خواتین و حضرات!مجھے بے حد خوشی ہے کہ آج میں ایک ایسے کالج کے کیمپس میں ہوں جس کی بہت زریں تاریخ رہی ہے اور جہاں کی عمارت طرز تعمیر کے اعتبار سے بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے اور سب سے زیادہ مسرت کی بات یہ ہے کہ یہ کالج اس عثمانیہ یونیورسٹی سے ملحق ہے جسے ریاست حیدرآباد کی پہلی یونیورسٹی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اس ادارے کا سنگ بنیاد نواب میر عثمان علی خاں آصف جاہ ہفتم نے رکھا تھا۔ جامعہ عثمانیہ نے علمی اور ادبی میدان میں جو خدمات انجام دی ہیں وہ قابل رشک ہے۔ یہی وہ ادارہ تھا جہاں اردو میڈیم میں میڈیکل کی تعلیم دی جاتی تھی اور یقینا اس زمانے میں بہت بڑی بات تھی۔ اسی عثمانیہ کا ایک شعبہ دارالترجمہ بھی تھا جس نے سائنسی اور دیگر علوم و فنون کی اہم کتابوں کے ترجمے کے ذریعے اردو زبان و ادب کی ثروت میں گراں قدر اضافہ کیا۔ اس وقت جامعہ عثمانیہ کے امتیازات پر گفتگو کرنے کا وقت نہیں ہے لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ اس ادارے نے ذہنوں کا جو نقشہ بدلا ہے وہ یقینا قابل تعریف ہے۔ اسی یونیورسٹی کی ایک شاخ یہ یونیورسٹی کالج فار وومن بھی ہے جس کی بنیاد 1924 میں پڑی تھی اور اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ عورتوں کی تعلیم اور امپاورمنٹ اس کالج کا وژن اور مشن ہے۔ عورتوں کو امپاور کرنے کے لیے اس کالج نے جو کارنامے انجام دیے ہیں وہ یقینا قابل تعریف ہیں۔ اس کالج نے ایسے کورسز متعارف کرائے ہیں جو آج کے وقت اور سوسائٹی کی ضرورت ہے۔ اس کالج کی اپنی ایک شناخت ہے اور اسے یو جی سی کی طرف سے ـCPE (College with potential for excellence) اِسٹیٹَس بھی ملا ہوا ہے۔ یہاں ساری جدید سہولیات ہیں اور یہ ادارہ کامیابی اور کامرانی کی نئی بلندیاں طے کررہا ہے اور میں دعا گو ہوں کہ یہ ادارہ اور مزید ترقی کرے اور تعلیم نسواں کے باب میں یہ ایسے کارنامے انجام دے کہ دنیا اس پر رشک کرے۔
حضرات! ہندوستان میں تعلیم نسواں ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ ماضی میں عورتوں کی تعلیم کے تعلق سے بہت سے تحفظات رہے ہیں۔ عورتوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے راستے مسدود تھے۔ خدا بھلا کرے ہمارے اسلاف کا جنھوں نے ان رکاوٹوں کو دور کیا اور زنانہ مکاتب و ادارے قائم کیے۔ خاص طور پر یہاں پاپا میاں شیخ عبداللہ کا ذکر کرنا چاہوں گا جنھوں نے علی گڑھ میں عورتوں کا ایک کالج قائم کیا اور آج وہ کالج ایک مثالی تعلیمی ادارے کی حیثیت سے پورے ہندوستان میں مشہور ہے اور اس کے بعد عورتوں کے لیے دوسرے کالجز قائم کیے گئے جہاں لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اب نہ صرف عورتوں کی تعلیم کے لیے بہت سے اسکول، کالجز کھل گئے ہیں بلکہ مطالعاتِ نسواں کے مراکز بھی قائم کردیے گئے ہیں اور یقینی طور پر وومن امپاورمنٹ کی طرف یہ ایک اہم قدم ہے کیونکہ تعلیم ہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے عورتیں اپنے حقوق سے آگاہ ہوسکتی ہے۔ ان میں خوداعتمادی پیدا ہوسکتی ہے۔ استحصال اور تشدد کے خلاف آواز بلند کرسکتی ہیں۔ تعلیم ہی کے ذریعے وہ خانگی تشدد، جہیز ،قتل جنین اور دیگر سماجی جرائم کو روک سکتی ہیں۔ وہ اپنے حق اور انصاف کے لیے لڑ سکتی ہیں اور ملک کی سماجی اور معاشی ترقی میں بھی اہم رول ادا کرسکتی ہیں۔ کسی بھی ملک کا Sustainable development عورتوں کے امپاورمنٹ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ عورتیں اسی وقت امپاور ہوں گی جب ان کے اندر تعلیمی شعور ہوگا۔ جب انھیں تعلیم کے یکساں مواقع حاصل ہوں گے۔اسی کے ذریعے وہ معاشی اور سماجی طور پر خودمختار بن سکتی ہیں اور معاشرے میں بھی مثبت تبدیلیاں لاسکتی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کسی بھی ملک کی سماجی و معاشی ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہاں کی عورتوں کے ساتھ معاشرہ کس طرح کا سلوک کرتا ہے اور انھیں کس طرح کی تعلیم دی جاتی ہے۔ عورتوں کے تعلیم یافتہ ہونے سے ہی معاشرے میں شرح خواندگی بھی بڑھے گی۔ عورتوں کا امپاورمنٹ صنفی مساوات سے بھی تعلق رکھتا ہے اور تعلیم کے ذریعے ہی وہ اپنے مساوی حقوق حاصل کرسکتی ہیں۔
عثمانیہ یونیورسٹی کا یہ کالج فار وومن اس لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ یہ ادارہ بھی عورتوں کی تعلیم اور ترقی کے لیے نہ صرف مخصوص ہے بلکہ عصر حاضر کے چیلنجز سے یہ عورتوں کو روشناس بھی کرا رہا ہے۔ انھیں تعلیمی، سماجی، معاشی طو رپر بیدار بھی کررہا ہے اور یقینی طو رپر ہمارے معاشرے میں اس طرح کے اور بھی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جو عورتیں تعلیمی طور پر پسماندہ ہیں انھیں زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا جاسکے۔ مجھے امید ہے کہ عورتوں کی تعلیمی بیداری میں یہ کالج جس طرح کی خدمات انجام دے رہا ہے اس کا دائرہ اور بڑھے گا اور دیگر علاقوں کے افراد بھی اس کالج سے متاثر ہوکر اپنے اپنے مضافات میں زنانہ مکاتب اور مدارس قائم کریں گے کیونکہ عورتوں کو تعلیم یافتہ بنانا ضروری ہے کیونکہ ایک عورت کی تعلیم سے صرف ایک گھر نہیں بلکہ پورا معاشرہ تعلیم یافتہ بنتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ If you educate a girl you educate a whole nation.۔تو اس وقت ہمیں پورے ملک اور معاشرے کو تعلیم یافتہ بنانا ہے اور اس کے لیے عورتوں کا امپاورمنٹ بہت ضروری ہے۔
٭٭٭
I am a heading
If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.
- This is a list item.
- This is a list item.
- This is a list item.
No spam, ever.