سیاست، ثقافت، معاشرت اور معیشت کی سطح پر ترجیحات تبدیل ہوچکی ہیں۔ گلوبلائزیشن کی وجہ سے ماضی کے بہت سے افکار و اقدار پامال اور فرسودہ ہوچکے ہیں۔ نئے عہد میں عصری مطالبات اورتقاضوں کے اعتبار سے ترجیحات کا تعین ہورہا ہے جس کا اثر سیاست اور معاشرت کے ساتھ ساتھ ادب و ثقافت پر بھی پڑ رہا ہے۔ ماضی کے بہت سے تصورات کی معنویتیں تبدیل ہوچکی ہیں۔ شاعری کی لفظیات/موضوعات، رموز و علائم میں بھی تبدیلیاں ہر کوئی محسوس کرسکتا ہے۔ جیسے جیسے زمانے کی قدریں تبدیل ہوتی رہتی ہیں ادب میں بھی فکری اور فنی سطح پر تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ چونکہ ادب کا براہِ راست تعلق زندگی سے ہے، اس لیے زندگی کے بدلتے طور و طرز کا اثر ادب بھی قبول کرتا ہے۔
ادب بنیادی طور پر زندگی ہی کا ترجمان ہے، عام انسانی زندگی کے مسائل ہی اس کا موضوع بنتے ہیں۔ انسانی زندگی جس نوع کی تبدیلیوں سے گزرتی ہے وہی ادب کا غالب حصہ بن جاتی ہے اسی لیے ادب میں عصریت پر خاص زور دیا جاتاہے، چاہے شاعری ہو یا فکشن یا کوئی اور صنف، ہر ایک کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ اگر ادب زمانے کے مطالبات سے ہم آہنگ نہیں ہے تو اس کی فرسودگی اور پامالی پر مہر لگ جاتی ہے۔ ادب کا مقصد محض تفریح طبع نہیں بلکہ اس کا ایک افادی پہلو بھی ہے۔ یہ فکری اور ذہنی تبدیلی کا سب سے موثر ترین ذریعہ ہے۔ اگر ادب کے ذریعے یہ عمل انجام نہیں دیا جاتا تو اس کی افادیت اور معتبریت مشکوک ہوجاتی ہے۔
آج کے زمانے میں جو ادب لکھا جارہا ہے اس کے حوالے سے یہ سوال بہت اہم ہے کہ وہ عصری موضوعات و مسائل سے کس حد تک ہم آہنگ ہے اور اس کا افادی پہلو کیا ہے؟ بے معنی فلسفوں اور نظریات و تصورات کی تبلیغ و ترسیل ادب کا مقصد نہیں ہے، ادب کے مقاصد کا دائرہ وسیع تر ہے۔ اگر یہ صرف چند مخصوص حلقوں یا ذہنوں تک محدود ہے توپھر ایسے ادب سے کیا فائدہ؟ دراصل ادب کا بنیادی مقصد عوامی ذہن کی تبدیلی اور اس کے اندر سماجی، ثقافتی، سیاسی شعور کی بیداری ہے۔ فکری تبدیلی کے بغیر ادب کی مقصدیت منہدم یا معدوم ہوجاتی ہے۔ ایسے میں یہ خیال بہت اہم ہے کہ ہمارے یہاں جو ادب لکھا جارہا ہے اس کا دائرۂ اثر کیا ہے، اس کی رسائی کہاں کہاں تک ہے، کیا یہ ادب خاص ذہنیت، سماج یا طبقے کی نمائندگی کررہا ہے یا اس میں معاشرے کے تمام طبقات اور ان کے مسائل شامل ہیں۔ یہیں یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ معاشرے کی ذہنی اور فکری تبدیلی کے لیے جو کتابیں ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوتی ہیں کیا اس طبقے تک پہنچ پاتی ہیں جسے ان کتابوں کی شدید ضرورت ہے یا وہ طبقہ ایسی کتابوں سے محروم رہ جاتا ہے۔ ہمارے یہاں مسئلہ کتابو ںکی اشاعت کا نہیں بلکہ قارئین کا ہے اور عام حلقے تک ان کتابوں کی رسائی کا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کتابیں عوام تک نہیں پہنچ ہی نہیں پاتیں جس کی وجہ سے کتابوں کا افادی دائرہ تنگ سے تنگ تر ہوتا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں کوئی مربوط اور منظم نظام بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے کتابوں کی نارسائی ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ کتابوں کی عام لوگوں تک رسائی کو ممکن بنایا جائے اور اس کے لیے اردو اشاعتی ادارو ںکے ساتھ ساتھ تنظیموں اور اداروں کو بھی کوشش کرنی چاہیے۔ دنیا بھر میں کتاب میلوں کے انعقاد کو اسی نوع کی کوشش کے طور پر دیکھا جاتا ہے، پھر بھی متواتر اور مسلسل کتاب میلوں کے انعقاد کے باوجود کتابو ںکی رسائی ہر خاص و عام تک ممکن نہیںہوپاتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ کتاب کلچر کا احیا کیا جائے اور لوگوں میں کتابوں کے تئیں شوق اور بیداری پیدا کی جائے، ملک کے مختلف علاقوں میں لائبریریاں قائم کی جائیں، انھیں ہر ممکن تعاون دیا جائے۔ بہت سے چھوٹے علاقوں میں لائبریریاں قائم ہیں مگر ان کے پاس وسائل کی کمی ہے، جس کی وجہ سے وہ بہت سی اہم اور قیمتی کتابوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ایسے چھوٹے علاقوں پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہماری نئی نسل کا بھی کتابوں سے رشتہ جوڑنا ضروری ہے کیونکہ انٹرنیٹ کے تفریحی پروگرام نے شاید انھیں کتابوں سے بیزار کردیا ہے جس کی وجہ سے مقصدی اور افادی ادب کا بہت خسارہ ہورہا ہے، اس لیے ہماری نئی نسل کے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ لازمی ہے کہ وسیع تر پیمانے پر کتاب کلچر کے احیا کی کوشش کی جائے کیونکہ اگر کتابیں نہیں رہیں تو ہمارا پورا سماج ایک شہر خموشاں یا قبرستان میں تبدیل ہوجائے گا۔
I am a heading
If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.
- This is a list item.
- This is a list item.
- This is a list item.
No spam, ever.