری نیز فلم کی کئی تکنیکوں کا استعمال ہم کئی شاعروں کے یہاں دیکھ سکتے ہیں۔اس رو سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کی نظم ہیئتی سطح پر نت نئے تجربوں سے دو چار ہے ۔ مختصر یہ کہ نثری نظم شعری اظہار کی جدید ہیئت ہے جو ہماری تہذیبی اورشعری روایت کے سانچے میں ڈھلتی جارہی ہے۔اس لیے نثری نظم کی ہیئت میں اظہار کے روشن امکانات ہیں اور اس نظم سے اردو ادب کو اتنی ہی توقعات ہیں جتناکہ نظم کی دوسری ہیئتوں سے ہے۔

Prof. Shaikh Aquil Ahmad

author_name

author_bio

I am a heading

If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.

  • This is a list item.
  • This is a list item.
  • This is a list item.

No spam, ever.